محمد تابش صدیقی
منتظم
یوسفی صاحب کی یاد میں!
تحریر: احمد حاطب صدیقی
یوسفی صاحب سے پہلا تعارُف ’’خاکم بدہن‘‘ کے ذریعے سے ہوا۔۔۔ تعارُف کیا ہوا؟ ہم تو اُن کے دیوانے ہوگئے۔اُن کی کتابوں سے متعدد اقتباسات اپنی ڈائریوں میں نقل کیے اور دوستوں کو مزے لے لے کر سنائے۔پورے اجتماع کومل جل کرہرفقرے پر غور کرنا پڑتا تھا کہ اس میں مزاح کے کون کون سے خفیہ خزانے پوشیدہ ہیں۔ پھر ہوا یوں کہ یوسفی صاحب کی دی ہوئی بہت سی دلچسپ اصطلاحات ہماری گفتگو کا حصہ بن گئیں۔ ڈھونڈ ڈھانڈ کر ’چراغ تلے‘ بھی پڑھی گئی۔ پرانے رسالوں میں سے پرانے مضامین نکال نکال کر پڑھے گئے۔ قصہ مختصر یہ کہ ہماری چوکڑی یا چھکڑی یوسفی صاحب کی تحریروں کاباجماعت مطالعہ کرتی تھی۔ ’باجماعت مطالعہ‘ ہماری کمزوری نہ تھی۔ ضرورت بن گئی تھی۔ وجہ اس کی یہ سمجھ میں آتی ہے کہ یوسفی صاحب کا فقرہ پڑھتے ہی جی چاہنے لگتا تھا کہ فوراً جاکر کسی کو سنائیے۔ ہمارے ایک دوست تو ’یوسفی کے حافظ‘ ہوگئے تھے۔ اُن سے آپ کسی وقت بھی اور کوئی بھی معلومات حاصل کرسکتے تھے۔ پوچھ سکتے تھے کہ یوسفی صاحب نے اس موضوع پر جوبات کہی ہے ، یا اس فقرے سے ملتی جلتی جو بات کہی ہے وہ کیاہے؟ حضرت نہ صرف ’فقرہ مطابق اصل‘ سنادیتے تھے۔ بلکہ کوئی لفظ آگے پیچھے کرتے تھے نہ ہونے دیتے تھے۔اگر کوئی کربیٹھے توفوراً تصحیح کرتے تھے۔ متعلقہ کتاب اور متعلقہ مضمون کا حوالہ بھی دیا کرتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یوسفی کے فقروں کو پروف ریڈروں جیسی مہارت سے پڑھنا پڑتاہے۔ہماری توجہ اس امر کی طرف انھی نے مبذول کرائی تھی کہجس فقرے کو ہم ہمیشہ یوں پڑھتے رہے کہ۔۔۔ ’کھانے کی ترکیبیں بھی ذہن نشین کراتے جاتے تھے‘ ۔۔۔وہاں غور سے دیکھ کر پڑھو۔ ’ذہن نشین‘ نہیں ہے، ’دہن نشین‘ لکھاہوا ہے۔
’زرگزشت‘ آئی توگویا ہر روز روزِ عید اور ہرشب شبِ برأت ہوگئی۔ دن نکمے اور راتیں کالیاں ہوتی گئیں۔جب تک زرگزشت کے کئی ’ختم‘ نہ کرلیے گئے چوکڑی کو چین نہ آیا۔ اصطلاحات کے ذخیرے میں مزید اضافہ ہوگیا۔ ’خمریاں‘۔۔۔’دف مارنا‘ ۔۔۔ ’خوبصعورت‘ ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
’آبِ گم‘ کی بابت یاروں کی رائے ملی جلی تھی۔مگر اس میں ایک نیا ’یوسفی‘ دریافت کیا گیا۔ گو کہ جابجا پرانے یوسفی سے بھی مڈھ بھیڑ ہو جاتی تھی۔ہنسانے کے ساتھ ساتھ رُلا دینا تو یوسفی کا پرانا وتیرہ ہے۔ ’خاکم بدہن‘ میں ’سیزر‘ کا قصہ پڑھ لو۔
