سید زبیر
محفلین
یو ایس ایڈ۔۔۔مقاصد اور ہمارا کردار
آج کل الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں یو ایس ایڈ کو بہت نمایاں کر کے پیش کیا جارہا ہے ۔اس کی اصل حقیقت انہی کو پتہ ہے جو کسی نہ کسی صورت میں اس کے ساتھ منسلک رہے ۔یو ایس ایڈ کی مثال ایسی ہے کہ آپ کسی ادارے میں کسی کو کینٹین یا سپلائی کا ٹھیکہ بلا کسی معاوضے دے دیں اور معاوضے کی رقم کا کچھ حصہ وہ ادارے کے اپنی مرضی کے فلاحی کاموں میں صرف کردے اور اسکی تشہیر کرے تو یہ کچھ مناسب نہیں۔پاکستان نے ابتدا ہی سے جس طرح کی مراعات ،تحفظ ،تجارتی سہولیات امریکہ کو فراہم کیں ہیں یو ایس ایڈ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ابھی حال میں نیٹو کو سپلائی کی جو سہولیات دی تھیں ،ہوائی اڈے ، بلا روک ٹوک امریکیوں کی پاکستان آمد ، ملک کی ہر پالیسی خواہ اس کا تعلق تعلیم سے ہو ،دفاع سے ہو،توانائی سے ہو،خارج پالیسی سے ہو امریکیوں کی منشا و مرضی کو مقدم رکھا جاتا ہے یو ایس ایڈ میں جتنی بد عنوانی ہوتی ہے اس کا شور تو مغربی ذرائع ابلاغ بھی کرتے ہیں ۔ان کے تمام منصوبے پاکستان کے حساس علاقوں ہی میں ہوتے ہیں یو ایس ایڈ کے نام پر پاکستان میں آنے والی گاڑیوں کی کثیر تعداد عملی طور پر کسی اور کے زیر استعمال ہوتی ہیں جبکہ ان کی دیکھ بھال اور ایندھن کا خرچہ یو ایس ایڈ کے فنڈ سے دیا جاتا ہے ۔میں خود ایک ایسے شخص سے ملاہوں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے کرم ایجنسی میں مشنری کاموں میں مصروف تھا ۔ وہ روانی سے پشتو بولتا تھا اسکی زبان،رہن سہن دیکھ کر بلا شبہ اسے اس دور کے لارنس آف عریبیا سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے اور اس طرح کے کردار سینکڑوں میں ہیں او رڈاکٹر شکیل آفریدی جیسے ان کے پاکستانی گماشتے ہزاروں میں ہیں جو چند سکوں کے عوض اپنی قوم اور مادر وطن کی حرمت کا سودا کرتے ہیں۔یہ سلسلہ آزادی کے بعد ہی سے شروع ہو گیا تھا ۔قارئین کے لیے قدرت اللہ شہاب کی کتاب ’’شہاب نامہ‘‘کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں’’روز اول ہی سے پاکستان نے امریکہ کے ساتھاپنی وفاداری اور تابعداری نبھانے میں کوئی دقیقہ فردگذاشت نہیں کیا ۔ہمارے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے روس کا دعوت نامہ پس پشت ڈال کر امریکہ کا دورہ قبول کر لیا ۔گورنر جنرل غلام محمد اور صدر سکندر مرزا کے زمانے میں امریکی مشیر ہمارے کاروبار حکومت پر ٹڈی دل کی طرح چھائے رہے ۔کمانڈر انچیف کی حیثیت سے صدر ایوب نے ہماری افوج کو اس طرز پر منظم اور مسلح کیا کہ ہماری دفاعی شہ رگ ہمیشہ کے لیے امریکہ کی مٹھی میں دب کر رہ گئی روس اور عرب ممالک کی ناراضگی مول لے کر ہم بغداد پیکٹ عرف سیٹو کے رکن بنے تا کہ امریکہ کی خوشنودی ہمارے شامل حال رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ عجیب بات ہے کہ کہ پاکستان کے وجود میں آتے ہی امریکہ کے چند عناصر نے اس کی مخالفت پر کمر باندھ لی تھی بٹوارہ تو ہندوستان کا ہوا تھا لیکن اس کا چرکہ امریکہ کے کچھ یہودی اور یہودی نواز طبقوں نے بری طرح محسوس کیا ۔