سید رافع
محفلین
یوٹیلٹی اور عام شہری اداروں کی کراچی میں یہ صورتحال میری نظر سے گزری۔ ایک دوست سوک سینٹر کراچی میں مکڑی کے جالوں کا یوں تذکرہ کر رہے تھے کہ گویا یہاں کا شہری نظام سرے سے ہی تل پٹ ہو گیا ہے سو یہ لکھنے کا خیال آیا۔ وہ دوست گذشتہ بیس سال سے امریکا میں مقیم ہیں۔
گیس
سوک سینٹر سوئی گیس کے دفتر میرا دو بار جانا ہوا۔ ایک دفعہ اپنے بھائی کے بنگلے میں گیس کے میٹر کے لگانے کے سلسلے میں اور ایک دفعہ اپنے فلیٹ کا گیس کا میٹر اپنے نام کروانے کے سلسلے میں۔ میں تو یہ کہوں گا کہ گیس سپلائی والوں کے دونوں دفاتر ائر کنڈیشن اور جدید کیو سسٹم سے آراستہ ہیں۔ جدید ترین اوریکل سی آر ایم پر میرا ڈیٹا موجود تھا۔ پروسس بہت سادہ اور اسٹاف بہت مدد گار تھا۔ میں نے انکی مدد سے نمبر لیا۔ اپنے نمبر پر فارم حاصل کیا۔ انکی مدد سے فارم بھرا۔ اور دو ہفتوں میں نئے میٹر کی انسپیکشن ہو گئی۔ میرے فیلٹ کے گیس بل پر اگلے بل پر میرا نام آنا شروع ہو گیا۔ مطلب یہ ہے کہ ساری سہولیات کسی جدید ترقی یافتہ ملک سے کم نہیں۔دوپلیکیٹ بل اور طرح طرح کی اور خدمات گیس کی ویب سائٹ پر میسر ہیں۔ تمام بینک کی ویب سائٹ آن لان بل جمع کرنے کے آپشن دے رہیں ہیں سو اب کوئی قطار میں لگ کر بل جمع کرانے کی ضرورت نہیں۔
بجلی
بجلی کا سوک سینٹردفتر ائیر کنڈیشن اور جدید کیو سسٹم سے آراستہ ہے۔ دو مدد گار ہر وقت کیو مشین کے سامنے کھڑے رہتے ہیں جو آپکی رہنمائی کرتے ہیں۔ سامنے پانچ اور پیچھے مذید پانچ کاونٹر ہیں۔ میں نے نام کی تبدیلی کا مسئلہ کیو سسٹم پر موجود اسٹاف کو بتایا تو اس نے فورا گھر کی لیز اور ایک دو اور چیزوں کا کہا۔ وہ سب میرے پاس تھیں۔ میں نے فارم بھرا اور ایک آدھ فوٹو اسٹیٹ باہر سے کرا کر اس سے ٹوکن لے لیا۔ دو درجن افراد کے بیٹھنے کے لیے سیٹیں ہیں۔ میں بیٹھ گیا۔ کچھ دیر میں باری آئی اور میرا کیس وصول کر لیا گیا اور بتایا گیا کہ بیس دن میں انسپیکشن ہو گی۔ بیس دن سے پہلے ہی کراچی الیکٹرک کا بندہ آ گیا لیکن بوجہ کہ میں گھر پر نہ تھا چلا گیا۔ لیکن صرف ایک دفعہ دوبارہ کہنے پر انسپیکشن دوبارہ شروع ہو گی۔ بجلی کے دوپلیکیٹ بل اور طرح طرح کی اور خدمات کے الیکٹرک کی ویب سائٹ پر میسر ہیں۔ تمام بینک کی ویب سائٹ آن لان بل جمع کرنے کے آپشن دے رہیں ہیں سو اب کوئی قطار میں لگ کر بل جمع کرانے کی ضرورت نہیں۔ یہی حال گیس اور پانی کے بل کا ہے۔ کےالیکٹرک کا سارا سسٹم سیپ جیسے جدید ای آر پی پر چل رہا ہے۔
پانی