کراچی میں رہتے ہوئے کئی بار یوسفی صاحب سے بالمشافہ ملاقات کا جی چاہا۔ مگر خالد بھائی(جناب خالد احمد فارقی) نے جو اُس زمانے میں ایک بینک کے ایگزیکٹو تھے، (اور یوسفی صاحب غالباً بینکنگ کونسل کے چیئر مین تھے) یوسفی صاحب کی ’جباری و قہاری‘ کا ایسا ’کان لیوا‘ نقشہ کھینچا کہ ہمارے ذہن میں یوسفی صاحب ہی کا کھینچا ہوا ’اینڈرسن‘ کا نقشہ گھوم گیا۔ ہم تو بس یہ شعر پڑھ کر رہ گئے:
بہت حسین تمنا ہے تجھ سے ملنے کی
میں تجھ سے مل کے اسے کیوں تباہ کر ڈالوں
پھر یوسفی صاحب ’ولایت‘ کو پیارے ہوگئے۔ اُن کی خبریں وہاں سے آنے لگیں۔’ولایت پلٹ‘ ہوکروطن آئے تو عاداتِ ماسبق کے علی الرغم عوامی مجلسوں میں بھی شرکت فرمانے لگے۔یوں انھیں کم ازکم دیکھنے کاموقع تو مل ہی گیا۔اُن کے متعلق ہمیں ہدایت یہی ملی تھی کہ:
’دیکھنا بھی تو انھیں دور سے دیکھا کرنا‘
مگرپھربالمشافہ ملاقات بھی ہوگئی۔ ایک ہی ہوئی۔لیکن یادش بخیر!سارا خوف کسی خفیہ رستے سے نکل گیا۔اتنی سی ملاقات بھی خاصی دلچسپ رہی۔اُنھیں اسلام آباد میں سید ضمیر جعفری مرحوم کی پہلی برسی کے موقع پراکادمی ادبیات میں منعقد ہونے والی ایک تقریب کے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے تشریف لانا تھا۔ فقیر نے اکادمی کے صدر نشین جناب افتخار عارف سے کانا پھوسی کرتے ہوئے ایک رازدارانہ مشورہ مانگا۔جس قدر آہستگی سے مشورہ طلب کیاگیا تھا، افتخار عارف صاحب نے اُسی قدر بلند آہنگ آواز میں جوابِ مشورہ دے ڈالا:
’’ہاں،ہاں! پڑجا پیچھے لٹھ لے کر‘‘۔
(دیکھیے لٹھ بردار دہشت گرد اس طرح بنائے جاتے ہیں)۔’چشمۂ افتخار‘ کی شہ پاتے ہی یہ عقیدت مندِ حقیر، کراچی سے تشریف لانے والے مہمان کی تشریفات (Protocol) بجا لانے کے لیے ائر پورٹ جاپہنچا۔جہاز سے اُترتے ہی اِن بزرگ کا بریف کیس تھام کر(کیوں کہ دامن پتلون کے اندر کیے ہوئے تھے تاکہ پرایوں کی دست برد سے محفوظ رہ سکے) اُن سے التجا کی:اِک وقتِ خاص میرے بھی حق میں’عطا‘ کرو۔از رہِ عنایت درخواست قبول فرمائی اورمُسکراکر ارشاد کیا:’’جب چاہیں مل لیجیے!‘‘
پوچھا کہ:’’جب کیسے چاہیں؟آج تو آپ آرام فرمائیں گے۔ کل برسی کی تقریب میں رات گئے تک مصروف رہیں گے۔پرسوں مفتی صاحب کے گھر عشائیہ ہے اور اس کے بعد ۔۔۔‘‘جواب دینے کے بجائے داد دینے لگے:’’آپ تو بہت باخبر معلوم ہوتے ہیں!‘‘