۱۹۵۰ کی بات ہے کہ ڈھاکہ میں ایک امریکن کاروباری فرم کاایک نمایندہ کچھ عرصہ سے مقیم تھا ،بظاہر اس کا نام Mr Crook تھا لیکن باطن میں بھی وہ اسم بمسمیٰ ثابت ہوا کیونکہ رفتہ رفتہ یہ راز کھلا کہ وہ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کا بیج بونے میں ہمہ تن مصروف تھا ۔پاکستان کی سالمیت کے خلاف اس کی کاروائیوں کا علم ہوتے ہی اسے بلا تاخیر نا پسندیدہ شخص قرار دے کر ملک سے نکال باہر کیا ۔
چند ابل قدر مستثنیات کو چھوڑ کر پاکستان میں وقتاً فوقتاًمتعین ہونے والے امریکی سفیر اور سفارت کار بھی بعض اوقات ایک مشہور کتاب "The Ugly American" کے چلتے پھرتے کردار نظر آتے تھے‘‘ صفحہ ۹۵۹ ، ۹۶۰
’’ صدر ایوب کے اقتدار کے آخری چند برسوں میں یہاں پر امریکہ کے جو سفیر متعین تھے ان کا اسم گرامی مسٹر بی ایچ اوہلرٹMr B H Oelhert Jr تھا ۔یہ صاحب نسلاًیہودی تھے اور کسباً کوکاکولا بنانے والی کمپنی غالباًوائس پریزیڈینٹ تھے ۔۔۔۔ایک روز راولپنڈی کے انٹر کانٹی نینٹل ہوٹلمیں کوئی استقبالیہ تھا ۔وہاں سے فارغ ہو کر ہم لوگ برآمدے میں کھڑے اپنی اپنی گاڑیوں کا انتظار کر رہے تھے ۔مسٹر اوہلرٹ کی گاڑی پہلے آگئیانہوں نے اصرار کر کے اسلام آباد جانے کے لیے مجھے اپنی کار میں بٹھا لیا جتنا عرصہ ہم مری روڈ سے گزرتے رہے ۔وہ پاکستان سڑکوں پر ٹریفک اور پیدل چلنے والوں کے رنگ ڈھنگ پر طرح طرح کی پھبتیاں کستے رہیموٹروں ، بسوں ،رکشاوں اور سکوٹروں کے ہجوم میں بد حواس ہو کر ادھر ادھر بھٹکنے والے راہگیروں کو وہ تمسخر اور تکبر سے Bipeds(دو پایہ مخلوق) کے لقب سے نوازتے تھے۔فیض آباد کے چوک پر پہنچ کر جب ہم شاہراہ اسلام آباد کی طرف مڑنے والے تھے تو مسٹر اوہلرٹ نے اچانک اپنے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ لیے اور اپنا سر گھٹنوں میں دیکر سیٹ پر جھک گئے ۔مجھے یہی خیال آیا کہ ان کی آنکھ میں مچھر یا مکھی گھس گئی اور وہ بیچاے سخت تکلیف میں مبتلا ہیں۔میں نے از راہ ہمدردی ان سے دریافت کیا ’’ آپ خیریت سے تو ہیں ؟‘‘ مسٹر اوہرٹ نے اپنی گاڑی ایک طرف رکوائی اور تیکھے لہجے میں بولے’’ میں بالکل خیریت سے نہیں ۔میں کس طرح خیریت سے ہو سکتا ہوںَوہ دیکھو‘‘انہوں نے باہر کی طرف اشارہ کر کے کہا ’’ وہ دیکھو آنکھوں کا خار۔میں جتنی بار ادھر سے گزرتا ہوں ،میری آنکھوں میں یہ کانٹا بری طرح کھٹکتا ہے ‘‘ میں نے باہر کی طرف نظر دوڑائی تو چوراہے میں ایک بڑا سا اشتہاری بورڈآویزاں تھا جس پر پی آئی اے کا رنگین اشتہار دعوت نظارہ دے رہا تھا اس اشتہار میں درج تھا کہ پی آئی اے سے پرواز کیجیے اور چین دیکھئیے۔۔۔۔۔۔۔۔چند روز بعد میں نے دیکھا کہ فیض آباد چوک سے چین والا بورڈ اٹھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔چین کے حوالے سے مجھے اوہلرٹ کی نازک مزاجی کا ایک اور تجربہ بھی ہوا۔ایک بار راولپنڈی کے گورنمنٹ گرلز کالج میں کوئی امریکی پروفیسر تقریر کرنے آیاہوا تھا ۔۔۔