عاطف بٹ
محفلین
آج پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں یوم القدس منایا جارہا ہے۔اس دن کے منائے جانے کا مقصد فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی ہے جو تقریباً ساڑھے چھے دہائیوں سے اسرائیل کی ننگی بربریت اور درندگی کا سامنا کررہے ہیں۔ اس موقع پر کم و بیش کروڑوں مسلمان فلسطینیوں کے حق میں دعائیں مانگیں گے اور ساتھ ہی خدائے قادرِ مطلق سے یہ 'مطالبہ' بھی کیا جائے گا کہ اسرائیل کو تباہ و برباد کردے اور اس کا نام و نشان بھی دنیا میں باقی نہ چھوڑ۔ یہ دعائیں کس حد تک بار آور ثابت ہوں گی اس کا اندازہ اسی بات سے لگا لیجئے کہ ساڑھے چھے دہائیوں سے زائد عرصہ ہو چلا ہے مگر نہ تو بےچارے فلسطینیوں کو گلو خلاصی ملی اور نہ ہی اسرائیل نیست و نابود ہوا۔
مغرب کے حمایت یافتہ جارح اور بدمعاش اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی کے حوالے سے دنیا بھر کے مسلمانوں کا کردار بس دو طرح کا ہی ہے: ایک تو یہ کہ خاموش تماشائیوں کی مانندنہتے فلسطینیوں کو لقمۂ اجل بنتے ہوئے دیکھتے رہیں، اور دوسرا یہ کہ ربِ قہار سے ایسی دعائیں مانگتے رہیں جن کے جواب میں کسی نہ کسی طرح آسمان سے فرشتوں کا نزول ہو اور خود ہی اسرائیل کا قصہ تمام ہوجائے۔ اب ظاہر ہے ان دونوں کاموں میں بےعملی اور بدنیتی کا جو اعلیٰ امتزاج پایا جاتا ہے اس کے بعد نتیجہ کچھ اسی قسم کا برآمد ہوسکتا ہے جیسا کہ ایک طویل عرصے سے ہورہا ہے۔
اسی بےعملی اور بدنیتی کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ 8 جولائی سے شروع ہونے والی فلسطینیوں کی تازہ خونریزی، جس میں اب تک ساڑھے سات سو سے زائد معصوم لوگ جان کی بازی ہار چکے ہیں، کے حوالے سے گزشتہ دو ہفتے سے سماجی رابطے کی ویب گاہوں پر فلسطینیوں کے لئے پاکستانیوں کی طرف سے جو دعائیہ اظہاریے لکھے گئے اور تصاویر لگائی گئیں ان میں ایک ادھورا جملہ بہت تواتر سے پڑھنے کو ملا، "یا اللہ، فلسطین کے مسلمانوں کی غیبی مدد فرما۔" ہم اس جملے کو ادھورا اس لئے سمجھتے ہیں کیونکہ اس میں اس اہم ترین وجہ کا ذکر ہی نہیں ہے جس کے باعث یہ دعا مانگی جارہی ہے۔ ہمارے خیال میں مذکورہ وجہ سمیت مکمل جملہ کچھ یوں ہونا چاہیے کہ "یا اللہ، فلسطین کے مسلمانوں کی غیبی مدد فرما کیونکہ دنیا کے طول و ارض پر پھیلے ڈیڑھ ارب سے زائد ہم مسلمان تو ہیجڑے ہیں جنہیں تو نے تالیاں پیٹنے کے لئے پیدا کیا ہے۔"
اس حوالے سے ایک بات تو طے ہے کہ عرب ممالک کے بےغیرت اور عیاش حکمران بےحسی اور خباثت میں پاکستانی سیاست دانوں کے بھی باپ ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے غلیظ اختلاط سے پیدا ہونے والا اسرائیل معصوم فلسطینیوں پر جو ظلم ڈھا رہا ہے اس کے لئے بالعموم پوری دنیا کے مسلمان حکمران اور بالخصوص عرب ممالک کے شیوخ و رؤسا ذمہ دار ہیں۔ اسی طرح ایران جس نے 1979ء میں یوم القدس کو مسلمانوں کے ایک عالمی یوم کے طور پر منانے کا اعلان و آغاز کیا تھا اس کا بھی یہی حال ہے کہ باتیں واتیں جتنی چاہے کروا لو مگر اس سلسلے میں کسی عملی جدوجہد کا نام وہاں بھی نہیں لیا جاسکتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس دن دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانیت کے جھوٹے دعویدار خوابِ غفلت سے جاگ گئے اس روز اسرائیل گولہ بارود برسانا تو دور کی بات ہے فلسطینیوں کے خلاف ایک جارحانہ بیان بھی نہیں دے سکے گا۔
