یوم مئی

رضوان

محفلین
یوم مئی
شکاگو کے شہیدوں کو سرخ سلام
یکم مئی ہر برس آتا ہے اپنے ساتھ کیے سوالات لیے۔ آٹھ گھنٹے اوقات کار (دوبارہ کب کے سلب ہوچکے) مزوروں کے حقوق اور انجمن سازی (یہ کیا ہوتی ہے) کام کے لیئے بہتر ماحول کم از کم اجرت کا تعین (بھٹہ مزدور تو سامنے کی بات ہے بیسیوں دیگر جیسے کھیت مزدوری پر پردہ پڑا ہے )ایسے ہی کئی حقوق جو حاصل کیے گئے تھے آج دوبارہ سلب ہوچکے ہیں۔
بہت تلخ ہیں بندہ مزدور کے اوقات
آج کی این جی اوز کیا لیبر یونین کا متبادل ثابت ہو سکتی ہیں؟ آج کا آئی ٹی کلچر کا نمائندہ اپنے آپ کو مزدور کہلوانے پر تیار نہیں۔ معاشی غلامی اپنی گرفت سخت کرتے ہوئے کیا حقیقی غلامی کو نہیں چھو رہی؟؟؟
آخر ہم اتنے خوفزدہ کیوں ہیں؟ اپنے لیے بات کرتے ہوئے ڈر تے کیوں ہیں؟ شاید ابھی تک ہمیں اپنے اسیر ہونے کا یقین نہیں ہوا۔ یا یہ کہ آزادی کا وجود اس روئے زمین پر کہیں نہیں ہے اور سچ بھی شاید یہی ہے۔
 

ثناءاللہ

محفلین
رضوان نے کہا:
یوم مئی
شکاگو کے شہیدوں کو سرخ سلام

بہت تلخ ہیں بندہ مزدور کے اوقات
آج کی این جی اوز کیا لیبر یونین کا متبادل ثابت ہو سکتی ہیں؟ آج کا آئی ٹی کلچر کا نمائندہ اپنے آپ کو مزدور کہلوانے پر تیار نہیں۔ معاشی غلامی اپنی گرفت سخت کرتے ہوئے کیا حقیقی غلامی کو نہیں چھو رہی؟؟؟

اور اسی وجہ سے پاکستان میں سؤفٹ وئیر ہاوسز پروگرامرز کا خوب حشرنشر کرتے ہیں ‌صبح آنے کا وقت تو ہوتا ہے، جانے کا نہیں اور کوئی اوور ٹائم بھی نہیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
رضوان، آج آپ نے خوب سرخ سلام کی یاد دلائی ہے۔ یہ سرخا پن تو اب قصہ پارینہ ہی بن کر رہ گیا ہے۔ اب نئی نسل کے لوگوں کو سرخ، سبز اور دائیں، بائیں بازو کا پتا نہیں معلوم ہے کہ نہیں۔ کمیونسٹ روس کے زمانے تک تو ایشیا سرخ ہے اور ایشیا سبز ہے کے نعروں کا مقابلہ ہی ہوتا رہتا تھا۔

ثناءاللہ، پاکستان میں آئی ٹی کی ترقی کا شور تو بڑا مچا رہتا ہے اور حقیقت اس کی یہی ہے کہ کمپیوٹر گریجویٹس کو ڈیٹا بیس کے فرنٹ اینڈز لکھنے پر جوٹ رکھا ہے۔ اس پر کام کا امریکی معیار مانگتے ہیں اور تنخواہ وہی پاکستانی۔ بے چارے پروگرامر نہ ہوئے، مشینیں ہو گئے۔ چوبیس چوبیس گھنٹے کی شفٹوں میں کام کروا کر کام پورا کیا جاتا ہے۔
 