عرض کیا:’’آپ کی (مختصر سی) زلفِ گرہ گیر کا اسیر تو اُس وقت سے آپ کی خبررکھتا ہے، جب آپ صرف ’مشتاق احمد‘ کے نام سے لکھا کرتے تھے‘‘۔
چونک کرچلتے چلتے رُک گئے۔رُک کرسر سے پیر تک اِس حقیر، فقیر، پُر تقصیر اور اپنی زلفِ گرہ گیر کے اسیرکا سراپابغور دیکھا۔پھرمتحیر ہوکرکہا:
’’آپ کی عمر تو اتنی نہیں معلوم ہوتی‘‘۔
مجبوراًوضاحت کرنی پڑی :’’یا پیر و مرشد!یہ خاک زادہ انگور بننے سے پہلے ہی منقیٰ بن گیا تھا۔خاکسار نے دورِ طالب علمی ہی میں ڈاکٹر محمود حسین لائبریری، جامعہ کراچی کے ’خزینۂ اوراق‘ (Archives)میں دِن ،دِن بھر بیٹھ کر پچاس کی دہائی میں نکلنے والے سب ادبی رسالے چاٹ ڈالے ‘‘۔
گفتگوابھی یہیں تک پہنچی تھی کہ ہم دونوں لاؤنج سے باہر پہنچ گئے۔وہاں افتخار عارف صاحب اپنا استقبالی عملہ لیے ٹہل رہے تھے۔اِس غرض مند کو یوسفی صاحب کے ساتھ پولیس کی کسی ’’ضمنی‘‘ کی طرح ’’نتھی الف‘‘ دیکھا تو سارا ماجرا سمجھ گئے۔اُدھریوسفی صاحب نے بھی گھگھیا کر کمبل کی طرف اشارہ کرکے کچھ کہنا چاہا تو افتخار عارف صاحب نے اُن کی سنے بغیر ہی اعترافِ جرم کرلیا:
’’میں نے ہی اس سے کہا تھا کہ پڑجا پیچھے لٹھ لے کر (پھررازدارانہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے بولے) اچھا لکھتا ہے‘‘۔
افتخار عارف صاحب کے ان سفارشی کلمات کا نتیجہ یہ نکلا کہ یوسفی صاحب کے دیے ہوئے وقت پر پہنچ کرکالم نگار نے اپنے کالموں کے انتخاب پر مشتمل مسودہ اُن کی نذر کیا اور’حرفِ سخن شناس‘لکھنے کی درخواست کی۔یہ درخواست بھی اُنھوں نے از رہ بندہ پروری فی الفور قبول کرلی۔پھر فرمایا:’’گھر جاکر اطمینان سے پڑھوں گا‘‘۔
مسودہ اپنے بریف کیس میں رکھ لیااور روانہ۔۔۔ کردیا ہمیں۔اگلے روزتقریب ہوئی۔ تقریب سے اور دیگر مصروفیات سے فارغ ہوئے تو واپس کراچی چلے گئے۔کچھ دنوں بعد فون کیا۔
نہایت نحیف سی آواز آئی:’’ہلو‘‘پوچھا: ’’یوسفی صاحب تشریف رکھتے ہیں؟‘‘
جواب کی بجائے سوال آیااور قدرے غصے میں آیا: ’’آپ کس یوسفی کو پوچھ رہے ہیں؟ یہاں تو کئی یوسفی ہیں‘‘۔
ہم نے آواز پہچان کر عرض کیا:’’حضرت! ہمارے ایک دوست ہیں نسیم اختر یوسفی۔ گفتگو میں اُن کا تذکرہ مقصود ہو تو پورا نام لینا پڑتاہے۔ صرف ’یوسفی‘ کہا جائے تو اُس سے مراد اُردو مزاح نگاری کا وہی مشتاق ہوتاہے ، جس کے ’عہدِ یوسفی‘ میں ہم جی رہے ہیں‘‘۔
سلامِ شناسائی کے بعد عرض سوال کیا توبتایا ۔۔۔ (دیکھیے اِس ناچیز کے کالم پڑھنے کا انجام)۔۔۔ کہ:’’آنکھوں میں انفیکشن ہو گیا ہے‘‘۔
