غیر یورپی اور غیر مسیحی اقوام پر اس قانون کے اطلاق کے لیے اوپن ہائم کی بیان کردہ شرائط اوپر ذکر ہوچکیں۔ ان شرائط سے معلوم ہوا کہ اس قانون کے اطلاق کے دائرے میں آنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس قانون کی اقدار کی آفاقیت کا دعوی تسلیم کرکے خود کو ان اقدار کے سانچے میں ڈھالنے کا اعلان کیا جائے۔
چنانچہ جب "تہذیب کےلیے عظیم جنگ" کے دوران میں عثمانیوں پر یہ الزام لگایا گیا کہ انھوں نے آرمینیا میں مسیحیوں کا قتلِ عام کیا ہے، تو پہلے اسے "مسیحیت کے خلاف جرائم" (Crimes against Christianity) کا نام دیا گیا لیکن بعد میں اسے تبدیل کرکے اسے "انسانیت کے خلاف جرائم" (Crimes against Humanity) کا نام دیا گیا۔
اسی نام سے جرائم کی ایک فہرست دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے پر جرمن اور جاپانی مخالفین پر مقدمہ چلانے کےلیے تشکیل دی جانے والی نورمبرگ اور ٹوکیو ٹربیونلز کے منشورات میں شامل کی گئی۔
اسی طرح ایک فہرست 1990ء کی دہائی میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے تشکیل دی جانے والی بین الاقوامی ٹربیونلز براے یوگوسلاویا اور روانڈا کے منشورات میں بھی شامل کی گئی
اور اب اسی عنوان کے تحت جرائم کی ایک فہرست بین الاقوامی فوجداری عدالت (International Criminal Court)کے منشور میں نظر آتی ہے۔ یوں بتدریج جو مسیحی تھا وہ انسانی ہوا اور جو یورپی تھا وہ عالمی ہوا!
یہ معاملہ اس سے زیادہ واضح طور پر "حقوقِ انسانی" کے معاہدات میں نظر آتا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران میں جب ہٹلر، مسولینی اور جاپان کا خطرہ سر پر تھا تو اشتراکی سوویت یونین اور سرمایہ دار برطانیہ، فرانس اور امریکا اکٹھے ہوگئے اور پھر جب مخالف قوتوں کی شکست کے آثار نظر آنے لگے تو جنگ کے بعد کے عالمی نظام پر مذاکرات شروع ہوئے۔ ابتدا میں خیال یہ تھا کہ "انسانی حقوق" کی ایک فہرست نئی تنظیم کے منشور میں شامل کرلی جائے گی لیکن جب حقوق پر بات شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ اشتراکی اور سرمایہ دار کیمپوں میں اختلاف اتنا گہرا ہے کہ اسے اتنی آسانی سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ اس پر اتفاق ہوا کہ اقوامِ متحدہ کے منشور میں صرف اتنا ذکر کیا جائے کہ انسانی حقوق کا تحفظ اس تنظیم کا بنیادی ہدف ہے اور اس کے بعد انسانی حقوق پر الگ سے ایک بین الاقوامی میثاق طے کیا جائے ۔ اس کے بعد جب تنظیم وجود میں آئی اور انسانی حقوق کے میثاق کےلیے کوشش شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ اختلافات کی بنا پر میثاق پر اتفاق ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ اس مرحلے پر 1948ء میں صرف ایک اعلان (declaration) پر اکتفا کیا گیا جو "انسانی حقوق کا آفاقی اعلان" (Universal Declaration of Human Rights) کہلاتا ہے۔
اس "آفاقی اعلان" کی تیاری میں مسلمان، یا غیر یورپی، ممالک کا کتنا حصہ تھا، یہ ہر کوئی جانتا ہے لیکن اس کے بعد سے اسے آفاقی اقدار پر مشتمل دستاویز قرار دیا جانے لگا۔
اس کے بعد بھی انسانی حقوق کے بین الاقوامی میثاق کی تشکیل میں اٹھارہ سال لگے اور 1966ء میں بھی ایسا ممکن صرف اس لیے ہوسکا کہ سرمایہ دارانہ ریاستوں کی دلچسپی والے حقوق (شہری و سیاسی حقوق) اور اشتراکی ریاستوں کی دلچسپی کے حقوق (معاشی، معاشرتی اور سماجی حقوق)کو الگ الگ معاہدات میں رکھا گیا۔
یہ دومیثاق
(International Covenant on Civil and Political Rights
اور
International Covenant on Economic, Social and Cultural Rights)
انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کے بنیادی ستون قرار پائے۔ اس کے بعد دو پہلوؤں پر بات آگے بڑھی:
ایک یہ عمومی انسانی حقوق کے بجاے خصوصی طبقات کے حقوق ، یا خصوصی موضوعات، کےلیے معاہدات کا رخ کیا گیا، جیسے
خواتین کے خلاف ہر طرح کے امتیازی سلوک کے خاتمے کا معاہدہ
(Convention on Elimination of All Forms of Discrimination against Women)
یا
بچے کے حقوق کا معاہدہ
(Convention on the Rights of the Child)،
یا
تشدد کے خلاف معاہدہ (Convention against Torture)؛
اور
دوسرا، مختلف خطوں نے اپنے اپنے خطے کی حد تک انسانی حقوق کی تنفیذ کےلیے نظام بنالیے جیسے یورپی یونین نے یورپی معاہدہ براے انسانی حقوق (European Convention on Human Rights) کے تحت یورپی عدالت براے انسانی حقوق (European Court of Human Rights) بنایا۔ اسی طرح امریکی ریاستوں کی تنظیم اور افریقی یونین نے اپنے نظام بنائے۔
اس ضمن میں یہ بات اہم ہے کہ 1991ء میں اشتراکی روس کے بکھر جانے کے بعد جب اشتراکیت اور سرمایہ داری کے درمیان نظریاتی کشمکش ختم ہوگئی تو سابقہ اشتراکیوں نے بھی لبرلزم کا لبادہ اوڑھ کر حقوق ِ انسانی کی وہی تعبیر اپنا لی جو سرمایہ دارانہ نظام کے علم بردار پیش کررہے تھے اور یوں صورت ایسی بن گئی کہ:
من تو شدم، تو من شدی، من تن شدم، تو جاں شدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں: من دیگرم، تو دیگری!
