یوں بھی جنت گنوائی جاتی ہے

صابرہ امین

لائبریرین
یہ غزل فیس بک کے لئے تو ٹھیک ہے لیکن اکثر اشعارمیں خاصی مرمت کی ضرورت ہے۔
چھوٹی بحر میں شاعری کے لئے یہ رہنما اصول ہمیشہ یاد رکھیے: مختصر لفظوں میں مختصر مضمون ہی لکھا جاسکتا ہے ۔ لفظوں کی فضول خرچی کی قطعی گنجائش نہیں ہوتی ۔ الفاظ کی بندش میں جھول یا ڈھیل کی گنجائش نہیں ہوتی۔ چھوٹی بحر بے انتہا روانی کا تقاضا کرتی ہے ورنہ شعر بے اثر ہوتا ہے ۔
رہنمائی کا شکریہ۔ ان شاءاللہ یاد رکھوں گی ۔ :)
 

زوجہ اظہر

محفلین
سرگوشی کے لیے پہلے جملہ لکھیے ۔ پھر اس کو سلیکٹ کیجیے۔ اور ٹیکسٹ ایڈیٹر پر ماؤس لے جاکر "داخل کریں۔۔۔" پر کلک کیجیے۔ "سرگوشی کے آپشن پر کلک کیجیے۔ ایک ڈائیلاگ باکس آئے گا۔ اس میں جاری رکھیں پر کلک کیجیے ۔ بس سرگوشی تیار ہے۔ چائے کے ساتھ پیش کیجیے ۔ :LOL:
دوسرا طریقہ: "داخل کریں۔۔۔" پر کلک کیجیے۔ "سرگوشی کے آپشن پر کلک کیجیے۔ ایک ڈائیلاگ باکس آئے گا۔ اس میں جاری رکھیں پر کلک کیجیے۔ اور پھر سرگوشی لکھ ڈالئے ۔:D

موبائل سے استعمال کرتی ہوں

دیکھتی ہوں کیا گڑبڑ ہو رہی ہے
 

یاسر شاہ

محفلین
جی پانچویں غزل، ٹو بی ایگزیکٹ ۔ ۔ فیس بک پر تو سب ہی واہ واہ کے ڈونگرے برسا رہے تھے۔ پر یہاں تو شو فلاپ رہا ۔ ۔ :ROFLMAO::ROFLMAO:


sab.jpg

پھر یہی ایک فیس بک فورم پر بھی شامل کی۔ اس کی داد بھی زبردست تھی ۔

sher.jpg


وہ تو کچھ عرصے بعد جب ہماری محترم نند صاحبہ نے جرمنی سے خاص طور پر امین کو فون کیا کہ ہماری کتاب چھپوائی جائے تو ہمارے سارے طوطے اڑ گئے۔ کیونکہ اتنا تو معلوم تھا کہ ٹھیک ٹھاک گڑبڑیشن ہے۔
لگتا ہے کچھ زیادہ ہی مصالحے ڈل گئے تھے ۔ :LOL::LOL::LOL:

یاسر شاہ بھیا یہ سب گڑ بڑ آپ کی ہے ۔:D
ایک شاعر نے ایک بادشاہ کی شان میں قصیدہ لکھا۔خوب زمین و آسمان کے قلابے ملائے۔بادشاہ خوش ہوا اور کہا فلاں ریاست تمھارے نام کرتا ہوں، کل آنا دستاویز پہ شاہی مہر لگا دوں گا۔اگلے دن شاعر صاحب خوب سج سنور کے پہنچے کہ ریاست کے والی نظر آئیں۔جب بادشاہ سے تقاضا کیا تو شاہ صاحب نے فرمایا دیکھو میاں تم نے ہمارے کانوں کو خوش کیا ہم نے تمھارے کانوں کو۔حساب برابر۔