انہوں نے الزام لگایاکہ ترقی پذیر ممالک امریکی امداد ہاتھ پھیلا پھیلا کر مانگتے تو ضرور ہیں لیکن اسے حاصل کرنے کے بعد بھی وہ بدستور اپنی فرسودہ اقدار و ثقافت کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں یہ سرا سر نا شکری کی علامت ہے ۔۔۔۔۔۔۔جو طلباؤطائف پر امریکن یونیورسٹیوں میں جا کر پڑھتے ہیں اور صرف ڈگریاں اور ڈپلومے لے کر واپس آ جاتے ہیں۔وہ ہمارا وقت اور پیسہ ضائع کرتے ہیں ۔ہمیں صرف ایسے طلبا و طالبات کو وظیفوں کا مستحق سمجھنا چاہیے جو ڈگریوں کے علاوہ امریکن اقدار و ثقافت ،امریکن اخلاق و عادات ،امریکن بودو باشکے نقوش بھی اپنے ہمراہ واپس لائیں۔۔۔۔ان لغویات کے جواب میں میں نے پروفیسر صاحب کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ اگر امریکی امداد کو امریکی اقدار و کلچر اپنانے کے ساتھ مشروط کر دیا گیاتو کئی غریب اور خوددار ملک ایسی امداد کو بے نیازی سے ٹھکرادیں گے۔جن شرائط پر پروفیسر صاحب ہمارے طلبا و طالبات کو تعلیمی وظائف دینا چاہتے ہیں وہ ہمیں قابل قبول نہیں اور ہم ایسے وظائف کو بھی دور سے سلام کرتے ہیں ایسی صورتحال میں ہمیں علوم حاصل کرنے کے لیے دوسرے ممالک کی طرف رخ موڑنا ہوگا۔یو بھی ہمارے رسول مقبولﷺکا فرمان ہے کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔
میری تقریر کے کچھ حصے ہمارے کئی اخبارات نے بڑے نمایاں طور پر شائع کیے۔چین والا فرمان رسولﷺپڑھ کر امریکی سفیرمسٹر اوہلرٹ سیخ پا ہو گیا۔ان کا پیغام آیا کہ وہ فوری طور پر میرے دفتر آکر مجھ سے ملنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔بے چینی کے علام میں انہوں نے لمبے لمبے گھونٹ بھر کر کافی کی پیالی ختم کی اور پھر بیس بچیس منٹ تک وہ نہائت تلخ انداز میں میری تقریر کے بخیے ادھیڑتے رہے انہوں نے دھمکی آمیز انداز میں کہا کہ اگر آپ امریکی امدا دسے منہ موڑ کر چین کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں تو آپ ہمیں لکھ کر بھیج دیجئے پاکستان کو امداد دیے بغیر امریکہ بحر اوقیانوس میں غرق نہیں ہو جائے گا ۔ در حقیقت امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتیں امریکہ کی وار انڈسٹریز کمپلیکس کے ہاتھوں یر غمال بنی ہوی ہیں ۔امریکہ تنہا کسی ملک پر حملہ آور نہیں ہوتا وہ اتحادی بناتا اور اس طرح اپنا اسلحہ اور دیگر جنگی سامان فروخت کرتا ہے ۔جس طرح قدرت اللہ شہاب نے ذکر کیا تھا کہ پاکستان میں امریک سفیر نسلاً یہودی اور کسباًکوکا کولا کمپنی کا وائس پریزیڈنٹ تھا ایسا ہی ایک مضمون اردو ڈائجسٹ میں ۱۹۷۰ یا ۱۹۷۱ کے کسی شمارے میں شائع ہوا تھا کہ ہر امریکی صدر کوکاکولا یا پیپسی کولا کا ایجنٹ ہوتا ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ یہودی امریکہ میں گر چہ کم ہیں مگر امریکی معیشیت میں ان کا حصہ بہت زیادہ ہیں ۔یہودیوں کے بارے میں مغربی دانشوروں کے کیا خیالات ہیں جاننے کے لیے http://www.brainyquote.com/quotes/keywords/jews_8.html جیسی کئی ویب سایٹ ہیں جن کا دیکھنا ضروری ہے۔