رضوان

محفلین
یوم مئی
شکاگو کے شہیدوں کو سرخ سلام


مزدور تحریک بنیادی طور پر 1860ء سے شروع ہو چکی تھی جو مختلف جوروستم کے مراحل طے کرتے ہوئے 1886ء کو اسٹارک ہارویسٹر کے 80ہزار مزدوروں نے اپنے مطالبات حکومت تک پہنچانے کے لئے احتجاج شروع کیا۔ فیکٹریوں میں دوران کام مزدور محنت طلب کام کی زیادتی کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے تھے اور مزدوروں کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ تنخواہ میں اضافہ کیا جائے۔ ان مطالبات کے سلسلے میں دوسرے روز یکم مئی 1886ء کو بھی شکاگو کے سارے کارخانوں میں مکمل ہڑتال رہی۔ 3مئی کو ہڑتالی مزدوروں نے بہت بڑا جلسہ کیا جس میں سرمایہ دار نے اپنا رنگ دکھایا، اس جلسے میں پولیس نے بلاوجہ فائرگ کی جس میں 5 مزدور ہلاک ہو گئے۔ ان مزدوروں کی المناک موت پر 4 مئی کو شکاگو شہر کے مارکیٹ چوک ایک اور بڑا جلسہ اور مزدور ریلی ہوئی۔ مزدور لیڈروں نے اس جلسے میں 3 مئی کو ہلاک ہونے والے مزدوروں کے ضمن میں احتجاجی تقاریر کیں۔ اسی اثناء میں ایک پولیس آفیسر کیپٹن بون اسلحہ سے لیس 180 سپاہیوں سمیت جلسہ گاہ میں داخل ہوا اور جلسہ ختم کرنے کا حکم دیا۔ اس وقت جلسے کے آخری مقرر سیموئیول فلیڈن تقریر کر رہے تھے اور انکی تقریر کے دوران ہی جلسہ گاہ کے قریب ایک بم دھماکہ ہوا جس سے چند پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے۔ کیپٹن بون نے طیش میں آکر مزدوروں پر گولیاں چلانے کا حکم دیا۔ دہشتگردانہ انداز کی فائرنگ سے مزدوروں کا خون سینوں سے نکل کر زمین پر بہنے لگا۔ ایک مزدور نے اپنی قمیض خون میں ڈبو کر اس کا جھنڈا بنا دیا (اسی وقت سے مزدوروں کے جھنڈے کا رنگ سرخ ہے) ۔ ہر طرف خون ہی خون اور تڑپتی ہوئی لاشیں تھیں لیکن مزدوروں کے عزائم پختہ تھے خون سے تر جھنڈا لہرا رہا تھا۔اس سانحہ میں 11 مزدور ہلاک ہوئے جن میں دو عورتیں اور ایک بچہ بھی شامل تھا۔ پولیس نے آٹھ مزدور لیڈروں کو گرفتار کر لیا۔ عدالتی کاروائی شروع ہوئی تو بیشمار عدالتی بد دیانتیاں سامنے آئیں۔ اس عدالت نے چار مزدور لیڈروں ، 1ڈی فیشر، 2 اینجل، 3اسپائر اور 4پرسٹر کو دہشتگرد قرار دے کر چار کو پھانسی اور تین کو عمر قید کی سزا سنائی۔
ان چاروں مزدوروں نے موت کو گلے لگایا، اسپائر نے کہا “ غریب انسانوں کی آواز بلند ہونے دو ورنہ ان کی تلواریں بلند ہوں گی۔“
اینجل کے الفاظ بھی امر ہوگئے “ تم ہمیں مار سکتے ہو مگر ہماری تحریک ختم نہیں کرسکتے“
فیشر نے موت کی سزا تسلیم کرتے ہوئے کہا “ ہم خوش ہیں کہ ایک اچھے مقصد کے لیے جان دے رہے ہیں“
پریسٹر نے مرنے سے پہلے کہا “ تم اس آواز کو بند کر سکتے ہو لیکن وقت بتائے گا کہ ہماری خاموشی ہماری آواز سے زیادہ طاقتور ہو گی“

قتل گاہوں سے چن کر ہمارے عَلم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے​

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------
 

رضوان

محفلین
اس پر لکھنا بہت کچھ قرض ہے!
رہی شفٹوں اور اوقاتِ کار والی بات اب تقریباً تمام بڑی پروڈکشن کمپنیاں اوقات کار کے حوالے سے بارہ گھنٹے کام لے رہی ہیں۔ جو پھیل کر اٹھارہ گھنٹے آسانی سے ہو جاتا ہے۔
کارخانوں میں ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ پر ہی کام ہوتا ہے۔ کراچی کی لانڈھی کورنگی مِل ایریا سے کوئی بارہ تیرہ سال بعد گزرنے کا اتفاق ہوا، پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔ اب تک عام ملوں میں ایک نیا کاریگر 3000 روپے پاتا ہے اور ڈپلومہ ہولڈر کاریگر 7000سے دس ہزار تک۔ اب مکان خریدنا کیا کرائے پر لینا خواب ہے ان لوگوں کے لیے۔
سرخ اور سبز کے بجائے ورلڈ سوشل فورم کچھ جان پکڑتا دکھتا ہے لیکن پاکستان کے لیے ہنوز دلی دور است۔۔۔
 
Top