یوسف ثانی : اپنے منہ میاں مٹھو

یوسف-2

محفلین
nawae+waqt-1.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
بہت خوب یوسف بھائی۔ بہت مزہ آیا پڑھ کر۔

اگر کہیں تصویری شکل کے علاوہ اردو میں بھی ہو تو وہ بھی پوسٹ کر دیں ۔
 

یوسف-2

محفلین
احقر کے ادبی مضامین کا پہلا (اور تا حال آخری) مجموعہ ’’یوسف کا بکا جانا ‘‘ فروری 1998 میں شائع ہوا اور اس کتاب کے مضامین کے حوالہ سے 20 تعارفی مضامین پر پر مبنی کتاب’’یوسف ثانی کی انشائیہ نگاری‘‘ مارچ 1999ء میں شائع ہوئی۔ تبصرہ نگاروں میں ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، سید ضمیر جعفری، امراؤ طارق، حکیم محمد سعید، ڈاکٹر حسن وقار گل، قمر علی عباسی، نقاش کاظمی، علی حیدر ملک، امتیاز ساغر، نعیم آروی، احفاظ الرحمان شامل ہیں۔ اس کتاب میں نوائے واقت کا مندرجہ بالا فیچر اور لاہور کے ایک ماہنامہ میں شائع ہونے ولا انٹرویو بھی شامل ہے۔ اپنے ویب بلاگ کو اپ ڈیٹ کرتے ہو ئے خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے منہ میاں مٹھو بنتے ہوئے مندرجہ بالا مضامین کو اردو محفل میں بھی پیش کیا جائے۔ اب، جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ع :)
 

