یوم آزادی ہند

رئیس کوثر

محفلین
#یہ_کیسی_آزادی_ہے ؟
جہاں تذلیل ہو انساں کی، جہاں نسلوں کی بربادی
وہاں کس چیز کا دعویٰ، کہاں کا جشنِ آزادی ؟
آپ ستر سال سے لگاتار 15 اگست کے دن یوم آزادی کے نام سے ملک بھر میں کروڑوں کا جشن برپا کرتےہیں اپنے اسلاف کی قربانیوں کو یاد کرتےہیں، لیکن اس سے حاصل کیا ہوا آج تک؟ وہ تو آپ کی تاریخ کے خلاف قانون سازی کے لیے تیار بیٹھے ہیں!
آئیے اس پُر فریب دن کی مناسبت سے ہم غور کرلیتے ہیں کہ کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ یا آزادی کے نام پر نفسیاتی طورپر متاثر ہورہےہیں؟
☆☆☆

" جے شری رام _ جے ہنومان " اور ہندوتوا کے زہریلے نعروں کے درمیان خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے، پارلیمنٹ میں اکثریت کے نشے میں چور مرکزي سرکار کے صوبائی کھلاڑی دیگر ریاستوں میں جمہوری طورپر منتخب سرکاريں گرا رہےہیں،
ڈاکٹر امبیڈکر والے آئین ہند کا " بھگوا کرن " کیا جارہاہے
عوامی حقوق پر مشتمل قوانین کو منسوخ کیا جارہاہے، ایک سے ایک ظالمانہ اور آمرانہ قوانین پارلیمنٹ سے پاس کیے جارہےہیں
وزیرداخلہ امت شاہ دھڑلے سے پارلیمنٹ میں جھوٹ بول رہےہیں
آئین ہند جل رہاہے، کہنے کے لیے نہیں، بلکہ اسے چند ماہ پہلے عملاً نذرآتش کیاگیاہے، ہندوستان کی سب سے معزز کتاب جس کی توہین پر یہ سزا ہے کہ ایسے مجرموں کی ہندوستانی شہریت منسوخ کردی جائے گی، لیکن یہ کتاب جلائی گئی، منوسمرتی کے نفاذ کا الارم بجایا گیا،
غیر قانونی طریقے سے وادئ جنت نظیر کشمیر پر قانون سازی کردی گئی
کشمیر کو بھارتی جمہوریت میں ضم کرنے کا اعلان کردیاگیا
لیکن انہیں بھارت کا حصہ اسطرح بنایاگیا ہے کہ ان کو بنیادی انسانی سہولیات سے محروم کردیاگیاہے، راتوں رات ہزاروں کی فوجی طاقت کے ذریعے کشمیریوں کو محصور و محبوس کردیاگیا، چلنے پھرنے، انٹرنیٹ، ٹیلیفون اور ٹرانسپورٹرز کے تمام ذرائع کشمیریوں سے چھین لیے گئے،
انہیں عام بھارت کا حصہ اسطرح بنایاگیا کہ، ان لاکھوں کشمیریوں کو ان کے مذہبي تہوار " عیدالاضحیٰ " سے بھی روک دیاگیا
اور اب اسی درمیان " ۱۵ اگست " کا دن بھی آگیاہے
اور اسی دن کے عنوان سے نفرتوں اور ظلمتوں کی پرشور وادیوں میں ایک بار پھر غلامانہ آزادی کا یوم فریب برپا ہونے جارہاہے، روایتی شان و انداز کے ساتھ یوم آزادی کی تقریبات برپا ہونے جارہی ہیں، ہندوستان کی مرکزي حکومت جس کا بنیادی نکتۂ نظر آزادی کی قدروں کے خلاف منوسمرتی والا ہے وہ بھی یوم آزادی منائیں گے، ان کی نمائندگی اور سرکردگی میں پورا ملک یوم آزادی کے جشن میں ڈوب جائے گا، سبھی کو پرفریب آزادی کی غرقابی تہہ دل سے مبارک ۔
لیکن آج درحقیقت یوم احتساب ہے، جمہوری قدروں کو ہندوستان نے کس طرح حاصل کیا تھا؟ اور کس لیے حاصل کیا تھا؟ جن بنیادوں پے جمہوریت قائم کی گئی تھی، کیا آج ان کی ساکھ باقی ہے؟
*ستر سال سے جاری ہندوتوائی ریشہ دوانیاں اب منہ کھول کر کھڑی ہیں ان کی پیاس تیز ہورہی ہے وہ اپنی بالادستی والے شودرواد کے محل پر اب علانیہ حکم رانی چاہتےہیں*
*آپ یوم آزادی ضرور منائیں، لیکن!*
گائے کے نام پر قتل ہونے والے سینکڑوں معصوموں کا خون بھی یاد رکھیں،
اور جائزہ لیں، آپ کے آس پاس ایک بھیڑ ایک جم غفیر خوف اور ہراس کی نفسیات کے ساتھ بوکھلا کر، جشن آزادی کی طرف دوڑتی نظر آئے گی ۔ ڈر ڈر کر آزادی منانے والی یہ بھیڑ دراصل " حب الوطنی " کا سرٹیفکیٹ پانے کے لیے قطار تلاش رہی ہے… اور اسی تلاش میں انہوں نے اپنا ماضی غرقاب کردیا اور یہی رویہ ان کی نسلوں کا مستقبل برباد کردے گا_
مجھے معلوم ہےکہ زندگی پرستی کے اس دور میں، اپنا پیٹ اور اپنی فیملی خوش تو سب خوش کے اس مادیت زدہ دور میں، آپ کو میری یہ معروضات گراں گزریں گی، گنگا جمنی اَٹکلوں اور بدترین سیکولرزم کے اس دور میں آپ جیسے تیسے اپنی زندگی گزار دینا چاہتےہیں اور آپ نے اس کے لیے اپنی قومی شناخت تک کو روند ڈالاہے " اسی لیے " آپ کو میری باتیں پسند نہیں آئیں گی، لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز ہی سہی آپ اسے نظرانداز نہیں کرسکتے، کیونکہ آپ یہ دھوکہ تو اپنی مصلحت کوش زندگی پوری کرنے کے لیے کرجائیں گے، لیکن میرا اور میری نسلوں کا کیا ہوگا؟ اگر آج میں نے خود کو آپکی مصلحت اندوزیوں کے حوالے کردیا تو کل یہ درندے میری نسل کا کیا کرینگے؟ اس ملک کے پجاری طبقے کی تاریخ آپ نے " گنگا جمنی " غلامی میں بیچ دی ہوگی، ہم ایسے تاریخ کے مجرم نہیں بننا چاہتے_!
*کیا آپ نہیں جانتے؟…*
ہمارے ملک کے سربراہان کا لفظی نعرہ سواسو کروڑ ہندوستانیوں کے لیے ہوتاہے، لیکن اس خوش بیانی کی زمینی حقیقت یہ ہیکہ، ملک بھر کے اہم عہدوں پر RSS کے تربیت یافتہ افراد کا تقرر کیا جارہاہے،
تقریباﹰ سسٹم پر ایک مخصوص ذہنیت قابض ہوتی جارہی ہے،
اُس سسٹم کے مخلص افراد کا حشر جسٹس برج گوپال لویا کی صورت میں سامنے آرہاہے،
سنجیو بھٹ کا حشر بھی ہمارے سامنے ہے،
سماج کے مخلص افراد کا حال، گووند پانسرے، اور گوری لنکیش کی صورت میں سامنے آرہاہے،
صورتحال اسقدر بے قابو ہوچکی ہے، کہ سپریم کورٹ کے چار، چار ججز کو بھی میڈیا کا سہارا لیکر اعتراف کرنا پڑرہا ہے، کہ جمہوریت خطرے میں ہے،
*دوغلے پن کا عالم یہ ہیکہ،* ایک ہی جمہوری ملک میں کشمیر کے مظاہرین کے لیے پیلیٹ گنوں کے دہانے کھول دیے جاتے ہیں لیکن اُسی جمہوری ملک میں رام رحیم کے غنڈوں کو کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے،
اسی آزاد ملک میں کانوڑی یاترا کے نام پر کھلے عام سرکاری و عوامی املاک کو نشانہ بنانے والے انتہا پسندوں پر پولیس محکمہ پھول برساتا ہے،

*یوم آزادی کا جشن منانے کو آخر ایسا کیا ہے؟*
آئیں، ذرا سوچیں جذباتیت سے پرے بنیادی ضروریات کے متعلق سوچیں،
*کیا ہندوستان سے بے روزگاری ختم ہوگئی؟*
*کیا ہماری عوام کو صاف ستھرا کھانا، حفظان صحت اور اچھی تعلیم مل رہی ہے؟*
*کیا ہمارے ملک سے غریبی کا صفایا ہوگیا؟*
*کیا خط افلاس سے نیچے جانے والوں کی تعداد میں کمی ہوئی؟*
*کیا لاکھوں کسانوں کو سہارا مل گیا؟*
یقینًا نہیں!
