منہاجین
محفلین
پارہ 20
پاره أَمَّنْ خَلَقَ
60. بلکہ وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا اور تمہارے لئے آسمانی فضا سے پانی اتارا، پھر ہم نے اس (پانی) سے تازہ اور خوش نما باغات اُگائے؟ تمہارے لئے ممکن نہ تھا کہ تم ان (باغات) کے درخت اُگا سکتے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور بھی) معبود ہے؟ بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو (راہِ حق سے) پرے ہٹ رہے ہیںo
61. بلکہ وہ کون ہے جس نے زمین کو قرار گاہ بنایا اور اس کے درمیان نہریں بنائیں اور اس کے لئے بھاری پہاڑ بنائے۔ اور (کھاری اور شیریں) دو سمندروں کے درمیان آڑ بنائی؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور بھی) معبود ہے؟ بلکہ ان (کفار) میں سے اکثر لوگ بے علم ہیںo
62. بلکہ وہ کون ہے جو بے قرار شخص کی دعا قبول فرماتا ہے جب وہ اسے پکارے اور تکلیف دور فرماتا ہے اور تمہیں زمین میں(پہلے لوگوں کا) وارث و جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور بھی) معبود ہے؟ تم لوگ بہت ہی کم نصیحت قبول کرتے ہوo
63. بلکہ وہ کون ہے جو تمہیں خشک و تر (یعنی زمین اور سمندر) کی تاریکیوں میں راستہ دکھاتا ہے اور جو ہواؤں کو اپنی (بارانِ) رحمت سے پہلے خوشخبری بنا کر بھیجتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور بھی) معبود ہے؟ اللہ ان (معبودانِ باطلہ) سے برتر ہے جنہیں وہ شریک ٹھہراتے ہیںo
64. بلکہ وہ کون ہے جو مخلوق کو پہلی بار پیدا فرماتا ہے پھر اسی (عملِ تخلیق) کو دہرائے گا اور جو تمہیں آسمان و زمین سے رزق عطا فرماتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور بھی)معبود ہے؟ فرما دیجئے: (اے مشرکو!) اپنی دلیل پیش کرو اگر تم سچے ہوo
65. فرمادیجئے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں (اَز خود) غیب کا علم نہیں رکھتے سوائے اللہ کے (وہ عالم بالذّات ہے) اور نہ ہی وہ یہ خبر رکھتے ہیں کہ وہ (دوبارہ زندہ کر کے) کب اٹھائے جائیں گےo
66. بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم (اپنی) انتہاء کو پہنچ کر منقطع ہوگیا، مگر وہ اس سے متعلق محض شک میں ہی (مبتلاء) ہیں، بلکہ وہ اس (کے علمِ قطعی) سے اندھے ہیںo
67. اور کافر لوگ کہتے ہیں: کیا جب ہم اور ہمارے باپ دادا (مَر کر) مٹی ہوجائیں گے تو کیا ہم (پھر زندہ کر کے قبروں میں سے) نکالے جائیں گےo
68. درحقیقت اس کا وعدہ ہم سے (بھی) کیا گیا اور اس سے پہلے ہمارے باپ دادا سے (بھی)، یہ اگلے لوگوں کے من گھڑت افسانوں کے سوا کچھ نہیںo
69. فرما دیجئے: تم زمین میں سیر و سیاحت کرو پھر دیکھو مجرموں کا انجام کیسا ہوا o
70. اور (اے حبیبِ مکرّم!) آپ ان (کی باتوں) پر غم زدہ نہ ہوا کریں اور نہ اس مکر و فریب کے باعث جو وہ کر رہے ہیں تنگ دلی میں (مبتلاء) ہوںo
71. اور وہ کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو (بتاؤ) یہ (عذابِ آخرت کا) وعدہ کب پورا ہوگاo
72. فرما دیجئے: کچھ بعید نہیں کہ اس (عذاب) کا کچھ حصہ تمہارے نزدیک ہی آپہنچا ہو جسے تم بہت جلد طلب کر رہے ہوo
73. اور بیشک آپ کا رب لوگوں پر فضل (فرمانے) والا ہے لیکن ان میں سے اکثر لوگ شکر نہیں کرتےo
74. اور بیشک آپ کا رب ان (باتوں) کو ضرور جانتا ہے جو ان کے سینے (اندر) چھپائے ہوئے ہیں اور (ان باتوں کو بھی) جو یہ آشکار کرتے ہیںo
75. اور آسمان اور زمین میں کوئی (بھی) پوشیدہ چیز نہیں ہے مگر (وہ) روشن کتاب (لوح ِمحفوظ) میں (درج) ہےo
76. بیشک یہ قرآن بنی اسرائیل کے سامنے وہ بیشتر چیزیں بیان کرتا ہے جن میں وہ اختلاف کرتے ہیںo
77. اور بیشک یہ ہدایت ہے اور مومنوں کے لئے رحمت ہےo
78. اور بیشک آپ کا رب ان (مومنوں اور کافروں) کے درمیان اپنے حکم (عدل) سے فیصلہ فرمائے گا، اور وہ غالب ہے بہت جاننے والا ہےo
79. پس آپ اللہ پر بھروسہ کریں بیشک آپ صریح حق پر (قائم اور فائز) ہیںo
80. بیشک آپ نہ (تو حیاتِ ایمانی سے محروم) مُردوں کو (حق کی بات) سنا سکتے ہیں اور نہ ہی (ایسے) بہروں کو (ہدایت کی) پکار سنا سکتے ہیں جبکہ وہ (غلبۂ کفر کے باعث ہدایت سے) پیٹھ پھیر کر (قبولِ حق سے) رُوگرداں ہو رہے ہوںo
81. اور نہ ہی آپ (دل کے) اندھوں کو ان کی گمراہی سے (بچا کر) ہدایت دینے والے ہیں، آپ تو (فی الحقیقت) انہی کو سناتے ہیں جو (آپ کی دعوت قبول کر کے) ہماری آیتوں پر ایمان لے آتے ہیں سو وہی لوگ مسلمان ہیں (اور وہی زندہ کہلانے کے حق دار ہیں)o
82. اور جب ان پر (عذاب کا) فرمان پورا ہونے کا وقت آجائے گا تو ہم ان کے لئے زمین سے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے گفتگو کرے گا کیونکہ لوگ ہماری نشانیوں پر یقین نہیں کرتے تھےo
83. اور جس دن ہم ہر امت میں سے ان لوگوں کا (ایک ایک) گروہ جمع کریں گے جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے سو وہ (اکٹھا چلنے کے لئے آگے کی طرف سے) روکے جائیں گےo
84. یہاں تک کہ جب وہ سب (مقامِ حساب پر) آپہنچیں گے تو ارشاد ہوگا کیا تم (بغیر غور و فکر کے) میری آیتوں کو جھٹلاتے تھے حالانکہ تم (اپنے ناقص) علم سے انہیں کاملاً جان بھی نہیں سکے تھے یا (تم خود ہی بتاؤ) اس کے علاوہ اور کیا (سبب) تھا جو تم (حق کی تکذیب) کیا کرتے تھےo
85. اور ان پر (ہمارا) وعدہ پورا ہوچکا اس وجہ سے کہ وہ ظلم کر تے رہے سو وہ (جواب میں) کچھ بول نہ سکیں گےo
86. کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے رات بنائی تاکہ وہ اس میں آرام کرسکیں اور دن کو (امورِ حیات کی نگرانی کے لئے) روشن (یعنی اشیاء کو دِکھانے اور سُجھانے والا) بنایا، بیشک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو ایمان رکھتے ہیںo
87. اور جس دن صُور پھونکا جائے گا تو وہ (سب لوگ) گھبرا جائیں گے جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں مگر جنہیں اللہ چاہے گا (نہیں گھبرائیں گے)، اور سب اس کی بارگاہ میں عاجزی کرتے ہوئے حاضر ہوں گےo
88. اور (اے انسان!) تو پہاڑوں کو دیکھے گا تو خیال کرے گا کہ جمے ہوئے ہیں حالانکہ وہ بادل کے اڑنے کی طرح اڑ رہے ہوں گے۔ (یہ) اللہ کی کاریگری ہے جس نے ہر چیز کو (حکمت و تدبیر کے ساتھ) مضبوط و مستحکم بنا رکھا ہے۔ بیشک وہ ان سب (کاموں) سے خبردار ہے جو تم کرتے ہوo
89. جو شخص (اس دن) نیکی لے کر آئے گا اس کے لئے اس سے بہتر (جزا) ہوگی اور وہ لوگ اس دن گھبراہٹ سے محفوظ و مامون ہوں گےo
90. اور جو شخص برائی لے کر آئے گا تو ان کے منہ (دوزخ کی) آگ میں اوندھے ڈالے جائیں گے۔ بس تمہیں وہی بدلہ دیا جائے گا جو تم کیا کرتے تھےo
91. (آپ ان سے فرما دیجئے کہ) مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ اس شہرِ (مکّہ) کے رب کی عبادت کروں جس نے اسے عزت و حُرمت والا بنایا ہے اور ہر چیز اُسی کی (مِلک) ہے اور مجھے (یہ) حکم (بھی) دیا گیا ہے کہ میں (اللہ کے) فرمانبرداروں میں رہوںo
92. نیز یہ کہ میں قرآن پڑھ کر سناتا رہوں سو جس شخص نے ہدایت قبول کی تو اس نے اپنے ہی فائدہ کے لئے راہِ راست اختیار کی، اور جو بہکا رہا تو آپ فرما دیں کہ میں تو صِرف ڈر سنانے والوں میں سے ہوںo
93. اور آپ فرمادیجئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں وہ عنقریب تمہیں اپنی نشانیاں دکھا دے گا سو تم انہیں پہچان لو گے، اور آپ کا رب ان کاموں سے بے خبر نہیں جو تم انجام دیتے ہوo
سُورة الْقَصَص
1. طا، سین، میم (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)o
2. یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیںo
3. (اے حبیبِ مکرّم!) ہم آپ پر موسٰی (علیہ السلام) اور فرعون کے حقیقت پر مبنی حال میں سے ان لوگوں کے لئے کچھ پڑھ کر سناتے ہیں جو ایمان رکھتے ہیںo
4. بیشک فرعون زمین میں سرکش و متکبّر (یعنی آمرِ مطلق) ہوگیا تھا اور اس نے اپنے (ملک کے) باشندوں کو (مختلف) فرقوں (اور گروہوں) میں بانٹ دیا تھا اس نے ان میں سے ایک گروہ (یعنی بنی اسرائیل کے عوام) کو کمزور کردیا تھا کہ ان کے لڑکوں کو (ان کے مستقبل کی طاقت کچلنے کے لئے) ذبح کر ڈالتا اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا (تاکہ مَردوں کے بغیر ان کی تعداد بڑھے اور ان میں اخلاقی بے راہ روی کا اضافہ ہو)، بیشک وہ فساد انگیز لوگوں میں سے تھاo
5. اور ہم چاہتے تھے کہ ہم ایسے لوگوں پر احسان کریں جو زمین میں (حقوق اور آزادی سے محرومی اور ظلم و استحصال کے باعث) کمزور کر دیئے گئے تھے اور انہیں (مظلوم قوم کے) رہبر و پیشوا بنا دیں اور انہیں (ملکی تخت کا) وارث بنا دیںo
6. اور ہم انہیں ملک میں حکومت و اقتدار بخشیں اور فرعون اور ہامان اور ان دونوں کی فوجوں کو وہ (انقلاب) دکھا دیں جس سے وہ ڈرا کرتے تھےo
7. اور ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ تم انہیں دودھ پلاتی رہو، پھر جب تمہیں ان پر (قتل کردیئے جانے کا) اندیشہ ہو جائے تو انہیں دریا میں ڈال دینا اور نہ تم (اس صورتِ حال سے) خوفزدہ ہونا اور نہ رنجیدہ ہونا، بیشک ہم انہیں تمہاری طرف واپس لوٹانے والے ہیں اور انہیں رسولوں میں(شامل) کرنے والے ہیں۔o
8. پھر فرعون کے گھر والوں نے انہیں (دریا سے) اٹھا لیا تاکہ وہ (مشیّتِ الٰہی سے) ان کے لئے دشمن اور (باعثِ) غم ثابت ہوں، بیشک فرعون اور ہامان اور ان دونوں کی فوجیں سب خطاکار تھےo
9. اور فرعون کی بیوی نے (موسٰی علیہ السلام کو دیکھ کر) کہا کہ (یہ بچہ) میری اور تیری آنکھ کے لئے ٹھنڈک ہے۔ اسے قتل نہ کرو، شاید یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا ہم اس کو بیٹا بنالیں اور وہ (اس تجویز کے انجام سے) بے خبر تھےo
10. اور موسٰی (علیہ السلام) کی والدہ کا دل (صبر سے) خالی ہوگیا، قریب تھا کہ وہ (اپنی بے قراری کے باعث) اس راز کو ظاہر کردیتیں اگر ہم ان کے دل پر صبر و سکون کی قوّت نہ اتارتے تاکہ وہ (وعدۂ الٰہی پر) یقین رکھنے والوں میں سے رہیںo
11. اور (موسٰی علیہ السلام کی والدہ نے) ان کی بہن سے کہا کہ (ان کا حال معلوم کرنے کے لئے) ان کے پیچھے جاؤ سو وہ انہیں دور سے دیکھتے رہے اور وہ لوگ (بالکل) بے خبر تھےo
12. اور ہم نے پہلے ہی سے موسٰی (علیہ السلام) پر دائیوں کا دودھ حرام کر دیا تھا سو (موسٰی علیہ السلام کی بہن نے) کہا: کیا میں تمہیں ایسے گھر والوں کی نشاندہی کروں جو تمہارے لئے اس (بچے) کی پرورش کر دیں اور وہ اس کے خیر خواہ (بھی) ہوںo
13. پس ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کو (یوں) ان کی والدہ کے پاس لوٹا دیا تاکہ ان کی آنکھ ٹھنڈی رہے اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور تاکہ وہ (یقین سے) جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتےo
14. اور جب موسٰی (علیہ السلام) اپنی جوانی کو پہنچ گئے اور (سنِّ) اعتدال پر آگئے تو ہم نے انہیں حکمِ (نبوّت) اور علم و دانش سے نوازا، اور ہم نیکوکاروں کو اسی طرح صلہ دیا کرتے ہیںo