شمشاد

لائبریرین
نوائے وقت فیچر
یوسفِ ثانی کی انشائیہ نگاری
اردو میں انشائیہ نگاری پہلے بھی ہوتی تھی اور آج بھی ہوتی ہے مگر پہلے اور آج میں فرق یہ ہے کہ کل کا انشائیہ نگار، انشائیہ نگاری کا دعویٰ نہیں کرتا تھا جبکہ آج کا انشائیہ نگار نہ صرف یہ کہ اپنی تحریروں کو انشائیہ قرار دینے پر "بضد" ہے بلکہ اپنے جیسے دیگر تمام لکھنے والوں کی تحریروں کو انشائیہ سے خارج قرار دینے پر "مصر" بھی ہے۔ کل تک ہر انشائیہ نگار اپنی تحریروں کے ذریعہ اپنے قارئین کو کچھ نہ کچھ فیض پہنچاتا رہا ہے جبکہ آج کے قد آور انشائیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر انشائیہ میں کسی قسم کی "مقصدیت" داخل ہو جائے تو وہ تحریر انشائیہ سے خارج ہو جاتی ہے۔ انشائیہ کے بارے میں یہ رویہ دراصل ادب برائے ادب کے پٹے ہوئے نظریہ کی جزوی بازگشت ہے جو آج کے سائنسی عہد میں ادب برائے زندگی کے سائنٹیفک نظریہ سے عملاً مات کھا چکا ہے۔​
ادب برائے زندگی کے علمبردار قلم کاروں کی صف میں نوجوان انشائیہ نگار یوسف ثانی ایک خوشگوار اضافہ ہیں جو گزشتہ ایک عشرے سے خاموشی سے مشق انشائیہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آپ کا شمار باصلاحیت نوجوان قلم کاروں میں ہوتا ہے۔ آپ نے اپنی اس مختصر سی ادبی زندگی میں اب تک مختلف اصناف و موضوعات پر بعض اس قدر خوبصورت اور فکر انگیز تخلیقات پیش کی ہیں کہ بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ آپ کے انشائیے اخبارات و جرائد میں شائع ہونے کے علاوہ ریڈیو پاکستان سے بھی نشر ہوتے رہے ہیں۔ آپ کی تحریروں کی نمایاں خوبی وہ ہلکا پھلکا طنز و مزاح ہے جو قارئین کو نہ صرف محظوظ کرتا ہے بلکہ صاحب تحریر کی فکر سے بھی متاثر کرتا ہے۔ مثلاً "انشائیہ" ٹک روتے روتے" کا یہ حصہ ملاحظہ ہو :​
گو رونے کی ابتداء بچوں نے کی مگر اسے آرٹ کا درجہ خواتین نے عطا کیا جبکہ اس کی موجودہ پروفیشنل حیثیت مَردوں کی مرہون منت ہے۔ پرفیشلزم کے اس دور میں وہی لوگ کامیاب ہیں جنہیں نہ صرف یہ کہ رونے کے فن پر قدرت حاصل ہے بلکہ وہ اسے موقع محل کے مطابق "کیش" کرانے کے ہنر سے بھی آگاہ ہیں۔۔۔ غرض کہ رونا دھونا ایک ایسا آرٹ ہے جس کسی نے بھی اس میں کمال حاصل کر لیا وہ اداکار کمال سمیت تمام اداکاروں کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے اور "عین دال شین ششٹرز" یعنی عزت دولت شہرت اس کے گھر کا طواف کرنے لگتی ہے۔ درحقیقت یہی اس کے لئے پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ ہے۔ ایکا ایسا ایوارڈ جس کے حصول کے لئے کسی کے سامنے جھکنا نہیں پڑتا صرف ہر ایک کے سامنے رونا پڑتا ہے۔​
یوسف ثانی کے ہاں روایتی لفظوں اور فقروں کو اپنی ضرورت کے مطابق برتنے کا فن بدرجہ اتم پایا جاتا ہے بلکہ بسا اوقات تو وہ خود بھی نئے نئے فقرے اور منفرد تراکیب تراشتے نظر آتے ہیں۔ اب "لب چھڑی" ہی کی مثال لے لیں آپ کہیں گے کہ یہ لب چھڑی کیا بلا ہے؟ لیجئے یوسف ثانی ہی کی زبانی سنئے :​
