یورپ کے تاریک دور سے تاریک تر، بر صغیر کا دور مولویت

جناب قسیم صاحب، آپ نے جس پہلو پر لکھا ہے وہ پہلو اپنی جگہ درست ہے، دینی تعلیم کے بارے میں۔ گو کہ یہ موضوع نہیں اس دھاگہ کہ لیکن آپ کی بات بھی بہت اہم ہے۔ اس لئے کہ یہ 'گراس روٹ‌ لیول' ہے جہاں سے مذہبی سیاست کی ابتدا ہوتی ہے۔

میں نے درج ذیل خیال پیش کیا:

نیاہدف، نیا خورشید: دین سب کے لئے
ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن 2، 3 پارے کرکے پہلی سے بارہویں تک اختیاری نصاب کا حصہ بنایا جائے، جو کہ معنی کے ساتھ پڑھایا جائے۔ دینی مدرسوں‌کے نصاب کا معائینہ کیا جائے، خطابت ( پبلک سپیکنگ)، امامت (لیڈرشپ) اور اسی طرح دوسرے علوم دینیہ کو اسکولوں میں بھی پڑھایا جائے ‌اور سنت، روایات، اقوال پر مبنی اعلی درجہ کے قانون سازی کی تعلیم یونیورسٹیز کے اعلی شعبوں میں منتقل کردی جائے۔ اس طرح مدرسوں کی ضروری تعلیم ہر شخص کے لئے عام ہو اور جو لوگ ان شعبوں کا انتخاب کریں وہ اسے حاصل کرسکیں۔ اپنے دین کو چند لوگوں پر چھوڑنے کی روش ترک کردی جائے۔ تاکہ ہر شخص اس معاشرہ میں اپنے کردار کا اندازہ کرسکے اور اسلامی و دینی تعلیم چند لوگوں کے لئے صرف ذریعہ معاش ہی نہ رہ جائے۔

تاکہ جدید تعلیم اور قرآن و سنت کی روشنی میں آزادی سے ایک نئے سیاسی نظام کا اغاز ہو سکے۔ تاکہ خوشیاں، تحفظات، فلاح وبہبود ، معاشی ترقی، شہری آزادی ، عدل و انصاف، قانون کا نفاذ، علمی ترقی، ایجادات، بہترین مالیاتی نظام اور سب سے بڑھ کر خوف خدا اور اس کے نتیجے میں امن و سکون ہمارے معاشرے میں قائم ہو۔


والسلام۔
 

زیک

مسافر
میں نے آج اس تھریڈ کو دوبارہ پڑھا ہے اور آج بھی میں آپ کے استدلال کو سمجھنے سے قاصر ہوں۔

پہلی بات تو یہ کہ کیا جس دور کا آپ ذکر کر رہے ہیں یعنی مغلیہ دور کیا وہ واقعی تاریکی کا دور تھا اور یورپ کے تاریک دور سے بھی زیادہ تاریک‌تر؟ اس سے مجھے مکمل اختلاف ہے۔ فرد واحد کی حکومت کی بات کو چھوڑ دیا جائے تو باقی کسی بھی لحاظ سے یہ دور تاریک نہ تھا۔ معیشت کے اعتبار سے سترھویں صدی کے آغاز میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی بنائی گئی اس وقت انڈیا کی اکانومی برطانیہ سے دس گنا بڑی تھی اور دنیا کی دو بڑی economies میں شمار ہوتی تھی۔ یہ معیشت آخر اتنی بڑی اور اتنی مشہور کیوں تھی؟ اس کی مظبوطی کی وجوہات تو ہوں گی۔ اگر آپ اس مضبوط معیشت والے "تاریک دور" کا پقابلہ یورپ کے تاریک دور سے کریں تو یورپ میں معیشت، تعلیم، سیاست ہر چیز خراب ہوتی نظر آتی ہے اس کے تاریک دور میں۔

مولویت کا ذکر بھی کچھ سمجھ نہیں آیا۔ مغل حکمران مذہب کے معاملے میں کافی آزادخیال تھے۔ صرف ایک اورنگزیب اس بارے میں سخت مزاج تھا اور وہ بھی مشہور زیادہ ہے اور حقیقت میں کم۔ الزام اگر سیاسی نظام پر ہے تو مغلیہ دور میں مولویوں اور مذہبی رہنماؤں کی مملکت میں کیا اہمیت تھی؟
 