تو بہن لوگوں کی تعریفوں پہ زیادہ دھیان نہ دیاکریں۔میں نے ان جھوٹی تعریفوں سے بڑے بڑوں کو برباد ہوتے دیکھا ہے۔چینی لاکھ میٹھی ہو سفید زہر (white poison) کہلاتی ہے اور بقول منٹو نیم کے پتے کڑوے سہی خون تو صاف کرتے ہیں۔:)
 

الف عین

لائبریرین
فیس بک پر رد عمل اس پر بھی بلکہ اس پر ہی منحصر ہے کہ آپ کے فیس بک کے احباب کون ہیں۔ اگر وہ صرف سکول کالج کے دوست ہیں تو ضرور تعریف کریں گے، چاہے ان کے پلے کچھ نہ پڑے۔ میرے بھی جو فیس بک کے احباب ہیں، اور ان میں جو محفلین یا ہمارے شاگرد کرام ہیں، ان کی غزلوں کا یہاں ہی پوسٹ مارٹم کرتا ہوں، فیس بک پر تو پسندیدگی کا بٹن دبا دیتا ہون زیادہ سے زیادہ۔ کہ بندے کے احباب کی تعریفوں کے ڈونگروں سے کیوں اسے مایوس کروں!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اچھا، ہمیں یہ سمجھ نہیں آیا تھا، معذرت ۔ کچھ اور ہی لگا۔ اوپر سب نے ہی اتنی "داد" دی ہے کہ آپ کی بھی سمجھ نہ آئی۔ :D
آپ ناراض تو نہیں ہوئے نا؟ اللہ کرے نہ ہوں ۔:praying::praying:
آپ کی کسرِ نفسی کی کیا بات ہے۔ سلامت رہیں۔ :redrose::redrose::redrose:
اس میں برا ماننے کی تو کوئی بات ہی نہیں ۔ جب اتنی اور اس قسم کی "داد" مل رہی ہو تو سر چکرا جانا عام سی بات ہے ۔ :D
یاسر شاہ اور اعجاز بھائی نے اس ضمن میں بہت اچھی باتیں لکھی ہیں ۔ اگر آپ سننا چاہیں تو ایک مشورہ میں بھی دوں گا ۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
ایک شاعر نے ایک بادشاہ کی شان میں قصیدہ لکھا۔خوب زمین و آسمان کے قلابے ملائے۔بادشاہ خوش ہوا اور کہا فلاں ریاست تمھارے نام کرتا ہوں، کل آنا دستاویز پہ شاہی مہر لگا دوں گا۔اگلے دن شاعر صاحب خوب سج سنور کے پہنچے کہ ریاست کے والی نظر آئیں۔جب بادشاہ سے تقاضا کیا تو شاہ صاحب نے فرمایا دیکھو میاں تم نے ہمارے کانوں کو خوش کیا ہم نے تمھارے کانوں کو۔حساب برابر۔

تو بہن لوگوں کی تعریفوں پہ زیادہ دھیان نہ دیاکریں۔میں نے ان جھوٹی تعریفوں سے بڑے بڑوں کو برباد ہوتے دیکھا ہے۔چینی لاکھ میٹھی ہو سفید زہر (white poison) کہلاتی ہے اور بقول منٹو نیم کے پتے کڑوے سہی خون تو صاف کرتے ہیں۔:)
پہلے تو دیر سے جواب کی معذرت۔ آج کل امی گھر پر آئی ہوئی ہیں تو وقت پر لگا کے اڑ جاتا ہے۔

