یوم سیاہ

فرحت آپ نے بہت اہم نکات اٹھائے ہیں اور تصویر کے ساتھ ایک قیمتی لنک بھی دیا ہے جس سے معاملات کو سمجھنے میں کافی مدد ملی ہے ۔ ایک صاحب نے نکتہ اٹھایا تھا کہ قائد تحریک الطاف بھائی نے تو اپنا گھر بھی تنظیم کے نام کر دیا ہے اور یہ الزام ہے کہ وہ لندن میں بیٹھ کر عیاشی کر رہے ہیں۔ اس کا جواب آپ کے فراہم کردہ لنک ہی میں ہے جس میں الطاف حسین کی معاشی بدحالی کا نقشہ اس طرح کھینچا گیا ہے۔

His headquarters, or "international secretariat", is not in the Pakistani port city but housed in a red-brick office block opposite a supermarket on Edgware High Street.

جو افراد الطاف حسین کو ایم کیو ایم کا انکسار پسند قائد گردانتے ہیں ان کے بارے میں غیر جانبدار اور بین الاقوامی اخبارات ۱۲ مئی کے موقع پر اس طرح رقمطراز ہوتے ہیں

The man in charge of Pakistan's largest city, Karachi, was at his usual command-and-control post at the weekend: a sofa in north London.

قارئیں کی دلچسپی کے لیے بتاتا چلوں کہ قائد تحریک الطاف حسین ۱۹۹۲ میں گردے کا آپریشن کروانے کی غرض سے لندن گئے تھے اور وطنیت حاصل کرکے ایجوئیر سٹریٹ جیسی “معمولی“ جگہ پر قیام پذیر ہو گئے اور مستقبل قریب میں ان کے وطن لوٹنے کا کوئی منصوبہ نہیں ۔ جب سب کچھ ایک صوفہ اور ٹیلی فون سے کیا جا سکتا ہو تو کیوں کوئی خود کو عملی سیاست کی مشقت میں ڈالے۔
 
پولیس کوہتھیارنہ دینےکی ہدایت

کراچی پولیس کی جانب سے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے 12 مئی کے دورے کے لیے بنائے گئے سکیورٹی پلان میں یہ امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ اس روز خودکش حملے، بم دھماکے اور سیاسی رہنماؤں اور اہم شخصیات پر مسلح حملے ہو سکتے ہیں تاہم حیرت انگیز طور پر یہ حکم بھی دیاگیا کہ ریلیوں میں حفاظتی فرائض پر مامور اور مختلف مقامات پر تعینات کی جانے والی پولیس پلاٹونوں میں شامل اہلکاروں کو کوئی ہتھیار نہ دیا جائے۔

پورا آرٹیکل بی بی بی سی اردو پر یہاں سے دیکھیں۔
پولیس کو ہتھیار نہ دینے کا آرڈرُ

یہی بات ڈیلی ٹایم نے چودہ مئی کی اشاعت پر کہی ۔

Police personnel in Sindh were still weaponless Sunday, one day after Saturday’s bloodbath. The Sindh home department had directed the police departments to take back the weapons of all personnel deployed to control law and order on May 12, sources disclosed to Daily Times. Most of the police were given batons instead. Around 15,000 policemen were deployed to control the situation on Saturday. However, most of the policemen preferred to stay away from the violent areas on May 12 because they had no weapons. This allowed different political parties to take control of different areas. On Sunday, most f the policemen deployed throughout the city were not at their posts either.
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
باسم نے کہا:
نعمان کی ایک عمدہ تحریر
iluvkhi-peach.gif

دور پار کی کسی ریاست میں ایک عظیم شہر ہے۔ شہر جو پورا ملک ہے۔ جو حسین تو نہیں، مگر جفاکش ہے، وفا شعار ہے اور لائق بھروسا ہے۔ جو ذمہ دار ہے، بڑا ہے، قدامت، جدت، مشرق اور مغرب کے بیچ میں کھڑا ہے۔ جو ایک پل ہے معاشی خوشحالی کا، خوابوں کا۔ جہاں پری زاد اور پریاں رہتی ہیں۔ جہاں برے جادوگر اور شیطان بھی بستے ہیں۔ یہ بدی کی طاقتیں ایک عرصے سے اس شہر کے پیچھے پڑی ہیں۔ یہاں کے رہنے والوں کو دہشت زدہ کرکے یہ ان کے خواب ان سے چھین لینا چاہتے ہیں۔ یہ برے جادوگر چاہتے ہیں کہ اس شہر میں ہر طرف فساد، آگ اور خون ہو۔