تو پھر ایک انسانی دل و دماغ اور سچے ہندوستانی کی حیثیت سے سوچیں، اتنی گئی گذری اور بپھرتی صورتحال میں کروڑوں اور اربوں کے جشن کا کوئی جواز ہے؟ کاہے کی پریڈ اور کیسی پرچم کشائیاں؟ یہ جشن در حقیقت:
*ہماری عوام کی غربت کا، کسانوں کی خودکشی کا، سسٹم کے چند ہاتھوں میں یرغمالی کا، پھیلے ہوئے کرپشن بچوں کی غذائی قلت اور ہماری غربت کا جشن ہے ۔ حب الوطنی کے کھوکھلے خول اور سیکولرزم کے پھٹے ڈھول سے سے باہر نکلیں تو حقیقتاً جشن آزادی ایک ظالمانہ اور بھدا مذاق ہے، جہاں نصف سے بھی زائد ہمارے بچے غذائی قلت کے شکار ہوں، 1.25 ملین ہندوستانی آبادی میں سے %75 فیصدی آبادی کھلے طور پر خوفناک غربت اور بدترین ڈر اور خوف کی نفسیات میں جی رہی ہو، جہاں باشندے بنیادی تعلیمی سہولیات کو ترس رہے ہوں، جہاں نئے انڈیا کے نعروں تلے عورتوں پر آج بھی قدیم رواجی مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہوں، مادر رحم سے قتل سے لیکر پیدائش کے معاً بعد اور شادی تک صنف نازک کو قتل کردینے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے، جہاں کسانوں کی خودکشی کا سلسلہ برابر جاری ہو، جہاں ہر طرح کی " اچھی سرکار " کے باوجود کرپشن ہرطرح اور ہر طرف چھایا ہوا ہو، جہاں کے نیتا اپنی عوام کا استحصال کرتے ہوں، جہاں " بھگوانوں " کے نام پر ایک مخصوص طبقے کا خون بہایا جائے، جہاں پارلیمنٹ سے آزادی کا گلا گھونٹا جائے، جہاں ملک کا وزیرداخلہ امت شاہ پارلیمنٹ میں دھمکی آمیز رویہ اختیار کرے، ایسی جگہ پر یوم آزادی کا جشن!! یہ مذاق ہے ایک بدترین مذاق ہے!*
ايک انسان ہونے کی حیثیت سے شرمساری کا مقام ہیکہ، ہمارا ملک آج بھی استحصالی ہاتھوں میں ہے، جمہوریت کی باگ ڈور استحصالی ہاتھوں میں ہے، ملک کی اکثریت، مذہب کے نام پر، عقیدت اور حب الوطنی کے نام پر کہیں ماری جارہی ہے، کہیں زندہ جلائی جارہی ہے، تو کہیں بے وقوف بنائی جارہی ہے، ملک کی سیدھی سادھی اور بھولی بھالی عوام یہ سب سہتی ہے، مرتی ہے، کٹتی ہے، ملک کے لیے، مذہب کے لیے، کانسٹی ٹیوشن کے لیے، ایسے میں جشن آزادی مذاق ہے!
