یوم تشکر

جاسم محمد

محفلین
آج پاکستانی قوم کو 6 سال بعد بالآخر آرمی چیف جنرل باجوہ سے آزادی مل گئی۔ کل سے یہ قوم نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی غلامی میں جا رہی ہے۔ قوم کو اس تاریخی موقع پر خصوصی مبارک باد! :)

نوید احمَد محمد وارث عبدالقدیر 786 عبدالقیوم چوہدری سیما علی سید ذیشان محمداحمد الف نظامی سید عاطف علی سید عمران علی وقار محمد عبدالرؤوف
 

جاسم محمد

محفلین
1669666981336-png.901197
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
پہلے ایک فوجی کو ایکسٹنشن پہ ایکسٹنشن آفر کی جاتی ہے۔ اس کی تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں۔ اسے خدا جانے کیا سے کیا بنا دیا جاتا ہے۔ پھر اسی کی مدتِ ملازمت ختم ہونے پر یومِ تشکر بھی منایا جا رہا ہے۔ سبحان اللّہ 😊
جب سیاست دان اپنا ہی رخ خود متعین کرنے کے اہل نہیں تو کسی کے آنے یا جانے سے کیا فرق پڑنے والا ہے۔
تشکر کی بجائے تدبر کیا جانا چاہیے۔ نہ اداروں کو خراب کیا جائے اور نہ ہی انہیں اپنے دائرہء اختیار میں (کسی سیاسی پارٹی یا حریف کو رگیدنے کے لیے) داخل ہونے کی اجازت دی جانی چاہیے۔ اگر صرف اس ایک پیج پر سیاسی پارٹیاں آ جائیں تو جرنیلوں کی منت سماجت کی ضرورت ہی نہ رہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
باجوہ کے جاتے جاتے ،نواز شریف اور عمران اس معاملے میں سیم پیج پر آ گئے۔ 😀
ویسے باجوہ نے بھی کیا کمال کی قسمت پائی۔ پہلے ۶ سال نواز شریف کی گالیاں کھاتا رہا۔ اب تا حیات عمران خان اور اسکے حمایتیوں کی گالیاں کھائے گا۔😊


 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
پرانا والا تو غدار، میر جعفر، میر صادق، جانور، اور خدا جانے کیا کیا کچھ ہوا۔ اب نئے چیف کی کاسہ لیسی کا وقت ہوا چاہتا ہے۔
حقیقی آزادی کا مطلب کیا
ساڈا بن جا "اوے" فوجیا
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
وہ جس نے ٰ ٰٰجان اللہ کو دینی ہے ٰ وہ آرمی چیف کو قوم کا باپ بتایاکرتا تھا۔افسوس
اب باجوہ صاحب یہ شعر گنگنا رہے ہوں گے

ہم یوسفِ زماں تھے ابھی کل کی بات ہے
تم ہم پہ مہرباں تھے ابھی کل کی بات ہے

وہ دن بھی تھے کہ ہم ہی تمہاری زباں پہ تھے
موضوعِ داستاں تھے ابھی کل کی بات ہے

جن دوستوں کی آج کمی ہے حیات میں
وہ اپنے درمیاں تھے ابھی کل کی بات ہے

کچھ حادثوں سے گھِر گیا محسن زمین پر
ہم رشکِ آسماں تھے ابھی کل کی بات ہے
 
ان دنوں یہاں قوم کے باپ بننے یا بنائے جانے کا ٹرینڈ فیشن میں ہے۔!
بجا فرمایا۔ معلوم تاریخ کے 2 ہزار سال سے اس خطے کے باسیوں کی اکثریت نے یہی ایک کام تو تسلسل سے کیا ہے۔ آریاؤں سے لیکر انگریزوں تک تقریباً سب ہی حکمران (باپ )غیر مقامی بنائے گئے۔ وہی سلسلہ اب کسی اور صورت میں چلتا چلا جا رہا ہے۔ کیا معاشرے کے سردار اور کیا مخلوق سب کے ڈی این اے میں غلامی رچی بسی ہوئی ہے۔
 
باجوہ صاحب کی ڈاکٹرائین کا شروع دن سے مخالف رہا ہوں، ان کی سیاسی سوچ پر تنقید بھی کی، لیکن ان دنوں اور ان کے جانے کے فیصلے کے کنفرم ہونے پر دو وجوہات سے خاموش رہنا بہتر جانا۔
پہلے یہ کہ عوام کے سامنے اپنی غلطیوں کا کچھ نا کچھ عتراف کر گئے ۔ دوسرا جن کے لیے سب کچھ کرتے رہے وہی ان کے جانی دشمن ہوئے پڑے۔ اس دوسری وجہ سے دل کچھ رنجیدہ بھی ہے کہ کچھ تو حیا کرنی چاہیے۔
 