سوچنا اور تنقید و تائید بہت ہی اعلی عمل ہے۔ کسی بات کو سمجھے بغیر سمجھ لینا درست طرز عمل نہیں۔ آپ کی اس تنقید کی دل سے تعریف کرتا ہوں۔

معیشت کے لحاظ سے آپ کی فراہم کردہ معلوم درست ہیں اور انڈیا کا شمار 1600 میں دو بڑی اکنامیز میں کیا جاتا ہے۔ اس اکانومی کا بیشتر حصہ، خوراک، محدود معدنیات یعنی سونا چاندی اور کپڑے کی پروڈکشن اور باہمی سروسز پر مشتمل تھا۔

چند دوسرے الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہوں‌کہ آپ سب کی تنقید اور تائید ہمیشہ فائیدہ مند ہوتی ہیں:

صرف معشیت کے پہلو سے، کیا کسی قوم کی مستقبل میں ہونے والی ممکنہ ترقی کو ناپا جاسکتا ہے؟ میرا خیال ہے نہیں۔ کسی بھی قوم کا سرمایہ اور ترقی میں مثبت کردار ادا کرنے والا سب سے اہم پہلو ہے 'تعلیم'، اور 'تعلیم' بھی چند لوگوں کے درمیان نہیں بلکہ ترقی کے لئے ایک وسیع تر بنیاد کی ضرورت مسلم ہے۔

اس اہم پہلو یا جہت (ڈائمینشن)‌پر نظریاتی (ائیڈیالوجیکل) اور خصوصاَ مذیبی نظریات کا اثر اس طرح‌ ہوا کہ ایک مکتبہ فکر، کسی دوسرے مکتبہ فکر (مذہبی یا غیر مذہبی) کے مدارس کے قیام کا بہت مخالف تھا۔

اس مکتبہ فکر کا بنیادی مقصد اس وقت کے فرد واحد حکمران کے اس وسیع اکانومی پر 'حق حکومت' کو 'حق ملکیت' میں تبدیل کرنا رہا۔ اور کسی بھی دوسرے ادارے سے سند یافتگی کی مخالفت کی جاتی رہی تاکہ اس قسم کی کسی بھی سند کو حکومت وقت کے خلاف فتوے یعنی قانون سازی کے لئے نہ استعمال کیا جاسکے۔ اس مذہبی مکتبہ فکر نے کسی شورائی نظام کی اور عام تعلیم کی جو کہ اس مکتبہ فکر کے کنٹرول سے باہر ہو، حوصلہ افزائی نہیں کی۔ نتیجہ میں کوئی بھی تعلیمی ادارہ یا انسٹی ٹیوشن وجود میں نہیں آیا۔ اور اس تعلیمی فقدان سے کسی بھی ڈپارٹمنٹ میں ترقی نہیں ہوئی۔ عسکری ڈپارٹمنٹ بھی اس میں شامل ہے۔ نتیجہ، تنزلی، کمزوری اور من حیث القوم غلامی۔

وہ وقت آیا کہ تعلیم کی ضرورت انفرادی شکایتوں سے احتجاج کی شکل اختیار کرگئی اور اس باہمی عوامی احتجاج نے تحریک کی شکل اختیار کی اور یہ تحریک علی گڑھ یونیورسٹی کی شکل میں سامنے آیا۔ اگر مغلیہ حکمران موجود ہوتے اور ان کی سرپرستی مخالفینِ علی گڑھ کو حاصل ہوتی، تو یہ تحریک بھی نہ پنپتی۔ اس دور میں' دونوں طرف' سے ہونے والا احتجاج صدیوں سے موجود 'دونوں طرف' کے نظریات اور خیالات کی نمائندگی کرتا ہے۔

تعلیم کو چند لوگوں تک محدود رکھنے کے لئے کیا تاویلات پیش کی گئی تھیں۔ اور کیا کیا طریقہ کار اختیار کئے گئے، ان میں سے سب سے معروف طریقہ 'تارک حدیث' اور 'تارک رسول' کا رہا۔ میں نے اس پر بہت کچھ پڑھ کر روشنی ڈالی ہے۔ ہر سیاسی مخالف یا حق خود ارادی (کہنے کی حد تک) کا حامی یا شورائی نظام کا حامی، اگر قرآن سے حوالہ لے کر آیا تو درج بالا القابات اور طریق کار اس شخص یا گروپ کو چپ کرانے کے لئے استعمال ہوئے۔