15. اور موسٰی (علیہ السلام) شہرِ (مصر) میں داخل ہوئے اس حال میں کہ شہر کے باشندے (نیند میں) غافل پڑے تھے، تو انہوں نے اس میں دو مَردوں کو باہم لڑتے ہوئے پایا یہ (ایک) تو ان کے (اپنے) گروہ (بنی اسرائیل) میں سے تھا اور یہ (دوسرا) ان کے دشمنوں (قومِ فرعون) میں سے تھا، پس اس شخص نے جو انہی کے گروہ میں سے تھا آپ سے اس شخص کے خلاف مدد طلب کی جو آپ کے دشمنوں میں سے تھا پس موسٰی (علیہ السلام) نے اسے مکّا مارا تو اس کا کام تمام کردیا، (پھر) فرمانے لگے: یہ شیطان کا کام ہے (جو مجھ سے سرزَد ہوا ہے)، بیشک وہ صریح بہکانے والا دشمن ہےo
16. (موسٰی علیہ السلام) عرض کرنے لگے: اے میرے رب! بیشک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا سو تو مجھے معاف فرما دے پس اس نے انہیں معاف فرما دیا، بیشک وہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہےo
17. (مزید) عرض کرنے لگے: اے میرے رب! اس سبب سے کہ تو نے مجھ پر (اپنی مغفرت کے ذریعہ) احسان فرمایا ہے اب میں ہرگز مجرموں کا مددگار نہیں بنوں گاo
18. پس موسٰی (علیہ السلام) نے اس شہر میں ڈرتے ہوئے صبح کی اس انتظار میں (کہ اب کیا ہوگا؟) تو دفعتًہ وہی شخص جس نے آپ سے گزشتہ روز مدد طلب کی تھی آپ کو (دوبارہ) امداد کے لئے پکار رہا ہے تو موسٰی (علیہ السلام) نے اس سے کہا: بیشک تو صریح گمراہ ہےo
19. سو جب انہوں نے ارادہ کیا کہ اس شخص کو پکڑیں جو ان دونوں کا دشمن ہے تو وہ بول اٹھا: اے موسٰی! کیا تم مجھے (بھی) قتل کرنا چاہتے ہو جیسا کہ تم نے کل ایک شخص کو قتل کر ڈالا تھا۔ تم صرف یہی چاہتے ہو کہ ملک میں بڑے جابر بن جاؤ اور تم یہ نہیں چاہتے کہ اصلاح کرنے والوں میں سے o
2بنو0. اور شہر کے آخری کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اس نے کہا: اے موسٰی! (قومِ فرعون کے) سردار آپ کے بارے میں مشورہ کر رہے ہیں کہ وہ آپ کو قتل کردیں سو آپ (یہاں سے) نکل جائیں بیشک میں آپ کے خیر خواہوں میں سے ہوںo
21. سو موسٰی (علیہ السلام) وہاں سے خوف زدہ ہو کر (مددِ الٰہی کا) انتظار کرتے ہوئے نکل کھڑے ہوئے، عرض کیا: اے رب! مجھے ظالم قوم سے نجات عطا فرماo
22. اور جب وہ مَديَن کی طرف رخ کر کے چلے (تو) کہنے لگے: امید ہے میرا رب مجھے (منزلِ مقصود تک پہنچانے کے لئے) سیدھی راہ دکھا دے گاo
23. اور جب وہ مَدْيَنَْ کے پانی (کے کنویں) پر پہنچے تو انہوں نے اس پر لوگوں کا ایک ہجوم پایا جو (اپنے جانوروں کو) پانی پلا رہے تھے اور ان سے الگ ایک جانب دو عورتیں دیکھیں جو (اپنی بکریوں کو) روکے ہوئے تھیں (موسٰی علیہ السلام نے) فرمایا: تم دونوں اس حال میں کیوں (کھڑی) ہو؟ دونوں بولیں کہ ہم (اپنی بکریوں کو) پانی نہیں پلا سکتیں یہاں تک کہ چرواہے (اپنے مویشیوں کو) واپس لے جائیں، اور ہمارے والد عمر رسیدہ بزرگ ہیںo
24. سو انہوں نے دونوں (کے ریوڑ) کو پانی پلا دیا پھر سایہ کی طرف پلٹ گئے اور عرض کیا: اے رب! میں ہر اس بھلائی کا جو تو میری طرف اتارے محتا ج ہوںo
25. پھر (تھوڑی دیر بعد) ان کے پاس ان دونوں میں سے ایک (لڑکی) آئی جو شرم و حیاء (کے انداز) سے چل رہی تھی۔ اس نے کہا: میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ وہ آپ کو اس (محنت) کا معاوضہ دیں جو آپ نے ہمارے لئے (بکریوں کو) پانی پلایا ہے۔ سو جب موسٰی (علیہ السلام) ان (لڑکیوں کے والد شعیب علیہ السلام) کے پاس آئے اور ان سے (پچھلے) واقعات بیان کئے تو انہوں نے کہا: آپ خوف نہ کریں آپ نے ظالم قوم سے نجات پا لی ہےo
26. ان میں سے ایک (لڑکی) نے کہا: اے (میرے) والد گرامی! انہیں (اپنے پاس مزدوری) پر رکھ لیں بیشک بہترین شخص جسے آپ مزدوری پر رکھیں وہی ہے جو طاقتور امانت دار ہو (اور یہ اس ذمہ داری کے اہل ہیں)o
27. انہوں نے (موسٰی علیہ السلام سے) کہا: میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو لڑکیوں میں سے ایک کا نکاح آپ سے کردوں اس (مَہر) پر کہ آپ آٹھ سال تک میرے پاس اُجرت پر کام کریں، پھر اگر آپ نے دس (سال) پور ے کردیئے تو آپ کی طرف سے (احسان) ہوگا اور میں آپ پر مشقت نہیں ڈالنا چاہتا، اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے نیک لوگوں میں سے پائیں گےo
28. موسٰی (علیہ السلام) نے کہا: یہ (معاہدہ) میرے اور آپ کے درمیان (طے) ہوگیا، دو میں سے جو مدت بھی میں پوری کروں سو مجھ پر کوئی جبر نہیں ہوگا، اور اللہ اس (بات) پر جو ہم کہہ رہے ہیں نگہبان ہےo
29. پھر جب موسٰی (علیہ السلام) نے مقررہ مدت پوری کر لی اور اپنی اہلیہ کو لے کر چلے (تو) انہوں نے طور کی جانب سے ایک آگ دیکھی (وہ شعلۂ حسنِ مطلق تھا جس کی طرف آپ کی طبیعت مانوس ہوگئی)، انہوں نے اپنی اہلیہ سے فرمایا: تم (یہیں) ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے۔ شاید میں تمہارے لئے اس (آگ) سے کچھ (اُس کی) خبر لاؤں (جس کی تلاش میں مدتوں سے سرگرداں ہوں) یا آتشِ (سوزاں) کی کوئی چنگاری (لادوں) تاکہ تم (بھی) تپ اٹھوo
30. جب موسٰی (علیہ السلام) وہاں پہنچے تو وادئ (طور) کے دائیں کنارے سے بابرکت مقام میں (واقع) ایک درخت سے آواز دی گئی کہ اے موسٰی! بیشک میں ہی اللہ ہوں (جو) تمام جہانوں کا پروردگار (ہوں)o
31. اور یہ کہ اپنی لاٹھی (زمین پر) ڈال دو، پھر جب موسٰی (علیہ السلام) نے اسے دیکھا کہ وہ تیز لہراتی تڑپتی ہوئی حرکت کر رہی ہے گویا وہ سانپ ہو، تو پیٹھ پھیر کر چل پڑے اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھا، (ندا آئی اے موسٰی! سامنے آؤ اور خوف نہ کرو، بیشک تم امان یافتہ لوگوں میں سے ہوo
32. اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو وہ بغیر کسی عیب کے سفید چمک دار ہوکر نکلے گا اور خوف (دور کرنے کی غرض) سے اپنا بازو اپنے (سینے کی) طرف سکیڑ لو، پس تمہارے رب کی جانب سے یہ دو دلیلیں فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف (بھیجنے اور مشاہدہ کرانے کے لئے) ہیں، بیشک وہ نافرمان لوگ ہیںo
33. (موسٰی علیہ السلام نے) عرض کیا: اے پروردگار! میں نے ان میں سے ایک شخص کو قتل کر ڈالا تھا سو میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کرڈالیں گےo
34. اور میرے بھائی ہارون (علیہ السلام)، وہ زبان میں مجھ سے زیادہ فصیح ہیں سو انہیں میرے ساتھ مددگار بنا کر بھیج دے کہ وہ میری تصدیق کر سکیں میں اس بات سے (بھی) ڈرتا ہوں کہ (وہ) لوگ مجھے جھٹلائیں گےo
35. ارشاد فرمایا: ہم تمہارا بازو تمہارے بھائی کے ذریعے مضبوط کر دیں گے۔ اور ہم تم دونوں کے لئے (لوگوں کے دلوں میں اور تمہاری کاوشوں میں) ہیبت و غلبہ پیدا کئے دیتے ہیں۔ سو وہ ہماری نشانیوں کے سبب سے تم تک (گزند پہنچانے کے لئے) نہیں پہنچ سکیں گے، تم دونوں اور جو لوگ تمہاری پیروی کریں گے غالب رہیں گےo
36. پھر جب موسٰی (علیہ السلام) ان کے پاس ہماری واضح اور روشن نشانیاں لے کر آئے تو وہ لوگ کہنے لگے کہ یہ تو مَن گڑھت جادو کے سوا (کچھ) نہیں ہے۔ اور ہم نے یہ باتیں اپنے پہلے آباء و اجداد میں (کبھی) نہیں سنی تھیںo
37. اور موسٰی (علیہ السلام) نے کہا: میرا رب اس کو خوب جانتا ہے جو اس کے پاس سے ہدایت لے کر آیا ہے اور اس کو (بھی) جس کے لئے آخرت کے گھر کا انجام (بہتر) ہوگا، بیشک ظالم فلاح نہیں پائیں گےo
38. اور فرعون نے کہا: اے درباریو! میں تمہارے لئے اپنے سوا کوئی دوسرا معبود نہیں جانتا۔ اے ہامان! میرے لئے گارے کو آگ لگا (کر کچھ اینٹیں پکا) دے، پھر میرے لئے (ان سے) ایک اونچی عمارت تیار کر، شاید میں (اس پر چڑھ کر) موسٰی کے خدا تک رسائی پا سکوں، اور میں تو اس کو جھوٹ بولنے والوں میں گمان کرتا ہوںo
39. اور اس (فرعون) نے خود اور اس کی فوجوں نے ملک میں ناحق تکبّر و سرکشی کی اور یہ گمان کر بیٹھے کہ وہ ہماری طرف نہیں لوٹائے جائیں گےo
40. سو ہم نے اس کو اور اس کی فوجوں کو (عذاب میں) پکڑ لیا اور ان کو دریا میں پھینک دیا، تو آپ دیکھئے کہ ظالموں کا انجام کیسا (عبرت ناک) ہواo
41. اور ہم نے انہیں (دوزخیوں کا) پیشوا بنا دیا کہ وہ (لوگوں کو) دوزخ کی طرف بلاتے تھے اور قیامت کے دن ان کی کوئی مدد نہیں کی جائے گیo
42. اور ہم نے ان کے پیچھے اس دنیا میں (بھی) لعنت لگا دی اور قیامت کے دن (بھی) وہ بدحال لوگوں میں (شمار) ہوں گےo
43. اور بیشک ہم نے اس (صورتِ حال) کے بعد کہ ہم پہلی (نافرمان) قوموں کو ہلاک کر چکے تھے موسٰی (علیہ السلام) کو کتاب عطا کی جو لوگوں کے لئے (خزانۂ) بصیرت اور ہدایت و رحمت تھی، تاکہ وہ نصیحت قبول کریںo
44. اور آپ (اس وقت طُور کے) مغربی جانب (تو موجود) نہیں تھے جب ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کی طرف حکمِ (رسالت) بھیجا تھا، اور نہ (ہی) آپ (ان ستّر افراد میں شامل تھے جو وحیِ موسٰی علیہ السلام کی) گواہی دینے والوں میں سے تھے (پس یہ سارا بیان غیب کی خبر نہیں تو اور کیا ہے؟)o
45. لیکن ہم نے (موسٰی علیہ السلام کے بعد یکے بعد دیگرے) کئی قومیں پیدا فرمائیں پھر ان پر طویل مدّت گزر گئی، اور نہ (ہی) آپ (موسٰی اور شعیب علیہما السلام کی طرح) اہل مدین میں مقیم تھے کہ آپ ان پر ہماری آیتیں پڑھ کر سناتے ہوں لیکن ہم ہی (آپ کو اخبارِ غیب سے سرفراز فرما کر) مبعوث فرمانے والے ہیںo
46. اور نہ (ہی) آپ طُور کے کنارے (اس وقت موجود) تھے جب ہم نے (موسٰی علیہ السلام کو) ندا فرمائی مگر (آپ کو ان تمام احوالِ غیب پر مطلع فرمانا) آپ کے رب کی جانب سے (خصوصی) رحمت ہے۔ تاکہ آپ (ان واقعات سے باخبر ہو کر) اس قوم کو (عذابِ الٰہی سے) ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈر سنانے والا نہیں آیا، تاکہ وہ نصیحت قبول کریںo
47. اور (ہم کوئی رسول نہ بھیجتے) اگر یہ بات نہ ہوتی کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچے ان کے اعمالِ بد کے باعث جو انہوں نے خود انجام دیئے تو وہ یہ نہ کہنے لگیں کہ اے ہمارے رب! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا تاکہ ہم تیری آیتوں کی پیروی کرتے اور ہم ایمان والوں میں سے ہوجاتےo
48. پھر جب ان کے پاس ہمارے حضور سے حق آپہنچا (تو) وہ کہنے لگے کہ اس (رسول) کو ان (نشانیوں) جیسی (نشانیاں) کیوں نہیں دی گئیں جو موسٰی (علیہ السلام) کو دی گئیں تھیں؟ کیا انہوں نے ان (نشانیوں) کا انکار نہیں کیا تھا جو اس سے پہلے موسٰی (علیہ السلام) کو دی گئی تھیں؟ وہ کہنے لگے کہ دونوں (قرآن اور تورات) جادو ہیں (جو) ایک دوسرے کی تائید و موافقت کرتے ہیں، اور انہوں نے کہا کہ ہم (ان) سب کے منکر ہیںo
49. آپ فرما دیں کہ تم اللہ کے حضور سے کوئی (اور) کتاب لے آؤ جو ان دونوں سے زیادہ ہدایت والی ہو (تو) میں اس کی پیروی کروں گا اگر تم (اپنے الزامات میں) سچے ہوo