یاسر بھیا یہ تو مذاق میں کہا تھا بھئی۔ کیونکہ آپ نے تبصرہ تو کیا بہتری کی تجاویز نہیں دیں۔ جہاں تعریف کی بات ھے ناجائز تعریف تو دور کی بات کوئی جائز بھی کرے تو اچھا نہیں لگتا۔ ورنہ ہماری اب تک ایک آڑی ترچھی کتاب منظرِ عام پر آ چکی ہوتی:LOL: (مگر آپ نے پھر بھی کرتے رہنا ہے تاکہ کسرَ نفسی کو زنگ نہ لگ جائے۔ :D) تو آپ بالکل ہی بے فکر ہو جائیں ۔ سچی ۔ ۔
اچھا اب کچھ سنجیدہ بات۔ تو وہ یہ کے محبت وغیرہ پر مسلسل لکھا ہے تو سوچا کچھ تنوع آ جانا چاہئے۔ اس لیے یہ ایک پرانی غزل پال میں سے نکالی اور پیش کی۔ کیونکہ لوگوں کے ساتھ یہ سب ان آنکھوں نے ہوتے دیکھا ہے۔ ۔ ۔ کئی شعرا کو بھی اسی قسم کی شاعری کرتے دیکھا۔ مثلاً فیض صاحب کی یہ نظم اتنی اچھی لگی کہ فورا یاد ہی کر لی۔

خدا وہ وقت نہ لائے کہ سوگوار ہو تو
سکوں کی نیند تجھے بھی حرام ہو جائے
تری مسرت پیہم تمام ہو جائے
تری حیات تجھے تلخ جام ہو جائے
غموں میں آئینہ دل گداز ہو تیرا
ہجوم یاس سے بے تاب ہو کے رہ جائے
وفور درد سے سیماب ہو کے رہ جائے
ترا شباب فقط خواب ہو کے رہ جائے
غرور حسن سراپا ناز ہو تیرا
طویل راتوں میں تو بھی قرار کو ترسے
تری نگاہ کسی غمگسار کو ترسے
خزاں رسیدہ تمنا بہار کو ترسے
کوئی جبیں نہ ترے سنگِ آستان پہ جھکے
کہ جنس عجز و عقیدت سے تجھ کو شاد کرے
فریب وعدہ فردا پہ اعتماد کرے
خدا وہ وقت نہ لائے کہ تجھ کو یاد آئے
وہ دل کہ تیرے لئے بیقرار اب بھی ہے
وہ آنکھ جس کو تیرا انتظار اب بھی ہے

اور اپنے اوپر رکھ کر اس لیے لکھا کہ سیکنڈ یا تھرڈ پرسن پر سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ آپ بتائیے کہ کیا کیا جائے۔ کیا ایسا ہمارے یہاں نہیں ہوتا۔ قران مجید سے شادی سے لے کر کاری تک کیا کیا نہیں ہوتا۔ تو ان موضوعات پر نہ لکھا جائے۔ بہت سی جگہوں پرانسانوں کو بعض اوقات بہت ہی تکلیف دہ ماحول میں رہنا پڑتا ہے۔ پھر کیا قلمبند نہ کیا جائے۔ یا شاعری میں صرف وہی لکھا جائے جو آپ پر بیتے۔ کسی کے بارے میں شاعری نہ کی جائے؟ میں کافی الجھن میں ہوں۔ کئی ایک اور نظمیں بھی ہیں جو معاشرے کے بارے میں لکھی ہیں۔ اس طرح کی نظموں کو کیسے لکھا جاتا ہے رہنمائی کیجیے۔ شکرگذار رہوں گی۔
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
اس میں برا ماننے کی تو کوئی بات ہی نہیں ۔ جب اتنی اور اس قسم کی "داد" مل رہی ہو تو سر چکرا جانا عام سی بات ہے ۔ :D
یاسر شاہ اور اعجاز بھائی نے اس ضمن میں بہت اچھی باتیں لکھی ہیں ۔ اگر آپ سننا چاہیں تو ایک مشورہ میں بھی دوں گا ۔
جی جی سر، ارشاد ۔ ۔ یہ تو خوش بختی ہو گی۔ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں !! آپ سب کے مشوروں کی بدولت تو اتنا سب کچھ سمجھ آیا ہے۔ بالکل سننا ہے اور مشورہ دیجیے کہ اس نظم کو کیسے قابلِ قبول بنایا جائے۔ مدد کیجیے۔ سپاس گزار رہوں گی۔
 