قرآن ان مذہبی سیاست دانوں کے معاملات میں مداخلت نہ کرے، اس وجہ سے قرآن کی آزادانہ تعلیم پر نظریاتی پابندی ایک مخصوص مکتبہ فکر کی طرف سے آج بھی لگائی جاتی ہے۔ اب کسی شخص کی باتیں کسی فورم پر لکھ کر ریکارڈ‌ تو تھی نہیں‌کے 'اس نے کیا کہا' کا ثبوت وہاں سے لیا جائے۔ لہذا مذہبی جذ‌بات کی مدد سے رائے عامہ ہموار کرنے کا طریقہ استعمال کیا گیا اور اس شخص یا اس گروپ کو کردار کشی کے ذریعہ، افراد یا گروپس کو راستے سے ہٹایا گیا۔ اگر سرسید خود اس مکتبہ فکر کے طریقہ کار سے واقف نہ ہوتے تو ان کی کامیابی بہت مشکل تھی۔ اس کے باوجود ان پر عائد شدہ فتاوات کی تعداد کافی بڑی ہے۔ اس قرآن مخالف فکر کو بطور ایمان پھیلانے کا کام جس مکتبہ فکر نے مذہبی سیاسی مقاصد کے لئے کیا، اس مکتبہ فکر کے بارے میں یہ 4 مضامین ہیں۔

اگر آپ کے پاس ان نظریات کو بطور ایمان پھیلانے کا کام کرنے والوں کے بارے میں کچھ خیالات ہیں تو ضرور پیش کیجئے۔

گو کہ زور قرآن پر رہا کہ اس مکتبہ فکر کے مخالفیں نے قرآن سے دلائل کو زیادہ موثر سمجھا۔ اس جہ سے یہ قضیہ، تارک قرآن اور تارک حدیث کی شکل میں زیادہ سامنے آیا۔ درحقیقت کسی بھی دوسرے مدرسہ کے قیام کی مخالف درپردہ مقصود تھی۔ کچھ خیالات جو اس مخصوس مکتبہ فکر میں آج بھی عام ہیں:

1۔ قرآن کو اکیلے نہ پڑھا جائے۔
2۔ قرآن کی تعلیم بنا استاد کے نہ حاصل کی جائے۔ اور یہ استاد صرف ایک خاص‌مکتبہ فکر کا سند یافتہ شخص ہی ہوسکتا ہے۔
4۔ اسلام (عموماَ‌ قرآن نہیں بلکہ کتب روایات ) مراد ہیں کی تعلیم کے علاوہ کسی بھی دوسری قسم کی تعلیم غیر ضروری اور کچھ صورتوں میں حرام ہے۔
5۔ حق حکومت مترادف ہے حق ملکیت (‌قوم کی دولت بادشاہ کے بیٹے کو منتقل ہو) کے۔
6۔ غلامی کے حق میں فتاوی اور قرآن کی اس سلسلے میں آیات کا 'کنفیوژ' کرنے والا ترجمہ
7۔ حق حکومت رکھنے والے کو لا تعداد لونڈی رکھنے کی اجازت اور قرآن کی اس سلسلے میں آیات کا 'کنفیوژ' کرنے والا ترجمہ
8۔ طرح طرح کے فتاوی سے خواتین کے حقوق سے فرار اور خواتین کو تعلیم سے بے بہرہ رکھنے پر زور۔ اس طرح گہوارہ قوم کو تعلیم سے محروم رکھنا۔

اس مکتبہ فکر کی عام تعلیم پر پابندی کا نتیجہ کیا نکلا؟ کوئی تعلیمی ادارہ بر صغیر پاک ہند میں اسلامی حکومت کی یادگار نہیں اور وہ تمام نظام بھی مفقود ہیں، جن کا اس آرٹیکل کے شروع میں تذکرہ کیا گیا۔

حکومت تو ایک شخص کی رہی، لیکن عوام کو اپنے نظریات بطور ایمان کے دینے والے لوگوں نے 'مذہبی سیاست' کا طریقہ کار استعمال کیا۔