پانی کے بل پر نام اردو سائنس کالج کے پاس قریبا اسی سے ملتے جلتے پروسس سے تبدیل ہو جاتا ہے۔ایک دفعہ فارم دینے کے لیے جانا ہوتا ہے۔ تفصیلات آن لائن میسر ہیں۔ دوپلیکیٹ بل اور طرح طرح کی اور خدمات پانی کی ویب سائٹ پر میسر ہیں۔ تمام بینک کی ویب سائٹ آن لان بل جمع کرنے کے آپشن دے رہیں ہیں سو اب کوئی قطار میں لگ کر بل جمع کرانے کی ضرورت نہیں۔
پاسیپورٹ
کئی دفعہ پاسپورٹ بنوانے کا موقع آیا۔ صبح آٹھ بجے آپ صدر یا عوامی مرکز شاہراہ فیصل کے پاسپورٹ آفس پہچیں۔ والدین کا شناختی کارڈ اور دیگر ہدایات جو آن لائن میسر ہیں ان پر عمل کریں تو ڈاکومنٹ کبھی کم نہ ہوں۔ فیس نارمل 3000 اور ارجنٹ 5000 بینک میں جمع کرائیں اور دو گھنٹے کی قطار میں لگ جائیں۔ بغیر کسی رفرنس اور تعلق کے پندرہ روز بعد پاسیپورٹ مل جائے گا۔ صدر کے پاسپورٹ آفس میں تو میرا بیس سالہ تجربہ ہے کہ ہمشہ آرام سے دو گھنٹے میں کام ہو جاتا ہے بغیر کسی ایجنٹ کے۔
پراپرٹی ٹیکس
سوک سینٹر کے چوتھے فلور پر موجود یہ آفس پرانا ہے۔ سارا کام رجسٹر پر ہوتا ہے ۔ مجھے فیلٹ ٹیکس پر نام تبدیل کرانا تھا تو جو ڈاکومنٹ انکو درکار تھے وہ میرے پاس موجود تھے سو اسی وقت درخواست وصول ہو گئی۔ البتہ وہاں موجود اسٹاف 2000 رشوت چاہ رہا تھا جو میں ٹالتا رہا اور آخری دن جب رسید وصول کرنی تھی میں نے اسکو دعا دی اور بہت بہت شکریہ کیا اور اسکی بات کو ٹال گیا۔ سو یہ کام قدرے دشواری سے مکمل ہوا۔
شناختی کارڈ
نادرا کے جدید ترین ایکپریس اور نارمل سیٹر جا بجا شہر کراچی میں کھلے ہیں۔ اگر دستاویزات پوری ہیں اور جن کی تفصیلات آن لائن ہیں تو آپ کو اسی دن دو گھنٹے میں فارم جمع ہو جائے گا۔ ایک خوش گوار تجربہ گلشن کے نادرا سینٹر میں یہ ہوا کہ سینئر سیٹزن کو لائن اور وقت کے ختم ہونے کے باوجود آفس میں اندر بلا لیا اور چند منٹوں میں لائف ٹائم شناختی کارڈ کی درخواست وصول کر لی۔ عام شناختی کارڈ 60 دن میں اور اسمارٹ کارڈ 15 سے 30 دن میں مل جاتا ہے۔ ارجنٹ کی سہولت بھی ہی جو شاید 5 دن میں ہی مل جا تا ہے۔ آن لائن بھی کافی سہولیات میسر ہیں۔
ڈرائیونگ لائسنس
کلفٹن برانچ میں لائسنس رنیو کرانے میں 2 گھنٹے لگتے ہیں۔ وہیں تصویر فارم وغیرہ مکمل کیا جاتا ہے اور ایک یا دو دون بعد نیا لائسنس مل جاتا ہے۔ دو چکر لگتے ہیں اور اگر رفرنس ہو تو اسی دن کارڈ مل جاتا ہے۔ آنکھوں کا ٹیسٹ بھی وہیں موجود ڈاکٹر کر لیتے ہیں۔ کسی مدد اور ایجنٹ کے بغیر یہ کام دو گھنٹے میں ہو جاتا ہے۔ انٹرنیشنل لائسنس بھی اس وقت میں بغیر دشواری کے بن جاتا ہے۔
کار ٹرانسفر
اور یہ کام کئی دفعہ ایجنٹ سے کرایا تو بغیر کسی دشواری کے ہو گیا۔ لیکن جب بھی خود کیا تو 3 گھنٹے لگے اور ساتھ ہی 2 دفعہ چکر بھی لگانے پڑے۔ اسٹاف نے جان بوجھ کر نام میں غلطی کی کہ ایجنٹ والی رشوت نہیں ملی سو کیس ٹرانسفر کے بجائے تبدیلی نام کا بن گیا۔ اور پھر کار کے کاغذات پر طرح طرح کے کوڈ ورڈ رشوت نہ ملنے کے لکھ دیے گئے کہ اگلی دفعہ وصولی ہو۔ یہ ادارہ نہیں چاہتا
کہ آپ از خود ایجنٹ کے بغیر آئیں۔ گاڑی کی انسپیکشن میں آدھا گھنٹا لگتا ہے اور بقیہ پروسس میں دو سے زائد گھنٹے۔
نائی کوپ
بیرون ملک ملازمت پر جانے کے لیے کئی دفعہ یہ کارڈ بنوانا پڑا۔ اسکے لیے بھی اگر آپ کے پاس والدین کے شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات ہیں تو دوگھنٹے میں اس کا فارم وصول ہو جاتا ہے۔ نرسری پر پروٹیکٹر آفس کے ساتھ ہی نائی کوپ کا آفس ہے وہیں تصویر کھنچ جاتی ہے۔ یہ کارڈ بھی 45 دن میں مل جاتا ہے۔ لوگ عموما رسید کے ساتھ پروٹیکٹر کروا لیتے ہیں۔
پروٹیکٹر
پروٹیکٹر کرانے میں پانچ دن لگتےہیں۔اسکی بنیادی وجہ پولیس سرٹیفیکٹ ہے جو 3500 رشوت دیے بغیر بنوانا ممکن نہیں۔ یہ سرٹیفیکٹ دو دن میں مل جاتا ہے۔ صحت کا سرٹیفیکٹ ایک دن میں اور پروٹیکٹر کرانے میں آٹھ گھنٹے لگتے ہیں ورنہ ٹریول ایجنٹ 5 سے دس ہزار میں گھر بیٹھے یہ کام کرا دیتا ہے۔
برتھ سرٹیفیکٹ
بچوں کی پیدائش پر ہسپتا والے کچا سرٹیفیکٹ دیتے ہیں۔ یہ لے کر آپ جس یونین کونسل جائیں وہ آدھے گھنٹے کے اندر اندر فارم وصول کر لیتے ہیں اور دو یا تین ہفتوں میں سرکاری سرٹیفیکٹ مل جاتا ہے۔امریکا میں سوشل سیکیورٹی کارڈ حاصل کرے کا اتفاق ہو۔ بس فرق یہ تھا کہ جمع کرانے کےبعد کارڈ گھر کے پوسٹل ایڈریس پر آ گیا تھا۔
گھر ٹرانسفر
سوک سیٹر میں گھر ٹرانسفر کا کام وکیل اور رئیل اسٹیٹ ایجنٹ کراتا ہے۔ آپ کو دو گھنٹے دینے ہوتے ہیں تاکہ آفیسر آپکی موجودگی میں انگھوٹے کے نشان لگوائے۔ باقی ڈیفنس میں یہ کام ایک خوبصورت عمارت میں ہوتاہے جہاں مشکل سے دو گھنٹے میں گھر اور فیلٹ ٹرانسفر ہو جاتے ہیں۔
حرف آخر
کراچی شہر میں گندگی جمعداروں کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک مخصوص جماعت کے ہاتھ میں صفائی کا انتظام ہے اور وہ سیاسی وجوہات کی وجہ سے کچرا نہیں اٹھا رہی اور گٹر صاف کر رہی۔ اسی طرح کراچی میں پانی بہت ہے لیکن ڈنڈے والی سرکار کراچی کے کچھ علاقوں کو مخصو ص سیاسی جماعت کو سبق سکھانے کے لیے پانی کے ٹینکر خریدنے پر مجبور بطور سزا کر رہی ہے۔ جن علاقوں میں کنڈا ہے وہاں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہے۔