*اپنی عوام اور برادران وطن کے ساتھ اس مذاق میں آپ شریک ہوجائیں، لیکن میں جاننے کے باوجود اس مذاق میں شریک ہوجاؤں، خدارا اسقدر انسانیت سوز امیدیں مجھ سے قائم نا کریں میرا ضمیر مجھے ایسے ڈھونگ پر آج تک آمادہ نہیں کرسکا ہے۔*
*ہوسکتاہے آج آپ مجھے منفیت سے موسوم کریں، بالکل کریں، یہ آپ کا فرض ہے، اور میرا اعزاز ہے میرا حق ہے، لیکن میری یہ معروضات ایک خطرے سے بیداری کا سائرن ثابت ہوں گی، ایک نفسیاتی مرض سے بچاو کا اینٹی وائرس قرار پائیں گی، دراصل اپنے اہل وطن کے ساتھ ہورہے مذاق نے مجھے منفی بنادیاہے، یہاں انسانیت پر جو غیر انسانی بلکہ حیوانی ستم ڈھایا جارہاہے، اس انسانیت کے کرب میں، مجھے ڈھکوسلہ باز مثبتیں نظر نہیں آتیں،جمہوریت کو قتل کرنے کا عزم رکھنے والے جمہوریت کا پرچم اٹھائیں، پوری ڈھٹائی سے اسی کے سہارے اپنے مکروہ عزائم پر عملدرآمد کریں پھر انہی کے ساتھ جشن جمہوریت کے کیا معنی؟ آپ اپنے مثبت اور اعلیٰ ترین دماغ کے ساتھ ایک روشن ہندوستان دیکھتےہیں، لیکن میں اپنے دل و دماغ سے دیکھتا ہوں، تو ہندوستانیوں کو رنجور پاتا ہوں، افسرده و پژمردہ پاتا ہوں۔*
میں سلامی دیتا ہوں ترنگے کو، لیکن اس کی معنویت کو میں سسکتا، بلکتا پاتا ہوں، ان پر رنگ آمیزی تو نظر آتی ہے البتّہ ان کی جاذبیت کہیں گُم ہوگئی ہے، میں اپنے کمرے کے ایک کونے میں بیٹھ کر ترنگے کو سنواروں گا، سجاؤں گا، اپنے ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے عزائم تیار کرونگا لیکن میں جشن آزادی میں لٹیروں اور ڈاکوؤں اور جمہوریت کے قاتلوں کے ساتھ ہرگز شرکت نہیں کرونگا ۔
*میں بھی جشن جمہوریت مناؤں گا، لیکن تب، جبکہ میرے ہندوستان کی عوام عمدہ بودوباش سے خوشحال ہوجائے گی، اعلیٰ تعلیم انہیں حقیقی ترقیات کے زینوں پر گامزن کردے گی، میرے دیش واسی اس ملک میں آزاد ہوں گے، خوف سے آزاد ہوں گے، ڈر سے آزاد ہوں گے، نفرت سے آزاد ہوں گے، یہ تبھی ممکن ہے جب ہم سچ بولیں، حق بولیں اور حق کریں، اسوقت ہماری آزادی ظلمات کے سائے تلے ہے، یہ آزادانہ سحر ہرگز نہیں ہوسکتی، یہ آزادی ظالموں اور نفرت کے سوداگروں کے گھیرے میں ہے، اسلئے میں اسے آزادی کبھی نہیں کہہ سکتا*
*مجھے یقین ہے، میرا عقیدہ ہے، میرا عزم ہے، کہ ایسا دن میرے اسی ملک میں ضرور آئے گا، گرچہ ایک طویل جدوجہد کے بعد آئے، میری موت کے بعد آئے، مدتوں بعد آئے، لیکن میں اس کی تاریخ میں مرکر بھی زندہ ہوجاؤں گا، اُس دن میری روح سرشار ہوگی، اس دن میری روح آسمانی بلندیوں اور فضاؤں کی خنکی میں سماکر مادر وطن پر نچھاور ہوگی، اس دن میں جشن مناؤں گا، پھول اور گلاب کی پتیاں لطف و سرور کی کیفیات کے ساتھ آزادانہ نچھاور کروں گا۔*
کہ:
میری رات منتظر ہے کسی اور صبحِ نو کی
یہ سحر تجھے مبارک، جو ہے ظلمتوں کی ماری
؞سمیع اللّٰہ خان ؞
[ای میل حذف کی گئی]
 

رئیس کوثر

محفلین
#یہ_کیسی_آزادی؟
تحریر: غلام مصطفی نعیمی
آج وطن عزیز ہندوستان کو انگریزی قبضے سے آزاد ہوئے 73سال ہوگئے ہیں۔آئیے گذشتہ 73سالوں میں اپنی حالت کا تجزیہ کرتے ہیں کہ آزاد فضا میں سانس لینے کے بعد ہمارے حالات سدھرے یا مزید بگڑ گئے ہیں۔؟
*ہندوستان میں انگریز کیوں آئے*؟
ایک عام انسان بھی جانتا ہے کہ جب گھر میں روزگار ملتا ہے تو کوئی اپنا گاﺅں اور وطن چھوڑ کر پردیس نہیں جاتا۔یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کے عہد حکومت میں ہندوستانی افراد کو باہر جاکر روزی تلاش کرنے کی تکلیف نہیں اٹھانا پڑی لیکن اس زمانے میں برطانیہ اُس پوزیشن میں تھا جہاں آج کا ہندوستان ہے۔برطانیہ کی خراب معیشت کی بنیاد پر انگریز ا س ملک میں روزی روٹی کی تلاش میں آئے تھے جس طرح آج ہندوستانی ”اچھے دنوں“کی تلاش میں عرب گلف ویوروپ میں جاتے ہیں.