50. پھر اگر وہ آپ کا ارشاد قبول نہ کریں تو آپ جان لیں (کہ ان کے لئے کوئی حجت باقی نہیں رہی) وہ محض اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں، اور اس شخص سے زیادہ گمراہ کون ہوسکتا ہے جو اللہ کی جانب سے ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کی پیروی کرے۔ بیشک اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتاo
51. اور درحقیقت ہم ان کے لئے پے در پے (قرآن کے) فرمان بھیجتے رہے تاکہ وہ نصیحت قبو ل کریںo
52. جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب عطا کی تھی وہ (اسی ہدایت کے تسلسل میں) اس (قرآن) پر (بھی) ایمان رکھتے ہیںo
53. اور جب ان پر (قرآن) پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں: ہم اس پر ایمان لائے بیشک یہ ہمارے رب کی جانب سے حق ہے، حقیقت میں تو ہم اس سے پہلے ہی مسلمان (یعنی فرمانبردار) ہوچکے تھےo
54. یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کا اجر دوبار دیا جائے گا اس وجہ سے کہ انہوں نے صبر کیا اور وہ برائی کو بھلائی کے ذریعے دفع کرتے ہیں اور اس عطا میں سے جو ہم نے انہیں بخشی خرچ کرتے ہیںo
55. اورجب وہ کوئی بیہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال، تم پر سلامتی ہو ہم جاہلوں (کے فکر و عمل) کو (اپنانا) نہیں چاہتے (گویا ان کی برائی کے عوض ہم اپنی اچھائی کیوں چھوڑیں)o
56. حقیقت یہ ہے کہ جسے آپ (ہدایت پر لانا) چاہتے ہیں اسے صاحبِ ہدایت آپ خود نہیں بناتے، بلکہ (یوں ہوتا ہے کہ) جسے (آپ چاہتے ہیں اسی کو) اللہ چاہتا ہے (اور آپ کے ذریعے) صاحبِ ہدایت بنا دیتا ہے، اور وہ راہِ ہدایت کی پہچان رکھنے والوں سے خوب واقف ہے (یعنی جو لوگ آپ کی چاھت کی قدر پہچانتے ہیں وہی ہدایت سے نوازے جاتے ہیں)o
57. اور (قدر ناشناس) کہتے ہیں کہ اگر ہم آپ کی معیّت میں ہدایت کی پیروی کر لیں تو ہم اپنے ملک سے اچک لئے جائیں گے۔ کیا ہم نے انہیں (اس) امن والے حرم (شہرِ مکہ جو آپ ہی کا وطن ہے) میں نہیں بسایا جہاں ہماری طرف سے رزق کے طور پر (دنیا کی ہر سمت سے) ہر جنس کے پھل پہنچائے جاتے ہیں، لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے (کہ یہ سب کچھ کس کے صدقے سے ہو رہا ہے)o
58. اور ہم نے کتنی ہی (ایسی) بستیوں کو برباد کر ڈالا جو اپنی خوشحال معیشت پر غرور و ناشکری کر رہی تھیں، تو یہ ان کے (تباہ شدہ) مکانات ہیں جو ان کے بعد کبھی آباد ہی نہیں ہوئے مگر بہت کم، اور (آخر کار) ہم ہی وارث و مالک ہیںo
59. اور آپ کا رب بستیوں کو تباہ کرنے والا نہیں ہے یہاں تک کہ وہ اس کے بڑے مرکزی شہر (capital) میں پیغمبر بھیج دے جو ان پر ہماری آیتیں تلاوت کرے، اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہیں ہیں مگر اس حال میں کہ وہاں کے مکین ظالم ہوںo
60. اور جو چیز بھی تمہیں عطا کی گئی ہے سو (وہ) دنیوی زندگی کا سامان اور اس کی رونق و زینت ہے۔ مگر جو چیز (بھی) اللہ کے پاس ہے وہ (اس سے) زیادہ بہتر اور دائمی ہے۔ کیا تم (اس حقیقت کو) نہیں سمجھتےo
61. کیا وہ شخص جس سے ہم نے کوئی (آخرت کا) اچھا وعدہ فرمایا ہو پھر وہ اسے پانے والا ہو جائے، اس (بدنصیب) کی مثل ہو سکتا ہے جسے ہم نے دنیوی زندگی کے سامان سے نوازا ہو پھر وہ (کفرانِ نعمت کے باعث) روزِ قیامت (عذاب کے لئے) حاضر کئے جانے والوں میں سے ہو جائےo
62. اور جس دن (اللہ) انہیں پکارے گا تو فرمائے گا کہ میرے وہ شریک کہاں ہیں جنہیں تم (معبود) خیال کیا کرتے تھےo
63. وہ لوگ جن پر (عذاب کا) فرمان ثابت ہو چکا کہیں گے: اے ہمارے رب! یہی وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہ کیا تھا ہم نے انہیں (اسی طرح) گمراہ کیا تھا جس طرح ہم (خود) گمراہ ہوئے تھے، ہم ان سے بیزاری ظاہر کرتے ہوئے تیری طرف متوجہ ہوتے ہیں اور وہ (درحقیقت) ہماری پرستش نہیں کرتے تھے (بلکہ اپنی نفسانی خواہشات کے پجاری تھے)o
64. اور (ان سے) کہا جائے گا: تم اپنے (خود ساختہ) شریکوں کو بلاؤ، سو وہ انہیں پکاریں گے پس وہ (شریک) انہیں کوئی جواب نہ دیں گے اور وہ لوگ عذاب کو دیکھ لیں گے، کاش! وہ (دنیا میں) راہِ ہدایت پا چکے ہوتےo
65. اور جس دن (اللہ) انہیں پکارے گا تو وہ فرمائے گا: تم نے پیغمبروں کو کیا جواب دیا تھاo
66. تو ان پر اس دن خبریں پوشیدہ ہو جائیں گی سو وہ ایک دوسرے سے پوچھ (بھی) نہ سکیں گےo
67. لیکن جس نے توبہ کر لی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیا تو یقیناً وہ فلاح پانے والوں میں سے ہوگاo
68. اور آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے اور (جسے چاہتا ہے نبوت اور حقِ شفاعت سے نوازنے کے لئے) منتخب فرما لیتا ہے، ان (منکر اور مشرک) لوگوں کو (اس امر میں) کوئی مرضی اور اختیار حاصل نہیں ہے۔ اللہ پاک ہے اور بالاتر ہے ان (باطل معبودوں) سے جنہیں وہ (اللہ کا) شریک گردانتے ہیں۔o
69. اور آپ کا رب ان (تمام باتوں) کو جانتا ہے جو ان کے سینے (اپنے اندر) چھپائے ہوئے ہیں اور جو کچھ وہ آشکار کرتے ہیں۔o
70. اور وہی اللہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ دنیا اور آخرت میں ساری تعریفیں اسی کے لئے ہیں، اور (حقیقی) حکم و فرمانروائی (بھی) اسی کی ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گےo
71. فرما دیجئے: ذرا اتنا بتاؤ کہ اگر اللہ تمہارے اوپر روزِ قیامت تک ہمیشہ رات طاری فرما دے (تو) اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمہیں روشنی لا دے۔ کیا تم (یہ باتیں) سنتے نہیں ہوo
72. فرما دیجئے: ذرا یہ (بھی) بتاؤ کہ اگر اللہ تمہارے اوپر روزِ قیامت تک ہمیشہ دن طاری فرما دے (تو) اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمہیں رات لا دے کہ تم اس میں آرام کر سکو، کیا تم دیکھتے نہیں ہوo
73. اور اس نے اپنی رحمت سے تمہارے لئے رات اور دن کو بنایا تاکہ تم رات میں آرام کرو اور (دن میں) اس کا فضل (روزی) تلاش کرسکو اور تاکہ تم شکر گزار بنوo
74. اور جس دن وہ انہیں پکارے گا تو ارشاد فرمائے گا کہ میرے وہ شریک کہاں ہیں جنہیں تم (معبود) خیال کرتے تھےo
75. اور ہم ہر امت سے ایک گواہ نکالیں گے پھر ہم (کفار سے) کہیں گے کہ تم اپنی دلیل لاؤ تو وہ جان لیں گے کہ سچ بات اللہ ہی کی ہے اور ان سے وہ سب (باتیں) جاتی رہیں گی جو وہ جھوٹ باندھا کرتے تھےo
76. بیشک قارون موسٰی (علیہ السلام) کی قوم سے تھا پھر اس نے لوگوں پر سرکشی کی اور ہم نے اسے اس قدر خزانے عطا کئے تھے کہ اس کی کنجیاں (اٹھانا) ایک بڑی طاقتور جماعت کو دشوار ہوتا تھا، جبکہ اس کی قوم نے اس سے کہا: تُو (خوشی کے مارے) غُرور نہ کر بیشک اللہ اِترانے والوں کو پسند نہیں فرماتاo
77. اور تو اس (دولت) میں سے جو اللہ نے تجھے دے رکھی ہے آخرت کا گھر طلب کر، اور دنیا سے (بھی) اپنا حصہ نہ بھول اور تو (لوگوں سے ویسا ہی) احسان کر جیسا احسان اللہ نے تجھ سے فرمایا ہے اور ملک میں (ظلم، ارتکاز اور استحصال کی صورت میں) فساد انگیزی (کی راہیں) تلاش نہ کر، بیشک اللہ فساد بپا کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتاo
78. وہ کہنے لگا: (میں یہ مال معاشرے اور عوام پر کیوں خرچ کروں) مجھے تویہ مال صرف اس (کسبی) علم و ہنر کی بنا پر دیا گیا ہے جو میرے پاس ہے۔ کیا اسے یہ معلوم نہ تھا کہ اللہ نے واقعۃً اس سے پہلے بہت سی ایسی قوموں کو ہلاک کر دیا تھا جو طاقت میں اس سے کہیں زیادہ سخت تھیں اور (مال و دولت اور افرادی قوت کے) جمع کرنے میں کہیں زیادہ (آگے) تھیں، اور (بوقتِ ہلاکت) مجرموں سے ان کے گناہوں کے بارے میں (مزید تحقیق یا کوئی عذر اور سبب) نہیں پوچھا جائے گاo
79. پھر وہ اپنی قوم کے سامنے (پوری) زینت و آرائش (کی حالت) میں نکلا۔ (اس کی ظاہری شان و شوکت کو دیکھ کر) وہ لوگ بول اٹھے جو دنیوی زندگی کے خواہش مند تھے: کاش! ہمارے لئے (بھی) ایسا (مال و متاع) ہوتا جیسا قارون کو دیا گیا ہے، بیشک وہ بڑے نصیب والا ہےo
80. اور (دوسری طرف) وہ لوگ جنہیں علمِ (حق) دیا گیا تھا بول اٹھے: تم پر افسوس ہے اللہ کا ثواب اس شخص کے لئے (اس دولت و زینت سے کہیں زیادہ) بہتر ہے جو ایمان لایا ہو اور نیک عمل کرتا ہو، مگر یہ (اجر و ثواب) صبر کرنے والوں کے سوا کسی کو عطا نہیں کیا جائے گاo
81. پھرہم نے اس (قارون) کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا، سو اللہ کے سوا اس کے لئے کوئی بھی جماعت (ایسی) نہ تھی جو (عذاب سے بچانے میں) اس کی مدد کرسکتی اور نہ وہ خود ہی عذاب کو روک سکاo
82. اور جو لوگ کل اس کے مقام و مرتبہ کی تمنا کر رہے تھے (اَز رہِ ندامت) کہنے لگے: کتنا عجیب ہے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے رزق کشادہ فرماتا اور (جس کے لئے چاہتا ہے) تنگ فرماتا ہے، اگر اللہ نے ہم پر احسان نہ فرمایا ہوتا تو ہمیں (بھی) دھنسا دیتا، ہائے تعجب ہے! (اب معلوم ہوا) کہ کافر نجات نہیں پا سکتےo
83. (یہ) وہ آخرت کا گھر ہے جسے ہم نے ایسے لوگوں کے لئے بنایا ہے جو نہ (تو) زمین میں سرکشی و تکبر چاہتے ہیں اور نہ فساد انگیزی، اور نیک انجام پرہیزگاروں کے لئے ہےo
84. جو شخص نیکی لے کر آئے گا اس کے لئے اس سے بہتر (صلہ) ہے اور جو شخص برائی لے کر آئے گا تو برے کام کرنے والوں کو کوئی بدلہ نہیں دیا جائے گا مگر اسی قدر جو وہ کرتے رہے تھےo
85. بیشک جس (رب) نے آپ پر قرآن (کی تبلیغ و اقامت کو) فرض کیا ہے یقیناً وہ آپ کو (آپ کی چاہت کے مطابق) لوٹنے کی جگہ (مکہ یا آخرت) کی طرف (فتح و کامیابی کے ساتھ) واپس لے جانے والا ہے۔ فرما دیجئے: میرا رب اسے خوب جانتا ہے جو ہدایت لے کر آیا اور اسے (بھی) جو صریح گمراہی میں ہے۔٭o
٭ (یہ آیت مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرماتے ہوئے حجفہ کے مقام پر نازل ہوئی اور یہ وعدہ فتح مکہ کے دن پورا ہو گیا۔)
86. اور تم (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے اُمتِ محمدی کو خطاب ہے) اس بات کی امید نہ رکھتے تھے کہ تم پر (یہ) کتاب اتاری جائے گی مگر (یہ) تمہارے رب کی رحمت (سے اتری) ہے، پس تم ہرگز کافروں کے مددگار نہ بنناo
87. اور وہ (کفار) تمہیں ہرگز اللہ کی آیتوں (کی تعمیل و تبلیغ) سے باز نہ رکھیں اس کے بعد کہ وہ تمہاری طرف اتاری جا چکی ہیں اور تم (لوگوں کو) اپنے رب کی طرف بلاتے رہو اور مشرکوں میں سے ہرگز نہ ہوناo
88. اور تم اللہ کے ساتھ کسی دوسرے (خود ساختہ) معبود کو نہ پوجا کرو، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اس کی ذات کے سوا ہر چیز فانی ہے، حکم اسی کا ہے اور تم (سب) اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گےo
سُورة الْعَنْکَبُوْت
1. الف، لام، میم (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)o
