محترم نایاب صاحب دوران گفتگو کوئی بات بری لگے تو پیشگی معذرت
میرے محترم بھائی
علم حاصل کرنا مقصود ہے ۔
توفیق تو من جانب اللہ ہے ۔
کوشش کرنے پر
چاہے جوتیاں سیدھی کرتے ملے یا جوتیاں کھاتے ۔
اگر اہل کتاب انبیاء کو اللہ کا بیٹا کہیں تو وہ اہلِ کتاب شمار ہوں گے یا مشرک؟؟؟؟؟؟
قران پاک کے نزول کے وقت جنہیں " اہل کتاب " کا درجہ دیا گیا ۔ وہ اس وقت ان تین الہامی کتابوں کے اتباع میں تھے جن میں تحریف ہو چکی تھی ۔ اور اللہ تعالی نے ان کی تحریف کو کھول کر بیان کرتے نہ صرف انہیں " اہل کتاب " کا درجہ دیا ۔ بلکہ ان کے بارے کئی آیات میں کھول کر بیان فرما دیا کہ ان سے کیا سلوک ہوگا ۔ اور ان کی " سزا و جزا " کیا ہوگی ۔ اگر اللہ نے انہیں " مشرک " جگہ " اہل کتاب " کہتے مخاطب کیا ۔ تو ہم کیسے کوئی حکم لگا سکتے ہیں ۔
قران پاک " اہل کتاب " بارے واضح کلام کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورۃ آل عمران ۱۱۰
تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالی پر ایمان رکھتے ہو، اگر اہل کتاب بھی ایمان لے آتے تو انکے لیے بہتر تھا، ان میں ایمان والے بھی ہیں۔۔۔۔۔
سورۃ آل عمران ۱۱۳
یہ سارے کے سارے یکساں نہیں بلکہ ان اہل کتاب میں ایک جماعت حق پر قائم رہنے والی بھی ہے جو راتوں کے وقت بھی اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور سجدے بھی کرتے ہیں۔
سورۃ آل عمران ۱۱۴
یہ اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان بھی رکھتے ہیں، بھلائیوں کا حکم کرتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں جلدی کرتے ہیں 150 یہ نیک بخت لوگوں میں سے ہیں۔
سورۃ آل عمران ۱۱۵
یہ جو کچھ بھی بھلائیاں کریں انکی ناقدری نہ کی جائیگی اور اللہ تعالٰی پرہیز گاروں کو خوب جانتا ہے۔
سورۃ آل عمران ۱۹۹
یقینا اہل کتاب میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالٰی پر ایمان لاتے ہیں اور تمہاری طرف جو اتارا گیا ہے اور انکی جانب جو نازل ہوا ہے اور پر بھی، اللہ تعالٰی سے ڈرتے ہیں اور اللہ تعالٰی کی آیتوں کو تھوڑی تھوڑی قیمتوں پر بیچتے بھی نہیں، انکا بدلہ انکے رب کے پاس ہے، یقینا اللہ تعالٰی جلد حساب لینے والا ہے۔
سورۃ القصص ۵۲
جسکو ہم نے اس سے پہلے کتاب عنایت فرمائی وہ تو اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔
سورۃ القصص ۵۳
اور جب اسکی آیتیں انکے پاس پڑھی جاتی ہیں تو وہ کہ دیتے ہیں کہ اسکے ہمارےرب کی طرف سے حق ہونے پر ہمارا ایمان ہے، ہم تو اس سے پہلے ہی مسلمان ہیں۔
سورۃ البقرۃ ۶۲
مسلمان ہوں، یہودی ہوں، عیسائی ہوں، یا صابی ہوں جو کوئی بھی اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے انکے اجر انکے رب کے پاس ہیں اور ان پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ اداسی۔
سورۃ المائدہ ۶۹
مسلمان، یہودی ، صابی، اور نصرانی کوئی بھی ہو، جو بھی اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے وہ محض بے خوف رہے گا اور بلکل بے غم ہو جائے گا۔
سورۃ البقرۃ ۱۲۱
جنہیں ہم نے کتاب دی ہے اور وہ اسے پڑھنے کے حق کے ساتھ پڑھتے ہیں وہ اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں ۔
سورۃ النساء ۱۲۵
باعتبار دین کے اس سے اچھا کون ہے ؟ جو اپنے کو اللہ کے تابع کردے اور بھی نیکو کار، ساتھ ہی یکسوئی والے ابراھیم کے دین کی پیروی کر رہا ہو اور ابراھیم کو اللہ تعالٰی نے اپنا دوست بنا لیاہے۔