اس ساری بحث میں مسلمان یا غیر یورپی اقوام کہاں ہیں؟
کیسے یورپی/ مسیحی تصورات کو عالمی/آفاقی/انسانی اقدار تسلیم کیا جاسکتا ہے اور ساری دنیا کو زبردستی ان اقدار کے سانچے میں ڈھالا جاسکتا ہے؟
یہ اہم سوالات ہیں اور ان پر بحث ضروری ہے لیکن یہاں ایک اور پہلو کی نشاندہی بھی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر یہ تصویر پوری نہیں ہوسکتی۔
وہ پہلو یہ ہے کہ ان اقدار کی ترویج کےلیے طاقت کے استعمال اور جنگوں کو نہ صرف جائز بلکہ اہم ذمہ داری سمجھا جاتا ہے اور اسے "انسانیت کے نام پر مداخلت" (Humanitarian Intervention) کہا جاتا ہے۔ چنانچہ بدمعاش ریاستوں (rogue states) یا مجرم حکمرانوں (criminal rulers) کے خلاف اور جمہوریت اور انسانی حقوق کی ترویج (to promote democracy and human rights) جنگ کو پہلے اقوامِ متحدہ کی ذمہ داری قرار دیا گیا کیونکہ منشور کی رو سے بین الاقوامی امن کی حفاظت اور اس کی بحالی سلامتی کونسل کی ذمہ داری تھی۔ تاہم جب سوویت یونین اور امریکا کی سرد جنگ کے دوران میں کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کسی مستقل رکن کے ویٹو کی وجہ سے سلامتی کونسل کارروائی سے معذور ہوگئی ، تو امریکا یا دیگر بڑی طاقتوں نے اپنے طور پر، اور اقوامِ متحدہ کی تنظیم سے ماورا، کسی ملک پر حملہ کیا، اس میں تباہی مچائی، ہزاروں انسانوں کا قتلِ عام کیا، اور یہ سب کچھ انسانیت اور جمہوریت کے فروغ اور ترویج کے نام پر جائز قرار دیا گیا!
واضح رہے کہ سلامتی کونسل کے پاس کسی بدمعاش ملک سے اپنی بات منوانے کےلیے جنگ کے علاوہ ایک اور راستہ بھی ہے اور وہ اس ملک پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا ! اس راستے کو "نرم سزا" یا (soft sanction) کہا جاتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ 1990ء کی دہائی میں عراق پر اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں جن کے نتیجے میں صدام حسین یا اس کے خاندان کا تو کچھ نہیں بگڑا لیکن لاکھوں بچے ادویات نہ ملنے کی وجہ سے مرگئے۔
(ویپن آف ماس ڈسٹرکشن جس کی بنیاد پر عراق پر حملہ کیا گیا تھا وہ کبھی نہ مل سکے یعنی یہ عراق پر جنگ مسلط کرنے کا ایک خود ساختہ بہانہ تھا)
یہاں تک کی بحث سے یہ معلوم ہوا کہ انسانی حقوق کی ترویج کے نام پر مغربی تصور زندگی دنیا بھر میں ایک آفاقی حقیقت کے طور پر نافذ کرنے کےلیے دو پہلوؤں سے کام کیا جاتا ہے:
ایک دام بچھانے کا پہلو ہے جب آپ سے کہا جاتا ہے کہ آپ ان معاہدات میں شامل ہوجائیں تو آپ کو یہ مراعات حاصل ہوں گی؛ اور
دوسرا سزا دینے اور نشانِ عبرت بنانے کا پہلو جس سے کبھی آپ پر اقتصادی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں اور کبھی (ضرورت پڑے تو) آپ پر حملہ بھی کرلیا جاتا ہے۔