2. کیا لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ (صرف) ان کے (اتنا) کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں چھوڑ دیئے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہ کی جائے گیo
3. اور بیشک ہم نے ان لوگوں کو (بھی) آزمایا تھا جو ان سے پہلے تھے سو یقیناً اللہ ان لوگوں کو ضرور (آزمائش کے ذریعے) نمایاں فرما دے گا جو (دعوٰی ایمان میں) سچے ہیں اور جھوٹوں کو (بھی) ضرور ظاہر کر دے گاo
4. کیا جو لوگ برے کام کرتے ہیں یہ گمان کئے ہوئے ہیں کہ وہ ہمارے (قابو) سے باہر نکل جائیں گے؟ کیا ہی برا ہے جو وہ (اپنے ذہنوں میں) فیصلہ کرتے ہیںo
5. جو شخص اللہ سے ملاقات کی امید رکھتا ہے تو بیشک اللہ کا مقرر کردہ وقت ضرور آنے والا ہے، اور وہی سننے والا جاننے والا ہےo
6. جو شخص (راہِ حق میں) جد و جہد کرتا ہے وہ اپنے ہی (نفع کے) لئے تگ و دو کرتا ہے، بیشک اللہ تمام جہانوں (کی طاعتوں، کوششوں اور مجاہدوں) سے بے نیاز ہےo
7. اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو ہم ان کی ساری خطائیں ان (کے نامۂ اعمال) سے مٹا دیں گے اور ہم یقیناً انہیں اس سے بہتر جزا عطا فرما دیں گے جو عمل وہ (فی الواقع) کرتے رہے تھےo
8. اور ہم نے انسان کو اس کے والدین سے نیک سلوک کا حکم فرمایا اور اگر وہ تجھ پر (یہ) کوشش کریں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کو شریک ٹھہرائے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کی اطاعت مت کر، میری ہی طرف تم (سب) کو پلٹنا ہے سو میں تمہیں ان (کاموں) سے آگاہ کردوں گا جو تم (دنیا میں) کیا کرتے تھےo
9. اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے تو ہم انہیں ضرور نیکو کاروں (کے گروہ) میں داخل فرما دیں گےo
10. اور لوگوں میں ایسے شخص (بھی) ہوتے ہیں جو (زبان سے) کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لائے، پھر جب انہیں اللہ کی راہ میں (کوئی) تکلیف پہنچائی جاتی ہے تو وہ لوگوں کی آزمائش کواللہ کے عذاب کی مانند قرار دیتے ہیں، اور اگر آپ کے رب کی جانب سے کوئی مدد آپہنچتی ہے تو وہ یقیناً یہ کہنے لگتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہی تھے، کیا اللہ ان (باتوں) کو نہیں جانتا جو جہان والوں کے سینوں میں (پوشیدہ) ہیںo
11. اور اللہ ضرور ایسے لوگوں کو ممتاز فرما دے گا جو (سچے دل سے) ایمان لائے ہیں اور منافقوں کو (بھی) ضرور ظاہر کر دے گاo
12. اور کافر لوگ ایمان والوں سے کہتے ہیں کہ تم ہماری راہ کی پیروی کرو اور ہم تمہاری خطاؤں (کے بوجھ) کو اٹھا لیں گے، حالانکہ وہ ان کے گناہوں کا کچھ بھی (بوجھ) اٹھانے والے نہیں ہیں بیشک وہ جھوٹے ہیںo
13. وہ یقیناً اپنے (گناہوں کے) بوجھ اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ کئی (دوسرے) بوجھ (بھی اپنے اوپر لادے ہوں گے) اور ان سے روزِ قیامت ان (بہتانوں) کی ضرور پرسش کی جائے گی جو وہ گھڑا کرتے تھےo
14. اور بیشک ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس برس کم ایک ہزار سال رہے، پھر ان لوگوں کو طوفان نے آپکڑا اس حال میں کہ وہ ظالم تھےo
15. پھر ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اور (ان کے ہمراہ) کشتی والوں کو نجات بخشی اور ہم نے اس (کشتی اور واقعہ) کو تمام جہان والوں کے لئے نشانی بنا دیاo
16. اور ابراہیم (علیہ السلام) کو (یاد کریں) جب انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو، یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم (حقیقت کو) جانتے ہوo
17. تم تو اللہ کے سوا بتوں کی پوجا کرتے ہو اور محض جھوٹ گھڑتے ہو، بیشک تم اللہ کے سوا جن کی پوجا کرتے ہو وہ تمہارے لئے رزق کے مالک نہیں ہیں پس تم اللہ کی بارگاہ سے رزق طلب کیا کرو اور اسی کی عبادت کیا کرو اور اسی کا شکر بجا لایا کرو، تم اسی کی طرف پلٹائے جاؤ گےo
18. اور اگر تم نے (میری باتوں کو) جھٹلایا تو یقیناً تم سے پہلے (بھی) کئی امتیں (حق کو) جھٹلا چکی ہیں، اور رسول پر واضح طریق سے (احکام) پہنچا دینے کے سوا (کچھ لازم) نہیں ہےo
19. کیا انہوں نے نہیں دیکھا (یعنی غور نہیں کیا) کہ اللہ کس طرح تخلیق کی ابتداء فرماتا ہے پھر (اسی طرح) اس کا اعادہ فرماتا ہے۔ بیشک یہ (کام) اللہ پر آسان ہےo
20. فرما دیجئے: تم زمین میں (کائناتی زندگی کے مطالعہ کے لئے) چلو پھرو، پھر دیکھو (یعنی غور و تحقیق کرو) کہ اس نے مخلوق کی (زندگی کی) ابتداء کیسے فرمائی پھر وہ دوسری زندگی کو کس طرح اٹھا کر (ارتقاء کے مراحل سے گزارتا ہوا) نشو و نما دیتا ہے۔ بیشک اللہ ہر شے پر بڑی قدرت رکھنے والا ہےo
21. وہ جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے اور جس پر چاہتا ہے رحم فرماتا ہے اور اسی کی طرف تم پلٹائے جاؤ گےo
22. اور نہ تم (اللہ کو) زمین میں عاجز کرنے والے ہو اور نہ آسمان میں اور نہ تمہارے لئے اللہ کے سوا کوئی دوست ہے اور نہ مددگارo
23. اور جن لوگوں نے اللہ کی آیتوں کا اور اس کی ملاقات کا انکار کیا وہ لوگ میری رحمت سے مایوس ہوگئے اور ان ہی لوگوں کے لئے درد ناک عذاب o
2ہے4. سو قومِ ابراہیم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ کہنے لگے: تم اسے قتل کر ڈالو یا اسے جلا دو، پھر اللہ نے اسے (نمرود کی) آگ سے نجات بخشی، بیشک اس (واقعہ) میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو ایمان لائے ہیںo
25. اور ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا: بس تم نے تو اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو معبود بنا لیا ہے محض دنیوی زندگی میں آپس کی دوستی کی خاطر پھر روزِ قیامت تم میں سے (ہر) ایک دوسرے (کی دوستی) کا انکار کر دے گا اور تم میں سے (ہر) ایک دوسرے پر لعنت بھیجے گا، تو تمہارا ٹھکانا دوزخ ہے اور تمہارے لئے کوئی بھی مددگار نہ ہوگاo
26. پھر لوط (علیہ السلام) ان پر (یعنی ابراہیم علیہ السلام پر) ایمان لے آئے اور انہوں نے کہا: میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں۔ بیشک وہ غالب ہے حکمت والا ہےo
27. اور ہم نے انہیں اسحاق اور یعقوب (علیہما السلام بیٹا اور پوتا) عطا فرمائے اور ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں نبوت اور کتاب مقرر فرما دی اور ہم نے انہیں دنیا میں (ہی) ان کا صلہ عطا فرما دیا، اور بیشک وہ آخرت میں (بھی) نیکوکاروں میں سے ہیںo
28. اور لوط (علیہ السلام) کو (یاد کریں) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: بیشک تم بڑی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو، اقوامِ عالم میں سے کسی ایک (قوم) نے (بھی) اس (بے حیائی) میں تم سے پہل نہیں کیo
29. کیا تم (شہوت رانی کے لئے) مَردوں کے پاس جاتے ہو اور ڈاکہ زنی کرتے ہو اور اپنی (بھری) مجلس میں ناپسندیدہ کام کرتے ہو، تو ان کی قوم کا جواب (بھی) اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ کہنے لگے: تم ہم پر اللہ کا عذاب لے آؤ اگر تم سچے ہوo
30. لوط (علیہ السلام) نے عرض کیا: اے رب! تو فساد انگیزی کرنے والی قوم کے خلاف میری مدد فرماo
31. اور جب ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس خوشخبری لے کر آئے (تو) انہوں نے (ساتھ) یہ (بھی) کہا کہ ہم اس بستی کے مکینوں کو ہلاک کرنے والے ہیں کیونکہ یہاں کے باشندے ظالم ہیںo
32. ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا: اس (بستی) میں تو لوط (علیہ السلام بھی) ہیں، انہوں نے کہا: ہم ان لوگوں کوخوب جانتے ہیں جو (جو) اس میں (رہتے) ہیں ہم لوط (علیہ السلام) کو اور ان کے گھر والوں کو سوائے ان کی عورت کے ضرور بچالیں گے، وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہےo
33. اور جب ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے تو وہ ان (کے آنے) سے رنجیدہ ہوئے اور ان کے (ارادۂ عذاب کے) باعث نڈھال سے ہوگئے اور (فرشتوں نے) کہا: آپ نہ خوفزدہ ہوں اور نہ غم زدہ ہوں، بیشک ہم آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو بچانے والے ہیں سوائے آپ کی عورت کے وہ (عذاب کے لئے) پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہےo
34. بیشک ہم اس بستی کے باشندوں پر آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں اس وجہ سے کہ وہ نافرمانی کیا کرتے تھےo
35. اور بیشک ہم نے اس بستی سے (ویران مکانوں کو) ایک واضح نشانی کے طور پر عقل مند لوگوں کے لئے برقرار رکھاo
36. اور مَدیَن کی طرف ان کے (قومی) بھائی شعیب (علیہ السلام) کو (بھیجا)، سو انہوں نے کہا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اور یومِ آخرت کی امید رکھو اور زمین میں فساد انگیزی نہ کرتے پھروo
37. تو انہوں نے شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلا ڈالا پس انہیں (بھی) زلزلہ (کے عذاب) نے آپکڑا، سو انہوں نے صبح اس حال میں کی کہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ (مُردہ) پڑے تھےo
38. اور عاد اور ثمود کو (بھی ہم نے ہلاک کیا) اور بیشک ان کے کچھ (تباہ شدہ) مکانات تمہارے لیئے (بطورِ عبرت) ظاہر ہو چکے ہیں اور شیطان نے ان کے اَعمالِ بد، ان کے لئے خوش نما بنا دیئے تھے اورانہیں (حق کی) راہ سے پھیر دیا تھا حالانکہ وہ بینا و دانا تھےo
39. اور (ہم نے) قارون اور فرعون اور ہامان کو (بھی ہلاک کیا) اور بیشک موسٰی (علیہ السلام) ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے تھے تو انہوں نے ملک میں غرور و سرکشی کی اور وہ (ہماری گرفت سے) آگے بڑھ جانے والے نہ تھےo
40. سو ہم نے (ان میں سے) ہر ایک کو اس کے گناہ کے باعث پکڑ لیا، اور ان میں سے وہ (طبقہ بھی) تھا جس پر ہم نے پتھر برسانے والی آندھی بھیجی اوران میں سے وہ (طبقہ بھی) تھا جسے دہشت ناک آواز نے آپکڑا اور ان میں سے وہ (طبقہ بھی) تھا جسے ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے (ایک) وہ (طبقہ بھی) تھا جسے ہم نے غرق کر دیا اور ہرگز ایسا نہ تھا کہ اللہ ان پر ظلم کرے بلکہ وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھےo
41. ایسے (کافر) لوگوں کی مثال جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اوروں (یعنی بتوں) کو کارساز بنا لیا ہے مکڑی کی داستان جیسی ہے جس نے (اپنے لئے جالے کا) گھر بنایا، اور بیشک سب گھروں سے زیادہ کمزور مکڑی کا گھر ہے، کاش! وہ لوگ (یہ بات) جانتے ہوتےo
42. بیشک اللہ ان (بتوں کی حقیقت) کو جانتا ہے جن کی بھی وہ اس کے سوا پوجا کرتے ہیں، اور وہی غالب ہے حکمت والا ہےo
43. اور یہ مثالیں ہیں ہم انہیں لوگوں (کے سمجھانے) کے لئے بیان کرتے ہیں، اور انہیں اہلِ علم کے سوا کوئی نہیں سمجھتاo
44. اللہ نے آسمانوں اور زمین کو درست تدبیر کے ساتھ پیدا فرمایا ہے، بیشک اس (تخلیق) میں اہلِ ایمان کے لئے (اس کی وحدانیت اور قدرت کی) نشانی ہےo