*مسلمانوں کی عملداری میں ہندوستان کو "سونے کی چڑیا" کہا گیا تھا۔تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب انگریز پہلی مرتبہ ہندوستان میں آئے تو انہوں نے رات کو شاہراہوں پر بڑے بڑے روشن چراغ دیکھے تو حیرت سے دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں کیوں کہ اس وقت تک برطانیہ میں شام ہوتے ہی سناٹا چھا جاتا تھا کیوں کہ شاہراہوں کو روشن کرنے کے لئے حکومت کے پاس نہ منصوبہ تھا نہ پیسہ.لیکن عہد مغل میں دہلی کی سڑکیں رات میں بھی دن کا نظارہ پیش کر رہی تھیں۔*
1772ءمیں سُناروں کی دکانوں پر اشرفیوں کے ڈھیر اس طرح لگے ہوتے تھے جس طرح آج غلہ منڈیوں میں اناج کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں۔
فیروز شاہ تغلق کے زمانے میں دہلی میں 70شفاخانے مسلسل مریضوں کا مفت علاج کرتے تھے۔جب کہ آج حکومت کے پاس 35 شفاخانے بھی نہیں ہیں۔
تغلق کے شاہی دربار کی جانب سے روزانہ بیس ہزار لوگوں کو مفت کھانا کھلایا جاتا تھا۔
دوہزار مسافرخانے کھلے ہوئے تھے،جہاں مسافروں کے ساتھ ان کے جانوروں کے کھانے بھی انتظام کیا جاتا تھا۔
*کیا کھویا کیا پایا ؟*
گذشہ 73سالوں میں ہندوستانی مسلمانوں نے پایا بہت کم لیکن کھویا بہت زیادہ ہے۔کہنے کو تو آج بھی بہت بڑی بڑی باتیں کرنے والے لیڈران موجود ہیں اور ان کی لاف وگزاف پر خوش ہوکر احمقوں کی جنت میں رہنے والے بھی کم نہیں ہیں.
مسلمانوں کی پسماندگی کے بارے میں سب سے زیادہ ان کی تعلیمی زبوں حالی کا طعنہ دیا جاتا ہے لیکن طعنہ دینے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ آزاد ہندوستان کو پہلا وزیر تعلیم دینے والی قوم، مسلمان ہی تھی۔
1947ءمیں اس قوم کی تعلیمی حالت اتنی مستحکم تھی کہ وزارت تعلیم کا قلم دان ہی ایک مسلمان سنبھالتا ہے،لیکن اس کے بعد ایسا کیا ہوا کہ مسلمان تعلیم میں کمزور ہوتے چلے گئے؟اس کی کچھ وجوہات یہ ہیں:
آزادی کے بعد سب سے پہلے اردوزبان کو نشانہ بنایا گیا،کیوں کہ پاکستان اردو کو قومی زبان بناچکا تھا.اُس وقت تک اردو اس ملک کی سب سے مضبوط زبان تھی۔لیکن شدت پسند لابی نے اردو سے قومی زبان کا درجہ چھین کر ہِندی کو دیا۔جس کی وجہ سے مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد بے روزگار ہوئی۔
عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد،علی گڈھ مسلم یوینورسٹی علی گڑھ ،جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کا اقلیتی کردار ختم کیا گیا۔
(معاملہ عدالت میں زیر غور ہے)
حکومتی اداروں سے مسلمانوں کو بڑی چالاکی سے باہر کیا گیا۔
قانون سازی کرکے مسلم زمین داروں کی زمینیں ضبط کی گئیں۔
وقف املاک پر قبضہ جماکر مسلمانوں کے دست وپا کاٹ دئے گئے۔