یہ لب چھڑی ہے۔ اسے عرف عام میں۔ جی ہاں! انگریزی زبان میں لپ اسٹک کہتے ہیں یہ اسم بامسمٰی صرف اس حد تک ہے کہ اگر ممی کا پرس گڈو پپو کے ہاتھ لگ جائے تو وہ پرس میں موجود درجن بھر لب چھڑیوں کو ریل کے ڈبوں کی طرح جوڑ کر ایک چھڑی کی صورت دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔۔۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ ابتداء میں لب چھڑی صرف سرخ یا گلابی رنگ کی ہوا کرتی تھی۔ ثبوت کے طور پر وہ اساتذہ قدیم کے ان اشعار کا حوالہ دیتے ہیں جن میں خواتین کے لبوں کو گلاب وغیرہ سے تشبیہ دی گئی ہے مگر آج کے سائنٹیفک دور میں یہ ہر رنگ میں دستیاب ہے اس سے خواتین کو بڑی سہولت ہو گئی ہے۔ درس گاہ ہو یا بازار گھر ہو یا موٹرکار اب خواتین "ضرورت" کے مطابق سرخ، سبز یا زرد رنگ کے شیڈ استعمال کر سکتی ہیں اور آج کے علامتی دور میں اس قدر بھولا کون ہے جو ان رنگوں کے مفہوم سے آگاہ نہ ہو۔​
یوں تو اب تک یوسف ثانی بہت سے انشائیے تحریر کر چکے ہیں جو وقتاً فوقتاً اخبارات و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ مگر ان کے تحریر کردہ تمام انشائیے اب تک کسی ایک جگہ یکجا دستیاب نہیں کہ ان سب کا ایک نظر جائزہ لیا جا سکے۔ تاہم ہو انشائیے جو ہماری نگاہ سے گزر چکے ہیں ان میں ناموں سے نہ پہچان، قرض اور مرض، سچ گپ، پہلا کالم، گرلز سینٹر، پوچھنا منع ہے، یوسف کا بکا جانا، وعدہ فردا اور مجھے میرے دوستوں سے ملواؤ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ یوں تو یوسف ثانی کی تحریروں میں تشبیہوں، استعاروں اور علامتوں کا استعمال جابجا نظر آتا ہے، مگر ان کا استعمال اس خوبی سے ہوتا ہے کہ تحریر کا بنیادی مقصد، جو یوسف ثانی کی جملہ تحریروں میں مشترک ہے نہ صرف برقرار رہتا ہے بلکہ قاری تک پہنچ بھی جاتا ہے مثلاً ان کی ایک تحریر کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو :​
آج کی غزل تو معنی خیز ہی اس وقت ہوتی ہے جب کسی شاعرہ نہ کہی ہو۔ اگر کسی کو اس بات سے اختلاف ہو تو وہ آج کی کسی بھی "نمائندہ شاعرہ" کے مجموعہ کلام کو اٹھا کر دیکھ لے۔ غزل کے اکثر اشعار پڑھتے وقت ذہن میں جب تک شاعرہ کی جنس "واضح" نہیں ہوتی، شعر کا مفہوم غیر واضح ہی رہتا ہے۔ اب "خوشبو" کی طرح اپنی پذیرائی اور اس پذیرائی پر "شاکر" رہنے والی شاعرہ ہی کی مثال لے لیں جن کی شناسائی والی بات کو بکواس طرح پھیلی کہ اخباری کالموں تک جا پہنچک، حالانکہ کسی "نیک پروین" سے تو اس قسم کی توقع سودائیوں کی اس بستی میں بھی نہیں کی جاتی۔۔۔ یہ صحیح ہے کہ اس قسم کی "تصحیح" سے شعر وزن وغیرہ سے گر جائے گا لیکن اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ جب اخلاق سے گرے ہوئے اشعار شامل دیوان کیئے جا سکتے ہیں تو اوزان سے گرئے ہوئے اشعار میں کیا برائی ہے۔​
ادبی تقریبات میں ادیبوں کے فن اور شخصیت پر مقالات پڑھنا آج کل ایک وبائی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس قسم کے مقالوں میں کیسی کیسی گل افشانی کی جاتی ہے اس کی ایک مثال یوسف ثانی یوں پیش کرتے ہیں :​
ایسے موقع پر بعض عقل مند مقالہ نگار اپنے ممدوح کے نام ہی کو غنیمت جانتے ہیں مثلاً بین السطور والے صبیح محسن پر مضمون لکھتے وقت ایک مضمون نگار نے نام کی رعایت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فلم اسٹار صبیحہ خانم پر ہی سیر حاصل گفتگو کر ڈالی۔ میری مشکل یہ ہے کہ فی الحال مجھے اس قسم کی کوئی فنکارہ دستیاب نہیں جس پر نظر عنایت کی جا سکے۔ رہ گئی ان کی شاعری تو اس سلسلہ میں آپ سے معذرت چاہوں گا کہ پروفیسر صاحب نے اس ضمن میں مجھے کوئی معلومات فراہم نہیں کیں۔ جیسا کہ ہمارے ہاں کا دستور ہے بلکہ بعض اوقات تو یار لوگ اپنے فن اور شخصیت پر پورا مقالہ لکھ کر فراہم کرتے ہیں اور بسا اوقات تو مقالہ پڑھنے کا معاوضہ بھی ملتا ہے اور مجھے تاحال اس قسم کی کوئی ایڈ یا ایڈز نہیں ملی ہیں۔​