ان برے جادوگروں کے مقابلے میں ایک ننھا پری زاد ایک چھوٹا سے بٹن بناتا ہے۔ یہ بٹن ہے پیار کا۔ ننھا پری زاد لوگوں سے کہتا ہے کہ اپنے دروازوں، کھڑکیوں، لباس اور سواریوں پر یہ بٹن چسپاں کرلو۔ اس بٹن میں وہ منتر ہے جو بدی کی طاقتوں کے سارے مظالم کا جواب ہے۔ اسے دیکھ کر شیطان بھاگ تو نہیں جائیں گے، مگر یہ ان پر ویسا ہی اثر کرے گا جیسا آگ اور خون کی ہولی تم پر کرتی ہے۔ اس بٹن سے وہ شیطان دہشت زدہ ہوجائیں گے۔

آپ بھی اس ننھے پری زاد کا یہ جادوئی بٹن اپنے بلاگ، گاڑیوں، گھروں اور دکانوں پر لگائیں اور اس عظیم شہر کے مظلوم عوام کا ساتھ دیں۔
یہ پیار کا بٹن مزید رنگوں میں

نعمان

آپ کی یہ کوشش بہت اچھی لگی !
 

فرحت کیانی

لائبریرین
[align=justify:a2b5182264]
محب علوی نے کہا:
پولیس کوہتھیارنہ دینےکی ہدایت

کراچی پولیس کی جانب سے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے 12 مئی کے دورے کے لیے بنائے گئے سکیورٹی پلان میں یہ امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ اس روز خودکش حملے، بم دھماکے اور سیاسی رہنماؤں اور اہم شخصیات پر مسلح حملے ہو سکتے ہیں تاہم حیرت انگیز طور پر یہ حکم بھی دیاگیا کہ ریلیوں میں حفاظتی فرائض پر مامور اور مختلف مقامات پر تعینات کی جانے والی پولیس پلاٹونوں میں شامل اہلکاروں کو کوئی ہتھیار نہ دیا جائے۔

پورا آرٹیکل بی بی بی سی اردو پر یہاں سے دیکھیں۔
پولیس کو ہتھیار نہ دینے کا آرڈرُ

یہی بات ڈیلی ٹایم نے چودہ مئی کی اشاعت پر کہی ۔

Police personnel in Sindh were still weaponless Sunday, one day after Saturday’s bloodbath. The Sindh home department had directed the police departments to take back the weapons of all personnel deployed to control law and order on May 12, sources disclosed to Daily Times. Most of the police were given batons instead. Around 15,000 policemen were deployed to control the situation on Saturday. However, most of the policemen preferred to stay away from the violent areas on May 12 because they had no weapons. This allowed different political parties to take control of different areas. On Sunday, most f the policemen deployed throughout the city were not at their posts either.

بالکل ۔ “ٹیلیگراف“ کے ہی شائع کردہ ایک مضمون میں یہ کہا گیا ہے کہ ایک طرف تو الطاف حسین “لبرل ازم“ کی بات کرتے ہیں دوسری طرف یہ وہی ہیں جن کو کچھ عرصہ پہلے اپنی پارٹی میں “روحانی رہنما“ کا درجہ دیا جاتا تھا۔ اور اس بات کا ذکر شاید نعمان نے بھی اپنی پوسٹ میں کیا ہے۔۔۔ ایک اور تبصرے میں کہا گیا کہ اپنے آپ کو کراچی کی سرپرست کہنے والی جماعت کے کارکنان زبردستی غنڈہ ٹیکس وصول کرنے میں ماہر ہیں۔یہ اسی مضون میں کہا گیا ہے جس کا حوالہ میں نے اپنی پچھلی پوسٹ میں دیا تھا۔۔
یہاں میں آج “ڈیلی ٹیلیگراف“ کے شائع کردہ ایک اور تبصرے کا ذکر کرنا چاہوں گی جس میں موجودہ حالات میں صدر کے رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔۔لکھا گیا کہ

Not only was his attempt to sack the chief justice ill-advised, so was the manner of its execution. When he was asked during a TV interview why he wore his uniform when he sacked the chief justice, he replied: "Should I have been in sports kit?"