مزید بتا یا :’’ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اصل خرابی کانوں میں ہے۔ بھائی!اپنی توکچھ سمجھ میں نہیں آتا۔خدا جانے کیا معاملہ ہے‘‘۔
بہت تعجب ہوا کہ یوسفی صاحب تو کانوں کے کچے بھی نہیں ہیں۔اور بھلا ایک گمنام اور گوشہ نشین لکھاری کے خلاف (خوداس کے کالموں کے سوا) اُنھیں کون بھڑکاسکتاہے؟
خیر ’’زیروزبر‘‘ حرفِ سخن شناس کے بغیر ہی شایع ہوگئی۔اور اچھے مسلمانوں کی طرح اس گناہگار مسلمان نے بھی یہ سوچ لیا کہ چوں کہ ہر کام میں اﷲ کی طرف سے کوئی نہ کوئی مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے، جو جذباتی اور گناہگار بندوں کو کبھی نظرنہیں آتی، چناں چہ اپنی کتاب کو فرماں روایانِ سخن کی سفارش پر قارئین سے پڑھوانے کے لیے۔۔۔’پیام بر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا‘ ۔۔۔یعنی ’ جو ہوا اچھا ہوا۔اس عاجز کے حق میں بھی اور یوسفی صاحب کے حق میں بھی۔پس دلِ درد آشنا انور شعورؔ صاحب کا یہ شعر پڑھ کر صبر کربیٹھا:
خدا کا شکر سہارے بغیر بیت گئی
’کہ یہ کتاب‘ تمھارے بغیر بیت گئی
ہم نے اس دل کو دلاسا دیاکہ ’’مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید‘‘۔ یعنی عطر وہ ہوتا ہے جو خود چہار جانب خوشبو پھیلا کر (ہر قاری کے) مشامِ جاں کو معطر کردے، نہ کہ وہ جسے عطار بتائے کہ’’اے اس کتاب کے قاریو!(کم بختو!) یہ عطرمزاح ہے‘‘۔( اسے پڑھ کر ہنسو)۔
یوسفی صاحب کا بھلا یوں ہوا کہ فرض کیجیے یوسفی صاحب کو سن پچاس کی دہائی میں ہی پیغمبرانہ ذرایع سے یہ بات معلوم ہوجاتی کہ ’’اُردو مزاح کے عہدِ یوسفی‘‘ کاعزیز مصر بننے پرایک مشقت لازم آئے گی۔ اُنھیں ہر طرح کے ’برادر زادگانِ یوسفی‘ کی کتابیں پڑھنی پڑیں گی۔ اوراُن میں (مارے مروت کے، اور مارے باندھے) جھوٹ موٹ کی تحسین کے نقرئی پیالے تقسیم کرنے پڑیں گے۔ایسا ہو جاتا تو شاید وہ اُسی زمانے میں گھبراکربقدم خود واپس گمنامی کے اندھے کنویں میں کود جاتے اورمزاح نگاروں کی زُلیخائی بھگتنے کی بجائے کوئی ایساآبرو مندانہ مشغلہ اختیار کرتے جس میں تحسینِ بے جا کی دست درازی کے ہاتھوں، بنی بنائی آبرو کے داؤ پر لگ جانے کادھڑکا نہ لگارہتا۔
آج اُردو مزاح کا عہدِ یوسفی تمام ہوگیا۔ اللہ مشتاق احمد یوسفی صاحب کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور اُن کی خطاؤں سے در گزر فرمائے۔ آمین!
