محمد وارث
لائبریرین
ہمارے دوست بلاگر جناب راشد کامران کی ایک خوبصورت تحریر انکے بلاگ سے یہاں نقل کر رہا ہوں تا کہ اردو محفل کے قارئین بھی اس سے لطف اندوز ہو سکیں، کافی دوستوں نے اسے پڑھا ہوگا ان کیلیے قندِ مکرر ہی سہی۔
-------------
یوسفی صاحب
اردو مزاح کو ایک لمحے کے لیے عیسائیت کا فرقہ مان لیں تو یوسفی صاحب کے مجموعے کی حیثیت بالکل ایسی معلوم ہوگی جیسے رائج انجیل؛ اب کسی “سان یوسفی مشنری اسکول” کی موجودگی سے یہ نتیجہ اخذ نا کربیٹھیے گا کہ بعینہ یہی صورتحال ہے جبکہ راقم محض تمثیل پر اکتفا کرنے پر بضد ہے۔ ہمارے لیے تو یہ یقین کرنا ہی محال تھا کہ کوئی زندہ ادیب اس قدر عمدہ مزاح تخلیق کرسکتا ہے؛ اول اول تو وکی پیڈیا کا ہی قصور نظر آیا اور جب تک ان گنہگار آنکھوں نے آلئہ تشریحات بصری پر روبرو حضرت کا دیدار نا کرلیا اس بابت شک پر ہی یقین رہا، اس چشم کشا انکشاف سے پہلے تو عظیم ہونے کی “ٹوڈو لسٹ” میں مردہ ہونا ہمارے نزدیک اندراج اولی کے درجے پر فائز تھا۔ یوں بھی جب آپ ایسے دور میں جی رہے ہوں جب اعلٰی مذاق کے حامل و حاملہ حضرات و خواتین بھی وصی شاہ کے اشعار کی تقطیع بگاڑ کر موبائل مزاح تخلیق کررہے ہوں (جیسے اپنی اصلی حالت میں شاعر سے کوئی کسر رہ گئی ہے) تو ایسے میں حقیقی مزاح نگار کی طبعی زندگی خواہ مخواہ کی امید پیدا کرنے کا سبب بن جاتی ہے جو موجودہ حالات میں قابل محصول عیاشی ہی سمجھی جانی چاہیے۔
یوسفی صاحب کے بارے میں ہمارا کچھ کہنا ایسا ہی ہے جیسے صدر مکرم جمہوریہ کا انسداد بدعنوانی کی مہم میں حصہ لینا، اسرائیلی وزیر اعظم کا نسل کشی کے خلاف مرن ورت رکھنا یا کسی اردو بلاگر کا اپنی تحریروں کو دلیل سے مزین کرنا لیکن جس قسم کی نرگسیں آج کل بین ڈالنے کے قومی اداروں سے منسلک ہیں ایسی صورت میں ہمارے جیسے دیدہ ور کی پیدائش کو بھی خداداد ہی سمجھیے اور بقول طارق عزیز(الیکٹرا والے) تھوڑا کہے کو بہت جانیے ۔
یوسفی صاحب کی تحریروں کا مزاج ایسا ہے کہ نا تو یہ نصاب میںشامل کی جاسکتی ہیںاور نا ہی طالبانی طرز کی حکومتیں بھی ان پر پابندی لگانے کی کوئی راہ نکال سکتی ہیں نصاب کی موجودہ صورت حال سے یہ اندازہ لگانے میں قطعا کوئی دشواری نہیںہونی چاہیے کہ مضامین یوسفی کو سمجھنے کے لیے جن دماغی خلیوںکی موجودگی ایک ضروری امر ہے ہمارے ” ارباب نصاب” خصوصی طور پر ایسے جینیاتی عمل کے ذریعے پیدا کیے جاتے ہیں جہاںاس قسم کے کسی خلیے کی پیدائش اتنی ہی دشوار ہوگی جیسے ایران میں ہم جنسوں کی موجوگی۔ اور مذکورہ حکومتوں کا تو رونا ہی کیا وہ کسی بھی قسم کے دماغی خلیوںکی پیدائش کو ایک غیر شرعی فعل سے تعبیر کرتی ہیں جو اس مخصوص صورتحال میں باعث رحمت سمجھا جانا چاہیے۔ یوسفی صاحب کے بارے میں کچھ ناقدین کی رائے یہ بھی ہے کہ وہ تاریخ، مذہب اور سیاست کے موضوعات سے دانستہ اجتناب برتتے ہیں ایسے ناقدین کے بارے میں یوسفی صاحب کے الفاظ میں عرض کروں توں انہوں نے مضامین یوسفی بھی اسی طرح پڑھے ہیں جیسے قران و حدیث۔
مسئلہ کافی پر چائے کی برتری کا ہو یا کاربار کتب خانہ۔ تاریخی لڑائیاں ہوں یا دوستوں کی پھبتیاں۔ تذکرہ مغل بچے کا ہو یا ہینری ہشتم کا، آغوش یوسفی میں یہ ایسے پروان چڑھتے ہیں کہ پھر کسی بدنظر کا اثر ان پر نہیں ہونے پاتا لیکن اب کہ یہ آب گم ہوا تو اُس کے بعد سوکھا ہے کئی نسلوں تک۔
-------------
یوسفی صاحب
اردو مزاح کو ایک لمحے کے لیے عیسائیت کا فرقہ مان لیں تو یوسفی صاحب کے مجموعے کی حیثیت بالکل ایسی معلوم ہوگی جیسے رائج انجیل؛ اب کسی “سان یوسفی مشنری اسکول” کی موجودگی سے یہ نتیجہ اخذ نا کربیٹھیے گا کہ بعینہ یہی صورتحال ہے جبکہ راقم محض تمثیل پر اکتفا کرنے پر بضد ہے۔ ہمارے لیے تو یہ یقین کرنا ہی محال تھا کہ کوئی زندہ ادیب اس قدر عمدہ مزاح تخلیق کرسکتا ہے؛ اول اول تو وکی پیڈیا کا ہی قصور نظر آیا اور جب تک ان گنہگار آنکھوں نے آلئہ تشریحات بصری پر روبرو حضرت کا دیدار نا کرلیا اس بابت شک پر ہی یقین رہا، اس چشم کشا انکشاف سے پہلے تو عظیم ہونے کی “ٹوڈو لسٹ” میں مردہ ہونا ہمارے نزدیک اندراج اولی کے درجے پر فائز تھا۔ یوں بھی جب آپ ایسے دور میں جی رہے ہوں جب اعلٰی مذاق کے حامل و حاملہ حضرات و خواتین بھی وصی شاہ کے اشعار کی تقطیع بگاڑ کر موبائل مزاح تخلیق کررہے ہوں (جیسے اپنی اصلی حالت میں شاعر سے کوئی کسر رہ گئی ہے) تو ایسے میں حقیقی مزاح نگار کی طبعی زندگی خواہ مخواہ کی امید پیدا کرنے کا سبب بن جاتی ہے جو موجودہ حالات میں قابل محصول عیاشی ہی سمجھی جانی چاہیے۔
یوسفی صاحب کے بارے میں ہمارا کچھ کہنا ایسا ہی ہے جیسے صدر مکرم جمہوریہ کا انسداد بدعنوانی کی مہم میں حصہ لینا، اسرائیلی وزیر اعظم کا نسل کشی کے خلاف مرن ورت رکھنا یا کسی اردو بلاگر کا اپنی تحریروں کو دلیل سے مزین کرنا لیکن جس قسم کی نرگسیں آج کل بین ڈالنے کے قومی اداروں سے منسلک ہیں ایسی صورت میں ہمارے جیسے دیدہ ور کی پیدائش کو بھی خداداد ہی سمجھیے اور بقول طارق عزیز(الیکٹرا والے) تھوڑا کہے کو بہت جانیے ۔
یوسفی صاحب کی تحریروں کا مزاج ایسا ہے کہ نا تو یہ نصاب میںشامل کی جاسکتی ہیںاور نا ہی طالبانی طرز کی حکومتیں بھی ان پر پابندی لگانے کی کوئی راہ نکال سکتی ہیں نصاب کی موجودہ صورت حال سے یہ اندازہ لگانے میں قطعا کوئی دشواری نہیںہونی چاہیے کہ مضامین یوسفی کو سمجھنے کے لیے جن دماغی خلیوںکی موجودگی ایک ضروری امر ہے ہمارے ” ارباب نصاب” خصوصی طور پر ایسے جینیاتی عمل کے ذریعے پیدا کیے جاتے ہیں جہاںاس قسم کے کسی خلیے کی پیدائش اتنی ہی دشوار ہوگی جیسے ایران میں ہم جنسوں کی موجوگی۔ اور مذکورہ حکومتوں کا تو رونا ہی کیا وہ کسی بھی قسم کے دماغی خلیوںکی پیدائش کو ایک غیر شرعی فعل سے تعبیر کرتی ہیں جو اس مخصوص صورتحال میں باعث رحمت سمجھا جانا چاہیے۔ یوسفی صاحب کے بارے میں کچھ ناقدین کی رائے یہ بھی ہے کہ وہ تاریخ، مذہب اور سیاست کے موضوعات سے دانستہ اجتناب برتتے ہیں ایسے ناقدین کے بارے میں یوسفی صاحب کے الفاظ میں عرض کروں توں انہوں نے مضامین یوسفی بھی اسی طرح پڑھے ہیں جیسے قران و حدیث۔
مسئلہ کافی پر چائے کی برتری کا ہو یا کاربار کتب خانہ۔ تاریخی لڑائیاں ہوں یا دوستوں کی پھبتیاں۔ تذکرہ مغل بچے کا ہو یا ہینری ہشتم کا، آغوش یوسفی میں یہ ایسے پروان چڑھتے ہیں کہ پھر کسی بدنظر کا اثر ان پر نہیں ہونے پاتا لیکن اب کہ یہ آب گم ہوا تو اُس کے بعد سوکھا ہے کئی نسلوں تک۔