سورۃ النساء ۱۶۲
لیکن ان میں سے جو کامل اور مضبوط علم والے ہیں اور ایمان والے ہیں جو اس پر ایمان لاتے ہیں جو آپ کی طرف اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا اور نمازوں کو قائم رکھنے والے ہیں اور زکواۃ کے ادا کرنے والے ہیں اور اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہیں یہ ہیں جنہیں ہم بہت بڑے اجر عطا فرمائینگے۔
سورۃ المائدہ ۵
کل پاکیزہ چیزیں آ ج تمھارے لیے حلال کی گئی ہیں اور اہل کتاب کی ذبیحہ تمھارے لیے حلال ہے اور ذبیحہ انکے لیے حلال ہے اور پاک دامن مسلمان عورتیں اور جو لوگ تم سے پہلے کتاب دیئے گئے ہیں انکی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں جبکہ تم انکے مہر ادا کرو اس طرح کہ ان سے باقاعدہ نکاح کرو یہ نہیں کہ اعلانیہ زنا کرو یا پوشیدہ بد کاری کرو، منکرین ایمان کے اعمال ضائع اور اکارت ہیں اور آخرت میں وہ ہارنے والوں میں سے ہیں۔
سورۃ البقرۃ ۱۳۶
اے ایمان والو، تم سب کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس چیز پر بھی جو ہماری طرف اتاری گئی اور جو چیز ابراہیم، اسماعیل ، اسحاق، یعقوب اور انکی اولاد پر اتاری گئی اور جو کچھ اللہ کی جانب سے موسٰی اور عیسٰی اور دوسرے انبیاء کو دیئے گئے۔ ہم ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے، ہم اللہ کے فرمانبردا ہیں۔
سورۃ البقرۃ ۱۳۷
اگر وہ تم جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں اور منہ موڑیں تو وہ صریح اختلاف میں ہیں، اللہ تعالٰی ان سے عنقریب آپ کی کفایت کریگا۔ اور وہ خوب سننے اور جان نے والاہے۔
سورۃ آل عمران ۶۴
آپ کہدیجئے کہ اہل کتاب ایسی انصاف والی بات کی طرف آوَ جو ہم میں تم میں برابر ہے کہ ہم اللہ تعالٰی کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں، نہ اللہ تعالٰی کو چھوڑ کر آپس میں ہی ایک دوسرے کو رب بنائیں۔پس اگر وہ منہ پھیر لیں تو تم کہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہیں۔
سورۃ آل عمران ۶۸
سب لوگوں سے زیادہ ابراھیم سے قریب تر وہ لوگ ہیں جنہوں نے انکا کہا مانا اوراس نبی کا اور جو لوگ ایمان لائے، مومنوں کا ولی اور سہارا اللہ ہی ہے۔
سورۃ الانعام ۲۰
جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ لوگ رسول کو پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ جن لوگوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا ہے سو وہ ایمان نہیں لایئنگے۔
سورۃ انحل ۱۲۵
اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہتر طریقے سے گفتگو کیجئے، یقینا آپ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو بھی خوب جانتا ہے اور وہ راہ یافتہ لوگوں سے بھی پورا واقف ہے۔
سورۃ المائدہ ۸۲
یقینا آپ ایمان والوں کا سب سے زیادہ دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پائینگے اور ایمان والوں سے سب زیادہ قریب آپ یقینا انہیں پائینگے جو اپنے آپکو نصاریٰ کہتے ہیں یہ اس لیے کہ انمیں علماء اور عبادت کے لیے گوشہ نشین افراد پائے جاتے ہیں اور اس وجہ سے کہ وہ تکبر نہیں کرتے ۔
سورۃ العنکبوت ۴۶
اور اہل کتاب کے ساتھ بحث و مباحثہ نہ کرو مگر اس طریقہ پر جو عمدہ ہو سوائے انکے جو ان میں ظالم ہیں اور صاف اعلان کردو کہ ہمارا تو اس کتاب پر بھی ایمان ہے جو ہم پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو تم پر اتاری گئی، ہمارا تمھارا معبود ایک ہی ہے، ہم سب اسی کے حکم بردار ہیں۔