تحریر: احمد حاطب صدیقی
یوسفی صاحب سے پہلا تعارُف ’’خاکم بدہن‘‘ کے ذریعے سے ہوا۔۔۔ تعارُف کیا ہوا؟ ہم تو اُن کے دیوانے ہوگئے۔اُن کی کتابوں سے متعدد اقتباسات اپنی ڈائریوں میں نقل کیے اور دوستوں کو مزے لے لے کر سنائے۔پورے اجتماع کومل جل کرہرفقرے پر غور کرنا پڑتا تھا کہ اس میں مزاح کے کون کون سے خفیہ خزانے پوشیدہ ہیں۔ پھر ہوا یوں کہ یوسفی صاحب کی دی ہوئی بہت سی دلچسپ اصطلاحات ہماری گفتگو کا حصہ بن گئیں۔ ڈھونڈ ڈھانڈ کر ’چراغ تلے‘ بھی پڑھی گئی۔ پرانے رسالوں میں سے پرانے مضامین نکال نکال کر پڑھے گئے۔ قصہ مختصر یہ کہ ہماری چوکڑی یا چھکڑی یوسفی صاحب کی تحریروں کاباجماعت مطالعہ کرتی تھی۔ ’باجماعت مطالعہ‘ ہماری کمزوری نہ تھی۔ ضرورت بن گئی تھی۔ وجہ اس کی یہ سمجھ میں آتی ہے کہ یوسفی صاحب کا فقرہ پڑھتے ہی جی چاہنے لگتا تھا کہ فوراً جاکر کسی کو سنائیے۔ ہمارے ایک دوست تو ’یوسفی کے حافظ‘ ہوگئے تھے۔ اُن سے آپ کسی وقت بھی اور کوئی بھی معلومات حاصل کرسکتے تھے۔ پوچھ سکتے تھے کہ یوسفی صاحب نے اس موضوع پر جوبات کہی ہے ، یا اس فقرے سے ملتی جلتی جو بات کہی ہے وہ کیاہے؟ حضرت نہ صرف ’فقرہ مطابق اصل‘ سنادیتے تھے۔ بلکہ کوئی لفظ آگے پیچھے کرتے تھے نہ ہونے دیتے تھے۔اگر کوئی کربیٹھے توفوراً تصحیح کرتے تھے۔ متعلقہ کتاب اور متعلقہ مضمون کا حوالہ بھی دیا کرتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یوسفی کے فقروں کو پروف ریڈروں جیسی مہارت سے پڑھنا پڑتاہے۔ہماری توجہ اس امر کی طرف انھی نے مبذول کرائی تھی کہجس فقرے کو ہم ہمیشہ یوں پڑھتے رہے کہ۔۔۔ ’کھانے کی ترکیبیں بھی ذہن نشین کراتے جاتے تھے‘ ۔۔۔وہاں غور سے دیکھ کر پڑھو۔ ’ذہن نشین‘ نہیں ہے، ’دہن نشین‘ لکھاہوا ہے۔
’زرگزشت‘ آئی توگویا ہر روز روزِ عید اور ہرشب شبِ برأت ہوگئی۔ دن نکمے اور راتیں کالیاں ہوتی گئیں۔جب تک زرگزشت کے کئی ’ختم‘ نہ کرلیے گئے چوکڑی کو چین نہ آیا۔ اصطلاحات کے ذخیرے میں مزید اضافہ ہوگیا۔ ’خمریاں‘۔۔۔’دف مارنا‘ ۔۔۔ ’خوبصعورت‘ ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
’آبِ گم‘ کی بابت یاروں کی رائے ملی جلی تھی۔مگر اس میں ایک نیا ’یوسفی‘ دریافت کیا گیا۔ گو کہ جابجا پرانے یوسفی سے بھی مڈھ بھیڑ ہو جاتی تھی۔ہنسانے کے ساتھ ساتھ رُلا دینا تو یوسفی کا پرانا وتیرہ ہے۔ ’خاکم بدہن‘ میں ’سیزر‘ کا قصہ پڑھ لو۔
