[align=justify:a2b5182264]
محب علوی نے کہا:
پولیس کوہتھیارنہ دینےکی ہدایت
کراچی پولیس کی جانب سے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے 12 مئی کے دورے کے لیے بنائے گئے سکیورٹی پلان میں یہ امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ اس روز خودکش حملے، بم دھماکے اور سیاسی رہنماؤں اور اہم شخصیات پر مسلح حملے ہو سکتے ہیں تاہم حیرت انگیز طور پر یہ حکم بھی دیاگیا کہ ریلیوں میں حفاظتی فرائض پر مامور اور مختلف مقامات پر تعینات کی جانے والی پولیس پلاٹونوں میں شامل اہلکاروں کو کوئی ہتھیار نہ دیا جائے۔
پورا آرٹیکل بی بی بی سی اردو پر یہاں سے دیکھیں۔
پولیس کو ہتھیار نہ دینے کا آرڈرُ
یہی بات ڈیلی ٹایم نے چودہ مئی کی اشاعت پر کہی ۔
Police personnel in Sindh were still weaponless Sunday, one day after Saturday’s bloodbath. The Sindh home department had directed the police departments to take back the weapons of all personnel deployed to control law and order on May 12, sources disclosed to Daily Times. Most of the police were given batons instead. Around 15,000 policemen were deployed to control the situation on Saturday. However, most of the policemen preferred to stay away from the violent areas on May 12 because they had no weapons. This allowed different political parties to take control of different areas. On Sunday, most f the policemen deployed throughout the city were not at their posts either.
بالکل ۔ “ٹیلیگراف“ کے ہی شائع کردہ ایک مضمون میں یہ کہا گیا ہے کہ ایک طرف تو الطاف حسین “لبرل ازم“ کی بات کرتے ہیں دوسری طرف یہ وہی ہیں جن کو کچھ عرصہ پہلے اپنی پارٹی میں “روحانی رہنما“ کا درجہ دیا جاتا تھا۔ اور اس بات کا ذکر شاید نعمان نے بھی اپنی پوسٹ میں کیا ہے۔۔۔ ایک اور تبصرے میں کہا گیا کہ اپنے آپ کو کراچی کی سرپرست کہنے والی جماعت کے کارکنان زبردستی غنڈہ ٹیکس وصول کرنے میں ماہر ہیں۔یہ اسی مضون میں کہا گیا ہے جس کا حوالہ میں نے اپنی پچھلی پوسٹ میں دیا تھا۔۔
یہاں میں آج “ڈیلی ٹیلیگراف“ کے شائع کردہ ایک اور تبصرے کا ذکر کرنا چاہوں گی جس میں موجودہ حالات میں صدر کے رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔۔لکھا گیا کہ
“
Not only was his attempt to sack the chief justice ill-advised, so was the manner of its execution. When he was asked during a TV interview why he wore his uniform when he sacked the chief justice, he replied: "Should I have been in sports kit?"
It was not the answer to give at a time when Mr Chaudhry's suspension had further eroded the democratic façade and mobilised civil society at a time when Musharraf was looking increasingly isolated."
Daily Telegraph
اسی طرح سے “دی انڈیپنڈنٹ“ کا یہ مضمون بھی قابلِ غور ہے خصوصاً اس کا اختتامی حصہ۔۔
“
The situation is complex, but it is undeniable that Musharraf has reneged on his promises to restore democracy in Pakistan. And he increasingly resembles a dictator trying to entrench his position. That is often the beginning of the end. No matter how useful he may be to the West, if he continues in this vein, President Musharraf risks being swept away in the same manner as he dispatched his predecessors.
The Independent
اس کو ستم ظریفی نہیں تو اور کیا کہا جائے کہ ملک کا سربراہ جو کہ فوج کو بھی سالارِ اعلیٰ ہے ۔۔بلٹ پرف شیشے کے پیچھے کھڑے ہو کر اعلان کرتا ہے کہ عوام اس کے ساتھ ہے۔۔ جس سربراہِ مملکت کو اپنی جان محفوظ نہیں لگتی وہ اپنی عوام کی حفاظت کیا خاک کرے گا۔۔ ہم لوگ تو ہونہی ان کو الزام دیے جا رہے ہیں۔۔۔
جہاں تک 12 مئی کے بعد حالات کا تعلق ہے تو ناحق خون کہیں بھی بہایا جائے رنگ تو لاتا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے پے در پے ہونے والے واقعات نے عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اب واقعی اٹھ کھڑے ہونے کا وقت آ گیا ہے۔۔ جب خون اس قدر ارزاں ہو جائے تو تبدیلی آنا÷ لانا ناگزیر عمل بن جاتا ہے۔۔ جو چپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا۔۔ لیکن یہاں ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ اس طرح کا لائحہ عمل تیار کیا جائے جس میں اشتعال انگیزی کی نفی اور ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ حالات و واقعات کا تجزیہ کرنے کے بعد درست سمت میں قدم بڑھائے جائیں کیونکہ پہلے ہی خدشہ ہے کہ 12 مئی کے بعد کراچی میں خصوصاً لسانی فسادات بھڑکنے کا خدشہ ہے ۔۔اور ایسی صورت میں مو قعہ پرست عناصر کے لئے اپنے مفادات حاصل کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔۔
گزشتہ د نوں ٹیلی ویژن پر اک بحث کے دوران ایک صاحب نے
کہا کہ پاکستانی عوام کے پاس قیادت کا فقدان ہے۔ انھوں نے تو نہ جانے کس خیال کے تحت کہا ہو گا لیکن میں ذاتی طور پر سمجھتی ہوں ہمارے پاس واقعی ڈھونڈے سے بھی “مخلص قیادت“ نہیں ملتی۔۔۔ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے تو بہت ہیں لیکن حقیقتاً قوم کا درد محسوس کرنے والے بہت کم ہی ہوں گے۔۔ گزشتہ روز میں اقبال بانو کے گائے ہوئے کلام“ ہم دیکھیں گے“ کی ویڈیو دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ فیض اورجالب نے اپنے زمانے میں جو کچھ لکھا تھا۔۔حلات تو اب بھی وہی ہیں۔۔ صرف چہرے بدل گئے ہیں باقی تو سب کچھ ویسا ہی ہے۔۔۔ دعا ہے کہ آنے والی نسلوں میں سے کبھی کسی کو میری طرح یہ الفاظ دہرانے نہ پڑیں(آمین)[/align:a2b5182264]