سلمان حمید
محفلین
دلچسپ تحریر ہے۔ معلوماتی۔
اگر نظر کام کررہی ہے تو"جب بھی زیر بحث آئے"کے بعد ”مناسب جان کر“بھی ذرا پڑھ لیں۔اپہلے صرف "مفید اور با معنی بحث" کی شرط رکھی اور پھر کچھ ہی منٹوں میں خود ہی اس سے پھر گئے اور "جب بھی زیر بحث آئے" پر چھلانگ لگا لی۔
چلو ہم تو سڑک چھاپ ہوئے مگر جناب پرویز کے کالم سے لگ رہا ہے کہ موصوف انگوٹھا چھاپ ہےجو غیر سائنسی رویہ اپنا کرمشاہدے اور دلیل کے بجائے سننے کو سائنس خیال کررہے ہیں۔میں اس پر تو بات نہیں کر رہا کہ کوئی سڑک چھاپ اٹھ کر ڈاکٹر پرویز ہودبھائی جیسے اعلیٰ پائے کے نامور سائنس دان کو "غیر سائنسی" کیسے کہہ سکتا ہے کیونکہ اس لطیفے پر بات کرنا واقعتاً وقت برباد کرنا ہے اور میں یہ کام نہیں کروں گااور یقین مانیں کہ میں آپ کی طر ح اپنی بات سے نہیں پھرنے والا۔
برادرانہ مشورہ دینے کا پیشگی شکریہ۔الحمد للہ آپ سے شائد زیادہ اردو سمجھتے ہیں۔ یہاں ذکر سائنس کا ہورہاہےادب کا نہیں۔ گرائمر کی غلطی سائنسی دلیل نہیں ہوسکتی۔ہم تو پرویز صاحب جیسے نام نہاد اور متعصب فزسسٹ کو پٹانگ کہہ رہے تھے اگر آپ ”اوٹ پٹانگ “ کہنا پسند کرتے ہیں تو آپ کی مرضی۔لیکن آپ کو ایک برادرانہ مشورہ دینا چاہوں گا کہ اگرکچھ تھوڑا بہت وقت جنوں بھوتوں ا ور کالے جادو کی بھینٹ چڑھنے سے بچ گیا ہو تو اسے اردو سیکھنے میں صرف کر لیں کہ "پٹانگ" کوئی لفظ نہیں بلکہ "اوٹ پٹانگ" ہوتا ہے۔ اسی طرح "ہود" کوئی سرنیم نہیں بلکہ "ہودبھائی" بطور لفظ واحد فیملی نیم ہے۔
جی درست کہا آپ نے۔میں بھی مزید کچھ نہیں کہنا چاہتا۔لیکن اپنے استاد محترم کی”سائنس کیا ہے ، سائنس کیا نہیں ہے؟“ کے عنوان سے جلد ایک تحریر شاملِ محفل کرنے کا ارادہ ہے۔ اللہ ہمیں حق بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آصف اثر بھائی جان کیا مل جائے گا،، سائنس کا جنات سے کچھ تعلق نہیں لیکن جنات کا تعلق انسانوں سے ہے یہ بات تو صحیح ہے
آعوذو باللہ اور قل پڑھئے ابھی سارے شیطان جنات بھاگ جائینگے۔
میرا خیال ہے کہ پڑھی لکھی جگہ کی پڑھی لکھی آڈینس کی دی گئی فیڈ بیک مثبت ہے سو کیوں نہ ہم بھی اسے شک کا فائدہ دے دیں۔ ویسے بھی قانون کہتا ہے کہ آپ پر جو بھی الزام لگا دیا جائے آپ بے گناہ ہیں تاوقتیکہ آپ کے خلاف الزام ثابت ہو جائے. ہمیں موصوف کو غلط ثابت کرنا ہو گا اور قبل ازیں برا بھلا کہیں گے تو وہ ہمیں ہتک عزت کا مجرم ثابت کر دے گا یا اور کچھ نہیں تو دیگر احباب کی نظر میں ہمارا تعلیم یافتہ اور مہذب تاثر مجروح ہو سکتا ہے جو کہ اچھا خاصا نقصان ہے. دلیل کی قیمت پر جیت کیا مزہ دے گی آپ اسلام آباد میں ہیں آپ اگلا سیمینار اٹینڈ کر کے خود دیکھیں کہ یہ بندہ بھولے بھالے مجمعے کو بیک وقت کیسے شیشے میں اُتار لیتا ہے.یعنی وہ فراڈیا جو جنات اور کالے جادو کا چکر چلا رہا ہے وہ بھی مخلص ہے؟ اس کا اخلاص کس کے لیے ہے، جنوّں بھوتوں پریوں چیلوں جادوگروں کے لیے؟
فی الوقت تو آپ فاتح کو شیشے میں اتارنا چا رہے ہیں۔ میری مانیے تو آپ خود ہی اس سیمینار سے ہو آئیے۔میرا خیال ہے کہ پڑھی لکھی جگہ کی پڑھی لکھی آڈینس کی دی گئی فیڈ بیک مثبت ہے سو کیوں نہ ہم بھی اسے شک کا فائدہ دے دیں۔ ویسے بھی قانون کہتا ہے کہ آپ پر جو بھی الزام لگا دیا جائے آپ بے گناہ ہیں تاوقتیکہ آپ کے خلاف الزام ثابت ہو جائے. ہمیں موصوف کو غلط ثابت کرنا ہو گا اور قبل ازیں برا بھلا کہیں گے تو وہ ہمیں ہتک عزت کا مجرم ثابت کر دے گا یا اور کچھ نہیں تو دیگر احباب کی نظر میں ہمارا تعلیم یافتہ اور مہذب تاثر مجروح ہو سکتا ہے جو کہ اچھا خاصا نقصان ہے. دلیل کی قیمت پر جیت کیا مزہ دے گی آپ اسلام آباد میں ہیں آپ اگلا سیمینار اٹینڈ کر کے خود دیکھیں کہ یہ بندہ بھولے بھالے مجمعے کو بیک وقت کیسے شیشے میں اُتار لیتا ہے.
جنات کا وجوداگر ہو بھی تو اس شکل میں ممکن نہیں جس کاآئے دن یہ عامل بابا حضرات ورد کرتے پائے جاتے ہیں۔ ذہنی عارضوں اور دیگر جسمانی بیماریوں کو جنات کے چمٹنے سےپہلے جوڑنااور پھر اسکا اسلامی ’’حل‘‘ پیش کرنا، ہم اسکی مخالفت مرتے دم تک کرتے رہیں گے۔ بیشک اسلام کے ٹھیکیدار ہمیں جتنی مرضی بار اپنے نام نہاد دائرہ اسلام سے خارج کرتے پھریں۔ ہم دین اسلام کو ان جعلی عاملوں، پیروں، فقیروں کا کاروبار بننے نہیں دیں گے۔پہلی بات یہ کہ یقینی اور واضح طور پر پرویز ہود اور ڈان نے راجہ ضیاء الحق کے نام پر اسلام کے اس عقیدے کو نشانہ بنایا ہے جس میں جنات کے وجود کو برحق کہا گیا ہے۔
زیک ، عارف اور فاتح کے بقول کے اسے خواہ مخواہ اسلام پر حملہ قرار دیا جارہا ہےحالاں کہ ملاحظہ کیا جاسکتاہے:
سعودی اسلئے کہ جنات کا فلسفہ عالم عرب میں زمانہ جاہلیت سے پایا جاتا تھا۔ جو اسلام قبول کر لینے کے بعد اسلامی ’’روایات‘‘ کا حصہ بن گیا۔ اگر یقین نہیں آتا تو زمانہ اسلام سے قبل عربوں کی تاریخ پڑھ لیں۔ اسوقت بھی یہ لوگ ویران اور دور دراز کے علاقوں میں جن نامی مخلوق کے قصے، کہانیوں سے ایک دوسرے کو محفوظ کرتے تھے:دوسری بات یہ کہ موصوف نے اپنی تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذہبی ممالک میں صرف سعودی عرب کو نشانہ بنایا حالاں کہ اسلامی جمہوریہ کے نام سے اور بھی کٹر قسم کے مذہبی ممالک موجود ہیں، وہاں اس سے زیادہ جنات پر یقین کیا جاتا ہے ۔جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جناب خود اس مخصوص طبقے سے تعلق رکھتا ہے جو صرف اور صرف اسلام ہی کو اپنی ذہنیت کا نشانہ بناتا ہے۔لہذا جب ایسے نام نہاد ماہرینِ سائنس ہی اتنے جاہل اور متعصب واقع ہوں تو عام آدمی سے کیا گِلا؟
محفل پر اس ضمن میں کافی دھاگے پہلے سے موجود ہیں۔ شوق سے شرکت کریںاگر جنات کے وجود پر کبھی مفید اوربامعنی بحث شروع ہوئی تو شرکت کریں گے۔