یاسر شاہ

محفلین
پہلے تو دیر سے جواب کی معذرت۔ آج کل امی گھر پر آئی ہوئی ہیں تو وقت پر لگا کے اڑ جاتا ہے۔
ماشاء اللہ یہ تو بڑی سعادت کی بات ہے کہ آپ کو ان کی خدمت کا موقع گھر بیٹھے مل گیا۔
(مگر آپ نے پھر بھی کرتے رہنا ہے تاکہ کسرَ نفسی کو زنگ نہ لگ جائے۔ :D)
:D

اچھا اب کچھ سنجیدہ بات۔ تو وہ یہ کے محبت وغیرہ پر مسلسل لکھا ہے تو سوچا کچھ تنوع آ جانا چاہئے۔ اس لیے یہ ایک پرانی غزل پال میں سے نکالی اور پیش کی۔ کیونکہ لوگوں کے ساتھ یہ سب ان آنکھوں نے ہوتے دیکھا ہے۔ ۔ ۔ کئی شعرا کو بھی اسی قسم کی شاعری کرتے دیکھا۔ مثلاً فیض صاحب کی یہ نظم اتنی اچھی لگی کہ فورا یاد ہی کر لی
اصل میں غزل لکھنا آسان ہے لیکن غزل میں بڑا شعر کہنا ایسے ہی مشکل ہے جیسے چھوٹے کینوس پہ کوئی بڑا آرٹ پیش کرنا۔ غزل کا کینوس چھوٹا ہے اور وہ یوں کہ غزل کا ہر شعر ایک اکائی ہے ۔ دو مصرعوں میں آپ کو تغزل کی رعایت رکھتے ہوئے بات پوری کرنی ہے ۔لہذا معاشرے کے تلخ مسائل کو تغزل کی رعایت رکھتے ہوئے کہنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ۔اگر تغزل رہتا ہے تو مسائل نہیں رہتے اور مسائل رہتے ہیں تو تغزل جاتا ہے۔

اس کے مقابلے میں نظم کا کینوس بڑا ہے ، آزاد نظم کا اور بڑا ۔اس میں طبع آزمائی کی راہیں کشادہ ہیں۔آپ زمینی حقائق و معاشرتی مسائل کو نظم میں بخوبی بیان کر سکتی ہیں۔ اس طرف آئیں۔انگریزی نظمیں بھی آپ خوب لکھتی ہیں لہذا یہاں بھی وہ مشق کام آئےگی۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
ماشاء اللہ یہ تو بڑی سعادت کی بات ہے کہ آپ کو ان کی خدمت کا موقع گھر بیٹھے مل گیا۔

:D


اصل میں غزل لکھنا آسان ہے لیکن غزل میں بڑا شعر کہنا ایسے ہی مشکل ہے جیسے چھوٹے کینوس پہ کوئی بڑا آرٹ پیش کرنا۔ غزل کا کینوس چھوٹا ہے اور وہ یوں کہ غزل کا ہر شعر ایک اکائی ہے ۔ دو مصرعوں میں آپ کو تغزل کی رعایت رکھتے ہوئے بات پوری کرنی ہے ۔لہذا معاشرے کے تلخ مسائل کو تغزل کی رعایت رکھتے ہوئے کہنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ۔اگر تغزل رہتا ہے تو مسائل نہیں رہتے اور مسائل رہتے ہیں تو تغزل جاتا ہے۔

