ایک شاعر نے ایک بادشاہ کی شان میں قصیدہ لکھا۔خوب زمین و آسمان کے قلابے ملائے۔بادشاہ خوش ہوا اور کہا فلاں ریاست تمھارے نام کرتا ہوں، کل آنا دستاویز پہ شاہی مہر لگا دوں گا۔اگلے دن شاعر صاحب خوب سج سنور کے پہنچے کہ ریاست کے والی نظر آئیں۔جب بادشاہ سے تقاضا کیا تو شاہ صاحب نے فرمایا دیکھو میاں تم نے ہمارے کانوں کو خوش کیا ہم نے تمھارے کانوں کو۔حساب برابر۔
تو بہن لوگوں کی تعریفوں پہ زیادہ دھیان نہ دیاکریں۔میں نے ان جھوٹی تعریفوں سے بڑے بڑوں کو برباد ہوتے دیکھا ہے۔چینی لاکھ میٹھی ہو سفید زہر (white poison) کہلاتی ہے اور بقول منٹو نیم کے پتے کڑوے سہی خون تو صاف کرتے ہیں۔
پہلے تو دیر سے جواب کی معذرت۔ آج کل امی گھر پر آئی ہوئی ہیں تو وقت پر لگا کے اڑ جاتا ہے۔
یاسر بھیا یہ تو مذاق میں کہا تھا بھئی۔ کیونکہ آپ نے تبصرہ تو کیا بہتری کی تجاویز نہیں دیں۔ جہاں تعریف کی بات ھے ناجائز تعریف تو دور کی بات کوئی جائز بھی کرے تو اچھا نہیں لگتا۔ ورنہ ہماری اب تک ایک آڑی ترچھی کتاب منظرِ عام پر آ چکی ہوتی
(مگر آپ نے پھر بھی کرتے رہنا ہے تاکہ کسرَ نفسی کو زنگ نہ لگ جائے۔
) تو آپ بالکل ہی بے فکر ہو جائیں ۔ سچی ۔ ۔
اچھا اب کچھ سنجیدہ بات۔ تو وہ یہ کے محبت وغیرہ پر مسلسل لکھا ہے تو سوچا کچھ تنوع آ جانا چاہئے۔ اس لیے یہ ایک پرانی غزل پال میں سے نکالی اور پیش کی۔ کیونکہ لوگوں کے ساتھ یہ سب ان آنکھوں نے ہوتے دیکھا ہے۔ ۔ ۔ کئی شعرا کو بھی اسی قسم کی شاعری کرتے دیکھا۔ مثلاً فیض صاحب کی یہ نظم اتنی اچھی لگی کہ فورا یاد ہی کر لی۔
خدا وہ وقت نہ لائے کہ سوگوار ہو تو
سکوں کی نیند تجھے بھی حرام ہو جائے
تری مسرت پیہم تمام ہو جائے
تری حیات تجھے تلخ جام ہو جائے
غموں میں آئینہ دل گداز ہو تیرا
ہجوم یاس سے بے تاب ہو کے رہ جائے
وفور درد سے سیماب ہو کے رہ جائے
ترا شباب فقط خواب ہو کے رہ جائے
غرور حسن سراپا ناز ہو تیرا
طویل راتوں میں تو بھی قرار کو ترسے
تری نگاہ کسی غمگسار کو ترسے
خزاں رسیدہ تمنا بہار کو ترسے
کوئی جبیں نہ ترے سنگِ آستان پہ جھکے
کہ جنس عجز و عقیدت سے تجھ کو شاد کرے
فریب وعدہ فردا پہ اعتماد کرے
خدا وہ وقت نہ لائے کہ تجھ کو یاد آئے
وہ دل کہ تیرے لئے بیقرار اب بھی ہے
وہ آنکھ جس کو تیرا انتظار اب بھی ہے
اور اپنے اوپر رکھ کر اس لیے لکھا کہ سیکنڈ یا تھرڈ پرسن پر سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ آپ بتائیے کہ کیا کیا جائے۔ کیا ایسا ہمارے یہاں نہیں ہوتا۔ قران مجید سے شادی سے لے کر کاری تک کیا کیا نہیں ہوتا۔ تو ان موضوعات پر نہ لکھا جائے۔ بہت سی جگہوں پرانسانوں کو بعض اوقات بہت ہی تکلیف دہ ماحول میں رہنا پڑتا ہے۔ پھر کیا قلمبند نہ کیا جائے۔ یا شاعری میں صرف وہی لکھا جائے جو آپ پر بیتے۔ کسی کے بارے میں شاعری نہ کی جائے؟ میں کافی الجھن میں ہوں۔ کئی ایک اور نظمیں بھی ہیں جو معاشرے کے بارے میں لکھی ہیں۔ اس طرح کی نظموں کو کیسے لکھا جاتا ہے رہنمائی کیجیے۔ شکرگذار رہوں گی۔