سورۃ آل عمران ۱۱۳ - ۱۱۵
یہ سارے کہ سارے یکساں نہیں بلکہ ان اہل کتاب میں ایک جماعت حق پر قائم رہنے والی بھی ہے جو راتوں کے وقت بھی کلام اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور سجدے بھی کرتے ہیں۔ یہ اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، بھلائیوں کا حکم کرتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں جلدی کرتے ہیں یہ نیک بخت لوگوں میں سے ہیں۔ یہ جو کچھ بھی بھلائیاں کریں انکی ناقدری نہ کی جائیگی اور اللہ تعالٰی پرہیز گاروں کو خوب جانتا ہے۔
سورۃ الممتحنہ ۸
جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمہیں جلاوطن نہیں کیا ان کے ساتھ سلوک و احسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاوَ کرنے سے اللہ تعالٰی تمھیں نہیں روکتا، بلکہ اللہ تعالٰی تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
گذشتہ آیت میں یہودیوں کے برے افراد کی شدید مذمت کے بعد قرآن کریم اس آیت میں عدالت کے پیش نظر اور ان کے اچھے افراد کے حقوق کے احترام کی وجہ سے اور یہ حقیقت بتانے کے لئے ،کہ ان سب کو ایک نگاہ سے نہیں دیکھا جا سکتا ، کہا کہ اہل کتاب تمام کے تما م ایک جیسے نہیں بلکہ تباہ کار افراد کے مقابلے میں ایسے نیک طینت افراد بھی موجود ہیں جو خدا کی اطاعت اور ایمان پر ثابت قدم ہیں وہ ہمیشہ نیم شب کو آیات خدا کی تلاوت کرتے رہتے ہیں اور عظمت پروردگار کے سامنے سر بسجود ہو جاتے ہیں اور خدا و روز جزاء پر ایمان رکھتے ہیں، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کافریضہ ادا کرتے ہیں اور نیک کاموں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے ہیں ۔ مختصراً یہ کہ وہ صالح اور با ایمان افراد ہیں ۔
(جب میں تم لوگوں کو فریضۂ نبوت و رسالت ادا کرنے کے لئے دنیا میں بھیجوں گا تو تمہیں کتاب بھی دوں گا اور حکمت سے بھی نوازوں گا، لیکن اگر اسی دوران وہ رسول آگیا جو تمہاری کتابوں کی تصدیق والا ہوگا تو (تمہاری نبوت و رسالت کی ذمہ داریاں ختم ہوجائیں گی، تمہاری کتابیں منسوخ ہو جائیں گی اور) تمہیں اس رسول پر ایمان لانا پڑے گا اور اس کے ساتھ امداد و تعاون کرنا ہوگا۔)
میرے محترم بھائی یہ جس " عہد پاک " کا آپ نے حوالہ دیا ۔ اگر ممکن ہو تو " محترم مترجم " کا اسم گرامی عطا فرمائیں ۔
اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اﷲ نے انبیاءسے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا: کیا تم نے اِقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں،(محترم طاہر القادری )
اور (یاد کرو) جب خدا نے تمام پیغمبروں سے یہ عہد و اقرار لیا تھا کہ میں نے جو تمہیں کتاب و حکمت عطا کی ہے۔ اس کے بعد جب تمہارے پاس ایک عظیم رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیزوں (کتابوں) کی تصدیق کرنے والا ہو تو تم اس پر ضرور ایمان لانا اور ضرور اس کی مدد کرنا ارشاد ہوا۔ کیا تم اقرار کرتے ہو؟ اور اس پر میرے عہد و پیمان کو قبول کرتے ہو اور یہ ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انہوں نے کہا ہاں ہم نے اقرار کیا۔ ارشاد ہوا۔ تم سب گواہ رہنا اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔ (محترم نجفی )
