تاسف یومِ شہادت حضرت علی علیہ السلام

سیما علی

لائبریرین
حضرت علی علیہ السلام اور شہادت

علی امام من است و منم غلام علی
ہزار. جان گرامی فدا بنام علی

‏21 رمضان المبارک
‏یومِ شہادت شیرِ خدا، دامادِ رسولﷺ، سرتاج جگر گوشہ رسولﷺ، والد نواسہ رسولﷺ،حضرت امیر المومنین مولا علی علیہ السلام۔۔
جہاد کی کامیابی کا طرۂ امتیاز ہی شہادت ہے۔ اسی لئے مولا علی علیہ السلام فرماتے ہیں "فزت و رب الکعبہ" رب کعبہ کی قسم علی آج کامیاب ہوا۔
امیرالمومنین (ع) نھج البلاغہ خطبہ ۱۵۶ شهادت کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ!
,, میں نے رسول خداﷺ سے کہا اے پیغمبر خداﷺ کیا آپ نے جنگ احد کے دن کہ جب چند اصحابِ کرام درجہ شہادت پر فائز ہوئے اور مجھے شہادت نصیب نہ ہوئی کہ جو مجھ پر بڑا گراں گزرا تو آپ صل اللہ علیہ وسلم نے اس وقت مجھے کہا تھا کہ ( اے علی (ع) ) تمہیں آنے والے دنوں میں شہادت نصیب ہوگی۔
اس کے بعد مولا (ع) فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ ,, ایساہی ہوگا کہ تم شہادت پاؤ گے ۔ جب تم شہادت کے درجے پرفائز ہوگے تو اس وقت تمہارے صبر کا کیا عالم ہوگا ؟
میں نے رسول ﷺکو جواب دیا کہ اے پیغمبر خدا (ﷺ) شہادت، صبر کا مقام نہیں بلکہ خوشی اور شکر کا مقام ہے۔۔
امام علی علیہ السلام کی نگاہ میں شہادت شکر اور خوشی مقام ہے مولا کو شہادت سے بہت انسیت تھی اور شہادت کے طلبگار تھے۔ امام علی علیہ السلام کی نگاہ میں شہادت، شہد کی طرح شیرین و خوبصورت ہیں۔
یہ ایک ایسا احساس ہے جس میں ، اپنی تمام خواہشات ، مال و دولت، اپنے عزیز و اقارب سب کو پہلے خدا کی راہ میں قربان کرنا پڑتا ہیں ، اور اپنا ہر عمل خدا کیلئے انجام دیتا ہے۔ اس کے بعد وہ شہادت کی شیریں لذت کو محسوس کرتا ہیں۔
امیر المومین علی علیہ السلام بہترین پیشوا ، عادل امام ، حق طلب خلیفہ ، یتیم نواز اور ہمدرد حاکم ، کامل ترین انسان ، خدا کا ولی ، رسول خدا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جانشین، کو روئے زمین پر سب سے شقی انسان عبد الرحمنٰ ابنِ ملجم نے قتل کرڈالا اور وہ شہادت کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہوکر ۔۔پیغمبروں اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ہمنشین ہوے اور امت کو اپنے وجودِ بابرکت سے محروم کر گئے۔۔۔
*دنیا میں بادشاہوں اور حکمرانوں کو انکی نا انصافیوں اور ظلم و جبر کی وجہ سے قتل کیا جاتا ھے لیکن مولا علی علیہ السلام وہ ہستی ہیں کہ جنکو انکے شدت عدل کی وجہ سے شہید کیا گیا۔۔۔*
مُسلمِ اوّل شہِ مرداں علی
عشق را سرمایۂ ایماں علی

پہلے مسلمان حضرت علی علیہ السلام ہیں، مردوں کے سردار علی علیہ السلام ہیں۔ عشق کیلیے ایمان کا سرمایہ علی علیہ السلام ہیں۔
ذاتِ اُو دروازہٴ شہرِ علوم
زیرِ فرمانش حجاز و چین و روم

انکی ذات شہر علوم کا دروازہ ہے اور انکے فرمان کے زیر تابع حجاز و چین و روم یعنی ساری دنیا ہے۔

(علامہ اقبال، اسرارِ خودی، در شرحِ اسرارِ اسمائے علی مرتضیٰ)
 

سیما علی

لائبریرین
ہر دور کے فرعون پہ مولا مرا غالب
ایمانِ علی مظہرِ شانِ ابوطالب

عاجز ہوئے اس در پہ معانی و مطالب
ہر ایک ولی ان کی محبت کا ہے طالب
صفدر ہمدانی
 

سیما علی

لائبریرین
علی امام من است و منم غلام علی
ہزار. جان گرامی فدا بنام علی

‏21 رمضان المبارک
مولا علی علیہ السلام فرماتے ہیں "فزت و رب الکعبہ" رب کعبہ کی قسم علی آج کامیاب ہوا۔