یوسف ثانی کی گرفت اپنے عہد کے ادبی مسائل پر بھی کوب ہے۔ ڈاکٹر سلمان معظم کے تحقیقی مقالہ "سرقہ کی روایت" پر تنقید کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ۔۔۔ بات دراصل یہ ہے کہ جب کوئی زبان وسعت پذیر ہوتی ہے اور اس میں لکھنے لکھانے کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی ہے تو زبان و بیان میں نئی نئی تراکیب "تخلیق" تو کوئی ایک فرد کرتا ہے مگر اسے استعمال بے شمار افراد کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب لکھاریوں کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے تو قلمی ناموں اور علمی و ادبی شہ پاروں کے عنوانات میں مشابہت بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ چنانچہ اگر ہمیں ایسی کوئی مشابہت نظر آئے تو اسے نظر انداز کر دینا چاہیے اور سرقہ جیسے الزامات لگانے سے گریز کرنا چاہیے۔ کیونکہ اگر بات سے بات بڑھی تو پھر خیالات کے سرقہ تک جا پہنچے گی اور یوں متعدد علمی و ادبی شہہ پارے محض ایک اچھے "ادبی سرقہ" بن کر رہ جائیں گے۔​
آج ہم جس نفسا نفسی اور مادہ پرستی کے عہد میں جی رہے ہیں اس میں روایتی محبت اور دوستی بھی عنقا ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارا عصری ادب بھی اس صورتحال کی خوبصورتی سے عکاسی میں مصروف ہے اس کی ایک مثال یوسف ثانی کا انشائیہ "مجھے میرے دوستوں سے ملواؤ" ہے :​
وہ دن ہوا ہوئے جب کہا جاتا تھا کہ "مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ" کیونکہ اس عہد کے دوستوں میں خلوص، ہمدردی، محبت اور چاہت کی چاشنی اس وافر مقدار میں ہوا کرتی تھی کہ جو بھی ان چاہتوں کا شکار ہوتا، چیخ اٹھتا کہ ع اب اتنا بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے۔ آج صورتحال قدرے مختلف ہے۔ دودھ کا جلا چھاچھ پھونک پھونک کر پیتا ہے، تو دوست کا مارا دوستوں سے سہم سہم کر ملتا ہے۔زیر لب یہ کہتے ہوئے کہ ع دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا۔​
اسی طرح آج کل ہر فرد ہر بات میں اپنا ہی مفاد دیکھنے کا عادی سا ہو گیا ہے۔ یہ فقرہ تو آج کل زبان زد خاص و عام ہے کہ تم ہمارے گھر آؤ گے تو کیا لاؤ گے اور ہم تمہارے ہاں آئیں گے تو کیا کھلاؤ گے۔ کچھ اسی قسم کے رویہ کا اظہار ہمیں یوسف ثانی کے انشائیہ "پلیز اور سوری" میں نظر آتا ہے :​
پلیز اور سوری ایک ایسی گاڑی کے دو پہیے ہیں جن پر سوار ہو کر آپ ہر قسم کی گاڑیوں سے بے نیاز ہو سکتے ہیں۔ یہ دونوں بڑے کام کی چیزیں ہیں۔ ان کا اسٹاک ہر وقت اپنے پار رکھیں نہ جانے کس وقت ان کی ضرورت پڑ جائے۔۔۔ اگر کسی کو زحمت دینے کا ارادہ ہو تو پلیز کا پیشگی استعمال سودمند رہتا ہے لیکن اگر خدانخواستہ آپ کو پلیز کہنا یاد نہ رہا ہو تو فکر کی کوکئی بات نہیں قبل اس کے کہ وہ جسے آپ زحمت ہی میں مبتلا کر چکے ہیں۔ آپ پر جوابی کاروائی کرنے کا سوچے۔ آپ فوراً ایک عدد "سوری" اس کےمنہ پر دے ماریں۔​
ہم امید کرتے ہیں کہ یوسف ثانی آئندہ بھی اسی طرح کے خوبصورت انشائیے لکھتے رہیں گے تا کہ انشائیہ کی اس خوبصورت نثری صنف کو بے مقصدیت کی بھول بھلیوں میں گم ہونے سے بچا کر اسے واپس تعمیری مقصدیت کی شاہراہ پر گامزن کیا جا سکے کہ ایسا ادب ہی معاشرے کی حقیقی ترقی میں معاونت کر سکتا ہے۔ (مطبوعہ : روزنامہ نوائے وقت، کراچی ۱۹۸۹ء)​
 
Top