It was not the answer to give at a time when Mr Chaudhry's suspension had further eroded the democratic façade and mobilised civil society at a time when Musharraf was looking increasingly isolated."
Daily Telegraph

اسی طرح سے “دی انڈیپنڈنٹ“ کا یہ مضمون بھی قابلِ غور ہے خصوصاً اس کا اختتامی حصہ۔۔

The situation is complex, but it is undeniable that Musharraf has reneged on his promises to restore democracy in Pakistan. And he increasingly resembles a dictator trying to entrench his position. That is often the beginning of the end. No matter how useful he may be to the West, if he continues in this vein, President Musharraf risks being swept away in the same manner as he dispatched his predecessors.
The Independent

اس کو ستم ظریفی نہیں تو اور کیا کہا جائے کہ ملک کا سربراہ جو کہ فوج کو بھی سالارِ اعلیٰ ہے ۔۔بلٹ پرف شیشے کے پیچھے کھڑے ہو کر اعلان کرتا ہے کہ عوام اس کے ساتھ ہے۔۔ جس سربراہِ مملکت کو اپنی جان محفوظ نہیں لگتی وہ اپنی عوام کی حفاظت کیا خاک کرے گا۔۔ ہم لوگ تو ہونہی ان کو الزام دیے جا رہے ہیں۔۔۔
جہاں تک 12 مئی کے بعد حالات کا تعلق ہے تو ناحق خون کہیں بھی بہایا جائے رنگ تو لاتا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے پے در پے ہونے والے واقعات نے عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اب واقعی اٹھ کھڑے ہونے کا وقت آ گیا ہے۔۔ جب خون اس قدر ارزاں ہو جائے تو تبدیلی آنا÷ لانا ناگزیر عمل بن جاتا ہے۔۔ جو چپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا۔۔ لیکن یہاں ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ اس طرح کا لائحہ عمل تیار کیا جائے جس میں اشتعال انگیزی کی نفی اور ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ حالات و واقعات کا تجزیہ کرنے کے بعد درست سمت میں قدم بڑھائے جائیں کیونکہ پہلے ہی خدشہ ہے کہ 12 مئی کے بعد کراچی میں خصوصاً لسانی فسادات بھڑکنے کا خدشہ ہے ۔۔اور ایسی صورت میں مو قعہ پرست عناصر کے لئے اپنے مفادات حاصل کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔۔
گزشتہ د نوں ٹیلی ویژن پر اک بحث کے دوران ایک صاحب نے
کہا کہ پاکستانی عوام کے پاس قیادت کا فقدان ہے۔ انھوں نے تو نہ جانے کس خیال کے تحت کہا ہو گا لیکن میں ذاتی طور پر سمجھتی ہوں ہمارے پاس واقعی ڈھونڈے سے بھی “مخلص قیادت“ نہیں ملتی۔۔۔ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے تو بہت ہیں لیکن حقیقتاً قوم کا درد محسوس کرنے والے بہت کم ہی ہوں گے۔۔ گزشتہ روز میں اقبال بانو کے گائے ہوئے کلام“ ہم دیکھیں گے“ کی ویڈیو دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ فیض اورجالب نے اپنے زمانے میں جو کچھ لکھا تھا۔۔حلات تو اب بھی وہی ہیں۔۔ صرف چہرے بدل گئے ہیں باقی تو سب کچھ ویسا ہی ہے۔۔۔ دعا ہے کہ آنے والی نسلوں میں سے کبھی کسی کو میری طرح یہ الفاظ دہرانے نہ پڑیں(آمین)[/align:a2b5182264]
 
کسی نے نک رکھا ہوا تھا کہ یہاں چیف جسٹس کو جسٹس چاہیے اور چیف آف سیکوریٹی کو سیکوریٹی۔

اس کے بعد عالم یہ ہے کہ انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ ملک میں امن امان کا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور صرف میڈیا، اپوزیشن والے حالات کو ‘سیاسی ‘ رنگ دے رہے ہیں اور اپنی سیاست چمکا رہے ہیں ۔