پاره أَمَّنْ خَلَقَ
60. بلکہ وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا اور تمہارے لئے آسمانی فضا سے پانی اتارا، پھر ہم نے اس (پانی) سے تازہ اور خوش نما باغات اُگائے؟ تمہارے لئے ممکن نہ تھا کہ تم ان (باغات) کے درخت اُگا سکتے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور بھی) معبود ہے؟ بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو (راہِ حق سے) پرے ہٹ رہے ہیںo
61. بلکہ وہ کون ہے جس نے زمین کو قرار گاہ بنایا اور اس کے درمیان نہریں بنائیں اور اس کے لئے بھاری پہاڑ بنائے۔ اور (کھاری اور شیریں) دو سمندروں کے درمیان آڑ بنائی؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور بھی) معبود ہے؟ بلکہ ان (کفار) میں سے اکثر لوگ بے علم ہیںo
62. بلکہ وہ کون ہے جو بے قرار شخص کی دعا قبول فرماتا ہے جب وہ اسے پکارے اور تکلیف دور فرماتا ہے اور تمہیں زمین میں(پہلے لوگوں کا) وارث و جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور بھی) معبود ہے؟ تم لوگ بہت ہی کم نصیحت قبول کرتے ہوo
63. بلکہ وہ کون ہے جو تمہیں خشک و تر (یعنی زمین اور سمندر) کی تاریکیوں میں راستہ دکھاتا ہے اور جو ہواؤں کو اپنی (بارانِ) رحمت سے پہلے خوشخبری بنا کر بھیجتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور بھی) معبود ہے؟ اللہ ان (معبودانِ باطلہ) سے برتر ہے جنہیں وہ شریک ٹھہراتے ہیںo
64. بلکہ وہ کون ہے جو مخلوق کو پہلی بار پیدا فرماتا ہے پھر اسی (عملِ تخلیق) کو دہرائے گا اور جو تمہیں آسمان و زمین سے رزق عطا فرماتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور بھی)معبود ہے؟ فرما دیجئے: (اے مشرکو!) اپنی دلیل پیش کرو اگر تم سچے ہوo
65. فرمادیجئے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں (اَز خود) غیب کا علم نہیں رکھتے سوائے اللہ کے (وہ عالم بالذّات ہے) اور نہ ہی وہ یہ خبر رکھتے ہیں کہ وہ (دوبارہ زندہ کر کے) کب اٹھائے جائیں گےo
66. بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم (اپنی) انتہاء کو پہنچ کر منقطع ہوگیا، مگر وہ اس سے متعلق محض شک میں ہی (مبتلاء) ہیں، بلکہ وہ اس (کے علمِ قطعی) سے اندھے ہیںo
67. اور کافر لوگ کہتے ہیں: کیا جب ہم اور ہمارے باپ دادا (مَر کر) مٹی ہوجائیں گے تو کیا ہم (پھر زندہ کر کے قبروں میں سے) نکالے جائیں گےo
68. درحقیقت اس کا وعدہ ہم سے (بھی) کیا گیا اور اس سے پہلے ہمارے باپ دادا سے (بھی)، یہ اگلے لوگوں کے من گھڑت افسانوں کے سوا کچھ نہیںo
69. فرما دیجئے: تم زمین میں سیر و سیاحت کرو پھر دیکھو مجرموں کا انجام کیسا ہوا o
70. اور (اے حبیبِ مکرّم!) آپ ان (کی باتوں) پر غم زدہ نہ ہوا کریں اور نہ اس مکر و فریب کے باعث جو وہ کر رہے ہیں تنگ دلی میں (مبتلاء) ہوںo
71. اور وہ کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو (بتاؤ) یہ (عذابِ آخرت کا) وعدہ کب پورا ہوگاo
72. فرما دیجئے: کچھ بعید نہیں کہ اس (عذاب) کا کچھ حصہ تمہارے نزدیک ہی آپہنچا ہو جسے تم بہت جلد طلب کر رہے ہوo
73. اور بیشک آپ کا رب لوگوں پر فضل (فرمانے) والا ہے لیکن ان میں سے اکثر لوگ شکر نہیں کرتےo
74. اور بیشک آپ کا رب ان (باتوں) کو ضرور جانتا ہے جو ان کے سینے (اندر) چھپائے ہوئے ہیں اور (ان باتوں کو بھی) جو یہ آشکار کرتے ہیںo
75. اور آسمان اور زمین میں کوئی (بھی) پوشیدہ چیز نہیں ہے مگر (وہ) روشن کتاب (لوح ِمحفوظ) میں (درج) ہےo
76. بیشک یہ قرآن بنی اسرائیل کے سامنے وہ بیشتر چیزیں بیان کرتا ہے جن میں وہ اختلاف کرتے ہیںo
77. اور بیشک یہ ہدایت ہے اور مومنوں کے لئے رحمت ہےo
78. اور بیشک آپ کا رب ان (مومنوں اور کافروں) کے درمیان اپنے حکم (عدل) سے فیصلہ فرمائے گا، اور وہ غالب ہے بہت جاننے والا ہےo
79. پس آپ اللہ پر بھروسہ کریں بیشک آپ صریح حق پر (قائم اور فائز) ہیںo
80. بیشک آپ نہ (تو حیاتِ ایمانی سے محروم) مُردوں کو (حق کی بات) سنا سکتے ہیں اور نہ ہی (ایسے) بہروں کو (ہدایت کی) پکار سنا سکتے ہیں جبکہ وہ (غلبۂ کفر کے باعث ہدایت سے) پیٹھ پھیر کر (قبولِ حق سے) رُوگرداں ہو رہے ہوںo
81. اور نہ ہی آپ (دل کے) اندھوں کو ان کی گمراہی سے (بچا کر) ہدایت دینے والے ہیں، آپ تو (فی الحقیقت) انہی کو سناتے ہیں جو (آپ کی دعوت قبول کر کے) ہماری آیتوں پر ایمان لے آتے ہیں سو وہی لوگ مسلمان ہیں (اور وہی زندہ کہلانے کے حق دار ہیں)o
82. اور جب ان پر (عذاب کا) فرمان پورا ہونے کا وقت آجائے گا تو ہم ان کے لئے زمین سے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے گفتگو کرے گا کیونکہ لوگ ہماری نشانیوں پر یقین نہیں کرتے تھےo
83. اور جس دن ہم ہر امت میں سے ان لوگوں کا (ایک ایک) گروہ جمع کریں گے جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے سو وہ (اکٹھا چلنے کے لئے آگے کی طرف سے) روکے جائیں گےo
84. یہاں تک کہ جب وہ سب (مقامِ حساب پر) آپہنچیں گے تو ارشاد ہوگا کیا تم (بغیر غور و فکر کے) میری آیتوں کو جھٹلاتے تھے حالانکہ تم (اپنے ناقص) علم سے انہیں کاملاً جان بھی نہیں سکے تھے یا (تم خود ہی بتاؤ) اس کے علاوہ اور کیا (سبب) تھا جو تم (حق کی تکذیب) کیا کرتے تھےo
85. اور ان پر (ہمارا) وعدہ پورا ہوچکا اس وجہ سے کہ وہ ظلم کر تے رہے سو وہ (جواب میں) کچھ بول نہ سکیں گےo
86. کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے رات بنائی تاکہ وہ اس میں آرام کرسکیں اور دن کو (امورِ حیات کی نگرانی کے لئے) روشن (یعنی اشیاء کو دِکھانے اور سُجھانے والا) بنایا، بیشک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو ایمان رکھتے ہیںo
87. اور جس دن صُور پھونکا جائے گا تو وہ (سب لوگ) گھبرا جائیں گے جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں مگر جنہیں اللہ چاہے گا (نہیں گھبرائیں گے)، اور سب اس کی بارگاہ میں عاجزی کرتے ہوئے حاضر ہوں گےo
88. اور (اے انسان!) تو پہاڑوں کو دیکھے گا تو خیال کرے گا کہ جمے ہوئے ہیں حالانکہ وہ بادل کے اڑنے کی طرح اڑ رہے ہوں گے۔ (یہ) اللہ کی کاریگری ہے جس نے ہر چیز کو (حکمت و تدبیر کے ساتھ) مضبوط و مستحکم بنا رکھا ہے۔ بیشک وہ ان سب (کاموں) سے خبردار ہے جو تم کرتے ہوo
89. جو شخص (اس دن) نیکی لے کر آئے گا اس کے لئے اس سے بہتر (جزا) ہوگی اور وہ لوگ اس دن گھبراہٹ سے محفوظ و مامون ہوں گےo
90. اور جو شخص برائی لے کر آئے گا تو ان کے منہ (دوزخ کی) آگ میں اوندھے ڈالے جائیں گے۔ بس تمہیں وہی بدلہ دیا جائے گا جو تم کیا کرتے تھےo
91. (آپ ان سے فرما دیجئے کہ) مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ اس شہرِ (مکّہ) کے رب کی عبادت کروں جس نے اسے عزت و حُرمت والا بنایا ہے اور ہر چیز اُسی کی (مِلک) ہے اور مجھے (یہ) حکم (بھی) دیا گیا ہے کہ میں (اللہ کے) فرمانبرداروں میں رہوںo
92. نیز یہ کہ میں قرآن پڑھ کر سناتا رہوں سو جس شخص نے ہدایت قبول کی تو اس نے اپنے ہی فائدہ کے لئے راہِ راست اختیار کی، اور جو بہکا رہا تو آپ فرما دیں کہ میں تو صِرف ڈر سنانے والوں میں سے ہوںo
93. اور آپ فرمادیجئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں وہ عنقریب تمہیں اپنی نشانیاں دکھا دے گا سو تم انہیں پہچان لو گے، اور آپ کا رب ان کاموں سے بے خبر نہیں جو تم انجام دیتے ہوo
سُورة الْقَصَص
1. طا، سین، میم (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)o
2. یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیںo
3. (اے حبیبِ مکرّم!) ہم آپ پر موسٰی (علیہ السلام) اور فرعون کے حقیقت پر مبنی حال میں سے ان لوگوں کے لئے کچھ پڑھ کر سناتے ہیں جو ایمان رکھتے ہیںo
4. بیشک فرعون زمین میں سرکش و متکبّر (یعنی آمرِ مطلق) ہوگیا تھا اور اس نے اپنے (ملک کے) باشندوں کو (مختلف) فرقوں (اور گروہوں) میں بانٹ دیا تھا اس نے ان میں سے ایک گروہ (یعنی بنی اسرائیل کے عوام) کو کمزور کردیا تھا کہ ان کے لڑکوں کو (ان کے مستقبل کی طاقت کچلنے کے لئے) ذبح کر ڈالتا اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا (تاکہ مَردوں کے بغیر ان کی تعداد بڑھے اور ان میں اخلاقی بے راہ روی کا اضافہ ہو)، بیشک وہ فساد انگیز لوگوں میں سے تھاo
5. اور ہم چاہتے تھے کہ ہم ایسے لوگوں پر احسان کریں جو زمین میں (حقوق اور آزادی سے محرومی اور ظلم و استحصال کے باعث) کمزور کر دیئے گئے تھے اور انہیں (مظلوم قوم کے) رہبر و پیشوا بنا دیں اور انہیں (ملکی تخت کا) وارث بنا دیںo
6. اور ہم انہیں ملک میں حکومت و اقتدار بخشیں اور فرعون اور ہامان اور ان دونوں کی فوجوں کو وہ (انقلاب) دکھا دیں جس سے وہ ڈرا کرتے تھےo
7. اور ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ تم انہیں دودھ پلاتی رہو، پھر جب تمہیں ان پر (قتل کردیئے جانے کا) اندیشہ ہو جائے تو انہیں دریا میں ڈال دینا اور نہ تم (اس صورتِ حال سے) خوفزدہ ہونا اور نہ رنجیدہ ہونا، بیشک ہم انہیں تمہاری طرف واپس لوٹانے والے ہیں اور انہیں رسولوں میں(شامل) کرنے والے ہیں۔o
8. پھر فرعون کے گھر والوں نے انہیں (دریا سے) اٹھا لیا تاکہ وہ (مشیّتِ الٰہی سے) ان کے لئے دشمن اور (باعثِ) غم ثابت ہوں، بیشک فرعون اور ہامان اور ان دونوں کی فوجیں سب خطاکار تھےo
9. اور فرعون کی بیوی نے (موسٰی علیہ السلام کو دیکھ کر) کہا کہ (یہ بچہ) میری اور تیری آنکھ کے لئے ٹھنڈک ہے۔ اسے قتل نہ کرو، شاید یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا ہم اس کو بیٹا بنالیں اور وہ (اس تجویز کے انجام سے) بے خبر تھےo
10. اور موسٰی (علیہ السلام) کی والدہ کا دل (صبر سے) خالی ہوگیا، قریب تھا کہ وہ (اپنی بے قراری کے باعث) اس راز کو ظاہر کردیتیں اگر ہم ان کے دل پر صبر و سکون کی قوّت نہ اتارتے تاکہ وہ (وعدۂ الٰہی پر) یقین رکھنے والوں میں سے رہیںo
11. اور (موسٰی علیہ السلام کی والدہ نے) ان کی بہن سے کہا کہ (ان کا حال معلوم کرنے کے لئے) ان کے پیچھے جاؤ سو وہ انہیں دور سے دیکھتے رہے اور وہ لوگ (بالکل) بے خبر تھےo
12. اور ہم نے پہلے ہی سے موسٰی (علیہ السلام) پر دائیوں کا دودھ حرام کر دیا تھا سو (موسٰی علیہ السلام کی بہن نے) کہا: کیا میں تمہیں ایسے گھر والوں کی نشاندہی کروں جو تمہارے لئے اس (بچے) کی پرورش کر دیں اور وہ اس کے خیر خواہ (بھی) ہوںo
13. پس ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کو (یوں) ان کی والدہ کے پاس لوٹا دیا تاکہ ان کی آنکھ ٹھنڈی رہے اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور تاکہ وہ (یقین سے) جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتےo
14. اور جب موسٰی (علیہ السلام) اپنی جوانی کو پہنچ گئے اور (سنِّ) اعتدال پر آگئے تو ہم نے انہیں حکمِ (نبوّت) اور علم و دانش سے نوازا، اور ہم نیکوکاروں کو اسی طرح صلہ دیا کرتے ہیںo