گیس
سوک سینٹر سوئی گیس کے دفتر میرا دو بار جانا ہوا۔ ایک دفعہ اپنے بھائی کے بنگلے میں گیس کے میٹر کے لگانے کے سلسلے میں اور ایک دفعہ اپنے فلیٹ کا گیس کا میٹر اپنے نام کروانے کے سلسلے میں۔ میں تو یہ کہوں گا کہ گیس سپلائی والوں کے دونوں دفاتر ائر کنڈیشن اور جدید کیو سسٹم سے آراستہ ہیں۔ جدید ترین اوریکل سی آر ایم پر میرا ڈیٹا موجود تھا۔ پروسس بہت سادہ اور اسٹاف بہت مدد گار تھا۔ میں نے انکی مدد سے نمبر لیا۔ اپنے نمبر پر فارم حاصل کیا۔ انکی مدد سے فارم بھرا۔ اور دو ہفتوں میں نئے میٹر کی انسپیکشن ہو گئی۔ میرے فیلٹ کے گیس بل پر اگلے بل پر میرا نام آنا شروع ہو گیا۔ مطلب یہ ہے کہ ساری سہولیات کسی جدید ترقی یافتہ ملک سے کم نہیں۔دوپلیکیٹ بل اور طرح طرح کی اور خدمات گیس کی ویب سائٹ پر میسر ہیں۔ تمام بینک کی ویب سائٹ آن لان بل جمع کرنے کے آپشن دے رہیں ہیں سو اب کوئی قطار میں لگ کر بل جمع کرانے کی ضرورت نہیں۔
بجلی
بجلی کا سوک سینٹردفتر ائیر کنڈیشن اور جدید کیو سسٹم سے آراستہ ہے۔ دو مدد گار ہر وقت کیو مشین کے سامنے کھڑے رہتے ہیں جو آپکی رہنمائی کرتے ہیں۔ سامنے پانچ اور پیچھے مذید پانچ کاونٹر ہیں۔ میں نے نام کی تبدیلی کا مسئلہ کیو سسٹم پر موجود اسٹاف کو بتایا تو اس نے فورا گھر کی لیز اور ایک دو اور چیزوں کا کہا۔ وہ سب میرے پاس تھیں۔ میں نے فارم بھرا اور ایک آدھ فوٹو اسٹیٹ باہر سے کرا کر اس سے ٹوکن لے لیا۔ دو درجن افراد کے بیٹھنے کے لیے سیٹیں ہیں۔ میں بیٹھ گیا۔ کچھ دیر میں باری آئی اور میرا کیس وصول کر لیا گیا اور بتایا گیا کہ بیس دن میں انسپیکشن ہو گی۔ بیس دن سے پہلے ہی کراچی الیکٹرک کا بندہ آ گیا لیکن بوجہ کہ میں گھر پر نہ تھا چلا گیا۔ لیکن صرف ایک دفعہ دوبارہ کہنے پر انسپیکشن دوبارہ شروع ہو گی۔ بجلی کے دوپلیکیٹ بل اور طرح طرح کی اور خدمات کے الیکٹرک کی ویب سائٹ پر میسر ہیں۔ تمام بینک کی ویب سائٹ آن لان بل جمع کرنے کے آپشن دے رہیں ہیں سو اب کوئی قطار میں لگ کر بل جمع کرانے کی ضرورت نہیں۔ یہی حال گیس اور پانی کے بل کا ہے۔ کےالیکٹرک کا سارا سسٹم سیپ جیسے جدید ای آر پی پر چل رہا ہے۔
پانی
