آصف اثر
معطل
جناب فاروق سرور خان صاحب۔آپ کے لیے صرف ایک با ت کہنا چاہوں گا کہ قرآن میں انسانوں کے لیے الگ اور جنات کے لیے الگ الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اگر یہ ایک ہی مخلوق ہوتی تو اللہ تعالیٰ ان کو دو مختلف مخلوقات کے طور پر نہ پیش کرتے۔ جیسے:اس میں شبہ نہیں کہ جنوں کا تذکرہ قرآن میں موجود ہے لیکن جنوں کا جو تصور ہے وہ کچھ اور ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جن ہیں کون ؟۔ ویسے تو بہیت سی آیات ہیں جن میں جنوں کا تذکرہ ملتا ہے لیکن درج ذیل آیات جنوں کے کام کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
34:12 وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ وَأَسَلْنَا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ وَمِنَ الْجِنِّ مَن يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَمَن يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ
34:13 يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاءُ مِن مَّحَارِيبَ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَّاسِيَاتٍ اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ
34:14 فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ
34:12 اور ہوا کو سلیمان کے تابع کر دیا تھا جس کی صبح کی منزل مہینے بھر کی راہ اور شام کی منزل مہینے بھر کی راہ تھی اور ہم نے اس کے لیے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا اور کچھ جن اس کے آگے اس کے رب کے حکم سے کام کیا کرتے تھے اور جو کوئی ان میں سے ہمارے حکم سے پھر جاتا تھاتو ہم اسے آگ کا عذاب چکھاتے تھے
34:13 وہ (جنّات) ان کے لئے جو وہ چاہتے تھے بنا دیتے تھے۔ اُن میں بلند و بالا قلعے اور مجسّمے اور بڑے بڑے لگن تھے جو تالاب اور لنگر انداز دیگوں کی مانند تھے۔ اے آلِ داؤد! (اﷲ کا) شکر بجا لاتے رہو، اور میرے بندوں میں شکرگزار کم ہی ہوئے ہیں
34:14 پھر جب ہم نے سلیمان (علیہ السلام) پر موت کا حکم صادر فرما دیا تو اُن (جنّات) کو ان کی موت پر کسی نے آگاہی نہ کی سوائے زمین کی دیمک کے جو اُن کے عصا کو کھاتی رہی، پھر جب آپ کا جسم زمین پر آگیا تو جنّات پر ظاہر ہوگیا کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلّت انگیز عذاب میں نہ پڑے رہتے
لیکن تاریخ سے اور سلیمان علیہ السلام کی قوم کی مذہبی کتب سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سب میسن تھے ، یہ میسن ہمارے یہاں راج کہلاتے ہیں ، بینادی طور پر جیومیٹری کے ماہرین ۔ ان لوگوں نے جیومیٹری استعمال کرکے مکمل عمارتیں خاص طور پر ہیکل سلیمانی کے ٹکڑے بنائے اور پھر ان سب کو ایک رات میں جوڑ دیا ، جؤڑ بغیر کسی ہتھوڑے کے جوڑے گئے ۔ یہ آزاد میسن آج بھی پڑھاتے ہیں۔ اس طرح لوگوں نے جیومیٹری کے ان ماہرین کو جنوں کے نام سے یاد کیا۔ یہ جنات سب آدمی تھے ، ان کے ماں باپ اور نسلوں کا پتہ تھا، ان کی موت کا ریکارڈ بھی ہے ۔ لہذا کسی بھی طور پر ان جیومیٹری کے ماہرین ، سول ، آرکیٹیکچر اور سٹرکچرل انجینئرز کو کوئی غیر مرئی مخلوق قرار دینا کسی طور بھی جائز نہیں ۔ وہ افراد جو علم کی بنیاد پر جناتی کام کرتے ہیں "جن" کہلئے جانے کے مستحق ہیں ۔ نا کہ کوئی اڑتی ہوئی مخلوق ۔۔۔
آج بھی جن طرح طرح کے کام کرتے ہیں ۔ کبھی بڑے بڑے پل، تو کبھی بڑی بڑی عمارتیں ، عقل کو حیران کرنے والے کام آج بھی جن ہی کرتے ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ "جن " آج انجینئرز کہلاتے ہیں ان "جن" ئیرز ۔۔۔
مسکرا تو دیجئے میں نے تو جن دکھا دئے ، اب کوئی مجھے وہ اڑنے والے نا دکھائی دینے والے ۔ آدمی میں گھس جانے والے جن دکھائے تو کچھ سمجھ میں آئے۔ آج تک کوئی بھی جن نا دیکھ سکا نا دکھا سکا اور نا ہی کوئی ثبوت دے سکا۔ اس لئے ایسے خیال کو ہم صرف واہیات ہی قرار دے سکتے ہیں ۔ ورنہ یہ جن کبھی کبھی تو انسانوں کے سامنے آتے ۔ کبھی ان کا بھی مجمع لگتا ، کبھی ان کی بھی ہڑتال ہوتی، کوئی یونیورسٹی ہوتی ، کچھ تجارت ہوتی، کچھ تو ہوتا جو سامنے ہوتا۔ ؟؟؟
جو سامنے ہے وہ یہ ہے کہ جن انجینئرز ہیں ۔ کم از کم اس سے ان جنات کے ماہرین کے دعووں کی قلعی تو کھلتی ہے۔
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
وَحُشِرَ لِسُلَيْمَانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ۔
درایت کی رُو سے اگر کہیں تو عرب شاید بہت بے وقوف تھے جنہوں نے ”ان جن ئیر“کے لیے ”مہندس“کا لفظ وضع کیا ۔ چاہیے تھا کہ وہ کوئی ”مُجِن، مہنجن،مجنون“جیسے الفاظ وضع کرتے ۔ شائد عربوں کواب آپ کی زیادہ ضرورت پڑجائے۔۔۔۔!
آخری تدوین: