نعمان رفیق مرزا
محفلین
آج کل کراچی میں کوئی مشاعرہ جس میں دوبئی یا کویت یا کنیڈا سے اپنے کسی رشتہ دار کی وفات پر آیا ہوا شاعر، شریک ہو جائے تو اُسے انٹرنیشنل مشاعرہ کہتے ہیں۔ہم نے ایک انٹرنیشنل مشاعرے میں بہت ہی حوصلہ مند نابینا شاعرہ کو ترنّم سے غزل پڑھتے سُنا ہے۔ظاہر ہے اُن کے نابینا ہونے پر کون اعتراض یا طنز کر سکتا ہے۔لیکن اس کو کیا کیجئے کہ وہ سامعین کو بالکل بہرہ سمجھ کر شعر پڑھتی ہیں۔ایسا ترنم روایتی ڈھول کی طرح دُور ہی سے برداشت کیا جا سکتا ہے۔پاس کا ڈھول صرف اس صورت میں سہانا لگتا ہے کہ آپ اسے خود بجا رہے ہوں۔ایک اور شاعرہ ہیں جو اکثر بین الاقوامی مشاعرے لُوٹتی رہتی ہیں۔وہ ایسا لباس پہن کر آتی ہیں کہ معلوم ہوتا ہے اُن کے شوہر نابینا ہیں۔لوگ خود شاعرہ کو، مصرعِ طرح کی مانند اُٹھائے اُٹھائے پھرتے ہیں! اسی طرح دساور سے ایک معروف شاعر اکثر بلائے جاتے ہیں۔وہ اپنی ہر غزل راگ میں گا کر سناتے ہیں۔دُھن بھی خود ہی کمپوز کرتے ہیں۔جنانچہ بحر سے خارج مصرعے کو سُر سے بھی خارج کر دیتے ہیں۔ساتھ ہی، ہاتھ سے ایسے اشارے کرتے ہیں کہ شعر تہذیب سے بھی خارج ہو جاتا ہے! مگر سب سے زیادہ داد اُنھیں کو ملتی ہے۔ اس لیے کہ اشارے سب کی سمجھ میں آ جاتے ہیں۔
(یُوسُفی)
(یُوسُفی)