پانی کے بل پر نام اردو سائنس کالج کے پاس قریبا اسی سے ملتے جلتے پروسس سے تبدیل ہو جاتا ہے۔ایک دفعہ فارم دینے کے لیے جانا ہوتا ہے۔ تفصیلات آن لائن میسر ہیں۔ دوپلیکیٹ بل اور طرح طرح کی اور خدمات پانی کی ویب سائٹ پر میسر ہیں۔ تمام بینک کی ویب سائٹ آن لان بل جمع کرنے کے آپشن دے رہیں ہیں سو اب کوئی قطار میں لگ کر بل جمع کرانے کی ضرورت نہیں۔
پاسیپورٹ
کئی دفعہ پاسپورٹ بنوانے کا موقع آیا۔ صبح آٹھ بجے آپ صدر یا عوامی مرکز شاہراہ فیصل کے پاسپورٹ آفس پہچیں۔ والدین کا شناختی کارڈ اور دیگر ہدایات جو آن لائن میسر ہیں ان پر عمل کریں تو ڈاکومنٹ کبھی کم نہ ہوں۔ فیس نارمل 3000 اور ارجنٹ 5000 بینک میں جمع کرائیں اور دو گھنٹے کی قطار میں لگ جائیں۔ بغیر کسی رفرنس اور تعلق کے پندرہ روز بعد پاسیپورٹ مل جائے گا۔ صدر کے پاسپورٹ آفس میں تو میرا بیس سالہ تجربہ ہے کہ ہمشہ آرام سے دو گھنٹے میں کام ہو جاتا ہے بغیر کسی ایجنٹ کے۔
پراپرٹی ٹیکس
سوک سینٹر کے چوتھے فلور پر موجود یہ آفس پرانا ہے۔ سارا کام رجسٹر پر ہوتا ہے ۔ مجھے فیلٹ ٹیکس پر نام تبدیل کرانا تھا تو جو ڈاکومنٹ انکو درکار تھے وہ میرے پاس موجود تھے سو اسی وقت درخواست وصول ہو گئی۔ البتہ وہاں موجود اسٹاف 2000 رشوت چاہ رہا تھا جو میں ٹالتا رہا اور آخری دن جب رسید وصول کرنی تھی میں نے اسکو دعا دی اور بہت بہت شکریہ کیا اور اسکی بات کو ٹال گیا۔ سو یہ کام قدرے دشواری سے مکمل ہوا۔
شناختی کارڈ
نادرا کے جدید ترین ایکپریس اور نارمل سیٹر جا بجا شہر کراچی میں کھلے ہیں۔ اگر دستاویزات پوری ہیں اور جن کی تفصیلات آن لائن ہیں تو آپ کو اسی دن دو گھنٹے میں فارم جمع ہو جائے گا۔ ایک خوش گوار تجربہ گلشن کے نادرا سینٹر میں یہ ہوا کہ سینئر سیٹزن کو لائن اور وقت کے ختم ہونے کے باوجود آفس میں اندر بلا لیا اور چند منٹوں میں لائف ٹائم شناختی کارڈ کی درخواست وصول کر لی۔ عام شناختی کارڈ 60 دن میں اور اسمارٹ کارڈ 15 سے 30 دن میں مل جاتا ہے۔ ارجنٹ کی سہولت بھی ہی جو شاید 5 دن میں ہی مل جا تا ہے۔ آن لائن بھی کافی سہولیات میسر ہیں۔
ڈرائیونگ لائسنس
کلفٹن برانچ میں لائسنس رنیو کرانے میں 2 گھنٹے لگتے ہیں۔ وہیں تصویر فارم وغیرہ مکمل کیا جاتا ہے اور ایک یا دو دون بعد نیا لائسنس مل جاتا ہے۔ دو چکر لگتے ہیں اور اگر رفرنس ہو تو اسی دن کارڈ مل جاتا ہے۔ آنکھوں کا ٹیسٹ بھی وہیں موجود ڈاکٹر کر لیتے ہیں۔ کسی مدد اور ایجنٹ کے بغیر یہ کام دو گھنٹے میں ہو جاتا ہے۔ انٹرنیشنل لائسنس بھی اس وقت میں بغیر دشواری کے بن جاتا ہے۔
کار ٹرانسفر
