کاشفی
محفلین
غزل
(علی مینائی)
یوں تو جو مل جائے، ہو جاتے ہیں اس منظر کے لوگ
آرزوئے عہد نو رکھتے ہیںدنیا بھر کے لوگ
کون دیوانہ ہے ٹکرائے جو سر دیوار سے
آئینے کے گھر ہیں اسی بستی میں اور پتھر کے لوگ
یہ بھی اک ترتیب سنگ و خشت و آہن ہی تو ہے
جانے کیوںگرویدہ ہو جاتے ہیں بام و در کے لوگ
ہاتھ میں تسبیح تھامے، سر پر عمامہ لئے
محفل جاناں میں آبیٹھے ہیںکچھ باہر کے لوگ
قریہء غم، شہر فرقت، کوچہء خواب و خیال
بستیاں آباد کر جاتے ہیں کتنی مر کے لوگ
بے تکلف یوں چلی آتی ہے دل میںتیری یاد
گھر میں آجاتے ہیں جیسے بن پکارے گھر کے لوگ
(علی مینائی)
یوں تو جو مل جائے، ہو جاتے ہیں اس منظر کے لوگ
آرزوئے عہد نو رکھتے ہیںدنیا بھر کے لوگ
کون دیوانہ ہے ٹکرائے جو سر دیوار سے
آئینے کے گھر ہیں اسی بستی میں اور پتھر کے لوگ
یہ بھی اک ترتیب سنگ و خشت و آہن ہی تو ہے
جانے کیوںگرویدہ ہو جاتے ہیں بام و در کے لوگ
ہاتھ میں تسبیح تھامے، سر پر عمامہ لئے
محفل جاناں میں آبیٹھے ہیںکچھ باہر کے لوگ
قریہء غم، شہر فرقت، کوچہء خواب و خیال
بستیاں آباد کر جاتے ہیں کتنی مر کے لوگ
بے تکلف یوں چلی آتی ہے دل میںتیری یاد
گھر میں آجاتے ہیں جیسے بن پکارے گھر کے لوگ