وقت کبھی کسی کا ہوا ہے نہ کبھی کسی کا ہو گا۔ وقت کی رفتار کو قابو کرنے والے خود کو اپنی ذات اور انا سے آزاد کرتے ہیں تب کہیں وقت ان کی قید میں ہوتا ہے۔
بالآخر جنرل باجوہ کے چھ سال اختتام کو پہنچے۔ عہدے مدت کی حد سے باہر بھی ہوں تب بھی ایک دن وقت نے اعلان کرنا ہوتا ہے کہ اب آپ کا وقت ختم ہوا۔
جنرل باجوہ چھ برس قبل نوازشریف کا انتخاب بنے۔ کندھے پر پھول لگے اور ہاتھ میں چھڑی آئی تو فائل میں ڈان لیکس ورثے میں ملی۔ ایک ٹویٹ پر ’مسترد‘ کا پچھتاوا جنرل باجوہ کو وقت کے وزیر اعظم کے پاس معذرت کے لیے لے گیا۔
جنرل باجوہ نے اپنے ایک خطاب کے دوران ذکر کیا کہ اس ملاقات کے دوران اُنھوں نے نواز شریف سے پوچھا کہ یقیناً آپ کو ہمارا ردعمل بُرا لگا ہو گا تو نواز شریف نے جواب میں کہا کہ جنرل صاحب بس کوئی فیصلہ غصے کے وقت مت کیا کریں۔
جنرل باجوہ نے اس پر کتنا عمل کیا اس کا اظہار اُس کے بعد تواتر سے کیے جانے والے فیصلے تھے یا شاید ادارے کا ہی فیصلہ کہ سیاسی کھیل نے اُس وقت کے وزیرِ اعظم کو گھر جانے پر مجبور کر دیا۔
ادارہ سیاسی تھا یا سیاست ادارے میں تھی بہرحال گذشتہ چھ برس میں پانچ وزرائے اعظم آئے اور گئے مگر نہ گئے تو جنرل باجوہ گھر نہ گئے۔
سنہ 2018 کے انتخابات سے قبل ادارے نے صادق اور امین قیادت ’تخلیق‘ کر لی تھی اور ’فخریہ پیشکش‘ کی نمائش زور و شور سے جاری تھی۔ سیاست، صحافت، سماج، اُستاد، جج، سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں ہر تنقید نگار، غرض پراجیکٹ کی راہ میں حائل ننھی مُنی رکاوٹیں بھلے وہ مدثر نارو جیسے بے ضرر شاعر کی صورت ہوں یا ٹی وی کی منحنی آوازیں، سب غائب ہونی شروع ہوئیں۔
ایک ’چھو منتر‘ آواز تو آواز پورا انسان غائب کر دیتا، خوف کا راج تھا اور سب انتظامات فقط اپنے من پسند کو صاحب اقتدار لانے کے لیے کیے جا رہے تھے۔ جب ادارہ یہ سب کر رہا تھا تو اُس وقت جنرل باجوہ ادارے کے سربراہ تھے اور جنرل فیض اپنا سیاسی کردار بخوبی نبھا رہے تھے۔
سیاسی مداخلت حد سے بڑھ گئی تھی مگر ’باجوہ ڈاکٹرائن‘ کے چرچے ہر سُو تھے۔

انڈیا کے ساتھ مشرقی سرحد پر جنرل باجوہ نے کامیاب اور طویل سیزفائر پر عملدرآمد کیا۔ فیٹف کی پابندیوں کے خاتمے کے لیے جی ایچ کیو میں خصوصی برانچ نے چار سال خصوصی طور پر کام کیا تب پاکستان کو کامیابی ملی۔
گذشتہ چھ برسوں میں کیا ہی کوئی اہم عالمی شخصیت ہو گی جس نے پاکستان کا دورہ کیا ہو اور اُس کا رُخ راولپنڈی کی جانب نہ ہوا ہو۔ یہ کمال ایک صفحے کی حکومت کا تھا کہ خارجہ پالیسی سے لے کر بجٹ کی منظوری تک جی ایچ کیو ہر کام میں شریک رہا۔
ایک صفحے کی حکومت کی ہر تحریر ایک ہی قلم سے لکھی گئی اور شاید اس صفحے کے سب کرداروں کا منطقی انجام بھی ایک ہی قلم کی نذر ہوا۔ جنرل باجوہ ہائبرڈ رجیم کے خالق نہیں مگر روح رواں ضرور بنے۔ فروری 2021 میں اس صفحے کی آخری تحریر بھی جنرل باجوہ نے ہی لکھی جب اُنھوں نے سینیٹ انتخاب میں عمران خان کی حکومت کو اپنے مسائل سے خود نمٹنے کا مشورہ دیا۔
تحریک انصاف کی ڈوبتی کشتی سے چھلانگ لگاتے وقت ادارے نے کپتان کو حفاظتی بیلٹ بھی باندھی اور اُنھیں اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کا پورا وقت بھی دیا۔
ایک ایسے وقت پر جنرل باجوہ نے پراجیکٹ عمران سے مُنہ موڑا کہ جس کا خود اندازہ عمران خان کو نہ تھا۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی آخری کیل ثابت ہوا تو ’امریکی سازش‘ کے بیانیے میں میر جعفر اور میر صادق کے طعنے اور الزام تراشی نے اس خلیج کو اس قدر وسیع کر دیا کہ ادارے میں ’کتھارسس‘ کا عمل سیاست میں عدم مداخلت کے اعلان پر ختم ہوا۔
جنرل باجوہ تحریک انصاف پر قربان ہوئے اور یہ اعتراف خود جنرل باجوہ کا ہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ادارہ سیاست میں عمل دخل چھوڑ دے گا؟ جنرل باجوہ نے جاتے جاتے غیر سیاسی ہونے کے ’غیر مقبول‘ فیصلے کیے مگر کر لیے۔
بہت دیر کی مہربان آتے آتے، بہر حال اب اس پر عمل ادارے کا وعدہ اور نئے آرمی چیف کا اصل امتحان ہو گا۔ ادارہ سیاست سے بالاتر رہے اور شہری اپنے آئینی حقوق حاصل کریں، لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہو، آئین کی عملداری ہو اور قانون کا بول بالا ہو۔ نئے آرمی چیف کو اب یہ سوچنا ہو گا کہ ملک کسی اور تجربے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
جنرل باجوہ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کے حساب میں گِھرے تو یہ ضرور سوچیں گے کہ جو ہوا نا ہوتا تو اچھا ہوتا۔ کاش چھ سال پہلے اسی وقت کے دروازے پر کھڑے چند فیصلے پچھتاوے نا بنتے اور یوں آج یہ معاشی اور سیاسی بحران میں گھرا دور یوں اختتام پذیر نا ہوتا۔
جنرل باجوہ چلے گئے مگر جاتے جاتے ورثے میں غیر آئینی مداخلت کا اعتراف چھوڑ گئے۔ اعتراف اور انکار کے بیچ اب نئے آنے والے کے لیے پچھتاوے کی کوئی گنجائش باقی نہیں۔
الوداع جنرل باجوہ الوداع۔


از عاصمہ شیرازی​

۔۔۔​

ربط
 

سیما علی

لائبریرین
باجوہ صاحب کی ڈاکٹرائین کا شروع دن سے مخالف رہا ہوں، ان کی سیاسی سوچ پر تنقید بھی کی، لیکن ان دنوں اور ان کے جانے کے فیصلے کے کنفرم ہونے پر دو وجوہات سے خاموش رہنا بہتر جانا۔
پہلے یہ کہ عوام کے سامنے اپنی غلطیوں کا کچھ نا کچھ عتراف کر گئے ۔ دوسرا جن کے لیے سب کچھ کرتے رہے وہی ان کے جانی دشمن ہوئے پڑے۔ اس دوسری وجہ سے دل کچھ رنجیدہ بھی ہے کہ کچھ تو حیا کرنی چاہیے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اگر جنرل باجوہ یا ادارہ عمران خان کے لیے انتخابات میں راہیں ہموار نہ کرتے تو عمران خان وزراتِ عظمیٰ تک نہ پہنچ سکتا۔ اور اگر حکومت تشکیل پا جانے کے بعد ادارہ سیاست سے کنارہ کش ہونا چاہتا تو خان کی حکومت پہلے سال ہی دھڑام کر کے گر جاتی۔
 

جاسم محمد

محفلین
پہلے یہ کہ عوام کے سامنے اپنی غلطیوں کا کچھ نا کچھ عتراف کر گئے ۔ دوسرا جن کے لیے سب کچھ کرتے رہے وہی ان کے جانی دشمن ہوئے پڑے۔ اس دوسری وجہ سے دل کچھ رنجیدہ بھی ہے کہ کچھ تو حیا کرنی چاہیے۔
نواز شریف کو سزا یافتہ مجرم ہونے کے باوجود جیل سے لندن پہنچانے میں جنرل باجوہ نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کا صلہ انہوں نے اپنی جماعت سمیت رجیم چینج آپریشن سے قبل تک ان کے خلاف سخت سیاسی بیانات دیکر ادا کیا۔


اسی طرح عمران خان بھی رجیم چینج آپریشن سے قبل تک جنرل باجوہ کو بہت جمہوری آدمی سمجھتے تھے۔ مگر اقتدار سے نکلنے کے بعد ان کو کیا کچھ نہیں کہا۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
جنرل عاصم منیر کو ڈرٹی ہیری کا خطاب تو تحریک انصاف نے پہلے ہی دے رکھا ہے۔ اب قبل از وقت استعفیٰ ہی ان کی عزت بچا سکتا ہے یا پھر تحریکِ انصاف کے مطالبات پر سر تسلیم خم کرنا۔
 
Top