اب جبکہ خود امریکہ میں حکومت کی دہشتگردانہ پالیسیوں کی مخالفت ہو رہی ہے۔شکاگو میں پچاس فوجیوں نے اپنے میڈل واپس کر دیے ہمارے پاکستانی بھائیوں کو بھی سوچنا چاہئیے کہ استعماری قوتوں نے اپنے ان مہروں کے ساتھ جنہوں نے ان بدیشی آقاوں کی خوشنودی حاسل کرنے کے لیے اپنی قوم اور ملت کے ساتھ غداری کی ، کیا سلوک کیا۔ قرض تو دنیا کے کئے ممالک لیتے ہیں لیکن اپنی غیرت اور حمیت کے بدلے نہیں لیتے ہمارے رہبر ہی ہمارے رہزن تھے جنہوں نے یو ایس ایڈ کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا ۔ورنہ ہم نے جتنا تحفظ ، جتنی سہولیات و مراعات امریکہ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو دی ہیں اگر ہم ان کا معوضہ لیتے تو وہ شائد اس ایڈ سے کہیں زیادہ ہوتا مگر اس معاوضہ کی کاغذی کاروئی ہوتی اور اس کا حساب کتاب دینا پڑتا جو ہمارے رہنماوں کے مفاد میں نہ تھا
مضمون خاصا طویل ہوگیا ۔آخر میں صرف یہی کہوں گا کہ جب تک امریکی سفارتکاروں،ٹھیکیداروں ،کمپنیوں کو مروجہ سفارتی آداب سے بڑھ کر سفارتی اور غیر سفارت مراعات ختم نہیں کریں گے ،ہماری عبادت گاہوں اور اسکولوں میں اسی طرح دہشت گردی ہوتی رہے گی ۔امریکی سفارتکاروں کی غیر قانونی سرگرمیوں پر پابندی لگانا ہو گی ۔امریکہ سے مراعات یافتہ طبقہ ہمیں خوفزدہ کرنے کے لیے کہتا ہے کہ ہم اس طرح امریکی عتاب کو دعوت دے رہے ہیں تو ان کے لیے عرض ہے کہ ایک نہ ایک دن تو ہمیں امریک سے آزادی کی جنگ لڑنی پڑے گی آج نہیں شائد سو سال بعد اس جنگ کے بغیر ہی امریکہ نے دوستی کے روپ میں اپنے زر خرید ،لالچی ،حریص گماشتوں کی مدد سے ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا ؟
آج کل الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں یو ایس ایڈ کو بہت نمایاں کر کے پیش کیا جارہا ہے ۔اس کی اصل حقیقت انہی کو پتہ ہے جو کسی نہ کسی صورت میں اس کے ساتھ منسلک رہے ۔یو ایس ایڈ کی مثال ایسی ہے کہ آپ کسی ادارے میں کسی کو کینٹین یا سپلائی کا ٹھیکہ بلا کسی معاوضے دے دیں اور معاوضے کی رقم کا کچھ حصہ وہ ادارے کے اپنی مرضی کے فلاحی کاموں میں صرف کردے اور اسکی تشہیر کرے تو یہ کچھ مناسب نہیں۔پاکستان نے ابتدا ہی سے جس طرح کی مراعات ،تحفظ ،تجارتی سہولیات امریکہ کو فراہم کیں ہیں یو ایس ایڈ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ابھی حال میں نیٹو کو سپلائی کی جو سہولیات دی تھیں ،ہوائی اڈے ، بلا روک ٹوک امریکیوں کی پاکستان آمد ، ملک کی ہر پالیسی خواہ اس کا تعلق تعلیم سے ہو ،دفاع سے ہو،توانائی سے ہو،خارج پالیسی سے ہو امریکیوں کی منشا و مرضی کو مقدم رکھا جاتا ہے یو ایس ایڈ میں جتنی بد عنوانی ہوتی ہے اس کا شور تو مغربی ذرائع ابلاغ بھی کرتے ہیں ۔ان کے تمام منصوبے پاکستان کے حساس علاقوں ہی میں ہوتے ہیں یو ایس ایڈ کے نام پر پاکستان میں آنے والی گاڑیوں کی کثیر تعداد عملی طور پر کسی اور کے زیر استعمال ہوتی ہیں جبکہ ان کی دیکھ بھال اور ایندھن کا خرچہ یو ایس ایڈ کے فنڈ سے دیا جاتا ہے ۔میں خود ایک ایسے شخص سے ملاہوں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے کرم ایجنسی میں مشنری کاموں میں مصروف تھا ۔ وہ روانی سے پشتو بولتا تھا اسکی زبان،رہن سہن دیکھ کر بلا شبہ اسے اس دور کے لارنس آف عریبیا سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے اور اس طرح کے کردار سینکڑوں میں ہیں او رڈاکٹر شکیل آفریدی جیسے ان کے پاکستانی گماشتے ہزاروں میں ہیں جو چند سکوں کے عوض اپنی قوم اور مادر وطن کی حرمت کا سودا کرتے ہیں۔یہ سلسلہ آزادی کے بعد ہی سے شروع ہو گیا تھا ۔قارئین کے لیے قدرت اللہ شہاب کی کتاب ’’شہاب نامہ‘‘کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں’’روز اول ہی سے پاکستان نے امریکہ کے ساتھاپنی وفاداری اور تابعداری نبھانے میں کوئی دقیقہ فردگذاشت نہیں کیا ۔ہمارے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے روس کا دعوت نامہ پس پشت ڈال کر امریکہ کا دورہ قبول کر لیا ۔گورنر جنرل غلام محمد اور صدر سکندر مرزا کے زمانے میں امریکی مشیر ہمارے کاروبار حکومت پر ٹڈی دل کی طرح چھائے رہے ۔کمانڈر انچیف کی حیثیت سے صدر ایوب نے ہماری افوج کو اس طرز پر منظم اور مسلح کیا کہ ہماری دفاعی شہ رگ ہمیشہ کے لیے امریکہ کی مٹھی میں دب کر رہ گئی روس اور عرب ممالک کی ناراضگی مول لے کر ہم بغداد پیکٹ عرف سیٹو کے رکن بنے تا کہ امریکہ کی خوشنودی ہمارے شامل حال رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ عجیب بات ہے کہ کہ پاکستان کے وجود میں آتے ہی امریکہ کے چند عناصر نے اس کی مخالفت پر کمر باندھ لی تھی بٹوارہ تو ہندوستان کا ہوا تھا لیکن اس کا چرکہ امریکہ کے کچھ یہودی اور یہودی نواز طبقوں نے بری طرح محسوس کیا ۔۱۹۵۰ کی بات ہے کہ ڈھاکہ میں ایک امریکن کاروباری فرم کاایک نمایندہ کچھ عرصہ سے مقیم تھا ،بظاہر اس کا نام Mr Crook تھا لیکن باطن میں بھی وہ اسم بمسمیٰ ثابت ہوا کیونکہ رفتہ رفتہ یہ راز کھلا کہ وہ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کا بیج بونے میں ہمہ تن مصروف تھا ۔پاکستان کی سالمیت کے خلاف اس کی کاروائیوں کا علم ہوتے ہی اسے بلا تاخیر نا پسندیدہ شخص قرار دے کر ملک سے نکال باہر کیا ۔
چند ابل قدر مستثنیات کو چھوڑ کر پاکستان میں وقتاً فوقتاًمتعین ہونے والے امریکی سفیر اور سفارت کار بھی بعض اوقات ایک مشہور کتاب "The Ugly American" کے چلتے پھرتے کردار نظر آتے تھے‘‘ صفحہ ۹۵۹ ، ۹۶۰
’’ صدر ایوب کے اقتدار کے آخری چند برسوں میں یہاں پر امریکہ کے جو سفیر متعین تھے ان کا اسم گرامی مسٹر بی ایچ اوہلرٹMr B H Oelhert Jr تھا ۔یہ صاحب نسلاًیہودی تھے اور کسباً کوکاکولا بنانے والی کمپنی غالباًوائس پریزیڈینٹ تھے ۔۔۔۔ایک روز راولپنڈی کے انٹر کانٹی نینٹل ہوٹلمیں کوئی استقبالیہ تھا ۔وہاں سے فارغ ہو کر ہم لوگ برآمدے میں کھڑے اپنی اپنی گاڑیوں کا انتظار کر رہے تھے ۔مسٹر اوہلرٹ کی گاڑی پہلے آگئیانہوں نے اصرار کر کے اسلام آباد جانے کے لیے مجھے اپنی کار میں بٹھا لیا جتنا عرصہ ہم مری روڈ سے گزرتے رہے ۔وہ پاکستان سڑکوں پر ٹریفک اور پیدل چلنے والوں کے رنگ ڈھنگ پر طرح طرح کی پھبتیاں کستے رہیموٹروں ، بسوں ،رکشاوں اور سکوٹروں کے ہجوم میں بد حواس ہو کر ادھر ادھر بھٹکنے والے راہگیروں کو وہ تمسخر اور تکبر سے Bipeds(دو پایہ مخلوق) کے لقب سے نوازتے تھے۔