یوں ہو کہ رنگ تم کو، صدا سے سنائی دیں ۔۔ تازہ غزل اصلاح کے لیے۔۔

تسکینِ اوسط کے بارے میں مزمل شیخ بسمل اور اعجاز عبید صاحب کا مؤقف درست ہے۔
شیخ صاحب اگر سینئر شعراء کو اس کی اجازت دیتے ہیں تو ان کا بڑاپن ہے۔ ویسے قاعدہ، روانی، ملائمت اس کا اطلاق ہونا تو شعر پر چاہئے چاہے کسی کا بھی ہو۔
مجھے یہاں تسکینِ اوسط بھلی نہیں لگی، اختیار بہر حال شاعر کا ہے۔
 
یعقوُب کی سی آنکھیں، تری یاد میں ہوئیں
ان پتھروں سے بہتا زم زم ملے تمہیں

اس شعر میں پہلے اور دوسرے مصرعے کے فعل میں مطابقت نہیں ہے۔ اگر زم زم واحد ہے تو ملے فعل مضارع (اردو والا) پہلے مصرعے میں ہوئیں فعل ماضی۔ اگر دوسرے مصرعے میں فعل مستقبل ہوتا تو بھی بات بن سکتی تھی کہ ملے گا (عربی میں مضارع حال اور مستقبل دونوں کے معانی دیتا ہے، اردو میں نہیں)۔ تلمیح میں بھی مطابقت نہیں۔ زم زم کی نسبت سے ابراہیم یا اسماعیل ہوتا؛ بینائی جاتی رہنے کی رعایت سے یعقوب کے ساتھ دیگر تلازمے بھی موافق ہونے چاہئیں۔
 
کرتے ہو اب کے عرق ِ ندامت سے تم وضو
توفیق دل سے توبہ کی ہر دم ملے تمہیں

میرے خیال میں تو عرقِ ندامت توبہ ہی ہے؛ اور توبہ دل ہی سے ہوتی ہے، ندامت بھی دل سے ہوتی ہے۔
 
خاموش سر جھکائے تھے سب، تیرے سامنے
حیرت سے دیکھتے ہوئے، بس ہم ملے تمہیں

سب سرنگوں، خموش کھڑے تھے ترے حضور
۔۔۔ تیرے یا ترے اور تمہیں کی عدم موافقت پھر بھی باقی رہ گئی۔
 
وَا در رکھے تھے تیرے آنے کے واسطے
سیدھا تھا دل کا راستہ، کیوں خم ملے تمہیں

در وا رکھے ۔۔۔۔ یہ ملائم تر ہوتا ۔۔۔۔۔ تاہم اس شعر کے مضمون کو نکھاریئے۔ مثلاً
تمہارے استقبال کے لئے آنکھوں کے در کھلے رکھے ہیں یا تھے، کہ آنکھ سے دل کو سیدھا راستہ ہے، مگر تم اسے کجی کہہ رہے ہو یا تمہیں یہ کجی لگ رہی ہے۔ شعر کی صورت کوئی نکال لیجئے۔ ردیف نے پوری غزل میں پابندی لگا دی ہے کہ مخاطب (صیغہ حاضر) کے لئے تو، تیرا، تیرے، تجھے نہیں لایا جا سکے گا؛ تم، تمہارا، تمہیں آئے گا۔ حسب مضمون صیغہ متکلم یا صیغہ غائب بھی ہو سکتا ہے۔
 
ردیف اختیاری چیز ہے، لازمی نہیں۔ مگر جب ایک بار اختیار کر لی تو پھر اس کو نباہنا لازم ہو گیا۔
اس غزل میں ردیف کا پہلا لفظ "ملے" کچھ مقامات پر معانی کے لحاظ سے مسئلہ پیدا کر رہا ہے۔
 
تم سےکرے سلوک کوئی ہم سے مختلف
پیاسے ہوں لب، اور آنکھ بھی پرنم ملے تمھیں
لفظ"اور"صرف'ر' تقطیع ہو رہا ہے استاد محترم ؟ کیا درست صورت ہے ؟

اس شعر میں "ر" کا کو خیر مسئلہ نہیں ہے، پر دوسرے مصرعے کے لب اور آنکھ کس کی ہے؟ محب کی یا محبوب کی؟ سلوک اور ہم سے مختلف ۔۔ ؟؟
مجھے تو اس میں بددعا کا تاثر ملا ہے، کیا واقعی ایسا ہے؟
جی استاد محترم بد دعا کی ہی شکل ہے۔:wilt:
 