جانے حکمرانوں کی نظر میں ‘سیاست‘ کیا ہے ، امن امان کس چڑیا کا نام ہے ، بحران کی کیفیت کا ادراک انہیں ہوتا بھی ہے یا نہیں اور اپنی ‘میں‘ سے نکل کر حقیقت پسندانہ نظر سے مسائل کو کب دیکھیں گے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اوائلِ مارچ میں چیف جسٹس کو غیر فعال کیے جانے کے بعد ایک کے بعد ایک واقعہ ایک ہی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ “اب کے جانا یقینی ٹھہرا۔۔“ اور شاید یہ سب کچھ اس بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے جس کا شکار ہر جانے والا ہوتا ہے۔۔
3 مارچ۔۔عدلیہ کے چیف کو غیر فعال قرار دیا جاتا ہے۔ وجوہات بہت سی بتائی جاتی ہیں جن میں سرِ فہرست بیٹے کی سفارش اور غیرضروری پروٹوکال کا مطالبہ ہیں۔۔ واقعی بہت سنگین جرائم ہیں۔۔
×× حالانکہ سٹیل مل کیس، لا پتہ افراد کی بازیابی کے لئے سوماٹو ایکشن اور پھر ملک کے سیاہ سفید کے مالک کے پیغام کے جواب میں یہ کہنا کہ فیصلہ قانون کے مطابق کیا جائے گا۔۔کچھ کم سنگین جرائم تو نہیں تھے۔۔ اس کے باوجود اگر لوگ چیف جسٹس کی معطلی کو ظلم سمجھتے ہیں تو ان کی نادانی پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔

مارچ میں ہی نیب کے ایک انتہائی اہم سیل کو بندکرنے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اچانک پتہ چلتا ہے کہ اس سیل کے سربراہ کی خدمات کی زیادہ ضرورت صوبائی حکومت کو ہے۔ رہی محترمہ کے خلاف تحقیق تو وہ کون سا کہیں بھاگی جا رہی ہیں۔۔

×× نظریہ ء ضرورت کا اس سے خوبصورت استعمال میں نے آج تک نہیں دیکھا۔۔دورِحکومت کو مزید بڑھانے کے لئے بے نظیر کو کی حکومت میں شرکت بھی گوارہ ہے۔۔اور دوسری طرف بھی مقصد یہی ہے اور اس کے لئے وردی بھی قبول ہے۔۔


وزیرستان کے دشوار گزار علاقوں میں چھپے دہشت گردوں کو ہماری فوج ان کے انتہائی خفیہ ٹھکانوں سے ڈھونڈ کر ان کا قلع قمع کر سکتی ہے لیکن دارلحکومت اسلام آباد میں جامعہ حفصی اور لال مسجد کے سلسلے میں کچھ زور نہیں چلتا۔۔
×× آخر کو انکل سام کو یقین بھی تو دلانا ہے کہ پاکستان کس طرھ “طالبنائزیشن“ کے خطرے میں گھرا ہوا ہے اور مشرف کے چلے جانے کے کی صورت میں “شدت پسندوں“ کا گڑھ بھی بن سکتا ہے۔۔اس مسئلے کو “آہنی مکہ “ ہی حل کر سکتا ہے۔

12 مئی کو ایک طرف تو بے گناہوں کا خون بہایا گیا اور دوسری طرف یہ اعلان کیا گیا کہ عوام ہمارے ساتھ ہے۔۔اور کوئی امن امان کا مسئلہ نہیں ہے۔۔
ٕ×× جنرل صاحب کو لگتا ہے کہ ایم کیو ایم نے ان کے لئے اپنی حمائت دکھائی ہے جبکہ اصل بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے بلاواسطہ طور پر جنرل صاحب کو اپنی طاقت کی ایک جھلک دکھائی ہے۔۔کہتے ہیں سمجھ دار کو اشارہ ہی کافی ہے

ان اب واقعات کا ایک نتیجہ تو یہ ہے کہ عوام میں بے چینی اور عدم تحفظ کا احساس مزید مضبوط ہو گیا ہے۔۔ ہو سکتا ہے یہ احساس کسی مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو لیکن ساتھ یہ لسانی فسادات کے بھڑک اٹھنے کا بھی اندیشہ ہے اور اگر ایسا ہوا تو بہت تباہی (خدانخواستہ) ہو گی۔۔
دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ اب بی بی اور جنرل صاحب کی ڈیل کے امکانات مزید کم ہوتے نظر آتے ہیں کہ پی پی پی کا کارکن بھی 12 مئی کے متاثرین میں شامل ہیں اور دوسری طرف “حلیف“ الطاف بھائی نے بھی جنرل صاحب کو وارن کیا ہے کہ وہ ایسے کسی قام سے باز رہیں۔۔