15. اور موسٰی (علیہ السلام) شہرِ (مصر) میں داخل ہوئے اس حال میں کہ شہر کے باشندے (نیند میں) غافل پڑے تھے، تو انہوں نے اس میں دو مَردوں کو باہم لڑتے ہوئے پایا یہ (ایک) تو ان کے (اپنے) گروہ (بنی اسرائیل) میں سے تھا اور یہ (دوسرا) ان کے دشمنوں (قومِ فرعون) میں سے تھا، پس اس شخص نے جو انہی کے گروہ میں سے تھا آپ سے اس شخص کے خلاف مدد طلب کی جو آپ کے دشمنوں میں سے تھا پس موسٰی (علیہ السلام) نے اسے مکّا مارا تو اس کا کام تمام کردیا، (پھر) فرمانے لگے: یہ شیطان کا کام ہے (جو مجھ سے سرزَد ہوا ہے)، بیشک وہ صریح بہکانے والا دشمن ہےo
16. (موسٰی علیہ السلام) عرض کرنے لگے: اے میرے رب! بیشک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا سو تو مجھے معاف فرما دے پس اس نے انہیں معاف فرما دیا، بیشک وہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہےo
17. (مزید) عرض کرنے لگے: اے میرے رب! اس سبب سے کہ تو نے مجھ پر (اپنی مغفرت کے ذریعہ) احسان فرمایا ہے اب میں ہرگز مجرموں کا مددگار نہیں بنوں گاo
18. پس موسٰی (علیہ السلام) نے اس شہر میں ڈرتے ہوئے صبح کی اس انتظار میں (کہ اب کیا ہوگا؟) تو دفعتًہ وہی شخص جس نے آپ سے گزشتہ روز مدد طلب کی تھی آپ کو (دوبارہ) امداد کے لئے پکار رہا ہے تو موسٰی (علیہ السلام) نے اس سے کہا: بیشک تو صریح گمراہ ہےo
19. سو جب انہوں نے ارادہ کیا کہ اس شخص کو پکڑیں جو ان دونوں کا دشمن ہے تو وہ بول اٹھا: اے موسٰی! کیا تم مجھے (بھی) قتل کرنا چاہتے ہو جیسا کہ تم نے کل ایک شخص کو قتل کر ڈالا تھا۔ تم صرف یہی چاہتے ہو کہ ملک میں بڑے جابر بن جاؤ اور تم یہ نہیں چاہتے کہ اصلاح کرنے والوں میں سے o
2بنو0. اور شہر کے آخری کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اس نے کہا: اے موسٰی! (قومِ فرعون کے) سردار آپ کے بارے میں مشورہ کر رہے ہیں کہ وہ آپ کو قتل کردیں سو آپ (یہاں سے) نکل جائیں بیشک میں آپ کے خیر خواہوں میں سے ہوںo
21. سو موسٰی (علیہ السلام) وہاں سے خوف زدہ ہو کر (مددِ الٰہی کا) انتظار کرتے ہوئے نکل کھڑے ہوئے، عرض کیا: اے رب! مجھے ظالم قوم سے نجات عطا فرماo
22. اور جب وہ مَديَن کی طرف رخ کر کے چلے (تو) کہنے لگے: امید ہے میرا رب مجھے (منزلِ مقصود تک پہنچانے کے لئے) سیدھی راہ دکھا دے گاo
23. اور جب وہ مَدْيَنَْ کے پانی (کے کنویں) پر پہنچے تو انہوں نے اس پر لوگوں کا ایک ہجوم پایا جو (اپنے جانوروں کو) پانی پلا رہے تھے اور ان سے الگ ایک جانب دو عورتیں دیکھیں جو (اپنی بکریوں کو) روکے ہوئے تھیں (موسٰی علیہ السلام نے) فرمایا: تم دونوں اس حال میں کیوں (کھڑی) ہو؟ دونوں بولیں کہ ہم (اپنی بکریوں کو) پانی نہیں پلا سکتیں یہاں تک کہ چرواہے (اپنے مویشیوں کو) واپس لے جائیں، اور ہمارے والد عمر رسیدہ بزرگ ہیںo
24. سو انہوں نے دونوں (کے ریوڑ) کو پانی پلا دیا پھر سایہ کی طرف پلٹ گئے اور عرض کیا: اے رب! میں ہر اس بھلائی کا جو تو میری طرف اتارے محتا ج ہوںo
25. پھر (تھوڑی دیر بعد) ان کے پاس ان دونوں میں سے ایک (لڑکی) آئی جو شرم و حیاء (کے انداز) سے چل رہی تھی۔ اس نے کہا: میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ وہ آپ کو اس (محنت) کا معاوضہ دیں جو آپ نے ہمارے لئے (بکریوں کو) پانی پلایا ہے۔ سو جب موسٰی (علیہ السلام) ان (لڑکیوں کے والد شعیب علیہ السلام) کے پاس آئے اور ان سے (پچھلے) واقعات بیان کئے تو انہوں نے کہا: آپ خوف نہ کریں آپ نے ظالم قوم سے نجات پا لی ہےo
26. ان میں سے ایک (لڑکی) نے کہا: اے (میرے) والد گرامی! انہیں (اپنے پاس مزدوری) پر رکھ لیں بیشک بہترین شخص جسے آپ مزدوری پر رکھیں وہی ہے جو طاقتور امانت دار ہو (اور یہ اس ذمہ داری کے اہل ہیں)o
27. انہوں نے (موسٰی علیہ السلام سے) کہا: میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو لڑکیوں میں سے ایک کا نکاح آپ سے کردوں اس (مَہر) پر کہ آپ آٹھ سال تک میرے پاس اُجرت پر کام کریں، پھر اگر آپ نے دس (سال) پور ے کردیئے تو آپ کی طرف سے (احسان) ہوگا اور میں آپ پر مشقت نہیں ڈالنا چاہتا، اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے نیک لوگوں میں سے پائیں گےo
28. موسٰی (علیہ السلام) نے کہا: یہ (معاہدہ) میرے اور آپ کے درمیان (طے) ہوگیا، دو میں سے جو مدت بھی میں پوری کروں سو مجھ پر کوئی جبر نہیں ہوگا، اور اللہ اس (بات) پر جو ہم کہہ رہے ہیں نگہبان ہےo
29. پھر جب موسٰی (علیہ السلام) نے مقررہ مدت پوری کر لی اور اپنی اہلیہ کو لے کر چلے (تو) انہوں نے طور کی جانب سے ایک آگ دیکھی (وہ شعلۂ حسنِ مطلق تھا جس کی طرف آپ کی طبیعت مانوس ہوگئی)، انہوں نے اپنی اہلیہ سے فرمایا: تم (یہیں) ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے۔ شاید میں تمہارے لئے اس (آگ) سے کچھ (اُس کی) خبر لاؤں (جس کی تلاش میں مدتوں سے سرگرداں ہوں) یا آتشِ (سوزاں) کی کوئی چنگاری (لادوں) تاکہ تم (بھی) تپ اٹھوo
30. جب موسٰی (علیہ السلام) وہاں پہنچے تو وادئ (طور) کے دائیں کنارے سے بابرکت مقام میں (واقع) ایک درخت سے آواز دی گئی کہ اے موسٰی! بیشک میں ہی اللہ ہوں (جو) تمام جہانوں کا پروردگار (ہوں)o
31. اور یہ کہ اپنی لاٹھی (زمین پر) ڈال دو، پھر جب موسٰی (علیہ السلام) نے اسے دیکھا کہ وہ تیز لہراتی تڑپتی ہوئی حرکت کر رہی ہے گویا وہ سانپ ہو، تو پیٹھ پھیر کر چل پڑے اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھا، (ندا آئی اے موسٰی! سامنے آؤ اور خوف نہ کرو، بیشک تم امان یافتہ لوگوں میں سے ہوo
32. اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو وہ بغیر کسی عیب کے سفید چمک دار ہوکر نکلے گا اور خوف (دور کرنے کی غرض) سے اپنا بازو اپنے (سینے کی) طرف سکیڑ لو، پس تمہارے رب کی جانب سے یہ دو دلیلیں فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف (بھیجنے اور مشاہدہ کرانے کے لئے) ہیں، بیشک وہ نافرمان لوگ ہیںo
33. (موسٰی علیہ السلام نے) عرض کیا: اے پروردگار! میں نے ان میں سے ایک شخص کو قتل کر ڈالا تھا سو میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کرڈالیں گےo
34. اور میرے بھائی ہارون (علیہ السلام)، وہ زبان میں مجھ سے زیادہ فصیح ہیں سو انہیں میرے ساتھ مددگار بنا کر بھیج دے کہ وہ میری تصدیق کر سکیں میں اس بات سے (بھی) ڈرتا ہوں کہ (وہ) لوگ مجھے جھٹلائیں گےo
35. ارشاد فرمایا: ہم تمہارا بازو تمہارے بھائی کے ذریعے مضبوط کر دیں گے۔ اور ہم تم دونوں کے لئے (لوگوں کے دلوں میں اور تمہاری کاوشوں میں) ہیبت و غلبہ پیدا کئے دیتے ہیں۔ سو وہ ہماری نشانیوں کے سبب سے تم تک (گزند پہنچانے کے لئے) نہیں پہنچ سکیں گے، تم دونوں اور جو لوگ تمہاری پیروی کریں گے غالب رہیں گےo
36. پھر جب موسٰی (علیہ السلام) ان کے پاس ہماری واضح اور روشن نشانیاں لے کر آئے تو وہ لوگ کہنے لگے کہ یہ تو مَن گڑھت جادو کے سوا (کچھ) نہیں ہے۔ اور ہم نے یہ باتیں اپنے پہلے آباء و اجداد میں (کبھی) نہیں سنی تھیںo
37. اور موسٰی (علیہ السلام) نے کہا: میرا رب اس کو خوب جانتا ہے جو اس کے پاس سے ہدایت لے کر آیا ہے اور اس کو (بھی) جس کے لئے آخرت کے گھر کا انجام (بہتر) ہوگا، بیشک ظالم فلاح نہیں پائیں گےo
38. اور فرعون نے کہا: اے درباریو! میں تمہارے لئے اپنے سوا کوئی دوسرا معبود نہیں جانتا۔ اے ہامان! میرے لئے گارے کو آگ لگا (کر کچھ اینٹیں پکا) دے، پھر میرے لئے (ان سے) ایک اونچی عمارت تیار کر، شاید میں (اس پر چڑھ کر) موسٰی کے خدا تک رسائی پا سکوں، اور میں تو اس کو جھوٹ بولنے والوں میں گمان کرتا ہوںo
39. اور اس (فرعون) نے خود اور اس کی فوجوں نے ملک میں ناحق تکبّر و سرکشی کی اور یہ گمان کر بیٹھے کہ وہ ہماری طرف نہیں لوٹائے جائیں گےo
40. سو ہم نے اس کو اور اس کی فوجوں کو (عذاب میں) پکڑ لیا اور ان کو دریا میں پھینک دیا، تو آپ دیکھئے کہ ظالموں کا انجام کیسا (عبرت ناک) ہواo
41. اور ہم نے انہیں (دوزخیوں کا) پیشوا بنا دیا کہ وہ (لوگوں کو) دوزخ کی طرف بلاتے تھے اور قیامت کے دن ان کی کوئی مدد نہیں کی جائے گیo
42. اور ہم نے ان کے پیچھے اس دنیا میں (بھی) لعنت لگا دی اور قیامت کے دن (بھی) وہ بدحال لوگوں میں (شمار) ہوں گےo
43. اور بیشک ہم نے اس (صورتِ حال) کے بعد کہ ہم پہلی (نافرمان) قوموں کو ہلاک کر چکے تھے موسٰی (علیہ السلام) کو کتاب عطا کی جو لوگوں کے لئے (خزانۂ) بصیرت اور ہدایت و رحمت تھی، تاکہ وہ نصیحت قبول کریںo
44. اور آپ (اس وقت طُور کے) مغربی جانب (تو موجود) نہیں تھے جب ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کی طرف حکمِ (رسالت) بھیجا تھا، اور نہ (ہی) آپ (ان ستّر افراد میں شامل تھے جو وحیِ موسٰی علیہ السلام کی) گواہی دینے والوں میں سے تھے (پس یہ سارا بیان غیب کی خبر نہیں تو اور کیا ہے؟)o
45. لیکن ہم نے (موسٰی علیہ السلام کے بعد یکے بعد دیگرے) کئی قومیں پیدا فرمائیں پھر ان پر طویل مدّت گزر گئی، اور نہ (ہی) آپ (موسٰی اور شعیب علیہما السلام کی طرح) اہل مدین میں مقیم تھے کہ آپ ان پر ہماری آیتیں پڑھ کر سناتے ہوں لیکن ہم ہی (آپ کو اخبارِ غیب سے سرفراز فرما کر) مبعوث فرمانے والے ہیںo
46. اور نہ (ہی) آپ طُور کے کنارے (اس وقت موجود) تھے جب ہم نے (موسٰی علیہ السلام کو) ندا فرمائی مگر (آپ کو ان تمام احوالِ غیب پر مطلع فرمانا) آپ کے رب کی جانب سے (خصوصی) رحمت ہے۔ تاکہ آپ (ان واقعات سے باخبر ہو کر) اس قوم کو (عذابِ الٰہی سے) ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈر سنانے والا نہیں آیا، تاکہ وہ نصیحت قبول کریںo
47. اور (ہم کوئی رسول نہ بھیجتے) اگر یہ بات نہ ہوتی کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچے ان کے اعمالِ بد کے باعث جو انہوں نے خود انجام دیئے تو وہ یہ نہ کہنے لگیں کہ اے ہمارے رب! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا تاکہ ہم تیری آیتوں کی پیروی کرتے اور ہم ایمان والوں میں سے ہوجاتےo
48. پھر جب ان کے پاس ہمارے حضور سے حق آپہنچا (تو) وہ کہنے لگے کہ اس (رسول) کو ان (نشانیوں) جیسی (نشانیاں) کیوں نہیں دی گئیں جو موسٰی (علیہ السلام) کو دی گئیں تھیں؟ کیا انہوں نے ان (نشانیوں) کا انکار نہیں کیا تھا جو اس سے پہلے موسٰی (علیہ السلام) کو دی گئی تھیں؟ وہ کہنے لگے کہ دونوں (قرآن اور تورات) جادو ہیں (جو) ایک دوسرے کی تائید و موافقت کرتے ہیں، اور انہوں نے کہا کہ ہم (ان) سب کے منکر ہیںo
49. آپ فرما دیں کہ تم اللہ کے حضور سے کوئی (اور) کتاب لے آؤ جو ان دونوں سے زیادہ ہدایت والی ہو (تو) میں اس کی پیروی کروں گا اگر تم (اپنے الزامات میں) سچے ہوo