حضرت علی تین سال تک اپنے والدین کے پاس رہے اور اس کے بعد پیغمبر (ﷺ) نے آپ کی کفالت کا ذمہ لیااور حضرت علی براہ راست حضرت محمدمصطفےٰﷺ کی زیرنگرانی پرورش پانے لگے۔آپﷺ نے انتہائی محبت وشفقت سے آپ کی علمی اوراخلاقی تربیت کی ۔کچھ توحضرت علی کے جوہراور اس پر رسول اکرمﷺ جیسے بلند مرتبہ مربیّ کا فیض وتربیت کہ حضرت علی دس برس میں اتنی بلندی پرپہنچ گئے کہ پیغمبر اکرمﷺ کی رسالت کی تصدیق کی۔جوخودآغازِعلم ہو جو مدینتہ العلم کامصداق ہو۔ وہ جس کی تربیت کرے تووہ باب العلم سے کم کیونکر ہوگا۔جس پرخدا اور اس کے ملائکہ درود وسلام بھیجیں تو اس کی آغوش میں تربیت پانے والے علی (رض )کی طرف دیکھنا اور اس کا ذکرعبادت سے کم نہ ہوگا۔
شہادت امام علی علیہ السلام پر تمام اہل اسلام کو ہدیۂ تعزیت!
ابن ابی الحدیدلکھتے ہیں:
’’میں کیاکہوں اس مرد کے بارے میں جس کے دشمن اس کے فضائل کے قائل تھے اور نہ تو اس کے فضائل چھپاسکے اورنہ ہی انکار کرسکے‘‘۔’’آپ میدانِ شجاعت کے وہ ہمالیہ ہیں جنہوں نے گزرنے والوں کوبھلوادیا اور آنے والوں کو اپنے وجود میں فنا کیا، وہ مرد دلاور جوکبھی فرار نہیں ہوتے اوردشمن کی کثرت سے مرعوب نہیں ہوتے اورکسی سے دست وگریبان نہیں ہوئے اورکبھی ایسا وار نہ کیا کہ دوسرے وار کی ضرورت پڑے‘‘۔حضرت علی علیہ السلام نے زندگی کے ہرپہلو کی تشریح کی چاہے وہ جنگ کا میدان ہویا علم ، معاشرتی پہلو یا سیاسی باریک بینی، عبادت وتقویٰ ہوکہ سماجی تعلقات آپ ہرمعاملے میں اپنی مثال آپ ہیں۔جب تک آپ لوگوں کی دینی ودنیاوی خدمت کافرض ادا نہ کرتے اس وقت تک مطمئن نہ ہوتے۔رات کے وقت کھانے کی چیزیں پشت پراٹھاتے اورغربا ومساکین کے گھروں میں پہنچاتے، انہیں آپ معلوم نہ ہونے دیتے کہ رات کے وقت ا ن کی دست گیری کرنے والا کون ہے؟
لوگوں کونمازپڑھاتے اوراپنے قول وعلم سے ان کوتعلیم دیتے، تہجدکی نمازاداکرتے اور رات زیادہ ہوجانے پر آرام فرماتے۔پھرصبح اندھیرے ہی مسجد میں چلے آتے۔آپ جب خلافت کے منصب پرفائز ہوئے تو کوفہ کے دارالامارہ میں قیام نہیں کیا۔بلکہ ایک کچے مکان میں رہائش اختیارکی۔دارالامارہ میں غربا کو رہائش دی۔آپ نے کپڑے اور غذا خریدنے کے لئے کئی مرتبہ اپنی تلوار فروخت کی تھی۔عقبہ بن علقمہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہواتو میں نے انہیں خشک روٹی کا ٹکڑا کھاتے ہوئے دیکھا۔میں نے کہا امیرالمومنین آپ روٹی کے خشک ٹکڑے کھارہے ہیں؟۔۔۔آپ نے فرمایا: ابوالجنوب رسو ل خداﷺ اس سے بھی زیادہ سوکھی روٹی کھایا کرتے تھے اور میرے کپڑوں کی بہ نسبت زیادہ کھردرے کپڑے پہنا کرتے تھے اور اگر میں نے حضورﷺ کے طریقے کو چھوڑ دیا تو مجھے ڈرہے کہ میں ان سے بچھڑ جاؤں گا۔
سائل کودیتے وقت مساوات کاہمیشہ خیال رکھا۔ایک دفعہ دوعورتیں آئیں اور اپنی محتاجی کا اظہارکیا۔آپ نے مستحق جان کر ان کو کچھ کپڑا اورکھانا خرید کر دینے کا حکم دیااور کچھ مال عنایت کیا۔لیکن ان میں سے ایک نے کہا کہ اس کوکچھ زیادہ عطاکیاجائے کہ وہ عرب ہے اوراس کی ساتھی غیرعرب۔آپ نے تھوڑی سی مٹی ہاتھ میں لی اوراسے دیکھ کرفرمایا۔”مجھے نہیں معلوم کہ اطاعت اور تقویٰ کے علاوہ کسی اوروجہ سے بھی اللہ نے کسی کوکسی پرفوقیت دی ہے۔‘‘
حضرت علی نے تمام زندگی اسلام اورمسلمین کی خدمت کرتے ہوئے تکالیف برداشت کیں۔چاہے وہ زمانہ پیغمبر اسلام کے ساتھ جنگوں میں شامل ہوکر شمشیرزنی کا ہویا زمانِ خلافت صحابہ ہو یا اپنی خلافت کا زمانہ، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ علی (رض ) نے سب سے زیادہ تکالیف اپنی خلافت اور امامت کے دور میں اٹھائیں کیونکہ آپ عدل وانصاف کانمونہ تھے۔اس کی وجہ سے مسلمانوں کے کئی گروہ آپ کے برخلاف ہوئے اورجنگ پر آمادہ ہوتے اورلوگوں کاایک گروہ جو خارجی کہلائے آپ کے مقابلے میں جنگ نہروان میں شکست خوردہ ہوکر واپس پلٹ گیا۔40ھ میں جنگ نہروان کے چند بچے خوارج نے مکہ میں جمع ہوکر حضرت علی کو قتل کرنے کے منصوبے پراتفاق کیا اور اس کے لئے عبدالرحمٰن ابن ملجم کا انتخاب کیا۔ وہ آخرماہِ شعبان میں کوفہ آیا اورمحلہ بنی کندہ میں خوارج کے ہاں قیام کیا۔مگرکسی کو اپنے ارادے سے آگاہ نہ کیا ۔

انیسویں رمضان کی شب کو حضرت علی علیہ السلام اپنی دختر جناب اُم کلثوم کے ہاں تشریف فرماتھے۔انہوں نے جوکی دو روٹیاں ایک پیالہ دودھ کااورایک طشتری میں نمک رکھ کردیا۔آپ نے کھانے کودیکھ کر فرمایا:کہ میں نے رسول اللہﷺ کی پیروی میں کبھی یہ گوارہ نہیں کیا کہ ایک وقت میں دسترخوان میں دوقسم کی چیزیں ہوں۔اے بیٹی دنیا کے حلال میں حساب اورحرام میں عذاب ہے۔کیا تم چاہتی ہو کہ تمہارا باپ دیرتک موقع حساب میں کھڑا رہے۔ان دوچیزوں میں سے ایک اٹھالو۔جنابہ ام کلثوم نے دودھ کا پیالہ اٹھالیا۔آپ نے چند لقمے نمک کے ساتھ تناول فرمائے اور مسجد جانے کے ارادے سے اٹھ کھڑے ہوئے۔جب صحن خانہ میں تشریف لائے تو گھرمیں پلی بطخیں پھڑپھڑانے اور چیخنے لگیں۔کسی نے بطخوں کو ہٹانا چاہا توفرمایا کہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔اور حضرت ام کلثوم سے فرمایا۔بیٹی یہ بے زبان جانور ہیں ان کے آب ودانہ کاخیال رکھنا، اگر نہ رکھ سکو توآزاد کردینا۔
آپ محراب مسجد میں تشریف لے آئے اور صبح کی پہلی رکعت سے سراٹھایا کہ ابن ملجم نے زہرمیں بجھی تلوار آپ کے سراقدس پرماری اورآپ نے بے ساختہ فرمایا۔’’ رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا‘‘۔اور پھر سورۃ طہٰ کی آیت تلاوت فرمائی:
’’منھا خلقنا کم وفیھا نعیدکم ومنھا نخرجکم تارۃ اخری‘‘۔’’ہم نے تم کو خاک سے پیداکیاہے اور اسی خاک میں واپسی پلٹ دیں گے،اورپھر اسی خاک میں تمہیں دوبارہ اٹھائیں گے‘‘۔
ضرب کے بعدطبیب کوبلایاگیا۔طبیب نے زخم دیکھنے کے بعد کہا جتنا ہوسکے امام علی کودودھ پلایا جائے۔تاریخ میں ہے جب یہ خبر کوفے میں پھیلی توہر بچے کے ہاتھ میں دودھ کا پیالہ تھا۔جو امام علی کو پکاررہے تھے۔یاعلی۔۔۔یاعلی۔۔۔یاعلی یہ دودھ ہمارے مولا کو دیں اورہم یتیم ہونے سے بچ جائیں۔اوربالآخر اکیسویں رات کا دوتہائی حصہ گزرا تو جان ،جان آفرین کے سپردکی!
اکیس ۲١ رمضان المبارک حضرت علی علیہ السلام کا یومِ شہادت ، اسی مناسبت سے علامہ اقبال کے کچھ اشعار انکی کتاب اسرارِ خودی سے۔