اور یہ کام کئی دفعہ ایجنٹ سے کرایا تو بغیر کسی دشواری کے ہو گیا۔ لیکن جب بھی خود کیا تو 3 گھنٹے لگے اور ساتھ ہی 2 دفعہ چکر بھی لگانے پڑے۔ اسٹاف نے جان بوجھ کر نام میں غلطی کی کہ ایجنٹ والی رشوت نہیں ملی سو کیس ٹرانسفر کے بجائے تبدیلی نام کا بن گیا۔ اور پھر کار کے کاغذات پر طرح طرح کے کوڈ ورڈ رشوت نہ ملنے کے لکھ دیے گئے کہ اگلی دفعہ وصولی ہو۔ یہ ادارہ نہیں چاہتا
کہ آپ از خود ایجنٹ کے بغیر آئیں۔ گاڑی کی انسپیکشن میں آدھا گھنٹا لگتا ہے اور بقیہ پروسس میں دو سے زائد گھنٹے۔
نائی کوپ
بیرون ملک ملازمت پر جانے کے لیے کئی دفعہ یہ کارڈ بنوانا پڑا۔ اسکے لیے بھی اگر آپ کے پاس والدین کے شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات ہیں تو دوگھنٹے میں اس کا فارم وصول ہو جاتا ہے۔ نرسری پر پروٹیکٹر آفس کے ساتھ ہی نائی کوپ کا آفس ہے وہیں تصویر کھنچ جاتی ہے۔ یہ کارڈ بھی 45 دن میں مل جاتا ہے۔ لوگ عموما رسید کے ساتھ پروٹیکٹر کروا لیتے ہیں۔
پروٹیکٹر
پروٹیکٹر کرانے میں پانچ دن لگتےہیں۔اسکی بنیادی وجہ پولیس سرٹیفیکٹ ہے جو 3500 رشوت دیے بغیر بنوانا ممکن نہیں۔ یہ سرٹیفیکٹ دو دن میں مل جاتا ہے۔ صحت کا سرٹیفیکٹ ایک دن میں اور پروٹیکٹر کرانے میں آٹھ گھنٹے لگتے ہیں ورنہ ٹریول ایجنٹ 5 سے دس ہزار میں گھر بیٹھے یہ کام کرا دیتا ہے۔
برتھ سرٹیفیکٹ
بچوں کی پیدائش پر ہسپتا والے کچا سرٹیفیکٹ دیتے ہیں۔ یہ لے کر آپ جس یونین کونسل جائیں وہ آدھے گھنٹے کے اندر اندر فارم وصول کر لیتے ہیں اور دو یا تین ہفتوں میں سرکاری سرٹیفیکٹ مل جاتا ہے۔امریکا میں سوشل سیکیورٹی کارڈ حاصل کرے کا اتفاق ہو۔ بس فرق یہ تھا کہ جمع کرانے کےبعد کارڈ گھر کے پوسٹل ایڈریس پر آ گیا تھا۔
گھر ٹرانسفر
سوک سیٹر میں گھر ٹرانسفر کا کام وکیل اور رئیل اسٹیٹ ایجنٹ کراتا ہے۔ آپ کو دو گھنٹے دینے ہوتے ہیں تاکہ آفیسر آپکی موجودگی میں انگھوٹے کے نشان لگوائے۔ باقی ڈیفنس میں یہ کام ایک خوبصورت عمارت میں ہوتاہے جہاں مشکل سے دو گھنٹے میں گھر اور فیلٹ ٹرانسفر ہو جاتے ہیں۔
حرف آخر
کراچی شہر میں گندگی جمعداروں کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک مخصوص جماعت کے ہاتھ میں صفائی کا انتظام ہے اور وہ سیاسی وجوہات کی وجہ سے کچرا نہیں اٹھا رہی اور گٹر صاف کر رہی۔ اسی طرح کراچی میں پانی بہت ہے لیکن ڈنڈے والی سرکار کراچی کے کچھ علاقوں کو مخصو ص سیاسی جماعت کو سبق سکھانے کے لیے پانی کے ٹینکر خریدنے پر مجبور بطور سزا کر رہی ہے۔ جن علاقوں میں کنڈا ہے وہاں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہے۔