50. پھر اگر وہ آپ کا ارشاد قبول نہ کریں تو آپ جان لیں (کہ ان کے لئے کوئی حجت باقی نہیں رہی) وہ محض اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں، اور اس شخص سے زیادہ گمراہ کون ہوسکتا ہے جو اللہ کی جانب سے ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کی پیروی کرے۔ بیشک اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتاo
51. اور درحقیقت ہم ان کے لئے پے در پے (قرآن کے) فرمان بھیجتے رہے تاکہ وہ نصیحت قبو ل کریںo
52. جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب عطا کی تھی وہ (اسی ہدایت کے تسلسل میں) اس (قرآن) پر (بھی) ایمان رکھتے ہیںo
53. اور جب ان پر (قرآن) پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں: ہم اس پر ایمان لائے بیشک یہ ہمارے رب کی جانب سے حق ہے، حقیقت میں تو ہم اس سے پہلے ہی مسلمان (یعنی فرمانبردار) ہوچکے تھےo
54. یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کا اجر دوبار دیا جائے گا اس وجہ سے کہ انہوں نے صبر کیا اور وہ برائی کو بھلائی کے ذریعے دفع کرتے ہیں اور اس عطا میں سے جو ہم نے انہیں بخشی خرچ کرتے ہیںo
55. اورجب وہ کوئی بیہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال، تم پر سلامتی ہو ہم جاہلوں (کے فکر و عمل) کو (اپنانا) نہیں چاہتے (گویا ان کی برائی کے عوض ہم اپنی اچھائی کیوں چھوڑیں)o
56. حقیقت یہ ہے کہ جسے آپ (ہدایت پر لانا) چاہتے ہیں اسے صاحبِ ہدایت آپ خود نہیں بناتے، بلکہ (یوں ہوتا ہے کہ) جسے (آپ چاہتے ہیں اسی کو) اللہ چاہتا ہے (اور آپ کے ذریعے) صاحبِ ہدایت بنا دیتا ہے، اور وہ راہِ ہدایت کی پہچان رکھنے والوں سے خوب واقف ہے (یعنی جو لوگ آپ کی چاھت کی قدر پہچانتے ہیں وہی ہدایت سے نوازے جاتے ہیں)o
57. اور (قدر ناشناس) کہتے ہیں کہ اگر ہم آپ کی معیّت میں ہدایت کی پیروی کر لیں تو ہم اپنے ملک سے اچک لئے جائیں گے۔ کیا ہم نے انہیں (اس) امن والے حرم (شہرِ مکہ جو آپ ہی کا وطن ہے) میں نہیں بسایا جہاں ہماری طرف سے رزق کے طور پر (دنیا کی ہر سمت سے) ہر جنس کے پھل پہنچائے جاتے ہیں، لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے (کہ یہ سب کچھ کس کے صدقے سے ہو رہا ہے)o
58. اور ہم نے کتنی ہی (ایسی) بستیوں کو برباد کر ڈالا جو اپنی خوشحال معیشت پر غرور و ناشکری کر رہی تھیں، تو یہ ان کے (تباہ شدہ) مکانات ہیں جو ان کے بعد کبھی آباد ہی نہیں ہوئے مگر بہت کم، اور (آخر کار) ہم ہی وارث و مالک ہیںo
59. اور آپ کا رب بستیوں کو تباہ کرنے والا نہیں ہے یہاں تک کہ وہ اس کے بڑے مرکزی شہر (capital) میں پیغمبر بھیج دے جو ان پر ہماری آیتیں تلاوت کرے، اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہیں ہیں مگر اس حال میں کہ وہاں کے مکین ظالم ہوںo
60. اور جو چیز بھی تمہیں عطا کی گئی ہے سو (وہ) دنیوی زندگی کا سامان اور اس کی رونق و زینت ہے۔ مگر جو چیز (بھی) اللہ کے پاس ہے وہ (اس سے) زیادہ بہتر اور دائمی ہے۔ کیا تم (اس حقیقت کو) نہیں سمجھتےo
61. کیا وہ شخص جس سے ہم نے کوئی (آخرت کا) اچھا وعدہ فرمایا ہو پھر وہ اسے پانے والا ہو جائے، اس (بدنصیب) کی مثل ہو سکتا ہے جسے ہم نے دنیوی زندگی کے سامان سے نوازا ہو پھر وہ (کفرانِ نعمت کے باعث) روزِ قیامت (عذاب کے لئے) حاضر کئے جانے والوں میں سے ہو جائےo
62. اور جس دن (اللہ) انہیں پکارے گا تو فرمائے گا کہ میرے وہ شریک کہاں ہیں جنہیں تم (معبود) خیال کیا کرتے تھےo
63. وہ لوگ جن پر (عذاب کا) فرمان ثابت ہو چکا کہیں گے: اے ہمارے رب! یہی وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہ کیا تھا ہم نے انہیں (اسی طرح) گمراہ کیا تھا جس طرح ہم (خود) گمراہ ہوئے تھے، ہم ان سے بیزاری ظاہر کرتے ہوئے تیری طرف متوجہ ہوتے ہیں اور وہ (درحقیقت) ہماری پرستش نہیں کرتے تھے (بلکہ اپنی نفسانی خواہشات کے پجاری تھے)o
64. اور (ان سے) کہا جائے گا: تم اپنے (خود ساختہ) شریکوں کو بلاؤ، سو وہ انہیں پکاریں گے پس وہ (شریک) انہیں کوئی جواب نہ دیں گے اور وہ لوگ عذاب کو دیکھ لیں گے، کاش! وہ (دنیا میں) راہِ ہدایت پا چکے ہوتےo
65. اور جس دن (اللہ) انہیں پکارے گا تو وہ فرمائے گا: تم نے پیغمبروں کو کیا جواب دیا تھاo
66. تو ان پر اس دن خبریں پوشیدہ ہو جائیں گی سو وہ ایک دوسرے سے پوچھ (بھی) نہ سکیں گےo
67. لیکن جس نے توبہ کر لی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیا تو یقیناً وہ فلاح پانے والوں میں سے ہوگاo
68. اور آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے اور (جسے چاہتا ہے نبوت اور حقِ شفاعت سے نوازنے کے لئے) منتخب فرما لیتا ہے، ان (منکر اور مشرک) لوگوں کو (اس امر میں) کوئی مرضی اور اختیار حاصل نہیں ہے۔ اللہ پاک ہے اور بالاتر ہے ان (باطل معبودوں) سے جنہیں وہ (اللہ کا) شریک گردانتے ہیں۔o
69. اور آپ کا رب ان (تمام باتوں) کو جانتا ہے جو ان کے سینے (اپنے اندر) چھپائے ہوئے ہیں اور جو کچھ وہ آشکار کرتے ہیں۔o
70. اور وہی اللہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ دنیا اور آخرت میں ساری تعریفیں اسی کے لئے ہیں، اور (حقیقی) حکم و فرمانروائی (بھی) اسی کی ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گےo
71. فرما دیجئے: ذرا اتنا بتاؤ کہ اگر اللہ تمہارے اوپر روزِ قیامت تک ہمیشہ رات طاری فرما دے (تو) اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمہیں روشنی لا دے۔ کیا تم (یہ باتیں) سنتے نہیں ہوo
72. فرما دیجئے: ذرا یہ (بھی) بتاؤ کہ اگر اللہ تمہارے اوپر روزِ قیامت تک ہمیشہ دن طاری فرما دے (تو) اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمہیں رات لا دے کہ تم اس میں آرام کر سکو، کیا تم دیکھتے نہیں ہوo
73. اور اس نے اپنی رحمت سے تمہارے لئے رات اور دن کو بنایا تاکہ تم رات میں آرام کرو اور (دن میں) اس کا فضل (روزی) تلاش کرسکو اور تاکہ تم شکر گزار بنوo
74. اور جس دن وہ انہیں پکارے گا تو ارشاد فرمائے گا کہ میرے وہ شریک کہاں ہیں جنہیں تم (معبود) خیال کرتے تھےo
75. اور ہم ہر امت سے ایک گواہ نکالیں گے پھر ہم (کفار سے) کہیں گے کہ تم اپنی دلیل لاؤ تو وہ جان لیں گے کہ سچ بات اللہ ہی کی ہے اور ان سے وہ سب (باتیں) جاتی رہیں گی جو وہ جھوٹ باندھا کرتے تھےo
76. بیشک قارون موسٰی (علیہ السلام) کی قوم سے تھا پھر اس نے لوگوں پر سرکشی کی اور ہم نے اسے اس قدر خزانے عطا کئے تھے کہ اس کی کنجیاں (اٹھانا) ایک بڑی طاقتور جماعت کو دشوار ہوتا تھا، جبکہ اس کی قوم نے اس سے کہا: تُو (خوشی کے مارے) غُرور نہ کر بیشک اللہ اِترانے والوں کو پسند نہیں فرماتاo
77. اور تو اس (دولت) میں سے جو اللہ نے تجھے دے رکھی ہے آخرت کا گھر طلب کر، اور دنیا سے (بھی) اپنا حصہ نہ بھول اور تو (لوگوں سے ویسا ہی) احسان کر جیسا احسان اللہ نے تجھ سے فرمایا ہے اور ملک میں (ظلم، ارتکاز اور استحصال کی صورت میں) فساد انگیزی (کی راہیں) تلاش نہ کر، بیشک اللہ فساد بپا کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتاo
78. وہ کہنے لگا: (میں یہ مال معاشرے اور عوام پر کیوں خرچ کروں) مجھے تویہ مال صرف اس (کسبی) علم و ہنر کی بنا پر دیا گیا ہے جو میرے پاس ہے۔ کیا اسے یہ معلوم نہ تھا کہ اللہ نے واقعۃً اس سے پہلے بہت سی ایسی قوموں کو ہلاک کر دیا تھا جو طاقت میں اس سے کہیں زیادہ سخت تھیں اور (مال و دولت اور افرادی قوت کے) جمع کرنے میں کہیں زیادہ (آگے) تھیں، اور (بوقتِ ہلاکت) مجرموں سے ان کے گناہوں کے بارے میں (مزید تحقیق یا کوئی عذر اور سبب) نہیں پوچھا جائے گاo
79. پھر وہ اپنی قوم کے سامنے (پوری) زینت و آرائش (کی حالت) میں نکلا۔ (اس کی ظاہری شان و شوکت کو دیکھ کر) وہ لوگ بول اٹھے جو دنیوی زندگی کے خواہش مند تھے: کاش! ہمارے لئے (بھی) ایسا (مال و متاع) ہوتا جیسا قارون کو دیا گیا ہے، بیشک وہ بڑے نصیب والا ہےo
80. اور (دوسری طرف) وہ لوگ جنہیں علمِ (حق) دیا گیا تھا بول اٹھے: تم پر افسوس ہے اللہ کا ثواب اس شخص کے لئے (اس دولت و زینت سے کہیں زیادہ) بہتر ہے جو ایمان لایا ہو اور نیک عمل کرتا ہو، مگر یہ (اجر و ثواب) صبر کرنے والوں کے سوا کسی کو عطا نہیں کیا جائے گاo
81. پھرہم نے اس (قارون) کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا، سو اللہ کے سوا اس کے لئے کوئی بھی جماعت (ایسی) نہ تھی جو (عذاب سے بچانے میں) اس کی مدد کرسکتی اور نہ وہ خود ہی عذاب کو روک سکاo
82. اور جو لوگ کل اس کے مقام و مرتبہ کی تمنا کر رہے تھے (اَز رہِ ندامت) کہنے لگے: کتنا عجیب ہے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے رزق کشادہ فرماتا اور (جس کے لئے چاہتا ہے) تنگ فرماتا ہے، اگر اللہ نے ہم پر احسان نہ فرمایا ہوتا تو ہمیں (بھی) دھنسا دیتا، ہائے تعجب ہے! (اب معلوم ہوا) کہ کافر نجات نہیں پا سکتےo
83. (یہ) وہ آخرت کا گھر ہے جسے ہم نے ایسے لوگوں کے لئے بنایا ہے جو نہ (تو) زمین میں سرکشی و تکبر چاہتے ہیں اور نہ فساد انگیزی، اور نیک انجام پرہیزگاروں کے لئے ہےo
84. جو شخص نیکی لے کر آئے گا اس کے لئے اس سے بہتر (صلہ) ہے اور جو شخص برائی لے کر آئے گا تو برے کام کرنے والوں کو کوئی بدلہ نہیں دیا جائے گا مگر اسی قدر جو وہ کرتے رہے تھےo
85. بیشک جس (رب) نے آپ پر قرآن (کی تبلیغ و اقامت کو) فرض کیا ہے یقیناً وہ آپ کو (آپ کی چاہت کے مطابق) لوٹنے کی جگہ (مکہ یا آخرت) کی طرف (فتح و کامیابی کے ساتھ) واپس لے جانے والا ہے۔ فرما دیجئے: میرا رب اسے خوب جانتا ہے جو ہدایت لے کر آیا اور اسے (بھی) جو صریح گمراہی میں ہے۔٭o
٭ (یہ آیت مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرماتے ہوئے حجفہ کے مقام پر نازل ہوئی اور یہ وعدہ فتح مکہ کے دن پورا ہو گیا۔)
86. اور تم (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے اُمتِ محمدی کو خطاب ہے) اس بات کی امید نہ رکھتے تھے کہ تم پر (یہ) کتاب اتاری جائے گی مگر (یہ) تمہارے رب کی رحمت (سے اتری) ہے، پس تم ہرگز کافروں کے مددگار نہ بنناo
87. اور وہ (کفار) تمہیں ہرگز اللہ کی آیتوں (کی تعمیل و تبلیغ) سے باز نہ رکھیں اس کے بعد کہ وہ تمہاری طرف اتاری جا چکی ہیں اور تم (لوگوں کو) اپنے رب کی طرف بلاتے رہو اور مشرکوں میں سے ہرگز نہ ہوناo
88. اور تم اللہ کے ساتھ کسی دوسرے (خود ساختہ) معبود کو نہ پوجا کرو، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اس کی ذات کے سوا ہر چیز فانی ہے، حکم اسی کا ہے اور تم (سب) اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گےo
سُورة الْعَنْکَبُوْت
1. الف، لام، میم (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)o
