یومِ شہادت حضرت عمرِ فارُوق رضی اللہ عنہ(یکم محرم الحرام)

کاشفی

محفلین
مدح سیّدُنا عُمَر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ
یہ دل ہو آشنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا
تصور ہو خدا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا
بلاشک کاشفِ وحی خدا تھا
کلامِ حق نما حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا
خلیفہ اور راتوں کو کرے گشت
عجب کچھ عدل تھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا
خلیفے دوسرے میں مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے
ہے چرچا جابجا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا
یہ ہے ہر اُمتی کو حکم احمد صلی اللہ علیہ وسلم
کیا کر تذکرا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا
ملا ہم کو جو آرامِ تراویح
یہ سب ہے آسرا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا
فتوحات اتنے یہ باعث ہے کن کا
یہ ہے فیض ِ عُلا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا
رہے ہر لحظہ ہر دم یا الہی
زبان پر ذکر یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا
ہوئی ہیبت وہیں بس جس نے دیکھا
وہ روئے باصفا حضرت عمررضی اللہ عنہکا
 
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا فاروقِ اعظم کی مثال فرشتوں میں جبریل امین کی طرح ہے جو خدا تعالی کا عذاب دنیا میں خدا کے دشمنوں پر لاتے ہیں اور پیغمبروں میں اسکی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی طرح ہے جنہوں نے اپنی نا فرمان قوم کے بارے میں فرمایا و قال نوح رب لا تذر علی الارض من الکافرین دیارا ترجمہ: اور نوح علیہ السلام نے عرض کی اے پروردگار زمین پر کافروں کو بستا ہوا نہ چھوڑ۔ اور موسیٰ علیہ السلام کی طرح ہے جنہوںنے فرعون اور فرعونیوں کے بارے میں فرمایا تھا: ربنا اطمس علی اموالہم و اشدد علی قلوبہم فلا یؤمنوا حتی یرو العذاب الالیم ترجمہ: اے مولا ان کے مالوں کو مٹا ڈال ان کے دلوں میں سختی پیدا فرما وہ ایمان نہ لائیں جب تک کہ دردناک عذاب کو نہ دیکھیں۔
اس سےفاروقِ اعظم کی فضیلت کا پتہ چلتا ہے جس طرح نوح اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کفار کے حق میں سخت تھے اسی طرح آپ بھی کفار پر سخت تھے اشداء علی الکفار آپ کا خاصہ تھا۔ آپ کے فضائل بے شمار ہیں۔
حضرت عمار بن یاسر فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ ابھی ابھی میرے پاس جبریل امین آئے میں نے ان سے کہا اے جبریل آج عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے فضائل بیان کرو۔ انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو سال خدا تعالیٰ کے احکامات کی تبلیغ کرتے رہے اگر میں بھی اتنا عرصہ دنیا میں رہ کر فاروق اعظم کے فضائل بیان کروں تو ان کے فضائل ختم نہ ہوں۔ (ص ۸۰ الصواعق المحرقہ ص۴۶ تاریخ الخلفاء)
 
امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی چادر دیکھ کر آگ بجھ گئی!
روایت میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ایک مرتبہ ناگہاں ایک پہاڑ کے غار سے ایک بہت ہی خطر ناک آگ نمودار ہوئی جس نے آس پاس کی تمام چیزوں کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا جب لوگوں نے دربارِ خلافت میں فریاد کی تو امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ نے تمیم داری رضی اللہ عنہ کو اپنی چادر مبارک عطا فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ تم میری یہ چادر لے کر آگ کے پاس چلے جاؤ چنانچہ حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ اس چادر کو لے کر آگ کے پاس چلے گئے اور جیسے ہی وہ آگ کے قریب پہنچے یکا یک وہ آگ بجھنے اور پیچھے ہٹنے لگی یہاں تک کہ وہ غار کے اندر چلی گئی اورجب یہ چادر لے کر غار کے اندر گئے تو آگ بالکل ہی بجھ گئی اور پھر کبھی ظاہر نہیں ہوئی۔ (ازالۃ الخفا مقصد۲ ص۱۷۲) (کراماتِ صحابہ ص۷۸۔۷۹)
 

کاشفی

محفلین
سدا رہا کفر جس سے لرزاں
وہ جس کے سائے سے بھاگے شیطان
جرار عادل امیر تھا وہ
امیری میں بھی فقیر تھا وہ
دعائے نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ سمر ہے
عمر رضی اللہ عنہ ، عمر رضی اللہ عنہہے
عمر رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہہے
 
Top