تو لگتا یہی ہے کہ “کارواں کے کُوچ کا وقت قریب آ گیا ہے“۔۔
 

نعمان

محفلین
میں وہاب کی پوسٹ کہ کراچی کو ایک اور نصر اللہ بابر کی ضرورت ہے پر لکھنے ہی لگا تھا کہ آصف کا جواب نظر آگیا۔ شکریہ آصف کہ آپ نے حق کی بات کہی۔

کراچی میں جو کچھ گذشتہ دنوں ہوا وہ بے حد ظالمانہ تھا اور ایم کیو ایم کی جانب سے وحشت کا مظاہرہ تھا۔ مگر میرے خیال میں ہمارے شہر کے لوگوں کو اعتدال کی ضرورت ہے۔ ایم کیو ایم کیخلاف ضرور لکھیں اور حق کی بات کہیں مگر بلاوجہ کی جذباتیت پرے رکھیں۔

اگر ضرورت ویکیپیڈیا پر مضامین کی ہے تو کیوں نہ جنرل بابر اور ایجنسیوں کے کراچی میں ماورائے عدالت قتل عام پر بھی کچھ مضامین ہوجائیں۔

میری بٹن والی پوسٹ کی وضاحت بھی کرنا تھی۔ بے شک پوسٹ میری تھی اور مجھے معلوم ہے کہ میں بہت اچھا لکھتا ہوں۔ :D

مگر بٹن بنانے کا خیال اور اس کی تقسیم اعجاز آسی کررہے ہیں۔ اور اس کام پر مبارکباد کے مستحق وہی ہیں۔ امید ہے آپ سب ان کی ضرور حوصلہ افزائی فرمائیں گے اور ان بٹنوں کو جگہ جگہ پہنچائیں گے۔
 

اظہرالحق

محفلین
حتہ کہ مجھے ایک جزباتی اور ایم کیو ایم مخالف ممبر کے طور پر جانا جاتا ہے اور بقول نعمان کے میری تحریر ڈرامہ نگاری یا ڈائلاگ پر مشتمل ہوتی ہے ۔ ۔ اور مثال دی ۔ ۔ آغا حشر کی ۔ ۔ مگر کبھی کبھی انسان پر بیتے ہوئے لمحے اسے مجبور کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ڈائلاگ بولنے پر ۔ ۔۔ خیر میں آج ایم کیو ایم کی کچھ اچھی باتوں کا ذکر کرنا چاہوں گا ۔ ۔ ۔

- اسی (80) کی دہائی کے شروع میں کراچی میں ایک تنظیم کی طرف سے سستے بازار لگانے کا آغاز ہوا ۔ ۔ ۔ اور کراچی کی عوام اس دن کا انتظار کرتے جب بازار لگتے یہ بازار شہر کے مختلف علاقوں میں لگتے جس میں کسی قوم کی تمیز نہیں تھی ۔ ۔ اور سب لوگ مل جُل کر اس میں حصہ لیتے تھے اور یہ بازار آرگنائز کرنے والے کوئی اور نہیں ایم کیو ایم والے ہی تھے ۔ ۔

- کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور بلدی میں کام تیز کرانے کا کام شروع کیا گیا اور اسکی وجہ تھی ایم کیو ایم ۔ ۔ ۔ جسکے نتیجے میں گلشن اقبال سے لیکر ملیر لانڈھی تک ۔ ۔ ۔ لوگ اپنے مسائل کے حل کے لئے ایک ہی تنظیم کو دیکھنے لگے ۔ ۔ ۔ اور وہ تھی ۔ ۔ ۔ ایم کیو ایم ۔ ۔

- کراچی کے کالجز میں غیر نصابی سرگرمیوں میں صرف تقریروں کے مقابلے باقی رہ گئے تھے ، کھیلوں کے مقابلے اور شاعر و ڈرامہ کی محافل سجائی جانے لگیں اور انکے پیچھے تھی ایک کا لجز کی تنظیم اے پی ایم ایس او ۔ ۔ ۔ انکے اسی سرگرمی نے پاسبان (جماعت اسلامی کی تنظیم) نے بھی اسی طرح کی سرگرمیاں شروع کیں ۔ ۔ ۔ شاید کسی کو دنیا کا سب سے بڑا کرکٹ کا بلا یاد ہو ۔ ۔ ۔ ۔