اس کے مقابلے میں نظم کا کینوس بڑا ہے ، آزاد نظم کا اور بڑا ۔اس میں طبع آزمائی کی راہیں کشادہ ہیں۔آپ زمینی حقائق و معاشرتی مسائل کو نظم میں بخوبی بیان کر سکتی ہیں۔ اس طرف آئیں۔انگریزی نظمیں بھی آپ خوب لکھتی ہیں لہذا یہاں بھی وہ مشق کام آئےگی۔
جی بس یہی اللہ کا کرم ہے پتہ نہیں کیسے موقع مل گیا۔ امی کے دور میں کالج میں جا کر معلوم ہوا کہ رات نو کے بعد دس بھی بجتے ہیں۔ جلدی سونا پڑ رہا ہے۔ :D
جی کچھ کچھ سمجھ آیا۔ واقعی قافیے اور ردیف نے کافی تنگ کیا۔
کچھ نظمیں ادھوری ہیں تو ان میں سے ایک آدھ کو ٹھیک کر کے نظم کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ مجھے نظم کی ابھی ٹھیک سے سمجھ نہیں آئی، مصطفی زیدی کی نظمیں اچھی لگتی ہیں۔ ایک بڑی گرہ کھل گئی ہے۔ شکریہ
 

یاسر شاہ

محفلین
اور اپنے اوپر رکھ کر اس لیے لکھا کہ سیکنڈ یا تھرڈ پرسن پر سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ آپ بتائیے کہ کیا کیا جائے۔ کیا ایسا ہمارے یہاں نہیں ہوتا۔ قران مجید سے شادی سے لے کر کاری تک کیا کیا نہیں ہوتا۔ تو ان موضوعات پر نہ لکھا جائے۔ بہت سی جگہوں پرانسانوں کو بعض اوقات بہت ہی تکلیف دہ ماحول میں رہنا پڑتا ہے۔ پھر کیا قلمبند نہ کیا جائے۔ یا شاعری میں صرف وہی لکھا جائے جو آپ پر بیتے۔ کسی کے بارے میں شاعری نہ کی جائے؟ میں کافی الجھن میں ہوں۔ کئی ایک اور نظمیں بھی ہیں جو معاشرے کے بارے میں لکھی ہیں۔ اس طرح کی نظموں کو کیسے لکھا جاتا ہے رہنمائی کیجیے۔
مرزا کلیم الدین ایک بڑے ادبی ناقد تھے وہ شعر کی تعریف کرتے ہوئے اسے ذاتی یا خیالی تجربہ کہتے تھے۔خیالی تجربے کا اضافہ اس لیے کہ ہر تجربہ تو شاعر کو نہیں ہوتا لیکن کم از کم خیال کی حد تک ہو یعنی اس کو یہ محسوس ہو کہ یہ بپتا گویا کہ اسی پہ بیتی ہے۔
اقبال نے تبھی اپنی ایک نظم میں شاعر کوقوم کے لیے آنکھ بتایا ہے۔شاعر کے لیے فرماتے ہیں:

مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ

یہی دیکھ لیجیے کہ فیض کی یہ نظم واقعی ان کا ذاتی تجربہ تھی وہ ایسے ہی تھے تبھی نظم بھی کامیاب ہوئی۔
خدا وہ وقت نہ لائے کہ سوگوار ہو تو
سکوں کی نیند تجھے بھی حرام ہو جائے
تری مسرت پیہم تمام ہو جائے
تری حیات تجھے تلخ جام ہو جائے
غموں میں آئینہ دل گداز ہو تیرا
ہجوم یاس سے بے تاب ہو کے رہ جائے
وفور درد سے سیماب ہو کے رہ جائے
ترا شباب فقط خواب ہو کے رہ جائے
غرور حسن سراپا ناز ہو تیرا
طویل راتوں میں تو بھی قرار کو ترسے
تری نگاہ کسی غمگسار کو ترسے
خزاں رسیدہ تمنا بہار کو ترسے
کوئی جبیں نہ ترے سنگِ آستان پہ جھکے
کہ جنس عجز و عقیدت سے تجھ کو شاد کرے
فریب وعدہ فردا پہ اعتماد کرے
خدا وہ وقت نہ لائے کہ تجھ کو یاد آئے
وہ دل کہ تیرے لئے بیقرار اب بھی ہے
وہ آنکھ جس کو تیرا انتظار اب بھی ہے
اگر جون فیض بننے کی کوشش کرتے تو ناکام ہوتے چنانچہ انھوں نے اپنا رنگ پیش کیا کہ جو ان کا خاصہ تھا:

تم خون تھوکتی ہو یہ سن کر خوشی ہوئی
اس رنگ اس ادا میں بھی پر کار ہی رہو
:D
اور وہ اپنے انھی تجربات کو بیان کرنے میں کامیاب رہے۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
مرزا کلیم الدین ایک بڑے ادبی ناقد تھے وہ شعر کی تعریف کرتے ہوئے اسے ذاتی یا خیالی تجربہ کہتے تھے۔خیالی تجربے کا اضافہ اس لیے کہ ہر تجربہ تو شاعر کو نہیں ہوتا لیکن کم از کم خیال کی حد تک ہو یعنی اس کو یہ محسوس ہو کہ یہ بپتا گویا کہ اسی پہ بیتی ہے۔
اقبال نے تبھی اپنی ایک نظم میں شاعر کوقوم کے لیے آنکھ بتایا ہے۔شاعر کے لیے فرماتے ہیں:

مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ

یہی دیکھ لیجیے کہ فیض کی یہ نظم واقعی ان کا ذاتی تجربہ تھی وہ ایسے ہی تھے تبھی نظم بھی کامیاب ہوئی۔

اگر جون فیض بننے کی کوشش کرتے تو ناکام ہوتے چنانچہ انھوں نے اپنا رنگ پیش کیا کہ جو ان کا خاصہ تھا:

تم خون تھوکتی ہو یہ سن کر خوشی ہوئی
اس رنگ اس ادا میں بھی پر کار ہی رہو
:D
اور وہ اپنے انھی تجربات کو بیان کرنے میں کامیاب رہے۔

یہی بات کہ خیالی تجربہ کرنے کی کوشش کی۔ جگ بیتی بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔
فیض کا یہ ذاتی تجربی تھا؟ واقعی ۔ ۔ !! حیرت ہوئی۔ ویسے فیض صاحب کے لفظوں کے چناؤ نے الفاظ کی کاٹ کو بہت کم کردیا ہے۔ یہ ہمیں لگا۔ ورنہ خیالات کافی خطرناک ہیں ۔

جون صاحب کا یہ شعر کافی خطرناک ہے ۔ پڑھنے میں عجیب لگا۔ گھبراہٹ سی ہوئی۔ ہمارے اشعار تو بہت معصوم سے تھے۔ ہے نا
 

یاسر شاہ

محفلین
یہی بات کہ خیالی تجربہ کرنے کی کوشش کی۔ جگ بیتی بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔
فیض کا یہ ذاتی تجربی تھا؟ واقعی ۔ ۔ !! حیرت ہوئی۔ ویسے فیض صاحب کے لفظوں کے چناؤ نے الفاظ کی کاٹ کو بہت کم کردیا ہے۔ یہ ہمیں لگا۔ ورنہ خیالات کافی خطرناک ہیں ۔

جون صاحب کا یہ شعر کافی خطرناک ہے ۔ پڑھنے میں عجیب لگا۔ گھبراہٹ سی ہوئی۔ ہمارے اشعار تو بہت معصوم سے تھے۔ ہے نا
جی بہن آپ کے اشعار کا ابھی بچپن ہے تو معصوم ہی ہوں گے۔:)
جون کی یہ نظم واقعی بہت درد ناک ہے وہ خود بھی پڑھتے ہوئے جذباتی ہو جاتے تھے۔لیکن بات وہی ہے کہ نظم ہے سو بہت سی باتیں بیان ہو گئیں ۔
 
آخری تدوین:
Top