یاد کرو، اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ، "آج ہم نے تمہیں کتاب اور حکمت و دانش سے نوازا ہے، کل اگر کوئی دوسرا رسول تمہارے پاس اُسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمہارے پاس موجود ہے، تو تم کو اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی" یہ ارشاد فرما کر اللہ نے پوچھا، "کیا تم اِس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو؟" اُنہوں نے کہا ہاں ہم اقرار کرتے ہیں اللہ نے فرمایا، "اچھا تو گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں ۔۔۔ (محترم ابو الاعلی مودودی )
جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب وحکمت دوں پھر تمہارے پاس وه رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمہارے لئے اس پر ایمان ﻻنا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے۔ فرمایا کہ تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمہ لے رہے ہو؟ سب نے کہا کہ ہمیں اقرار ہے، فرمایا تو اب گواه رہو اور خود میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں ۔۔ (محمد جونا گڑھی )
اور اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے تمام انبیائ سے عہد لیا کہ ہم تم کو جو کتاب و حکمت دے رہے ہیں اس کے بعد جب وہ رسول آجائے جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے تو تم سب اس پر ایمان لے آنا اور اس کی مدد کرنا .اور پھر پوچھا کیا تم نے ان باتوں کا اقرار کرلیا اور ہمارے عہد کو قبول کرلیا تو سب نے کہا بیشک ہم نے اقرار کرلیا- ارشاد ہوا کہ اب تم سب گواہ بھی رہنا اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں ۔۔(محترم جوادی)
اور جب خدا نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور دانائی عطا کروں پھر تمہارے پاس کوئی پیغمبر آئے جو تمہاری کتاب کی تصدیق کرے تو تمھیں ضرور اس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اس کی مدد کرنی ہوگی اور (عہد لینے کے بعد) پوچھا کہ بھلا تم نے اقرار کیا اور اس اقرار پر میرا ذمہ لیا (یعنی مجھے ضامن ٹہرایا) انہوں نے کہا (ہاں) ہم نے اقرار کیا (خدا نے) فرمایا کہ تم (اس عہد وپیمان کے) گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں ۔۔(محترم فتح محمد جالندھری)
اورجب الله نے نبیوں سے عہد لیا اور البتہ جو کچھ میں تمہیں کتاب ابور علم سے دوں پھر تمہارے پاس پیغنبر آئے جو اس چیز کی تصدیق کرنے والا ہو جو تمہارے پاس ہے البتہ اس پر ایمان لے آنا اور البتہ اس کی مدد کرنا فرمایا کیاتم نے اقرار کیا اور اس شرط پر میرا عہد قبول کیا انہوں نے کہا ہم نے اقرار کیا الله نے فرمایا تو اب تم گواہ رہو میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔۔ (محترم احمد علی )
اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا (ف۱۵۵) جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول (ف۱۵۶) کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے (ف۱۵۷) تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا، فرمایا کیوں تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا ؟ سب نے عرض کی، ہم نے اقرار کیا، فرمایا تو ایک دوسرے پر گواہ ہوجاؤ اور میں آپ تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں،۔ (امام احمد رضا خان )