- میں خود ایک پنجابی ہونے کے باوجود ، اورنگی سے کورنگی تک اپنی ملازمت کے سلسلے میں آتا جاتا رہتا تھا ، کبھی بھی احساس نہیں ہوا ، میرے دوستوں میں اس تنظیم کے یونٹ انچارج اور لڑکے تھے ۔ ۔ ۔ جو آپکی مدد کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے ۔۔ ۔

مگر ایک دن ۔۔ ۔ کراچی یونیورسٹی کی ایک طالبہ بشریٰ زیدی ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہو گئی ۔ ۔ ۔ اور پھر اس احتجاج کو لسانی رنگ دے دیا گیا ۔ ۔ ایم کیو ایم جو صرف مہاجر قومیت کی بات کر رہی تھی ۔ ۔ اسی لسانیت کا شکار ہوئی ۔ ۔ ۔ اور حکومت وقت نے اس انارکی کا فائدہ اٹھایا اور ایم کیو ایم کے ناآقبت انگیز رہنماؤں نے اسے دھشت کا اور پھر ایک پریشر گروپ بنا دیا ۔ ۔ ۔ اور پھر پکا قلعہ اور بابر کے آپریشن نے اسے مزید خونی بنا دیا ۔ ۔ ۔ طارق عظیم کے بعد اس کا کوئی رہنما ایسا نہ تھا ۔ ۔ جو اس تنظیم کو اعتدال کا راستہ دیکھاتا ۔ ۔ ۔ اس تنظیم میں غنڈا عناصر آتے چلے گئے ۔۔ ۔ اور پھر یہ جھگڑا بڑھتا چلا گیا ۔ ۔ ۔ ۔

غالباً 1986 کی بات ہے ، ہماری گندی گلی والی سائیڈ کا دروزہ کھٹکا ۔ ۔ ۔ رات کے 9 بج رہے تھے سردیوں کے دن تھے اور حالات کافی خراب تھے ۔ ۔ ۔ میں نے کھڑکی سے جھانکا اور پوچھا کون ہے ۔ ۔ تو ایک دم سامنے ایک دبلا پتلا لڑکا آ گیا ۔ ۔ شاید 19÷20 سال کا ہو گا ۔ ۔ کہنے لگا کہ پی پی آئی (پنجابی پختون اتحاد ) والے میرے پیچھے ہیں میں‌ شاہ فیصل یونٹ سے ہوں آپ مجھے گھر میں چھپا لیں ۔ ۔ ظاہر ہے میں نے گھر والوں نے نہیں میں جواب دیا ۔ ۔ مگر اسنے کہا اچھا آپ ادھر مجھ سے بات کرتے رہو ۔ ۔ تا کہ میں تھوڑا وقت ادھر گزار لوں کیونکہ اگر کوئی آئے تو سمجھے کہ میں ادھر کا ہی ہوں ۔ ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم نے ایسا کیا کیا ہے کہ تم بھاگتے پھر رہے ہو ۔ ۔ وہ کہنے لگا ۔ ۔ کہ بھائی کے حکم پر ہم نے گولڈن ٹاؤن میں دو دوکانیں جلائیں تھیں ۔ ۔ مگر اب میں نظر میں آ گیا ہوں ۔ ۔ مجھے کہا گیا ہے کہ ملیر جاؤں مگر مجھے میرے ایک دوست نے بتایا ہے کہ تمہارے قتل کے آرڈر جاری ہو چکے ہیں ۔ ۔ ۔ اب میں کہیں کا نہیں ۔ ۔ نہ ادھر نہ ادھر ۔ ۔ ۔ پھر اسنے بتایا کہ اسنے پانی تک نہیں پیا ۔ ۔ ۔ میں نے اسے پانی دیا اور اتنے میں گولیاں چلنے لگیں ۔ ۔ اسنے مجھے کہا کہ آپ بہت اچھے ہیں ۔ ۔ ۔ اور مہاجروں کو مہاجروں کا ساتھ دینا چاہیے ۔ ۔ آپ کو ادھر بہت مشکل ہو گی ۔ ۔ میں نے کہا کہ نہیں اور دوسری بات کہ میں مہاجر نہیں ۔ ۔ پنجابی ہوں ۔ ۔ ۔ اسکی حیرت آج دن تک مجھے یاد ہے ۔ ۔ ۔ کہنے لگا زندگی رہی تو ضرور ملوں گا آپ سے ۔ ۔ ۔ اسنے اپنے نیفے سے ٹی ٹی نکالی ۔ ۔ تو میں نے ڈر کر کھڑکی بند کرنی چاہی مگر وہ ہنس کر بولا نہیں دوست میں برا نہیں برا بن گیا ہوں ۔۔ ۔ دعا کرنا مجھے آرام کی موت ملے اور اللہ مجھے معاف کر دے ۔ ۔ وہ بھاگ گیا اور پھر گولیاں چلتی رہیں ۔ ۔ ۔ دوسرے دن ۔ ۔ صبح کو پتہ چلا کہ ہم سے دو گلیوں کے پیچھے اسے قتل کیا گیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے آج دن تک اسکا چہرہ یاد ہے ۔ ۔ اور پھر بہت سارے ایسے دوسرے واقعات میں جانا کہ جوان بہت مجبور تھے ۔ ۔ ۔ ایم کیو ایم کا ساتھ دینے کے لئے ۔ ۔ ۔ اور کچھ لوگ بہت ہی نرم دل رکھتے تھے ۔۔۔ اس میں راشد بھائ ہمیشہ یاد رہیں گے جو شاہ فیصل کالونی کے یونٹ انچارج تھے ۔ ۔ ۔ کراچی کے حادثوں پر یہ کہنا ہی کافی ہے

