ویسے مجھے اس بات پر حیرانی ہو رہی ہے کہ ایسا پاکستان میں ہوتا ہے ایک ایسے ملک میں جس کو اسلامی ملک کہا جائے گا۔۔ تو اس سے اچھا ہے ناں کہ ہم یہاں ہی رہے جہاں پر کم از کم اس بات پر کوئی پابندی نہیں کہ ہم کیسے ڈریس اپ ہوتے ہیں۔۔ میرے انٹرویو سے لے کر آج تک کے عرصے میں کم از کم میرے آفس میں، میرے کولیگز میں سے کبھی کسی نے اس کو آکورڈ نظر سے نہیں دیکھا۔۔ کیونکہ یہ میرا پرابلم ہے کہ میں کس طرح ڈریس اپ ہوتی ہوں۔۔ ہاں یہ اور بات کہ میں بھی یہی سوچ رکھتی ہوں اور مجھے ان کے ڈریس کوڈ سے کوئی پرابلم نہیں۔۔ ان کی مرضی جو وہ مرضی پہنیں۔۔
مقدس یہی ساری بات کا نچوڑ ہے
۔ ہمارے یہاں مسئلے کی بہت سی وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں خود سے زیادہ دوسروں کے لباس اور انداز پر نظر بلکہ کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ بنیادی طور پر اپنی سوچ میں عموماً شدت پسند ہونے کی وجہ سے یا تو لوگ فیشن اور سٹائل کے نام پر ضرورت سے زیادہ نامناسب ڈریسنگ کرتے ہیں اور یا پھر ایسی بات پر بھی اَڑ جاتے ہیں جس کے بغیر بھی انسان اپنے عقائد اور روایات کے مطابق ڈریس اپ ہو سکتا ہے۔ نتیجہ کونفلکٹ۔ لڑائی جھگڑا اور ٹینشن۔
میں غیر ضروری بحث سے دور بھاگتی ہوں کہ اس کا سوائے تلخی کے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا لیکن جو چیز میں نے یہاں نوٹ کی ہے وہ یہ ہے کہ ہم ہر بات اور ہر کام کو اپنی عینک سے دیکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی اس کو اسی طرح دیکھیں اور سمجھیں۔ میں نے پاکستانی اور آپ کے معاشرے دونوں جگہ بہت وقت گزارا ہے گھر، سکول، یونی اور کام پر بھی اور میں کبھی بھی یہ نہیں کہوں گی کہ وہاں بہت آزادی ہے اور آپکی ڈریسنگ پر اعتراض نہیں ہوتا یا یہاں بہت پابندی ہے اور آپ کو اپنی روایات کے مطابق ڈریس اپ نہیں ہونے دیا جاتا اور وائس ورسا۔ دونوں معاشروں میں ہر طرح کے واقعات کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے اور کسی ایک تجربے کی بنیاد پر جنرلائزیشن کر لینا کم از کم میرے نزدیک درست نہیں۔