شہر زاد
محفلین
ٓیوں سرِ شام تری یاد میں آنسو نکل آئے
جس طرح وادی پرخار میں آہو نکل آئے
ہاتھ میں ہاتھ لئے ترے خدوخال کے ساتھ
جانے کب آئینہ جاں سے لبِ جو نکل آئے
دل کی چوکھٹ سے لگا بیٹھا ہے تنہائی کا چاند
اور اچانک کسی جانب سے اگر تو نکل آئے
برف کے ریزوں کی صورت جو نظر آتے ہیں داغ
یہ تیرے ہجر کے دُکھ جو سرِ مو نکل آئے
وہ جو بے شاخ شجر تھے ترے رستے کا غبار
تو نظر آیا تو ہر ایک کے بازو نکل آئے
تو نہیں تھا تو یہ دل اپنی جگہ تھا کسی طور
تو ملا ہے تو کئی ضبط کے پہلو نکل آئے
خاور اُس شخص کی اک اور صفت بھی ہے عجیب
جس کو چھو جائے اُس سنگ سے خوشبو نکل آئے
ایوب خاور
جس طرح وادی پرخار میں آہو نکل آئے
ہاتھ میں ہاتھ لئے ترے خدوخال کے ساتھ
جانے کب آئینہ جاں سے لبِ جو نکل آئے
دل کی چوکھٹ سے لگا بیٹھا ہے تنہائی کا چاند
اور اچانک کسی جانب سے اگر تو نکل آئے
برف کے ریزوں کی صورت جو نظر آتے ہیں داغ
یہ تیرے ہجر کے دُکھ جو سرِ مو نکل آئے
وہ جو بے شاخ شجر تھے ترے رستے کا غبار
تو نظر آیا تو ہر ایک کے بازو نکل آئے
تو نہیں تھا تو یہ دل اپنی جگہ تھا کسی طور
تو ملا ہے تو کئی ضبط کے پہلو نکل آئے
خاور اُس شخص کی اک اور صفت بھی ہے عجیب
جس کو چھو جائے اُس سنگ سے خوشبو نکل آئے
ایوب خاور