تاریخی مساجد پر قبضہ کرنے کے لئے اے ایس آئیArchaeological survey, of india بنا کر نمازوں کو بند کرایا گیا.آہستہ آہستہ ان مساجد کو ختم کیا جارہا ہے۔لال قلعہ دہلی کی"اکبری مسجد" اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔
*مسلم لیڈران کی مجرمانہ خاموشی*
کانگریس کے مسلم لیڈران میں سب سے بڑا نام مولانا ابوالکلام آزاد کا ہے۔ان کے بعد مولانا حسین احمد مدنی،مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی،جیسے افراد کانگریس کے بڑے مسلم لیڈران میں شمار کئے جاتے تھے۔لیکن کتنا بڑا المیہ ہے کہ جب دستور ساز کمیٹی نے ہندوستانی دستور مرتب کرنا شروع کیا تو اس وقت دیگر قوم کے رہنماﺅں نے اپنی اپنی قوم کی تعلیمی، معاشی اور ملی شناخت کی بقا کو قانونی طور پر محفوظ کرایا،تاکہ مستقبل میں ان کی قوم کو حکمراں طبقہ پریشان نہ کر سکے۔لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مولاناآزاد،مولانا مدنی اور مولانا سیوہاروی, عالم وفاضل ہونے کے باوجود اس اہم موقع پر بالکل خاموش رہے،اور اسی وجہ سے دستور میں ایسی دفعات شامل کی گئیں جن سے مسلمانوں کو مستقبل میں بڑے خطرات تھے۔چند اہم دفعات یہ ہیں:
❗دستور ساز کمیٹی نے ملک کی رہنما ہدایات ( Directive Principle) کے کالم میں دفع [44] کے تحت "یکساں سول کوڈ" کو داخل کیا۔یہ بجا طور پر مستقبل میں مسلمانوں کے اسلامی تشخص پر حملے کا ایک بڑا ہتھیار تھا،جسے اسی وقت آسانی سے روکا جاسکتا تھا لیکن خدا جانے کہ تینوں مولانا اس وقت کیوں خاموش تھے؟
❗ دستور میں سکھوں کو [کرپان] ،ہندو کو [ترشول] جیسے ہتھیاروں کی اجازت دی گئی لیکن مسلمانوں کو محروم رکھا گیا۔
❗ مسلمانوں کی پوری شریعت کوکاٹ کر بمشکل نکاح، طلاق، جائداد وغیرہ کو ہی دستور میں شامل کیا گیا۔
❗وندے ماترم جیسے ترانے کو قومی گیت کا درجہ دیا گیا۔
❗دلت قوم کو ذات کی بنیاد پر ریزرویشن دیا لیکن "مسلم دلتوں" سے ریزرویشن کا حق چھین لیا گیا۔
❗بعد میں اس قانون میں یہ شق شامل کی گئی کہ اگر کوئی "مسلم دلت" ترک مذہب کرلے تو اسے ریزرویشن دیا جائے گا،یعنی ترک اسلام کی ترغیب۔
مقام افسوس ہے کہ دستور سازی کے وقت مسلمانوں کا مستقبل خراب کرنے کے لئے اتنی سازشیں کی جارہی تھیں لیکن اس وقت یہ لیڈران کیوں خاموش تھے؟
دستور ساز اسمبلی میں ان قائدین کا رویہ ناقابل فہم ہی نہیں بے حد افسوسناک بلکہ قابل مذمت تھا۔ متحدہ قومیت کے علمبردار مسلم قائدین آزادی کے بعد دستور سازی ہی نہیں بلکہ کسی بھی معاملے میں کچھ کرنے سے قاصر تھے یا کرنا ہی نہیں چاہا ،یہ بات بے حد حیرت انگیز ہے،کیا ان کو دستور کی سمجھ نہیں تھی؟
یہ سوچنا بھی نادانی ہے کیوں کہ یہ لوگ معمولی پڑھے لکھے نہیں تھے بلکہ اس زمانے کے مشاہیر اہل علم میں شمار کئے جاتے تھے۔پھر آخر ان لوگوں نے ایسے معاملات پر آنکھیں کیوں بند کر رکھی تھیں؟