غور سے دیکھا جائے تو رسول اللہ صلعم یا ان کے اصحابہ نے یا بعد میں آنے والے اماموں، علماء‌ اور محدثین و مصنفین کتب روایات نے اپنے لئے 'مولوی' کا لقب استعمال نہیں کیا۔ لیکن برصغیر کے قانون ساز اپنے لئے اس لقب کا استعمال کرتے نظر آئے۔ گو کہ اس لقب کے استعمال کرنے والوں میں بہت سے اعلی علماء بھی شامل ہیں۔ لیکن وہ مذہب بطور سیاست کا استعمال نہیں کرتے، وہ اس میں شامل نہیں۔ اس مخصوص‌طبقے کا کا متوازی قانونی نظام اب تک کچھ کچھ چل رہا ہے۔ مثلاَ شادی کا سرٹیفکیٹ‌ یہ جاری کرتے ہیں اور اس سلسلے میں کیا کسی سلسلے میں کسی عدالت کو نہیں مانتے۔

آپ کا سوال تو بہت ہی با معنی ہے، بغور دیکھئے تو آج بھی کوششیں جاری ہیں کی کسی طرح ‌ان درباری سیاستدانوں کی مخالفت کرنے والوں کے بیانات کو کسی طور توہین رسالت، تارک حدیث، تارک رسول کی کوئی شکل دے دی جائے تاکہ عوامی جذبات سے کھیلا جاسکے۔

یہ ہے بنیادی وجوہات ان 4 آرٹیکلز کی۔ آپ کے خیالات کا انتظار رہے گا۔

والسلام۔
 

قسیم حیدر

محفلین
مغل شہنشاہ اکبر نے 1581 ء میں دین الٰہی کا اجرا کیا۔ شہنشاہ کو بالواسطہ طور پر نبی بلکہ خدا کا درجہ دے دیا گیا۔ اس کے تمام مرید آپس میں ملتے وقت اللہ اکبر اور جل جلالہ کہہ کر سلام کیا کرتے تھے۔ ابو الفضل کے مطابق اکبر نے ترک اسلام کا اقرار کیا تھا۔
یہ کہا گیا کہ بعثِ نبوی پر ایک ہزار سال گزر جانے کے بعد اسلامی شریعت کی عمر پوری ہو چکی ہے۔ لہٰذا ایک نئے دین اور نئے شارع کی ضرورت ہے اور اس منصب کے لیے اکبر ہی سزاوار ہے۔ اس کی تصدیق میں دین الٰہی اکبر شاہی کا اعلان کر دیا گیا۔
جو لوگ اس دین میں داخل ہوتے انہیں بیعت کرتے وقت دین اسلام سے علیحدگی اور اخلاص جہاد گانہ (ترک مال، ترک جان، ترک ناموس، ترک دین) کا اقرار کرنا پڑتا۔ بادشاہ قرآن، وحی، حیات بعد الموت اور یوم جزا کا منکر ہو گیا۔ سجدہ تعظیمی پر زور دیا گیا۔ شراب حلال کی گئی۔ سور کا گوشت خوراک کا جز بن گیا۔ جزیہ موقوف کر دیا گیا۔ جوئے کی حلت کا اعلان ہوا۔ صوم و صلوۃ اور حج منسوخ کر دیے گئے۔ دیوان حکومت میں اذان اور نماز باجماعت موقوف ہو گئی۔ عربی کے مطالعے کو بنظر تحقیر دیکھا جانے لگا۔ فقہ، تفسیر اور حدیث کی بجائے نجوم اور طب اور حساب و فلسفہ کی تعلیم رائج کی گئی۔ تقویمِ ہجری کا استعمال ترک کر دیا گیا۔ ہندوؤں کو اجازت مل گئی کہ وہ رمضان شریف میں علی الاعلان کھائیں، پئیں۔ مسلمانوں کو تاکید کی گئی کہ جب ہندو برت رکھیں تو مسلمان علانیہ کھانے پینے سے باز رہیں۔ بادشاہ نے ایسی رسمیں اختیار کیں جو سراسر ہندوانہ تھیں مثلًا ذبیحہ گاؤ کی ممانعت، جھروکہ درشن، داڑھی منڈوانا، قشقہ لگانا، اور ہندو رانیوں کے ساتھ مل کر ان کی مذہبی رسموں میں حصہ لینا۔
برصغیر میں اکبر کا دور اسلام پر سب سے سخت دور گنا جاتا ہے۔ اس دور میں مولویوں کو پوچھا ہی کہاں جاتا تھا۔ دربار اکبری میں کتنے علماء تھے؟
 

