کاشف اسرار احمد
محفلین
اساتذہ جناب @الف عین صاحب ،محمد اسامہ سرسری صاحب ، اور احباب کی خدمت ایک تازہ غزل حاضر ہے ....
آپ حضرات کی پر شفقت توجہ، اصلاح اور رہنمائی کا منتظر ہوں ۔ اس ناچیز کو ممنون ہونے کا موقع عنایات فرمایئں۔
بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
یا پھر
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلن
---------------------------------------------------
باد ِ صبا بھی چلتی، مدھم ملے تمہیں
پھولوں میں رولتی ہوئی، شبنم ملے تمہیں
جو باغ ِ انتظار میں دیکھے تُو صبح ِ دم
گرتی پلک سے میری شبنم ملے تمہیں
یوں ہو کہ رنگ تم کو، صدا سے سنائی دیں
آواز پھر نئی، ابھی اِس دم ملے تمہیں
قربانی ہم سے مانگی گئی، جسم و جان کی
مشکل سوال ایسے، ذرا کم ملے تمہیں
وَا در رکھے تھے تیرے آنے کے واسطے
سیدھا تھا دل کا راستہ، کیوں خم ملے تمہیں
تم سے کرے سلوک کوئی ہم سے مختلف
تشنہ لبی ہو، مژگاں پر نم ملے تمھیں
ناکام ہر دوا تھی مسیحا کی جب ترے
تب اس شعور ِ غمِ سے مرہم ملے تمہیں
دیوار پر لکھا تھا جب، راستہ ہے بند
منزل کی رَہ دکھاتے بس ہم ملے تمہیں
اب مجھ کو اپنی جان کا، دشمن نیا ملے
وہ دوست اک پرانا، ہمدم ملے تمہیں
یعقوُب کی سی آنکھیں، تری یاد میں ہوئیں
ان پتھروں سے بہتا زم زم ملے تمہیں
کرتے ہو اب کے عرق ِ ندامت سے تم وضو
توفیق دل سے توبہ کی ہر دم ملے تمہیں
واقف رہے ہو تم بھی مرے حال و قال سے
نامے ہمارے پیار کے سب نم ملے تمہیں
خاموش سر جھکائے تھے سب، تیرے سامنے
حیرت سے دیکھتے ہوئے، بس ہم ملے تمہیں
ہارا نہ خواب اپنا، میں نے کبھی کوئی
ارماں مرے ہمیشہ، پر دم ملے تمہیں
بانٹے ہیں رب نے رنج و خوشی، دیکھ بھال کر
کاشف یہ کیا وجہ ہے، کہ سب غم ملے تمہیں
سید کاشف
---------------------------------------------------------
شکریہ .
آپ حضرات کی پر شفقت توجہ، اصلاح اور رہنمائی کا منتظر ہوں ۔ اس ناچیز کو ممنون ہونے کا موقع عنایات فرمایئں۔
بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
یا پھر
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلن
---------------------------------------------------
باد ِ صبا بھی چلتی، مدھم ملے تمہیں
پھولوں میں رولتی ہوئی، شبنم ملے تمہیں
جو باغ ِ انتظار میں دیکھے تُو صبح ِ دم
گرتی پلک سے میری شبنم ملے تمہیں
یوں ہو کہ رنگ تم کو، صدا سے سنائی دیں
آواز پھر نئی، ابھی اِس دم ملے تمہیں
قربانی ہم سے مانگی گئی، جسم و جان کی
مشکل سوال ایسے، ذرا کم ملے تمہیں
وَا در رکھے تھے تیرے آنے کے واسطے
سیدھا تھا دل کا راستہ، کیوں خم ملے تمہیں
تم سے کرے سلوک کوئی ہم سے مختلف
تشنہ لبی ہو، مژگاں پر نم ملے تمھیں
ناکام ہر دوا تھی مسیحا کی جب ترے
تب اس شعور ِ غمِ سے مرہم ملے تمہیں
دیوار پر لکھا تھا جب، راستہ ہے بند
منزل کی رَہ دکھاتے بس ہم ملے تمہیں
اب مجھ کو اپنی جان کا، دشمن نیا ملے
وہ دوست اک پرانا، ہمدم ملے تمہیں
یعقوُب کی سی آنکھیں، تری یاد میں ہوئیں
ان پتھروں سے بہتا زم زم ملے تمہیں
کرتے ہو اب کے عرق ِ ندامت سے تم وضو
توفیق دل سے توبہ کی ہر دم ملے تمہیں
واقف رہے ہو تم بھی مرے حال و قال سے
نامے ہمارے پیار کے سب نم ملے تمہیں
خاموش سر جھکائے تھے سب، تیرے سامنے
حیرت سے دیکھتے ہوئے، بس ہم ملے تمہیں
ہارا نہ خواب اپنا، میں نے کبھی کوئی
ارماں مرے ہمیشہ، پر دم ملے تمہیں
بانٹے ہیں رب نے رنج و خوشی، دیکھ بھال کر
کاشف یہ کیا وجہ ہے، کہ سب غم ملے تمہیں
سید کاشف
---------------------------------------------------------
شکریہ .