کراچی میں رہتے ہوئے کئی بار یوسفی صاحب سے بالمشافہ ملاقات کا جی چاہا۔ مگر خالد بھائی(جناب خالد احمد فارقی) نے جو اُس زمانے میں ایک بینک کے ایگزیکٹو تھے، (اور یوسفی صاحب غالباً بینکنگ کونسل کے چیئر مین تھے) یوسفی صاحب کی ’جباری و قہاری‘ کا ایسا ’کان لیوا‘ نقشہ کھینچا کہ ہمارے ذہن میں یوسفی صاحب ہی کا کھینچا ہوا ’اینڈرسن‘ کا نقشہ گھوم گیا۔ ہم تو بس یہ شعر پڑھ کر رہ گئے:
بہت حسین تمنا ہے تجھ سے ملنے کی
میں تجھ سے مل کے اسے کیوں تباہ کر ڈالوں
پھر یوسفی صاحب ’ولایت‘ کو پیارے ہوگئے۔ اُن کی خبریں وہاں سے آنے لگیں۔’ولایت پلٹ‘ ہوکروطن آئے تو عاداتِ ماسبق کے علی الرغم عوامی مجلسوں میں بھی شرکت فرمانے لگے۔یوں انھیں کم ازکم دیکھنے کاموقع تو مل ہی گیا۔اُن کے متعلق ہمیں ہدایت یہی ملی تھی کہ:
’دیکھنا بھی تو انھیں دور سے دیکھا کرنا‘
مگرپھربالمشافہ ملاقات بھی ہوگئی۔ ایک ہی ہوئی۔لیکن یادش بخیر!سارا خوف کسی خفیہ رستے سے نکل گیا۔اتنی سی ملاقات بھی خاصی دلچسپ رہی۔اُنھیں اسلام آباد میں سید ضمیر جعفری مرحوم کی پہلی برسی کے موقع پراکادمی ادبیات میں منعقد ہونے والی ایک تقریب کے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے تشریف لانا تھا۔ فقیر نے اکادمی کے صدر نشین جناب افتخار عارف سے کانا پھوسی کرتے ہوئے ایک رازدارانہ مشورہ مانگا۔جس قدر آہستگی سے مشورہ طلب کیاگیا تھا، افتخار عارف صاحب نے اُسی قدر بلند آہنگ آواز میں جوابِ مشورہ دے ڈالا:
’’ہاں،ہاں! پڑجا پیچھے لٹھ لے کر‘‘۔
(دیکھیے لٹھ بردار دہشت گرد اس طرح بنائے جاتے ہیں)۔’چشمۂ افتخار‘ کی شہ پاتے ہی یہ عقیدت مندِ حقیر، کراچی سے تشریف لانے والے مہمان کی تشریفات (Protocol) بجا لانے کے لیے ائر پورٹ جاپہنچا۔جہاز سے اُترتے ہی اِن بزرگ کا بریف کیس تھام کر(کیوں کہ دامن پتلون کے اندر کیے ہوئے تھے تاکہ پرایوں کی دست برد سے محفوظ رہ سکے) اُن سے التجا کی:اِک وقتِ خاص میرے بھی حق میں’عطا‘ کرو۔از رہِ عنایت درخواست قبول فرمائی اورمُسکراکر ارشاد کیا:’’جب چاہیں مل لیجیے!‘‘
پوچھا کہ:’’جب کیسے چاہیں؟آج تو آپ آرام فرمائیں گے۔ کل برسی کی تقریب میں رات گئے تک مصروف رہیں گے۔پرسوں مفتی صاحب کے گھر عشائیہ ہے اور اس کے بعد ۔۔۔‘‘جواب دینے کے بجائے داد دینے لگے:’’آپ تو بہت باخبر معلوم ہوتے ہیں!‘‘