اس کی دو ہی وجہ سمجھ میں آتی ہیں :
1۔گاندھی،نہرو سے اندھی عقیدت۔
مولانا حسین مدنی کی گاندھی سے عقیدت کا عالم یہ تھا کہ وہ ان ُمردوں کی نماز جنازہ نہیں پڑھاتے تھے جن کا کفن کھدّر کا نہیں ہوتا تھا۔کیوں کہ گاندھی کو کھدّر کا کپڑا زیادہ پسند تھا۔
2۔ سودے بازی۔
یہ بات بعض افراد کو ناگوار بھلے ہی گزرے لیکن اس کا معقول جواب دیا جائے کہ وہ دستور سازی کے وقت کی سازشوں پر کس لئے خاموش تھے؟
کیا اوقاف کی جائدادوں ،حج کمیٹی کی صدارت،اور دیگر مالی مراعات نے ان کے لبوں کو سل دیا تھا؟
یا یہ لوگ گاندھی کی عقیدت میں اتنے مخمور تھے کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوگئے تھے؟
یا پھر ان لوگوں نے گاندھی کو اپنا مسیحا سمجھ لیا تھا۔
جو غلطی انہوں نے کی آج اسی کا خمیازہ پوری ملت اسلامیہ بھگت رہی ہے۔کیوں کہ آج اُنہیں سارے معاملات کو اٹھا کر آرایس ایس RSS اور بی جے پی مسلمانوں کو نشانہ پر لئے ہوئے ہے۔
*یہ بھی تلخ سچائی ہے کہ اس وقت مسلمانوں کی ایک جماعت ان کو اپنا لیڈر ضرور سمجھتی تھی لیکن یہ لوگ خود کو مسلمانوں کا نہیں بلکہ عام ہندوستانیوں کا لیڈر کہتے تھے اور خود کو مسلم لیڈر کہنے سے انہیں تکلیف ہوتی تھی کیوں ان پر "متحدہ قومیت"کا بھوت سوار تھا۔لیکن ہندو قوم نے انہیں کبھی اپنا لیڈر نہیں مانا۔*
*یہ کیسی آزادی ؟*
آج جبکہ آزادی کی 73 ویں سالگرہ کا جشن منانے کی تیاری ہے، تو مسلمانوں کی مظلومی وبے بسی یہ سوال پوچھ رہی ہے :
گائے کے نام پر 150 سے زائد افراد کا قتل کر دیا گیا۔کیا یہی آزادی ہے؟
مسلمانوں سے ان کا کاروبار چھین لیا گیا۔کیا یہی آزادی ہے؟
اچھے علاقوں میں مسلمانوں کو مکان نہیں ملتا۔کیا یہی مساوات ہے؟
اچھے اسکولوں میں مسلم بچوں کو داخلہ نہیں دیا جاتا۔کیا یہی انصاف ہے؟
یوپی،گجرات،راجستھان اور ایم پی جیسے بڑے صوبوں سے ایک بھی مسلم ایم پی نہیں ہے،کیا یہی آزادی ہے؟
مسلم علاقوں میں تھانوں،اور غیرمسلم علاقوں میں اسکولوں کی کثرت۔کیا یہی برابری ہے؟
مسلمانوں کے لباس اور کھانے پینے پر پابندی۔کیا یہی جمہوریت ہے؟
مساجد ومدارس کی تعمیر پر پابندی۔کیا یہی دستوری آزادی ہے؟
سِکھ فوجی کوداڑھی کی اجازت اور مسلم فوجی کو ممانعت۔کیا اسی کا نام مذہبی رواداری ہے؟
دستور سے ملے مذہبی حقوق پر مسلسل نقب زنی۔کیا اسی کانام احترام دستور ہے؟
درج بالاسوالات آزاد بھارت کے مسلمانوں کے درد وکرب میں ڈوبے سوالات کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں ورنہ ہر گزرتا دن اور آتا ہوا کل نِت نئے مسائل لیکر آتا ہے،ایسے میں اہالیان وطن کس طرح خوشیاں مناتے ہیں جبکہ ملک 25 کروڑ کی آبادی مسلسل ناانصافیوں کی زد میں ہے۔
(سال گذشتہ لکھے گئے مضمون سے ماخوذ)
مؤرخہ 12 ذوالحجہ 1440 ھ
14 اگست 2019 بروز بدھ
 
Top