زمانہ کرتا ہے پرورش اسکی برسوں
حادثہ کوئی ایک پل میں نہیں ہوتا
 

اظہرالحق

محفلین
راہبر نے کہا:
اظہرالحق نے کہا:
زمانہ کرتا ہے پرورش اسکی برسوں
حادثہ کوئی ایک پل میں نہیں ہوتا
(معذرت کے ساتھ)
قابل اجمیری نے یوں کہا تھا:
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

ارے راھبر صاحب شعر تو کبھی صحیح سے یاد رہتے ہی نہیں ۔ ۔ ۔ کیا کریں ۔ ۔ ۔لگتا ہے خمیرہ گاؤزبان کی مقدار بڑھانا پڑے گی ۔ ۔ :twisted:
 
نعمان نے کہا:
میں وہاب کی پوسٹ کہ کراچی کو ایک اور نصر اللہ بابر کی ضرورت ہے پر لکھنے ہی لگا تھا کہ آصف کا جواب نظر آگیا۔ شکریہ آصف کہ آپ نے حق کی بات کہی۔

کراچی میں جو کچھ گذشتہ دنوں ہوا وہ بے حد ظالمانہ تھا اور ایم کیو ایم کی جانب سے وحشت کا مظاہرہ تھا۔ مگر میرے خیال میں ہمارے شہر کے لوگوں کو اعتدال کی ضرورت ہے۔ ایم کیو ایم کیخلاف ضرور لکھیں اور حق کی بات کہیں مگر بلاوجہ کی جذباتیت پرے رکھیں۔

اگر ضرورت ویکیپیڈیا پر مضامین کی ہے تو کیوں نہ جنرل بابر اور ایجنسیوں کے کراچی میں ماورائے عدالت قتل عام پر بھی کچھ مضامین ہوجائیں۔

میری بٹن والی پوسٹ کی وضاحت بھی کرنا تھی۔ بے شک پوسٹ میری تھی اور مجھے معلوم ہے کہ میں بہت اچھا لکھتا ہوں۔ :D

مگر بٹن بنانے کا خیال اور اس کی تقسیم اعجاز آسی کررہے ہیں۔ اور اس کام پر مبارکباد کے مستحق وہی ہیں۔ امید ہے آپ سب ان کی ضرور حوصلہ افزائی فرمائیں گے اور ان بٹنوں کو جگہ جگہ پہنچائیں گے۔

میں بھی اس چیز کی حمایت کروں گا کہ خونی آپریش کی بالکل اجازت نہیں ہونی چاہیے اور طاقت کا استعمال بھی نہیں کرنا چاہیے۔

نعمان بالکل صحیح بات ہے کہ اس موضوع پر مضامین جمع کیے جائیں ۔ ایم کیو ایم کے قیام سے لے کر اب تک کے حالات میں یقینا جنرل بابر اور ایجنسیوں کا رول بھی نمایاں ہے اور اس پر بھی مضمون ہونا چاہیے۔ آغاز کریں اور مواد اکھٹا ہوتا چلا جائے گا۔

پیار پھیلانے والا بٹن یقینا ایک احسن خیال ہے اور اس پر آپ اور اعجاز آسی مبارکباد کے مستحق ہیں۔
 
Top