خاور بلال

محفلین
یہ استدلال کہ برصغیر میں مولویوں نے بادشاہت کو سراہا مناسب نہیں۔ مثلاً اکبرکے دینِ الٰہی نے جب جہانگیر کے زمانے میں اسلامی اصولوں کو پامال کرنا شروع کیا تو حضرت مجدد الف ثانی رح نے اس صورتِ حال کر چیلنج کیا اور ٹھہرے ہوئے پانی میں ہلچل مچادی۔ وہ کشمکش جو دل و دماغ میں تھی برسرِ زمین آگئی اور کشمکش کے دومراکز بن گئے۔ ایک طرف خانقاہ تھی اور دوسری طرف دربار۔ حالات اتنے خراب ہوگئے کہ حضرت مجدد الف ثانی رح کو گرفتار کر لیا گیا۔

سید احمد شہید رح کی تحریکِ جہاد اور حضرت شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسمٰعیل شہید رح کی انگریز سرکار کے خلاف جدو جہد اس بات کا ثبوت ہے کہ غیرت مند علماء نے ہمیشہ سرکار و دربار کو جوتے کی نوک پر رکھا۔ البتہ اسکے برخلاف سر سید احمد خان کے بہت سے مسائل تھے مگر سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ انگریز آگئے ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے آگئے ہیں۔ فرض کیجیے کہ سر سید کے ذہن میں کبھی یہ خیال آجاتا کہ برطانوی سلطنت کو صرف نوے سال بعد زوال آجائے گا تو ان کی فکری نوعیت کیا ہوتی؟ ان کا انگریزوں اور ان کی تہذیب کے بارے میں کیا نقطہ نظر ہوتا؟ وہ انگریزوں کے خلاف جہاد کرنے والوں کو کیا کہتے؟ اقبال سر سید کے کے بعد آئے۔ ان کی تہذیبی شخصیت تو خیر بڑی تھی مگر ان کے پاس مغربی تہذیب کا سر سید سے ہزار گنا بہتر مطالعہ بھی تھا۔ چنانچہ سر سید برطانیہ گئے تو محسوس ہوا گویا وہ جنت میں آگئے لیکن اقبال یورپ گئے تو:
خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
کہتے ہوئے واپس آئے
 

ابوشامل

محفلین
بات اگر مولویت کے زیر سرپرستی "تاریکی کے دور" کی ہو رہی ہے تو میرے خیال میں اسے بر صغیر تک محدود نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان تمام ادوار اور مقامات کی بھی نشاندہی کرنی چاہیے جہاں "مولویت" نے "تاریک خیالی" قائم کی، کیا خیال ہے، خلافت بنو امیہ سے خلافت عثمانیہ تک کے ادوار کا بھی جائزہ نہ لے لیا جائے؟ صرف مغلیہ سلطنت پر ہی صرف ایک تنقید کیوں کی جائے کہ ان کے دور میں کتنی جامعات اور تعلیمی ادارے قائم ہوئے۔ ایک بات واضح طور پر اپنے ذہن میں رکھیے کہ جب مغلیہ سلطنت قائم ہوئی اس وقت مسلمان ہر لحاظ سے زوال کی جانب جا رہے تھے اور مغلیہ، صفوی اور عثمانی سلطنت نے سیاسی میدان میں مسلمانوں کے زوال کو کچھ عرصے کے لیے روکا حالانکہ یورپ کے مقابلے میں علمی میدان میں مسلمان پیچھے چلے جا رہے تھے، لیکن جب مغلیہ سلطنت کو زوال آیا تو اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کی سیاسی برتری کا بھی خاتمہ ہونا شروع ہو گیا، اس لیے ایک زوال کے دور سے آپ کیا توقع رکھ سکتے ہیں، اور ہندوستان اس دور میں سونے کی چڑیا کیوں کہلاتا تھا، انگریز اور دیگر یورپی قابض اقوام کس چیز کی تلاش میں نئے نئے راستے تلاش کر کے یہاں اور دیگر ممالک تک پہنچیں؟ کیا ان کو بھی موضوع بحث نہ بنایا جائے؟
 

