ایم اسلم اوڈ
محفلین
تیونس سے اٹھنے والی عوامی بیداری اور احتجاج کی مہم یمن، مصر، لبنان اور الجزائر میں جاری ہے۔ اس کا سب سے زیادہ اثر اب مصر میں نظر آ رہا ہے، جہاں حسنی مبارک کا 30 سالہ اقتدار کسی بھی وقت دھڑن تختہ ہو سکتا ہے اور صورتحال یہ ہے کہ حسنی مبارک کا بیٹا اہلیہ اور قریبی رشتہ دار اپنا ’’سب کچھ‘‘ سمیٹ کر لندن پہنچ چکے ہیں۔ حسنی مبارک نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے کابینہ توڑنے نائب صدر بنانے جیسے اعلانات کئے لیکن عوام نے سب مسترد کر دیا۔ ملک میں کرفیو لگا کر مظاہروں پر پابندی عائد کی لیکن اس پر اشتعال مزید پھیل گیا۔ فوج اور پولیس کو مظاہرین پر فائرنگ اور قتل عام کا حکم ہوا تو چند واقعات کے بعد فورسز نے سارے احکامات ماننے سے انکار کر دیا اور مظاہرین کے ساتھ مل گئی۔ آج بروز منگل صدارتی محل کی طرف عوام ملین مارچ کر رہے ہیں اور دوسری طرف تیونس میں اپنے اتحادی زین العابدین کے فرار کے بعد امریکہ اپنے اگلے اتحادی کا تماشا دیکھ رہا ہے اور اوبامہ سمیت تمام امریکی عہدیداران اس گھڑی میں محض افسوس کرنے کے ہی قابل رہ گئے ہیں اور صورتحال اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ حسنی مبارک کو ساری دنیا نے پناہ دینے سے انکار کر دیا ہے جس کے بعد کہا جا رہا ہے کہ حسنی مبارک اسرائیل میں پناہ لے گا۔ ساتھ ہی ساتھ تیونس کی طرح مصر میں بھی اسلامی تحریکوں کی بیداری کا دور شروع ہو رہا ہے اور امریکہ اور اس کے سارے اتحادیوں کو یہ خوف لاحق ہے کہ اگلی حکومت اور اگلے سیٹ اپ میں اسلامی قوتیں انتہائی اہم کردار ادا کرینگی اور فوج کا کردار بھی اہم ہو گا جو امریکہ کی سخت مخالف ہے۔ یہاں لوگوں کو اسلام اور دین سے اٹھنے والی معمولی پابندی کے بعد والہانہ محبت کا یہ عالم تھا کہ لوگ سڑکوں پر ٹینکوں کے سائے میں نمازیں پڑھتے نظر آتے رہے۔
حسنی مبارک کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کے پاس 25 ارب پائونڈ کے اثاثے ہیں یعنی زین العابدین بن علی کی طرح اس نے بھی خوب لوٹ مچائی تھی اور اقتدار سے بھی علیحدگی پر تیار نہیں تھا۔
اس موقع پر امریکہ اور یورپ کا منافقانہ کردار بھی بار بار سامنے آیا ہے جو دنیا میں جمہوریت کا نام تو لیتے ہیںلیکن وہ تیونس، مصر اور الجزائر میں جمہوریت کی بجائے ہمیشہ آمروں کی حمایت کرتے رہے اور اب بھی کر رہے ہیں لیکن اب کے سہارے ٹوٹ کر گر رہے ہیں یورپ اور امریکہ کی ساری پالیسیاں صرف اور صرف اسلام دشمنی پر مبنی تھیں اور ان کا مرکز و محور بھی یہی تھا لیکن اب دنیا کا سارا نقشہ ہی بدل رہا ہے۔ جہاں ان ملکوں میں اسلام نے جگہ بنائی وہیں عراق اور افغانستان میں ان کو شکست کا سامنا ہوا ہے جس سے ان سب کی خواہشات تباہ ہو چکی ہیں اور اب وہ اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف عمل ہیں۔ مسلم ممالک میں ان کے حامی بھی تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور یہ عمل اتنی تیزی سے ہوا ہے کہ ساری دنیا دم بخود ہے اور اس سے جو اسلام کے غلبہ کی لہر ابھر رہی ہے، وہ ساری اسلام دشمن دنیا کے لئے سخت اضطراب کا باعث ہے۔ یوں آج دنیا میں مغربی اور امریکی زوال کے مناظر ابھر کر سامنے آئے ہیں وہ انتہائی خوش آئند بھی ہیں اور امریکہ اور یورپ سے محبت کرنے والے حکمرانوں اور تمام طبقات کے لئے عبرت کا سامنا بھی ہیں کہ ان کا سارا بھرم ٹوٹ رہا ہے۔ اب مغرب زدہ روشن خیال طبقے اپنی بقا کے لئے دن رات ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ ہم انہیں بھی نصیحت کرتے ہیں کہ وہ اپنے معاملات کو درست کر کے اب اسلام کی طرف لوٹ آئیں کیونکہ اب ان کی کہانی ختم ہونے والی ہے۔ جب ساری دنیا یہ کہہ رہی ہے تو پھر انہیں اپنا قبلہ درست کرنا ہو گا وگرنہ … 99.4 فیصد ووٹ لینے والے زین العابدین علی اور 90 فیصد ووٹ لے کر 30 سال اقتدار پر قبضہ قائم رکھنے والے حسنی مبارک کا حال سب کے سامنے ہے جنہیں اب وہ کندھا بھی نہیں مل رہا ہے جہاں وہ اپنا سر رکھ کر رو لیں۔ ان کی دولت، ان کی جاہ و حشمت، کروڑوں کی عوامی طاقت کہاں چلی گئی…؟ اب حقیقت کی دنیا میں قدم رکھنے اور اسلام کو اپنانے کا وقت ہے وگرنہ زین العابدین بن علی اور حسنی مبارک کا انجام بھی موجود ہے۔
بشکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہفت روزہ جرار
حسنی مبارک کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کے پاس 25 ارب پائونڈ کے اثاثے ہیں یعنی زین العابدین بن علی کی طرح اس نے بھی خوب لوٹ مچائی تھی اور اقتدار سے بھی علیحدگی پر تیار نہیں تھا۔
اس موقع پر امریکہ اور یورپ کا منافقانہ کردار بھی بار بار سامنے آیا ہے جو دنیا میں جمہوریت کا نام تو لیتے ہیںلیکن وہ تیونس، مصر اور الجزائر میں جمہوریت کی بجائے ہمیشہ آمروں کی حمایت کرتے رہے اور اب بھی کر رہے ہیں لیکن اب کے سہارے ٹوٹ کر گر رہے ہیں یورپ اور امریکہ کی ساری پالیسیاں صرف اور صرف اسلام دشمنی پر مبنی تھیں اور ان کا مرکز و محور بھی یہی تھا لیکن اب دنیا کا سارا نقشہ ہی بدل رہا ہے۔ جہاں ان ملکوں میں اسلام نے جگہ بنائی وہیں عراق اور افغانستان میں ان کو شکست کا سامنا ہوا ہے جس سے ان سب کی خواہشات تباہ ہو چکی ہیں اور اب وہ اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف عمل ہیں۔ مسلم ممالک میں ان کے حامی بھی تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور یہ عمل اتنی تیزی سے ہوا ہے کہ ساری دنیا دم بخود ہے اور اس سے جو اسلام کے غلبہ کی لہر ابھر رہی ہے، وہ ساری اسلام دشمن دنیا کے لئے سخت اضطراب کا باعث ہے۔ یوں آج دنیا میں مغربی اور امریکی زوال کے مناظر ابھر کر سامنے آئے ہیں وہ انتہائی خوش آئند بھی ہیں اور امریکہ اور یورپ سے محبت کرنے والے حکمرانوں اور تمام طبقات کے لئے عبرت کا سامنا بھی ہیں کہ ان کا سارا بھرم ٹوٹ رہا ہے۔ اب مغرب زدہ روشن خیال طبقے اپنی بقا کے لئے دن رات ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ ہم انہیں بھی نصیحت کرتے ہیں کہ وہ اپنے معاملات کو درست کر کے اب اسلام کی طرف لوٹ آئیں کیونکہ اب ان کی کہانی ختم ہونے والی ہے۔ جب ساری دنیا یہ کہہ رہی ہے تو پھر انہیں اپنا قبلہ درست کرنا ہو گا وگرنہ … 99.4 فیصد ووٹ لینے والے زین العابدین علی اور 90 فیصد ووٹ لے کر 30 سال اقتدار پر قبضہ قائم رکھنے والے حسنی مبارک کا حال سب کے سامنے ہے جنہیں اب وہ کندھا بھی نہیں مل رہا ہے جہاں وہ اپنا سر رکھ کر رو لیں۔ ان کی دولت، ان کی جاہ و حشمت، کروڑوں کی عوامی طاقت کہاں چلی گئی…؟ اب حقیقت کی دنیا میں قدم رکھنے اور اسلام کو اپنانے کا وقت ہے وگرنہ زین العابدین بن علی اور حسنی مبارک کا انجام بھی موجود ہے۔
بشکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہفت روزہ جرار