عرض کیا:’’آپ کی (مختصر سی) زلفِ گرہ گیر کا اسیر تو اُس وقت سے آپ کی خبررکھتا ہے، جب آپ صرف ’مشتاق احمد‘ کے نام سے لکھا کرتے تھے‘‘۔
چونک کرچلتے چلتے رُک گئے۔رُک کرسر سے پیر تک اِس حقیر، فقیر، پُر تقصیر اور اپنی زلفِ گرہ گیر کے اسیرکا سراپابغور دیکھا۔پھرمتحیر ہوکرکہا:
’’آپ کی عمر تو اتنی نہیں معلوم ہوتی‘‘۔
مجبوراًوضاحت کرنی پڑی :’’یا پیر و مرشد!یہ خاک زادہ انگور بننے سے پہلے ہی منقیٰ بن گیا تھا۔خاکسار نے دورِ طالب علمی ہی میں ڈاکٹر محمود حسین لائبریری، جامعہ کراچی کے ’خزینۂ اوراق‘ (Archives)میں دِن ،دِن بھر بیٹھ کر پچاس کی دہائی میں نکلنے والے سب ادبی رسالے چاٹ ڈالے ‘‘۔
گفتگوابھی یہیں تک پہنچی تھی کہ ہم دونوں لاؤنج سے باہر پہنچ گئے۔وہاں افتخار عارف صاحب اپنا استقبالی عملہ لیے ٹہل رہے تھے۔اِس غرض مند کو یوسفی صاحب کے ساتھ پولیس کی کسی ’’ضمنی‘‘ کی طرح ’’نتھی الف‘‘ دیکھا تو سارا ماجرا سمجھ گئے۔اُدھریوسفی صاحب نے بھی گھگھیا کر کمبل کی طرف اشارہ کرکے کچھ کہنا چاہا تو افتخار عارف صاحب نے اُن کی سنے بغیر ہی اعترافِ جرم کرلیا:
’’میں نے ہی اس سے کہا تھا کہ پڑجا پیچھے لٹھ لے کر (پھررازدارانہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے بولے) اچھا لکھتا ہے‘‘۔
افتخار عارف صاحب کے ان سفارشی کلمات کا نتیجہ یہ نکلا کہ یوسفی صاحب کے دیے ہوئے وقت پر پہنچ کرکالم نگار نے اپنے کالموں کے انتخاب پر مشتمل مسودہ اُن کی نذر کیا اور’حرفِ سخن شناس‘لکھنے کی درخواست کی۔یہ درخواست بھی اُنھوں نے از رہ بندہ پروری فی الفور قبول کرلی۔پھر فرمایا:’’گھر جاکر اطمینان سے پڑھوں گا‘‘۔
مسودہ اپنے بریف کیس میں رکھ لیااور روانہ۔۔۔ کردیا ہمیں۔اگلے روزتقریب ہوئی۔ تقریب سے اور دیگر مصروفیات سے فارغ ہوئے تو واپس کراچی چلے گئے۔کچھ دنوں بعد فون کیا۔
نہایت نحیف سی آواز آئی:’’ہلو‘‘پوچھا: ’’یوسفی صاحب تشریف رکھتے ہیں؟‘‘
جواب کی بجائے سوال آیااور قدرے غصے میں آیا: ’’آپ کس یوسفی کو پوچھ رہے ہیں؟ یہاں تو کئی یوسفی ہیں‘‘۔
ہم نے آواز پہچان کر عرض کیا:’’حضرت! ہمارے ایک دوست ہیں نسیم اختر یوسفی۔ گفتگو میں اُن کا تذکرہ مقصود ہو تو پورا نام لینا پڑتاہے۔ صرف ’یوسفی‘ کہا جائے تو اُس سے مراد اُردو مزاح نگاری کا وہی مشتاق ہوتاہے ، جس کے ’عہدِ یوسفی‘ میں ہم جی رہے ہیں‘‘۔
سلامِ شناسائی کے بعد عرض سوال کیا توبتایا ۔۔۔ (دیکھیے اِس ناچیز کے کالم پڑھنے کا انجام)۔۔۔ کہ:’’آنکھوں میں انفیکشن ہو گیا ہے‘‘۔