مُسلمِ اوّل شہِ مرداں علی
عشق را سرمایۂ ایماں علی
پہلے مسلمان علی ع ہیں، مردوں کے سردار علی ہیں۔ عشق کیلیے ایمان کا سرمایہ علی ہیں۔
از ولائے دودمانش زندہ ام
در جہاں مثلِ گہر تابندہ ام
میں انکے خاندان کی محبت سے زندہ ہوں، اور دنیا میں موتیوں کی مانند چمک رہا ہوں۔
زمزم ار جوشد ز خاکِ من، ازوست
مے اگر ریزد ز تاکِ من، ازوست
اگر میری خاک سے زمزم ابلتے ہیں تو یہ انہی علی علیہ السلام ہی سے ہے اور اگر میری انگور کی شاخ سے مے ٹپکتی ہے تو یہ انہی علی علیہ السلام ہی سے ہے۔

از رُخِ اُو فال پیغمبر گرفت
ملّتِ حق از شکوہش فر گرفت
انکے چہرۂ مبارک سے پیغمبر (صل اللہ علیہ وسلم) فال لیا کرتے تھے، ملّتِ حق نے انکی شان و شوکت سے عزت حاصل کی۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
تُم کو ملی ہے، بزمِ طریقت میں صندلی!
تمہارا خَوشہ چِین ہے ، ہر پِیر ، ہر ولی !
علیؓ علیؓ
.... O....
ہو بابِ عِلم ، عِلم میں عالی مقام ہو!
خیبر شِکن ضَرور ہو، پر دِل ہے مخملی!
علیؓ علیؓ
....O....
تُم بزم کائنات میں ہو، مِثل آفتاب!
روشن تمہارے نور سے ، ہر شہر، ہر گلی!
علیؓ علیؓ
....O....
تُم نائب رسول ہو اور رُکن پنجتنؓ!
ظاہر ہے تُم پہ رازِ حقیقت ، حفی، جلی!
علیؓ علیؓ
....O....
ہر گُل میں تازگی ہے ، محمد کے نام سے!
تُم سے مہک کر رہی ہے ، گُلستاں کی ہر کلی!
علیؓ علیؓ
....O....
مولائے کائنات ہو ، مُشکل کُشا بھی ہو!
دیکھا نہ آسمان نے تُم سا مہا بلی!
علیؓ علیؓ
اثر چوہان
 

سیما علی

لائبریرین

بہترین تجارت​

مولائے کائینات فرماتے ہیں ۔۔۔
وَابْتَاعُوْا مَا يَبقَى لَكُمْ بِمَا يَزُوْلُ عَنْكُم۔ (خطبہ 62)
دنیا کی فانی چیزیں دے کر باقی رہنے والی چیزیں خرید لو۔
اس فرمان میں انسانی زندگی کے سرمایہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے. ایک حصہ وہ ہے جو محدود زمانے کے لئے کسی کی ملکیت رہے گا اور کچھ وقت کے بعد یا مالک نہ رہے گا یا ملکیت نہ رہے گی۔ دوسرا وہ سرمایہ ہے کہ مالک رہے نہ رہے سرمایہ رہے گا۔ اب کسی ذی شعور کو یہ فیصلہ کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی کہ وہ ختم ہونے والے سرمائے کے مقابلے میں باقی رہنے والے سرمائے کو انتخاب کرے ۔مگر مشکل یہ ہوتی ہے کہ وہ کیسے جانے کہ ختم ہونے والا سرمایہ کونسا ہے اور باقی رہنے والا سرمایہ کونسا ہے۔ قرآن مجید نے اسے بڑے واضح الفاظ میں بیان کر دیا ہے کہ جو فنا ہونے والے مالک سے مخصوص ہوگا وہ مال بھی فنا ہو جائے گا اور جو سرمایہ ہمیشہ رہنے والے مالک اللہ کے پاس جمع ہو جائے گا وہ ہمیشہ رہے گا۔ اللہ اس سرمائے کو اپنے لئے نہیں اپنی مخلوق کے لئے خرچ کرنے کا کہتا ہے پس جو سرمایہ مخلوق خدا پر خرچ ہوگا وہ باقی رہے گا۔
 
حضرت مولا علی مشکل کشا رضی اللہ عنہ کی ذات مبارکہ اللہ کریم کی جانب سے معجزہ ہے۔ مولا کی حیات مبارکہ عکاس سیرت حضرت محمد مصطفیٰ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم ہے۔بغض رکھنے والا بے ادب اور گستاخ اہلیبت ہے۔
 
Top