اور جب خدا نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور دانائی عطا کروں پھر تمہارے پاس کوئی پیغمبر آئے جو تمہاری کتاب کی تصدیق کرے تو تمھیں ضرور اس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اس کی مدد کرنی ہوگی اور (عہد لینے کے بعد) پوچھا کہ بھلا تم نے اقرار کیا اور اس اقرار پر میرا ذمہ لیا (یعنی مجھے ضامن ٹہرایا) انہوں نے کہا (ہاں) ہم نے اقرار کیا (خدا نے) فرمایا کہ تم (اس عہد وپیمان کے) گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں ۔ (محترم جالندھری )
کیا یہ " عہد " امتیوں سے لیا گیا تھا یا کہ ان سے جنہیں " کتاب و حکمت " سے نوازا گیا تھا ۔
اس عہد کے پورا کر رکھنے کی ذمہ داری کس پر تھی ؟
بے شک نہ ہوں ۔ بات تو انکو شہید کہنے کی ہے۔ انہوں نے تو محض اپنے حق کے لئے آواز بلند کی تھی۔ وہ کوئی اللہ اور اسکے دین کے لئے تونہیں اٹھے تھے نا، اپنے مفاد کے لیے اٹھے تھے۔
قرآن نے تو صاف قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ کہا ہے ۔ یعنی جو اللہ کی را ہ میں قتل کئے جائیں۔جنت کے انعامات عالیہ تو صرف ان لوگوں کے لئے ہی ہیں۔ باقی پانی میں ڈوب کے مرنا وغیرہ ، وہ تو اس درجہ کو نہیں پاسکتے ناااااااااا۔
’شہید‘ کے لفظ کا استعمال برصغیر، بالخصوص پاکستان میں بہت عام ہے ۔ جب یہ لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے ایسی موت مراد ہوتی ہے جو کسی حادثے کے نتیجے میں یا کسی نیک مقصد کی جدوجہد میں آجائے ۔ دین کی حفاظت و سربلندی میں دشمن کے خلاف جنگ و جدال اور حق و انصاف کے لیے اٹھ کھڑا ہونا نیک مقصد کی نمایاں مثالیں ہیں۔
ہمارے ہاں اس لفظ کا استعمال عام ہے ۔ بعض اوقات اس میں اختلاف کی صورت بھی پیدا ہو جاتی ہے اور نوبت یہاں تک آ جاتی ہے کہ ایک فرد کو کچھ لوگ شہید قرار دے رہے ہوتے ہیں تو کچھ دوسرے لوگ اس کا انکار کر رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح کی صورت حال میں یہ سوال زیر بحث آ جاتا ہے کہ لفظ ’شہید‘ کی تعریف کیا ہے ۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ اس کو دیکھا جائے کہ اس لفظ کی اصل میں کیا حقیقت ہے اور ہمارے مذہب میں اس کی کیا حیثیت ہے؟
قرآن مجید میں یہ لفظ اپنی مختلف صورتوں میں کئی مقامات پر آیا ہے ۔ اس ضمن میں مخاطب کا لحاظ کرتے ہوئے ’شَاہِد‘، ’شَہِیْد‘، اور ’شُہَدَآء‘ کے الفاظ اختیار کیے گئے ہیں۔
سورۂ فتح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
(۴۸: ۸)
’’بے شک، ہم نے تم کو گواہی دینے والا ، خوش خبری پہنچانے والا اور آگاہ کر دینے والا بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں، یعنی صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم کی جماعت کو خطاب کرتے ہوئے یہی لفظ اختیار کیا ہے۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(۲: ۱۴۳)
’’اور اسی طرح ہم نے تمھیں ایک بیچ کی امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہی دینے والے بنو اور رسول تم پر گواہی دینے والا بنے۔‘‘
اسی طرح متعدد مقامات پر پوری امت کو مخاطب کرتے ہوئے بھی اس لفظ کو استعمال کیا گیاہے۔ سورۂ نساء میں ہے:
(۴: ۱۳۵)
’’اے ایمان والو، حق پر جمے رہو اللہ کے لیے اس کی شہادت دیتے ہوئے۔‘‘
" شہید " بارے گفتگو کرتے اکثر صاحب علم ہستیاں فرماتی ہیں کہ شہادت دو طرح کی ہوتی ہے۔
ایک حقیقی اور دوسری حکمی
اور جو " اہل کتاب " اپنی کتاب کے بیان سے مکمل متفق ہوتے اللہ سے ڈرتے اپنے پیغمبر و رسول کی تعلیمات کا اتباع کرتے ہیں ۔
کیا وہ اللہ سے کوئی اجر نہ پائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔ ؟
بہت دعائیں