مزید بتا یا :’’ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اصل خرابی کانوں میں ہے۔ بھائی!اپنی توکچھ سمجھ میں نہیں آتا۔خدا جانے کیا معاملہ ہے‘‘۔
بہت تعجب ہوا کہ یوسفی صاحب تو کانوں کے کچے بھی نہیں ہیں۔اور بھلا ایک گمنام اور گوشہ نشین لکھاری کے خلاف (خوداس کے کالموں کے سوا) اُنھیں کون بھڑکاسکتاہے؟
خیر ’’زیروزبر‘‘ حرفِ سخن شناس کے بغیر ہی شایع ہوگئی۔اور اچھے مسلمانوں کی طرح اس گناہگار مسلمان نے بھی یہ سوچ لیا کہ چوں کہ ہر کام میں اﷲ کی طرف سے کوئی نہ کوئی مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے، جو جذباتی اور گناہگار بندوں کو کبھی نظرنہیں آتی، چناں چہ اپنی کتاب کو فرماں روایانِ سخن کی سفارش پر قارئین سے پڑھوانے کے لیے۔۔۔’پیام بر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا‘ ۔۔۔یعنی ’ جو ہوا اچھا ہوا۔اس عاجز کے حق میں بھی اور یوسفی صاحب کے حق میں بھی۔پس دلِ درد آشنا انور شعورؔ صاحب کا یہ شعر پڑھ کر صبر کربیٹھا:
خدا کا شکر سہارے بغیر بیت گئی
’کہ یہ کتاب‘ تمھارے بغیر بیت گئی
ہم نے اس دل کو دلاسا دیاکہ ’’مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید‘‘۔ یعنی عطر وہ ہوتا ہے جو خود چہار جانب خوشبو پھیلا کر (ہر قاری کے) مشامِ جاں کو معطر کردے، نہ کہ وہ جسے عطار بتائے کہ’’اے اس کتاب کے قاریو!(کم بختو!) یہ عطرمزاح ہے‘‘۔( اسے پڑھ کر ہنسو)۔
یوسفی صاحب کا بھلا یوں ہوا کہ فرض کیجیے یوسفی صاحب کو سن پچاس کی دہائی میں ہی پیغمبرانہ ذرایع سے یہ بات معلوم ہوجاتی کہ ’’اُردو مزاح کے عہدِ یوسفی‘‘ کاعزیز مصر بننے پرایک مشقت لازم آئے گی۔ اُنھیں ہر طرح کے ’برادر زادگانِ یوسفی‘ کی کتابیں پڑھنی پڑیں گی۔ اوراُن میں (مارے مروت کے، اور مارے باندھے) جھوٹ موٹ کی تحسین کے نقرئی پیالے تقسیم کرنے پڑیں گے۔ایسا ہو جاتا تو شاید وہ اُسی زمانے میں گھبراکربقدم خود واپس گمنامی کے اندھے کنویں میں کود جاتے اورمزاح نگاروں کی زُلیخائی بھگتنے کی بجائے کوئی ایساآبرو مندانہ مشغلہ اختیار کرتے جس میں تحسینِ بے جا کی دست درازی کے ہاتھوں، بنی بنائی آبرو کے داؤ پر لگ جانے کادھڑکا نہ لگارہتا۔
آج اُردو مزاح کا عہدِ یوسفی تمام ہوگیا۔ اللہ مشتاق احمد یوسفی صاحب کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور اُن کی خطاؤں سے در گزر فرمائے۔ آمین!