کرتے ہو اب کے عرق ِ ندامت سے تم وضو
توفیق دل سے توبہ کی ہر دم ملے تمہیں

میرے خیال میں تو عرقِ ندامت توبہ ہی ہے؛ اور توبہ دل ہی سے ہوتی ہے، ندامت بھی دل سے ہوتی ہے۔

کرتے ہو اب کے عرق ِ ندامت سے تم وضو
توفیق پاک رہنے کی ہر دم ملے تمہیں

جناب کیا یہ کچھ بہتر شکل ہوئ یا دوسرے مصرع کو بالکل تبدیل کردینا چاہئے۔
 
خاموش سر جھکائے تھے سب، تیرے سامنے
حیرت سے دیکھتے ہوئے، بس ہم ملے تمہیں

سب سرنگوں، خموش کھڑے تھے ترے حضور
۔۔۔ تیرے یا ترے اور تمہیں کی عدم موافقت پھر بھی باقی رہ گئی۔
جناب کیا
سب سرنگوں، خموش کھڑے تھے، مرے حضور!
حیرت سے دیکھتے ہوئے، بس ہم ملے تمہیں

سے بات مکمل ہوتی لگی :)۔ اگر نہیں تو شعر ہٹا دیتا ہوں ۔
 
یعقوُب کی سی آنکھیں، تری یاد میں ہوئیں
ان پتھروں سے بہتا زم زم ملے تمہیں

اس شعر میں پہلے اور دوسرے مصرعے کے فعل میں مطابقت نہیں ہے۔ اگر زم زم واحد ہے تو ملے فعل مضارع (اردو والا) پہلے مصرعے میں ہوئیں فعل ماضی۔ اگر دوسرے مصرعے میں فعل مستقبل ہوتا تو بھی بات بن سکتی تھی کہ ملے گا (عربی میں مضارع حال اور مستقبل دونوں کے معانی دیتا ہے، اردو میں نہیں)۔ تلمیح میں بھی مطابقت نہیں۔ زم زم کی نسبت سے ابراہیم یا اسماعیل ہوتا؛ بینائی جاتی رہنے کی رعایت سے یعقوب کے ساتھ دیگر تلازمے بھی موافق ہونے چاہئیں۔
یہ شعر ہٹا ہی دیتا ہوں۔ مجھے بھی مناسب نہیں لگ رہا اب۔
 
یہاں بہتر شکل کس شعر کی ہے۔
تم رک گئے تھے پڑھ کے جب ، 'راستہ ہے بند '
منزل کی رہ دکھاتے وہیں ہم ملے تمہیں
یا
دیوار پر لکھا تھا یہ جب ، 'راستہ ہے بند '
منزل کی رہ دکھاتے وہیں ہم ملے تمہیں
یا
دیوار پر یہ پڑھ کہ رکے 'راستہ ہے بند '
منزل کی رہ دکھاتے وہیں ہم ملے تمہیں

"راستہ ہے بند" یہ الفاظ یہاں شعریت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ بہتر ہے کہ مصرع نیا کہہ لیجئے
بہت بہتر جناب۔ کوشش کرتا ہوں ۔
 
یوں ہو کہ رنگ بن کے صدا گفتگو کریں
میں بات بن سکتی ہے؟
ووسرا مصرع بھی ’اسی دم‘ استعمال کر کے رواں کیا جا سکتا ہے شاید
آواز اک نئی سی اسی دم ملے تمہیں

استاد محترم کی تصحیح کے مطابق اب شعر اس طرح سے ہے:
یوں ہو کہ رنگ بن کے صدا گفتگو کریں
آواز اک نئی سی اسی دم ملے تمہیں

لیکن
آواز پھر نئی سی، اسی دم ملے تمہیں
والی شکل کیسی رہے گی جناب؟
 
آخری تدوین:
مجھے نہیں معلوم کے جہاں آپ رہ رہے ہیں وہاں گرد و پیش میں کوئی ادبی تنظیم کام کر رہی ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو اُن لوگوں کے ادبی اجلاسوں میں شریک ہوا کریں۔ یہ ادبی تنظیمیں کسی بھی سطح کی ہوں ان کی حیثیت ادب کے کالجوں کی سی ہوتی ہے، جہاں سیکھنے والوں کو بہت کچھ ملتا ہے۔ ممکن ہے کوئی مشفق استاذ بھی مل جائیں جن سے آپ بالمشافہ اکتساب کر سکیں۔ میری تربیت بھی ایک بہت مقامی اور بہت چھوٹی سطح کی ایک تنظیم کے ادبی اجلاسوں اور ان سے منسلک چائے کی محفلوں میں ہوئی ہے، اور یقین جانئے اس کا کوئی متبادل نہیں ہو سکتا۔
 
Top