2. کیا لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ (صرف) ان کے (اتنا) کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں چھوڑ دیئے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہ کی جائے گیo
3. اور بیشک ہم نے ان لوگوں کو (بھی) آزمایا تھا جو ان سے پہلے تھے سو یقیناً اللہ ان لوگوں کو ضرور (آزمائش کے ذریعے) نمایاں فرما دے گا جو (دعوٰی ایمان میں) سچے ہیں اور جھوٹوں کو (بھی) ضرور ظاہر کر دے گاo
4. کیا جو لوگ برے کام کرتے ہیں یہ گمان کئے ہوئے ہیں کہ وہ ہمارے (قابو) سے باہر نکل جائیں گے؟ کیا ہی برا ہے جو وہ (اپنے ذہنوں میں) فیصلہ کرتے ہیںo
5. جو شخص اللہ سے ملاقات کی امید رکھتا ہے تو بیشک اللہ کا مقرر کردہ وقت ضرور آنے والا ہے، اور وہی سننے والا جاننے والا ہےo
6. جو شخص (راہِ حق میں) جد و جہد کرتا ہے وہ اپنے ہی (نفع کے) لئے تگ و دو کرتا ہے، بیشک اللہ تمام جہانوں (کی طاعتوں، کوششوں اور مجاہدوں) سے بے نیاز ہےo
7. اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو ہم ان کی ساری خطائیں ان (کے نامۂ اعمال) سے مٹا دیں گے اور ہم یقیناً انہیں اس سے بہتر جزا عطا فرما دیں گے جو عمل وہ (فی الواقع) کرتے رہے تھےo
8. اور ہم نے انسان کو اس کے والدین سے نیک سلوک کا حکم فرمایا اور اگر وہ تجھ پر (یہ) کوشش کریں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کو شریک ٹھہرائے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کی اطاعت مت کر، میری ہی طرف تم (سب) کو پلٹنا ہے سو میں تمہیں ان (کاموں) سے آگاہ کردوں گا جو تم (دنیا میں) کیا کرتے تھےo
9. اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے تو ہم انہیں ضرور نیکو کاروں (کے گروہ) میں داخل فرما دیں گےo
10. اور لوگوں میں ایسے شخص (بھی) ہوتے ہیں جو (زبان سے) کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لائے، پھر جب انہیں اللہ کی راہ میں (کوئی) تکلیف پہنچائی جاتی ہے تو وہ لوگوں کی آزمائش کواللہ کے عذاب کی مانند قرار دیتے ہیں، اور اگر آپ کے رب کی جانب سے کوئی مدد آپہنچتی ہے تو وہ یقیناً یہ کہنے لگتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہی تھے، کیا اللہ ان (باتوں) کو نہیں جانتا جو جہان والوں کے سینوں میں (پوشیدہ) ہیںo
11. اور اللہ ضرور ایسے لوگوں کو ممتاز فرما دے گا جو (سچے دل سے) ایمان لائے ہیں اور منافقوں کو (بھی) ضرور ظاہر کر دے گاo
12. اور کافر لوگ ایمان والوں سے کہتے ہیں کہ تم ہماری راہ کی پیروی کرو اور ہم تمہاری خطاؤں (کے بوجھ) کو اٹھا لیں گے، حالانکہ وہ ان کے گناہوں کا کچھ بھی (بوجھ) اٹھانے والے نہیں ہیں بیشک وہ جھوٹے ہیںo
13. وہ یقیناً اپنے (گناہوں کے) بوجھ اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ کئی (دوسرے) بوجھ (بھی اپنے اوپر لادے ہوں گے) اور ان سے روزِ قیامت ان (بہتانوں) کی ضرور پرسش کی جائے گی جو وہ گھڑا کرتے تھےo
14. اور بیشک ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس برس کم ایک ہزار سال رہے، پھر ان لوگوں کو طوفان نے آپکڑا اس حال میں کہ وہ ظالم تھےo
15. پھر ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اور (ان کے ہمراہ) کشتی والوں کو نجات بخشی اور ہم نے اس (کشتی اور واقعہ) کو تمام جہان والوں کے لئے نشانی بنا دیاo
16. اور ابراہیم (علیہ السلام) کو (یاد کریں) جب انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو، یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم (حقیقت کو) جانتے ہوo
17. تم تو اللہ کے سوا بتوں کی پوجا کرتے ہو اور محض جھوٹ گھڑتے ہو، بیشک تم اللہ کے سوا جن کی پوجا کرتے ہو وہ تمہارے لئے رزق کے مالک نہیں ہیں پس تم اللہ کی بارگاہ سے رزق طلب کیا کرو اور اسی کی عبادت کیا کرو اور اسی کا شکر بجا لایا کرو، تم اسی کی طرف پلٹائے جاؤ گےo
18. اور اگر تم نے (میری باتوں کو) جھٹلایا تو یقیناً تم سے پہلے (بھی) کئی امتیں (حق کو) جھٹلا چکی ہیں، اور رسول پر واضح طریق سے (احکام) پہنچا دینے کے سوا (کچھ لازم) نہیں ہےo
19. کیا انہوں نے نہیں دیکھا (یعنی غور نہیں کیا) کہ اللہ کس طرح تخلیق کی ابتداء فرماتا ہے پھر (اسی طرح) اس کا اعادہ فرماتا ہے۔ بیشک یہ (کام) اللہ پر آسان ہےo
20. فرما دیجئے: تم زمین میں (کائناتی زندگی کے مطالعہ کے لئے) چلو پھرو، پھر دیکھو (یعنی غور و تحقیق کرو) کہ اس نے مخلوق کی (زندگی کی) ابتداء کیسے فرمائی پھر وہ دوسری زندگی کو کس طرح اٹھا کر (ارتقاء کے مراحل سے گزارتا ہوا) نشو و نما دیتا ہے۔ بیشک اللہ ہر شے پر بڑی قدرت رکھنے والا ہےo
21. وہ جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے اور جس پر چاہتا ہے رحم فرماتا ہے اور اسی کی طرف تم پلٹائے جاؤ گےo
22. اور نہ تم (اللہ کو) زمین میں عاجز کرنے والے ہو اور نہ آسمان میں اور نہ تمہارے لئے اللہ کے سوا کوئی دوست ہے اور نہ مددگارo
23. اور جن لوگوں نے اللہ کی آیتوں کا اور اس کی ملاقات کا انکار کیا وہ لوگ میری رحمت سے مایوس ہوگئے اور ان ہی لوگوں کے لئے درد ناک عذاب o
2ہے4. سو قومِ ابراہیم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ کہنے لگے: تم اسے قتل کر ڈالو یا اسے جلا دو، پھر اللہ نے اسے (نمرود کی) آگ سے نجات بخشی، بیشک اس (واقعہ) میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو ایمان لائے ہیںo
25. اور ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا: بس تم نے تو اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو معبود بنا لیا ہے محض دنیوی زندگی میں آپس کی دوستی کی خاطر پھر روزِ قیامت تم میں سے (ہر) ایک دوسرے (کی دوستی) کا انکار کر دے گا اور تم میں سے (ہر) ایک دوسرے پر لعنت بھیجے گا، تو تمہارا ٹھکانا دوزخ ہے اور تمہارے لئے کوئی بھی مددگار نہ ہوگاo
26. پھر لوط (علیہ السلام) ان پر (یعنی ابراہیم علیہ السلام پر) ایمان لے آئے اور انہوں نے کہا: میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں۔ بیشک وہ غالب ہے حکمت والا ہےo
27. اور ہم نے انہیں اسحاق اور یعقوب (علیہما السلام بیٹا اور پوتا) عطا فرمائے اور ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں نبوت اور کتاب مقرر فرما دی اور ہم نے انہیں دنیا میں (ہی) ان کا صلہ عطا فرما دیا، اور بیشک وہ آخرت میں (بھی) نیکوکاروں میں سے ہیںo
28. اور لوط (علیہ السلام) کو (یاد کریں) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: بیشک تم بڑی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو، اقوامِ عالم میں سے کسی ایک (قوم) نے (بھی) اس (بے حیائی) میں تم سے پہل نہیں کیo
29. کیا تم (شہوت رانی کے لئے) مَردوں کے پاس جاتے ہو اور ڈاکہ زنی کرتے ہو اور اپنی (بھری) مجلس میں ناپسندیدہ کام کرتے ہو، تو ان کی قوم کا جواب (بھی) اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ کہنے لگے: تم ہم پر اللہ کا عذاب لے آؤ اگر تم سچے ہوo
30. لوط (علیہ السلام) نے عرض کیا: اے رب! تو فساد انگیزی کرنے والی قوم کے خلاف میری مدد فرماo
31. اور جب ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس خوشخبری لے کر آئے (تو) انہوں نے (ساتھ) یہ (بھی) کہا کہ ہم اس بستی کے مکینوں کو ہلاک کرنے والے ہیں کیونکہ یہاں کے باشندے ظالم ہیںo
32. ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا: اس (بستی) میں تو لوط (علیہ السلام بھی) ہیں، انہوں نے کہا: ہم ان لوگوں کوخوب جانتے ہیں جو (جو) اس میں (رہتے) ہیں ہم لوط (علیہ السلام) کو اور ان کے گھر والوں کو سوائے ان کی عورت کے ضرور بچالیں گے، وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہےo
33. اور جب ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے تو وہ ان (کے آنے) سے رنجیدہ ہوئے اور ان کے (ارادۂ عذاب کے) باعث نڈھال سے ہوگئے اور (فرشتوں نے) کہا: آپ نہ خوفزدہ ہوں اور نہ غم زدہ ہوں، بیشک ہم آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو بچانے والے ہیں سوائے آپ کی عورت کے وہ (عذاب کے لئے) پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہےo
34. بیشک ہم اس بستی کے باشندوں پر آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں اس وجہ سے کہ وہ نافرمانی کیا کرتے تھےo
35. اور بیشک ہم نے اس بستی سے (ویران مکانوں کو) ایک واضح نشانی کے طور پر عقل مند لوگوں کے لئے برقرار رکھاo
36. اور مَدیَن کی طرف ان کے (قومی) بھائی شعیب (علیہ السلام) کو (بھیجا)، سو انہوں نے کہا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اور یومِ آخرت کی امید رکھو اور زمین میں فساد انگیزی نہ کرتے پھروo
37. تو انہوں نے شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلا ڈالا پس انہیں (بھی) زلزلہ (کے عذاب) نے آپکڑا، سو انہوں نے صبح اس حال میں کی کہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ (مُردہ) پڑے تھےo
38. اور عاد اور ثمود کو (بھی ہم نے ہلاک کیا) اور بیشک ان کے کچھ (تباہ شدہ) مکانات تمہارے لیئے (بطورِ عبرت) ظاہر ہو چکے ہیں اور شیطان نے ان کے اَعمالِ بد، ان کے لئے خوش نما بنا دیئے تھے اورانہیں (حق کی) راہ سے پھیر دیا تھا حالانکہ وہ بینا و دانا تھےo
39. اور (ہم نے) قارون اور فرعون اور ہامان کو (بھی ہلاک کیا) اور بیشک موسٰی (علیہ السلام) ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے تھے تو انہوں نے ملک میں غرور و سرکشی کی اور وہ (ہماری گرفت سے) آگے بڑھ جانے والے نہ تھےo
40. سو ہم نے (ان میں سے) ہر ایک کو اس کے گناہ کے باعث پکڑ لیا، اور ان میں سے وہ (طبقہ بھی) تھا جس پر ہم نے پتھر برسانے والی آندھی بھیجی اوران میں سے وہ (طبقہ بھی) تھا جسے دہشت ناک آواز نے آپکڑا اور ان میں سے وہ (طبقہ بھی) تھا جسے ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے (ایک) وہ (طبقہ بھی) تھا جسے ہم نے غرق کر دیا اور ہرگز ایسا نہ تھا کہ اللہ ان پر ظلم کرے بلکہ وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھےo
41. ایسے (کافر) لوگوں کی مثال جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اوروں (یعنی بتوں) کو کارساز بنا لیا ہے مکڑی کی داستان جیسی ہے جس نے (اپنے لئے جالے کا) گھر بنایا، اور بیشک سب گھروں سے زیادہ کمزور مکڑی کا گھر ہے، کاش! وہ لوگ (یہ بات) جانتے ہوتےo
42. بیشک اللہ ان (بتوں کی حقیقت) کو جانتا ہے جن کی بھی وہ اس کے سوا پوجا کرتے ہیں، اور وہی غالب ہے حکمت والا ہےo
43. اور یہ مثالیں ہیں ہم انہیں لوگوں (کے سمجھانے) کے لئے بیان کرتے ہیں، اور انہیں اہلِ علم کے سوا کوئی نہیں سمجھتاo
44. اللہ نے آسمانوں اور زمین کو درست تدبیر کے ساتھ پیدا فرمایا ہے، بیشک اس (تخلیق) میں اہلِ ایمان کے لئے (اس کی وحدانیت اور قدرت کی) نشانی ہےo