محب علوی
مدیر
کل کا دن ایک ایسا سورج لے کر طلوع ہوا جس کے غروب ہونے سے پہلے کراچی خاک و خون میں ڈوب گیا اور ملکی تاریخ کے سیاہ ترین دنوں میں اپنا شمار کروایا۔ 12 مئی کا دن چیف جسٹس چوہدری افتخار کے کراچی آنے اور سندھ ہائی کورٹ بار سے خطاب کا دن تھا جس کے لیے کافی پہلے سے تاریخ دے دی گئی تھی اور یہ اسی قسم کا خطاب جیسا کہ انہوں نے لاہور اور پشاور میں کیا اور جہاں کسی قسم کی کوئی بدمزگی نہیں ہوئی۔ کراچی کے حوالے سے چند خدشات ضرور تھے کہ شاید وہاں حکومتی حلیف جماعت ایم کیو ایم ہنگامہ برپا کرے اور اپوزیشن کے ساتھ جھڑپیں ہوں خصوصا جب سے ایم کیو ایم نے عین اسی دن اپنی ریلی کا اعلان کر دینے کے بعد سے مگر کسی کو ایسے سانحے اور دلخراش واقعات کی امید نہ تھی۔
دن کے آغاز سے اہم شاہراؤں کو بلاک کرنے کے مناظر مختلف چینلز پر دکھائے جاتے رہے اور جہاں جہاں سے چیف جسٹس کا قافلہ ائیر پورٹ سے گزر کر سندھ ہائی کورٹ تک جانا تھا وہاں وہاں ٹریفک بلاک کر دی گئی۔ سندھ ہائی کورٹ کے وکلاء کو وہیں قید کر دیا گیا اور چیف جسٹس کے آنے کے بعد انہیں ائیر پورٹ پر ہی محصور کر دیا گیا۔ آزادانہ نقل و حرکت صرف ایم کیو ایم کے حصے میں آئی جو اپنے حامیوں کو لے مقررہ جگہ تک پہنچ گئے باوجود اس کے پورے شہر میں قتل و غارت اور نہ ختم ہونے والی فائرنگ کا سلسلہ جاری تھا۔ اہم ترین شاہراؤں پر نہ پولیس دیکھنے میں آئی اور نہ ہی رینجرز ، جہاں کہیں پولیس تھی بھی وہ صرف خاموش تماشائی بنی رہی اور نا معلوم مسلح افراد کو کھلی چھوٹ دیے رکھی جو بے رحمی سے لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتے رہے۔ آج ٹی وی پر مسلسل کئی گھنٹے تک فائرنگ جاری رہی اور طلعت حسین اپنی ٹیم کے ہمراہ ایک کونے میں لیٹکر رپورٹنگ کرتے رہے اور بار بار حکومتی عہدیداران سے اپیل اور بات چیت کے انہیں سیکوریٹی فراہم نہ کی گئی۔ شام تک یہی منظر رہا ، لوگ ہلاک ہوتے رہے ، زخمیوں کی حالت بگڑتی رہی مگر پولیس اور رینجرز کہیں نظر نہ آئی تاوقتیکہ ایم کیو ایم کا ‘شاندار اور بھرپور‘ جلسہ اختتام پذیر نہ ہوگیا اور بقول مشرف کراچی کے عوام نے اپنی طاقت نہ دکھا دی۔ شام ہوتے ہی آسمان سے پولیس اور رینجرز کے دستے نازل ہو گئے اور انہوں نے شہر کا گشت شروع کر دیا شاید وہ اب تک حکومت کے ساتھ مل کر لوگ کے ہلاک ہونے کا انتظار کر رہے تھے یا ان کے ذہن میں ہلاکتوں اور بگاڑ کا کوئی پیمانہ تھا جس کے پورا ہونے پر وہ باہر نکل آئے۔
حکومتی اراکین اور ایم کیو ایم کے پاس اس سارے فساد کا ایک ہی جواب تھا کہ چیف جسٹس اگر نہ آتے تو یہ نہ ہوتا۔ ایک سوال کے جواب میں ایم کیو ایم کے لیڈر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ سیکیوریٹی ہم سب کی ذمہ داری ہے جب انہیں باآور کروایا گیا کہ یہ انتظامیہ اور حکومت کا کام ہوتا ہے اور پولیس ، رینجرز کو عام آدمی یا اپوزیشن کہیں نہیں بھیج سکتی تو ان کا جواب تھا کہ میں مانتا ہوں کہ حکومت کو یہ کرنا چاہیے اور پھر بات کا رخ اپنی ریلی اور ریلوں کی طرف موڑ دیا اور اے آر وائے سے اپیل کی کہ وہ اس کی بھی صحیح کوریج کریں اور اپنے پارٹی ممبران کی ہلاکتوں کا بتانے لگے اور یہ بھی فرمایا کہ ریلی تو صرف ہماری نکلی اپوزیشن کی تو ریلی نکلی ہی نہیں اور انہوں نے غصے میں آ کر یہ سب کیا ہے جس پر قدرتی سوال پھر اٹھا کہ سیکوریٹی کے انتظام اپوزیشن نے کرنے تھے یا حکومت نے اور پولیس ، رینجرز کہاں تھے اس سارے واقعہ میں اور ایم کیو ایم کو اسی وقت یہ ریلی نکالنے کی اتنی اشد ضرورت کیوں تھی جبکہ اپوزیشن کے مرکزی رہنما تو کراچی آئے ہی نہیں تھے اور وکلا نے اپوزیشن کے ساتھ مل کر چیف جسٹس کا استقبال کرنے سے اپوزیشن کو روک دیا تھا۔
آج ملک گیر سوگ اور ہڑتال منائی جارہی ہے اور ایم کیو ایم کی شدید مذمت کی جارہی ہے۔
کیا آپ بھی ایسا ہی سوچتے ہیں؟
براہ کرم اس موقع پر چپ نہ رہیں اور اپنے خیالات کا اظہار ضرور کریں ورنہ یہ ظلم کا سلسلہ بڑھتا ہی رہے گا ختم نہ ہوگا۔
دن کے آغاز سے اہم شاہراؤں کو بلاک کرنے کے مناظر مختلف چینلز پر دکھائے جاتے رہے اور جہاں جہاں سے چیف جسٹس کا قافلہ ائیر پورٹ سے گزر کر سندھ ہائی کورٹ تک جانا تھا وہاں وہاں ٹریفک بلاک کر دی گئی۔ سندھ ہائی کورٹ کے وکلاء کو وہیں قید کر دیا گیا اور چیف جسٹس کے آنے کے بعد انہیں ائیر پورٹ پر ہی محصور کر دیا گیا۔ آزادانہ نقل و حرکت صرف ایم کیو ایم کے حصے میں آئی جو اپنے حامیوں کو لے مقررہ جگہ تک پہنچ گئے باوجود اس کے پورے شہر میں قتل و غارت اور نہ ختم ہونے والی فائرنگ کا سلسلہ جاری تھا۔ اہم ترین شاہراؤں پر نہ پولیس دیکھنے میں آئی اور نہ ہی رینجرز ، جہاں کہیں پولیس تھی بھی وہ صرف خاموش تماشائی بنی رہی اور نا معلوم مسلح افراد کو کھلی چھوٹ دیے رکھی جو بے رحمی سے لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتے رہے۔ آج ٹی وی پر مسلسل کئی گھنٹے تک فائرنگ جاری رہی اور طلعت حسین اپنی ٹیم کے ہمراہ ایک کونے میں لیٹکر رپورٹنگ کرتے رہے اور بار بار حکومتی عہدیداران سے اپیل اور بات چیت کے انہیں سیکوریٹی فراہم نہ کی گئی۔ شام تک یہی منظر رہا ، لوگ ہلاک ہوتے رہے ، زخمیوں کی حالت بگڑتی رہی مگر پولیس اور رینجرز کہیں نظر نہ آئی تاوقتیکہ ایم کیو ایم کا ‘شاندار اور بھرپور‘ جلسہ اختتام پذیر نہ ہوگیا اور بقول مشرف کراچی کے عوام نے اپنی طاقت نہ دکھا دی۔ شام ہوتے ہی آسمان سے پولیس اور رینجرز کے دستے نازل ہو گئے اور انہوں نے شہر کا گشت شروع کر دیا شاید وہ اب تک حکومت کے ساتھ مل کر لوگ کے ہلاک ہونے کا انتظار کر رہے تھے یا ان کے ذہن میں ہلاکتوں اور بگاڑ کا کوئی پیمانہ تھا جس کے پورا ہونے پر وہ باہر نکل آئے۔
حکومتی اراکین اور ایم کیو ایم کے پاس اس سارے فساد کا ایک ہی جواب تھا کہ چیف جسٹس اگر نہ آتے تو یہ نہ ہوتا۔ ایک سوال کے جواب میں ایم کیو ایم کے لیڈر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ سیکیوریٹی ہم سب کی ذمہ داری ہے جب انہیں باآور کروایا گیا کہ یہ انتظامیہ اور حکومت کا کام ہوتا ہے اور پولیس ، رینجرز کو عام آدمی یا اپوزیشن کہیں نہیں بھیج سکتی تو ان کا جواب تھا کہ میں مانتا ہوں کہ حکومت کو یہ کرنا چاہیے اور پھر بات کا رخ اپنی ریلی اور ریلوں کی طرف موڑ دیا اور اے آر وائے سے اپیل کی کہ وہ اس کی بھی صحیح کوریج کریں اور اپنے پارٹی ممبران کی ہلاکتوں کا بتانے لگے اور یہ بھی فرمایا کہ ریلی تو صرف ہماری نکلی اپوزیشن کی تو ریلی نکلی ہی نہیں اور انہوں نے غصے میں آ کر یہ سب کیا ہے جس پر قدرتی سوال پھر اٹھا کہ سیکوریٹی کے انتظام اپوزیشن نے کرنے تھے یا حکومت نے اور پولیس ، رینجرز کہاں تھے اس سارے واقعہ میں اور ایم کیو ایم کو اسی وقت یہ ریلی نکالنے کی اتنی اشد ضرورت کیوں تھی جبکہ اپوزیشن کے مرکزی رہنما تو کراچی آئے ہی نہیں تھے اور وکلا نے اپوزیشن کے ساتھ مل کر چیف جسٹس کا استقبال کرنے سے اپوزیشن کو روک دیا تھا۔
آج ملک گیر سوگ اور ہڑتال منائی جارہی ہے اور ایم کیو ایم کی شدید مذمت کی جارہی ہے۔
کیا آپ بھی ایسا ہی سوچتے ہیں؟
براہ کرم اس موقع پر چپ نہ رہیں اور اپنے خیالات کا اظہار ضرور کریں ورنہ یہ ظلم کا سلسلہ بڑھتا ہی رہے گا ختم نہ ہوگا۔