فیض آباد کے چوک پر پہنچ کر جب ہم شاہراہ اسلام آباد کی طرف مڑنے والے تھے تو مسٹر اوہلرٹ نے اچانک اپنے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ لیے اور اپنا سر گھٹنوں میں دیکر سیٹ پر جھک گئے ۔مجھے یہی خیال آیا کہ ان کی آنکھ میں مچھر یا مکھی گھس گئی اور وہ بیچاے سخت تکلیف میں مبتلا ہیں۔میں نے از راہ ہمدردی ان سے دریافت کیا ’’ آپ خیریت سے تو ہیں ؟‘‘ مسٹر اوہرٹ نے اپنی گاڑی ایک طرف رکوائی اور تیکھے لہجے میں بولے’’ میں بالکل خیریت سے نہیں ۔میں کس طرح خیریت سے ہو سکتا ہوںَوہ دیکھو‘‘انہوں نے باہر کی طرف اشارہ کر کے کہا ’’ وہ دیکھو آنکھوں کا خار۔میں جتنی بار ادھر سے گزرتا ہوں ،میری آنکھوں میں یہ کانٹا بری طرح کھٹکتا ہے ‘‘ میں نے باہر کی طرف نظر دوڑائی تو چوراہے میں ایک بڑا سا اشتہاری بورڈآویزاں تھا جس پر پی آئی اے کا رنگین اشتہار دعوت نظارہ دے رہا تھا اس اشتہار میں درج تھا کہ پی آئی اے سے پرواز کیجیے اور چین دیکھئیے۔۔۔۔۔۔۔۔چند روز بعد میں نے دیکھا کہ فیض آباد چوک سے چین والا بورڈ اٹھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔چین کے حوالے سے مجھے اوہلرٹ کی نازک مزاجی کا ایک اور تجربہ بھی ہوا۔ایک بار راولپنڈی کے گورنمنٹ گرلز کالج میں کوئی امریکی پروفیسر تقریر کرنے آیاہوا تھا ۔۔۔انہوں نے الزام لگایاکہ ترقی پذیر ممالک امریکی امداد ہاتھ پھیلا پھیلا کر مانگتے تو ضرور ہیں لیکن اسے حاصل کرنے کے بعد بھی وہ بدستور اپنی فرسودہ اقدار و ثقافت کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں یہ سرا سر نا شکری کی علامت ہے ۔۔۔۔۔۔۔جو طلباؤطائف پر امریکن یونیورسٹیوں میں جا کر پڑھتے ہیں اور صرف ڈگریاں اور ڈپلومے لے کر واپس آ جاتے ہیں۔وہ ہمارا وقت اور پیسہ ضائع کرتے ہیں ۔ہمیں صرف ایسے طلبا و طالبات کو وظیفوں کا مستحق سمجھنا چاہیے جو ڈگریوں کے علاوہ امریکن اقدار و ثقافت ،امریکن اخلاق و عادات ،امریکن بودو باشکے نقوش بھی اپنے ہمراہ واپس لائیں۔۔۔۔ان لغویات کے جواب میں میں نے پروفیسر صاحب کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ اگر امریکی امداد کو امریکی اقدار و کلچر اپنانے کے ساتھ مشروط کر دیا گیاتو کئی غریب اور خوددار ملک ایسی امداد کو بے نیازی سے ٹھکرادیں گے۔جن شرائط پر پروفیسر صاحب ہمارے طلبا و طالبات کو تعلیمی وظائف دینا چاہتے ہیں وہ ہمیں قابل قبول نہیں اور ہم ایسے وظائف کو بھی دور سے سلام کرتے ہیں ایسی صورتحال میں ہمیں علوم حاصل کرنے کے لیے دوسرے ممالک کی طرف رخ موڑنا ہوگا۔یو بھی ہمارے رسول مقبولﷺکا فرمان ہے کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔
میری تقریر کے کچھ حصے ہمارے کئی اخبارات نے بڑے نمایاں طور پر شائع کیے۔چین والا فرمان رسولﷺپڑھ کر امریکی سفیرمسٹر اوہلرٹ سیخ پا ہو گیا۔ان کا پیغام آیا کہ وہ فوری طور پر میرے دفتر آکر مجھ سے ملنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔بے چینی کے علام میں انہوں نے لمبے لمبے گھونٹ بھر کر کافی کی پیالی ختم کی اور پھر بیس بچیس منٹ تک وہ نہائت تلخ انداز میں میری تقریر کے بخیے ادھیڑتے رہے انہوں نے دھمکی آمیز انداز میں کہا کہ اگر آپ امریکی امدا دسے منہ موڑ کر چین کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں تو آپ ہمیں لکھ کر بھیج دیجئے پاکستان کو امداد دیے بغیر امریکہ بحر اوقیانوس میں غرق نہیں ہو جائے گا ۔ در حقیقت امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتیں امریکہ کی وار انڈسٹریز کمپلیکس کے ہاتھوں یر غمال بنی ہوی ہیں ۔امریکہ تنہا کسی ملک پر حملہ آور نہیں ہوتا وہ اتحادی بناتا اور اس طرح اپنا اسلحہ اور دیگر جنگی سامان فروخت کرتا ہے ۔جس طرح قدرت اللہ شہاب نے ذکر کیا تھا کہ پاکستان میں امریک سفیر نسلاً یہودی اور کسباًکوکا کولا کمپنی کا وائس پریزیڈنٹ تھا ایسا ہی ایک مضمون اردو ڈائجسٹ میں ۱۹۷۰ یا ۱۹۷۱ کے کسی شمارے میں شائع ہوا تھا کہ ہر امریکی صدر کوکاکولا یا پیپسی کولا کا ایجنٹ ہوتا ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ یہودی امریکہ میں گر چہ کم ہیں مگر امریکی معیشیت میں ان کا حصہ بہت زیادہ ہیں ۔یہودیوں کے بارے میں مغربی دانشوروں کے کیا خیالات ہیں جاننے کے لیے http://www.brainyquote.com/quotes/keywords/jews_8.html جیسی کئی ویب سایٹ ہیں جن کا دیکھنا ضروری ہے۔
اب جبکہ خود امریکہ میں حکومت کی دہشتگردانہ پالیسیوں کی مخالفت ہو رہی ہے۔شکاگو میں پچاس فوجیوں نے اپنے میڈل واپس کر دیے ہمارے پاکستانی بھائیوں کو بھی سوچنا چاہئیے کہ استعماری قوتوں نے اپنے ان مہروں کے ساتھ جنہوں نے ان بدیشی آقاوں کی خوشنودی حاسل کرنے کے لیے اپنی قوم اور ملت کے ساتھ غداری کی ، کیا سلوک کیا۔ قرض تو دنیا کے کئے ممالک لیتے ہیں لیکن اپنی غیرت اور حمیت کے بدلے نہیں لیتے ہمارے رہبر ہی ہمارے رہزن تھے جنہوں نے یو ایس ایڈ کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا ۔ورنہ ہم نے جتنا تحفظ ، جتنی سہولیات و مراعات امریکہ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو دی ہیں اگر ہم ان کا معوضہ لیتے تو وہ شائد اس ایڈ سے کہیں زیادہ ہوتا مگر اس معاوضہ کی کاغذی کاروئی ہوتی اور اس کا حساب کتاب دینا پڑتا جو ہمارے رہنماوں کے مفاد میں نہ تھا
مضمون خاصا طویل ہوگیا ۔آخر میں صرف یہی کہوں گا کہ جب تک امریکی سفارتکاروں،ٹھیکیداروں ،کمپنیوں کو مروجہ سفارتی آداب سے بڑھ کر سفارتی اور غیر سفارت مراعات ختم نہیں کریں گے ،ہماری عبادت گاہوں اور اسکولوں میں اسی طرح دہشت گردی ہوتی رہے گی ۔امریکی سفارتکاروں کی غیر قانونی سرگرمیوں پر پابندی لگانا ہو گی ۔امریکہ سے مراعات یافتہ طبقہ ہمیں خوفزدہ کرنے کے لیے کہتا ہے کہ ہم اس طرح امریکی عتاب کو دعوت دے رہے ہیں تو ان کے لیے عرض ہے کہ ایک نہ ایک دن تو ہمیں امریک سے آزادی کی جنگ لڑنی پڑے گی آج نہیں شائد سو سال بعد اس جنگ کے بغیر ہی امریکہ نے دوستی کے روپ میں اپنے زر خرید ،لالچی ،حریص گماشتوں کی مدد سے ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا ؟