موصوف عرصہ دراز سے فزکس کے پروفیسر ہیں اور نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کیساتھ لمبا عرصہ تک کام کرتے رہے ہیں۔ خود فیصلہ کر لیں کہ انگوٹھا چھاپ کون ہے۔چلو ہم تو سڑک چھاپ ہوئے مگر جناب پرویز کے کالم سے لگ رہا ہے کہ موصوف انگوٹھا چھاپ ہےجو غیر سائنسی رویہ اپنا کرمشاہدے اور دلیل کے بجائے سننے کو سائنس خیال کررہے ہیں۔
تو اسمیں قصور حالیہ اور سابقہ حکومتوں کا ہے جس نے اس قوم کو اجتماعی طور پر انپڑھ، جاہل رکھا تاکہ یہ اپنے اچھے بھلے کے درمیان فرق نہ رکھ سکیں اور یوں عاملوں، پیروں، فقیروں کے ہاتھوں لٹتے رہیں۔آپ اگلا سیمینار اٹینڈ کر کے خود دیکھیں کہ یہ بندہ بھولے بھالے مجمعے کو بیک وقت کیسے شیشے میں اُتار لیتا ہے.
ان مداریوں کا کام ہی مجمع کو شیشے میں اتارنا ہوتا ہے کہ ان کی روزی روٹی اسی سے چلتی ہے۔ایسے فراڈیے ہر گلی محلے میں تماشا لگا کر کھڑے ہوتے ہیں۔ کس کس کا تماشا دیکھنے جاؤں؟آپ اسلام آباد میں ہیں آپ اگلا سیمینار اٹینڈ کر کے خود دیکھیں کہ یہ بندہ بھولے بھالے مجمعے کو بیک وقت کیسے شیشے میں اُتار لیتا ہے.
ان اشتہارات کی جگہ اگر صرف یہ لکھا ہو کہ اس اشتہار کی بدولت جاہل عوام ہمارے قدموں میں تو زیادہ بہتر ہوتاکراچی میں جگہ جگہ ایسے فراڈیوں کے اشتہار لگے ہوتے ہیں کہ عامل کامل بابا فلاں ڈھمکاں کالے جادو کی کاٹ کے ماہر، جنات اور عملیات کے زور پر محبوب آپ کے قدموں میں وغیرہ وغیرہ
یہاں بھی کسی انجینئر کا ذکر ہے؟؟لیکن تاریخ سے اور سلیمان علیہ السلام کی قوم کی مذہبی کتب سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سب میسن تھے ، یہ میسن ہمارے یہاں راج کہلاتے ہیں ، بینادی طور پر جیومیٹری کے ماہرین ۔ ان لوگوں نے جیومیٹری استعمال کرکے مکمل عمارتیں خاص طور پر ہیکل سلیمانی کے ٹکڑے بنائے اور پھر ان سب کو ایک رات میں جوڑ دیا ، جؤڑ بغیر کسی ہتھوڑے کے جوڑے گئے ۔ یہ آزاد میسن آج بھی پڑھاتے ہیں۔ اس طرح لوگوں نے جیومیٹری کے ان ماہرین کو جنوں کے نام سے یاد کیا۔ یہ جنات سب آدمی تھے ، ان کے ماں باپ اور نسلوں کا پتہ تھا، ان کی موت کا ریکارڈ بھی ہے ۔ لہذا کسی بھی طور پر ان جیومیٹری کے ماہرین ، سول ، آرکیٹیکچر اور سٹرکچرل انجینئرز کو کوئی غیر مرئی مخلوق قرار دینا کسی طور بھی جائز نہیں ۔ وہ افراد جو علم کی بنیاد پر جناتی کام کرتے ہیں "جن" کہلئے جانے کے مستحق ہیں ۔ نا کہ کوئی اڑتی ہوئی مخلوق ۔۔۔
آج بھی جن طرح طرح کے کام کرتے ہیں ۔ کبھی بڑے بڑے پل، تو کبھی بڑی بڑی عمارتیں ، عقل کو حیران کرنے والے کام آج بھی جن ہی کرتے ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ "جن " آج انجینئرز کہلاتے ہیں ان "جن" ئیرز ۔۔۔
آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں ایک زمانے میں، میں اپنے تجسس سے مجبور ہو کر چند ایک اشتہاری عاملوں سے ملا بھی تھا لیکن اُن سے مُختصر سی ملاقات میں جو تاثر مُجھے ملا تھا اُس کے مطابق اُن کا ایسی کسی یونیورسٹی میں سیمینار کرنا تو درکنار بلکہ عین ممکن ہے کہ اُن کی آنے والی کئی نسلوں میں کوئی ایسی سوچ کا محض وزن اُٹھانے کے قابل نہ ہو سکے سو یہاں بات اتنی سطحی نہیں لگتی اِس لیے تنقیدی ہی سہی مگر اِس واردات کا سیر حاصل جائزہ ضروری ہے۔ جعلساز اور فراڈیےعموما" سادہ لوح، محروم ، مجبور، مصیبت زدہ، کم علم اور کمزور لوگوں کو بیوقوف بنا تے ہیں وہ خوشحال، روشن خیال ، تعلیم یافتہ اور باوسائل نوجوانوں کے مرکزِ دانش میں گھُس کر جہاں اُن نوجوانوں کے زمانہ شناس معلمین بھی موجود ہوں، اپنی دکانداری چمکانے کا خراب ترین ذہنی حالت میں بھی نہیں سوچیں گے۔ان مداریوں کا کام ہی مجمع کو شیشے میں اتارنا ہوتا ہے کہ ان کی روزی روٹی اسی سے چلتی ہے۔ایسے فراڈیے ہر گلی محلے میں تماشا لگا کر کھڑے ہوتے ہیں۔ کس کس کا تماشا دیکھنے جاؤں؟
اسلام آباد میں تو نہیں لیکن کراچی میں جگہ جگہ ایسے فراڈیوں کے اشتہار لگے ہوتے ہیں کہ عامل کامل بابا فلاں ڈھمکاں کالے جادو کی کاٹ کے ماہر، جنات اور عملیات کے زور پر محبوب آپ کے قدموں میں وغیرہ وغیرہ
یہی تو طریقۂ واردات ہے ان کا کہ کچے ذہنوں میں اس قسم کی خرافات بھر دی جائے۔ جس ملک کی یونیورسٹی میں ایان علی لیکچر دے سکتی ہے وہاں راجا فراڈیا کیوں گھبرائے گاآپ ٹھیک کہہ رہے ہیں ایک زمانے میں، میں اپنے تجسس سے مجبور ہو کر چند ایک اشتہاری عاملوں سے ملا بھی تھا لیکن اُن سے مُختصر سی ملاقات میں جو تاثر مُجھے ملا تھا اُس کے مطابق اُن کا ایسی کسی یونیورسٹی میں سیمینار کرنا تو درکنار بلکہ عینممکن ہے کہ اُن کی آنے والی کئی نسلوں میں کوئی ایسی سوچ کا محض وزن اُٹھانے کے قابل نہ ہو سکے سو یہاں بات اتنی سطحی نہیں لگتی اِس لیے تنقیدی ہی سہی مگر اِس واردات کا سیر حاصل جائزہ ضروری ہے۔ جعلساز اور فراڈیےعموما" سادہ لوح، محروم ، مجبور، مصیبت زدہ، کم علم اور کمزور لوگوں کو بیوقوف بنا تے ہیں وہ خوشحال، روشن خیال ، تعلیم یافتہ اور باوسائل نوجوانوں کے مرکزِ دانش میں گھُس کر جہاں اُن نوجوانوں کے زمانہ شناس معلمین بھی موجود ہوں، اپنی دکانداری چمکانے کا خراب ترین ذہنی حالت میں بھی نہیں سوچیں گے۔
اب یونیورسٹی کے بچّے بھی کہاں اتنے بچّے رہے ہیں فاتح صاحب اور پھر بچّوں میں اگر کوئی ذہنی کچا پن ہے بھی تو ہمارے پاس صرف تین آپشن ہیں یا تو انہیں ممکنہ خطرات سے آگاہی دے کر محفوظ فاصلے پر رہنے کی ترغیب دی جائے یا سیدھا سیدھا اُن نتائج سے متعارف کروا دیا جائے جو راہِ راست سے ہٹنے کی صورت میں سامنے آتے ہیں یا پھر ایک کنٹرولڈ سیفٹی میں رکھتے ہوئے فری ہینڈ دے دیا جائے وہ بنائیں ، جلائیں، توڑیں یا جوڑیں سب کرنے دیں اور میں نے یہ دیکھا ہے کہ نتائج کے اعتبار سے لرننگ کا یہی راستہ باقی سب سے بہتر اور زوداثر ہے۔ لیٹ دیم ڈسکور دئیر اون ورژن آف رئیلٹی ایز وی ڈِڈیہی تو طریقۂ واردات ہے ان کا کہ کچے ذہنوں میں اس قسم کی خرافات بھر دی جائے۔ جس ملک کی یونیورسٹی میں ایان علی لیکچر دے سکتی ہے وہاں راجا فراڈیا کیوں گھبرائے گا