مغرب کے حمایت یافتہ جارح اور بدمعاش اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی کے حوالے سے دنیا بھر کے مسلمانوں کا کردار بس دو طرح کا ہی ہے: ایک تو یہ کہ خاموش تماشائیوں کی مانندنہتے فلسطینیوں کو لقمۂ اجل بنتے ہوئے دیکھتے رہیں، اور دوسرا یہ کہ ربِ قہار سے ایسی دعائیں مانگتے رہیں جن کے جواب میں کسی نہ کسی طرح آسمان سے فرشتوں کا نزول ہو اور خود ہی اسرائیل کا قصہ تمام ہوجائے۔ اب ظاہر ہے ان دونوں کاموں میں بےعملی اور بدنیتی کا جو اعلیٰ امتزاج پایا جاتا ہے اس کے بعد نتیجہ کچھ اسی قسم کا برآمد ہوسکتا ہے جیسا کہ ایک طویل عرصے سے ہورہا ہے۔
اسی بےعملی اور بدنیتی کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ 8 جولائی سے شروع ہونے والی فلسطینیوں کی تازہ خونریزی، جس میں اب تک ساڑھے سات سو سے زائد معصوم لوگ جان کی بازی ہار چکے ہیں، کے حوالے سے گزشتہ دو ہفتے سے سماجی رابطے کی ویب گاہوں پر فلسطینیوں کے لئے پاکستانیوں کی طرف سے جو دعائیہ اظہاریے لکھے گئے اور تصاویر لگائی گئیں ان میں ایک ادھورا جملہ بہت تواتر سے پڑھنے کو ملا، "یا اللہ، فلسطین کے مسلمانوں کی غیبی مدد فرما۔" ہم اس جملے کو ادھورا اس لئے سمجھتے ہیں کیونکہ اس میں اس اہم ترین وجہ کا ذکر ہی نہیں ہے جس کے باعث یہ دعا مانگی جارہی ہے۔ ہمارے خیال میں مذکورہ وجہ سمیت مکمل جملہ کچھ یوں ہونا چاہیے کہ "یا اللہ، فلسطین کے مسلمانوں کی غیبی مدد فرما کیونکہ دنیا کے طول و ارض پر پھیلے ڈیڑھ ارب سے زائد ہم مسلمان تو ہیجڑے ہیں جنہیں تو نے تالیاں پیٹنے کے لئے پیدا کیا ہے۔"
اس حوالے سے ایک بات تو طے ہے کہ عرب ممالک کے بےغیرت اور عیاش حکمران بےحسی اور خباثت میں پاکستانی سیاست دانوں کے بھی باپ ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے غلیظ اختلاط سے پیدا ہونے والا اسرائیل معصوم فلسطینیوں پر جو ظلم ڈھا رہا ہے اس کے لئے بالعموم پوری دنیا کے مسلمان حکمران اور بالخصوص عرب ممالک کے شیوخ و رؤسا ذمہ دار ہیں۔ اسی طرح ایران جس نے 1979ء میں یوم القدس کو مسلمانوں کے ایک عالمی یوم کے طور پر منانے کا اعلان و آغاز کیا تھا اس کا بھی یہی حال ہے کہ باتیں واتیں جتنی چاہے کروا لو مگر اس سلسلے میں کسی عملی جدوجہد کا نام وہاں بھی نہیں لیا جاسکتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس دن دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانیت کے جھوٹے دعویدار خوابِ غفلت سے جاگ گئے اس روز اسرائیل گولہ بارود برسانا تو دور کی بات ہے فلسطینیوں کے خلاف ایک جارحانہ بیان بھی نہیں دے سکے گا۔