دوست

محفلین
حقیقت یہ ہے کہ مغلیہ دور میں اگر کچھ قابل ذکر ہے تو وہ بادشاہتیں، مزید بادشاہتیں اور ان بادشاہتوں کے لیے لڑائیاں ہی ہیں۔
 

ابوشامل

محفلین
برادر عزیز! شاکر ! آپ کی بات سے مکمل طور پر اتفاق تو نہیں کروں گا ہاں البتہ یہ مغلیہ سلطنت کی تاریخ کا ایک حصہ ضرور ہے لیکن اس پہلو کو ہی ہندوستان میں مغلوں کی مکمل تاریخ قرار دینا درست نہیں۔ اگر ایسا ہی تھا اور خانہ جنگیاں ہی ہوتی رہیں تو ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی معیشت کیسے بن گیا؟ میرا مقصد مغلیہ سلطنت کی تمام برائیوں کی پردہ پوشی اور اس کی حمایت کرنا نہیں بلکہ حقیقت کی تلاش ہے، کہ اگر صرف ایسا ہی تھا تو مغل کیسے دنیا کی بڑی طاقتوں میں سے ایک کہلائے۔
 

زیک

مسافر
فاروق معیشت واحد اہم چیز نہیں مگر اس کا انحصار اتنی چیزوں پر ہوتا ہے کہ معاشی ترقی سے ہم کافی کچھ اندازہ لگا لیتے ہیں۔ اس سے مثتسنٰی صرف وہ صورتحال ہے جیسے موجودہ مشرقِ وسطٰی کی کہ extractive natural resources ہی معیشت کا بڑا حصہ ہوں۔ اس صورت میں معیشت بہت اچھی ہونے کے باوجود ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ملک کی پوری صورتحال اچھی ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ سترہویں صدی کے انڈیا کا انحصار ایسی معدنیات پر نہیں تھا۔ لہذا معیشت اگر روشن مستقبل کی نہیں تو روشن حال اور روشن ماضی ضرور بتاتا ہے۔

فردِ واحد کی حکومت کا میں بھی شدید مخالف ہوں مگر صدیوں پہلے اس کا کوئی صحیح علاج نہ تھا۔ اس وقت کی ضرورت بادشاہت ختم کرنا نہیں بلکہ قوانین کا قیام تھا۔ مثال کے طور پر بادشاہ کی موت پر کون اگلا بادشاہ بنے گا۔ مسلمان علاقوں میں یہ مسئلہ شروع سے لیکر مغلوں اور عثمانیوں تک ہمیں نظر آتا ہے اور بھائیوں، باپوں اور رشتہ داروں کا قتل اس وجہ سے عام ہے اور ساتھ ہی خانہ جنگی بھی۔
 

دوست

محفلین
انڈیا دنیا کی سب سے بڑی معیشت، یہ کس نے کہہ دیا آپ کو۔ ان کے پاس ہے ہی کیا تھا اس وقت جو یہ معیشت بن سکتے۔ یہ بس نظریات ہیں جن کے ثبوت میں ان کے پاس کچھ نہیں۔
 

ابوشامل

محفلین
یہ ربط دیکھ لیجیے۔ 1525ء سے 1700ء تک ہندوستان دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت تھا، اکبر کے دور میں اس کی آمدنی 17 اعشاریہ 5 ملین پاؤنڈز تھی اور 1700ء میں اس کا جی ڈی پی دنیا کے کل جی ڈی پی کا 24.4 فیصد تھا جو دنیا میں سب سے زیادہ تھا۔ جس کے بعد غلامی کے دور میں جو معاشی بدحالی آئی اس کے نتیجے میں 1952ء میں ہندوستان کا جی ڈی پی صرف 3.8 فیصد رہ گیا۔ مندرجہ بالا ربط پردیئے گئے مضمون Economic history of India کا مکمل مطالعہ بھی کرلیں، انشاء اللہ افاقہ ہوگا (بصد معذرت) ۔
 
Top