دیکھیے عارف آپ نے دلائل و حوالہ جات کے ذریعے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کی۔جو ایک احسن طرزِ عمل ہے۔ مجھے اختلاف اس محفل پر کچھ حضرات سے صرف یہ ہے کہ وہ دلائل اور حوالے کے ساتھ بات کریں نہ کہ کسی بات کو مذاق بنا یاجائے۔ یہ کونسا طریقہ ہے؟ پھر جب سائنس اور مذہب کی بات ہو تو یہ مزید اہمیت اختیار کرجاتاہے کہ موضوع کو اور سنجیدگی سے لیاجائے۔ طرفین کی بات کو سُنا جائے ۔ ایک غلط کام ایک اپنا بھی کرے تو اس کی اصلاح کی کوشش کی جائے نہ کہ ضد میں اس پر ڈھٹا جائے۔جنات کا وجوداگر ہو بھی تو اس شکل میں ممکن نہیں جس کاآئے دن یہ عامل بابا حضرات ورد کرتے پائے جاتے ہیں۔ ذہنی عارضوں اور دیگر جسمانی بیماریوں کو جنات کے چمٹنے سےپہلے جوڑنااور پھر اسکا اسلامی ’’حل‘‘ پیش کرنا، ہم اسکی مخالفت مرتے دم تک کرتے رہیں گے۔
یہاں ایک بات ذہن میں رہےکہ ویکیپیڈیا پر شروع ہی سے ایڈیٹنگ کی جنگ چلتی آرہی ہے۔ لہذا اب اس کے کئی موضوعات غیر معتبر مانے جاتے ہیں۔ جیسے کسی قوم کے متعلق(کیوں کہ اگر کوئی شخص اپنی یا اپنی پسندیدہ قوم کے حق میں کچھ لکھتاہے تو دوسرا اس کو ایڈیٹ کرکے اس خلاف واقع لکھ دیتا ہے۔اسی طرح سیاست ، اسلام، مذاہب وغیرہ۔ مزید تفصیل آپ ٹیکنالوجی ریویو اور دیگر معتبر سائنسٹفک ویب سائٹس سے حاصل کرسکتے ہیں۔ ایک ربط دے رہا ہوں۔سعودی اسلئے کہ جنات کا فلسفہ عالم عرب میں زمانہ جاہلیت سے پایا جاتا تھا۔ جو اسلام قبول کر لینے کے بعد اسلامی ’’روایات‘‘ کا حصہ بن گیا۔ اگر یقین نہیں آتا تو زمانہ اسلام سے قبل عربوں کی تاریخ پڑھ لیں۔ اسوقت بھی یہ لوگ ویران اور دور دراز کے علاقوں میں جن نامی مخلوق کے قصے، کہانیوں سے ایک دوسرے کو محفوظ کرتے تھے:
میں نے کبھی یہ نہیں کہا موصوف فزکس کے پروفیسر نہیں یا کسی اور کےساتھ رہا نہیں۔ میرا مدعا صرف یہ ہے کہ ایک سائنسدان، ماہر ،یا اچھے مرتبے کی شخصیت کبھی بھی ایسا طرزِ عمل اختیار نہیں کرسکتی۔ اس درجے کے حضرات ہمیشہ سنجیدگی، متانت، صبروتحمل، اور دلیل سے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ موصوف کی یہ غلط عادت ابھی سے نہیں کافی پرانی ہے۔ لہذا ایسے غیر سنجیدہ شخص کو میں قابلِ احترام نہیں سمجھتا جو اپنے رتبے کے اصول وقواعد کی پاسداری نہ رکھ سکے۔موصوف عرصہ دراز سے فزکس کے پروفیسر ہیں اور نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کیساتھ لمبا عرصہ تک کام کرتے رہے ہیں۔ خود فیصلہ کر لیں کہ انگوٹھا چھاپ کون ہے۔