یو ایس ایڈ۔۔۔مقاصد اور ہمارا کردار

سید زبیر

محفلین
یو ایس ایڈ۔۔۔مقاصد اور ہمارا کردار
آج کل الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں یو ایس ایڈ کو بہت نمایاں کر کے پیش کیا جارہا ہے ۔اس کی اصل حقیقت انہی کو پتہ ہے جو کسی نہ کسی صورت میں اس کے ساتھ منسلک رہے ۔یو ایس ایڈ کی مثال ایسی ہے کہ آپ کسی ادارے میں کسی کو کینٹین یا سپلائی کا ٹھیکہ بلا کسی معاوضے دے دیں اور معاوضے کی رقم کا کچھ حصہ وہ ادارے کے اپنی مرضی کے فلاحی کاموں میں صرف کردے اور اسکی تشہیر کرے تو یہ کچھ مناسب نہیں۔پاکستان نے ابتدا ہی سے جس طرح کی مراعات ،تحفظ ،تجارتی سہولیات امریکہ کو فراہم کیں ہیں یو ایس ایڈ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ابھی حال میں نیٹو کو سپلائی کی جو سہولیات دی تھیں ،ہوائی اڈے ، بلا روک ٹوک امریکیوں کی پاکستان آمد ، ملک کی ہر پالیسی خواہ اس کا تعلق تعلیم سے ہو ،دفاع سے ہو،توانائی سے ہو،خارج پالیسی سے ہو امریکیوں کی منشا و مرضی کو مقدم رکھا جاتا ہے یو ایس ایڈ میں جتنی بد عنوانی ہوتی ہے اس کا شور تو مغربی ذرائع ابلاغ بھی کرتے ہیں ۔ان کے تمام منصوبے پاکستان کے حساس علاقوں ہی میں ہوتے ہیں یو ایس ایڈ کے نام پر پاکستان میں آنے والی گاڑیوں کی کثیر تعداد عملی طور پر کسی اور کے زیر استعمال ہوتی ہیں جبکہ ان کی دیکھ بھال اور ایندھن کا خرچہ یو ایس ایڈ کے فنڈ سے دیا جاتا ہے ۔میں خود ایک ایسے شخص سے ملاہوں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے کرم ایجنسی میں مشنری کاموں میں مصروف تھا ۔ وہ روانی سے پشتو بولتا تھا اسکی زبان،رہن سہن دیکھ کر بلا شبہ اسے اس دور کے لارنس آف عریبیا سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے اور اس طرح کے کردار سینکڑوں میں ہیں او رڈاکٹر شکیل آفریدی جیسے ان کے پاکستانی گماشتے ہزاروں میں ہیں جو چند سکوں کے عوض اپنی قوم اور مادر وطن کی حرمت کا سودا کرتے ہیں۔یہ سلسلہ آزادی کے بعد ہی سے شروع ہو گیا تھا ۔قارئین کے لیے قدرت اللہ شہاب کی کتاب ’’شہاب نامہ‘‘کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں
’’روز اول ہی سے پاکستان نے امریکہ کے ساتھاپنی وفاداری اور تابعداری نبھانے میں کوئی دقیقہ فردگذاشت نہیں کیا ۔ہمارے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے روس کا دعوت نامہ پس پشت ڈال کر امریکہ کا دورہ قبول کر لیا ۔گورنر جنرل غلام محمد اور صدر سکندر مرزا کے زمانے میں امریکی مشیر ہمارے کاروبار حکومت پر ٹڈی دل کی طرح چھائے رہے ۔کمانڈر انچیف کی حیثیت سے صدر ایوب نے ہماری افوج کو اس طرز پر منظم اور مسلح کیا کہ ہماری دفاعی شہ رگ ہمیشہ کے لیے امریکہ کی مٹھی میں دب کر رہ گئی روس اور عرب ممالک کی ناراضگی مول لے کر ہم بغداد پیکٹ عرف سیٹو کے رکن بنے تا کہ امریکہ کی خوشنودی ہمارے شامل حال رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ عجیب بات ہے کہ کہ پاکستان کے وجود میں آتے ہی امریکہ کے چند عناصر نے اس کی مخالفت پر کمر باندھ لی تھی بٹوارہ تو ہندوستان کا ہوا تھا لیکن اس کا چرکہ امریکہ کے کچھ یہودی اور یہودی نواز طبقوں نے بری طرح محسوس کیا ۔
۱۹۵۰ کی بات ہے کہ ڈھاکہ میں ایک امریکن کاروباری فرم کاایک نمایندہ کچھ عرصہ سے مقیم تھا ،بظاہر اس کا نام Mr Crook تھا لیکن باطن میں بھی وہ اسم بمسمیٰ ثابت ہوا کیونکہ رفتہ رفتہ یہ راز کھلا کہ وہ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کا بیج بونے میں ہمہ تن مصروف تھا ۔پاکستان کی سالمیت کے خلاف اس کی کاروائیوں کا علم ہوتے ہی اسے بلا تاخیر نا پسندیدہ شخص قرار دے کر ملک سے نکال باہر کیا ۔
چند ابل قدر مستثنیات کو چھوڑ کر پاکستان میں وقتاً فوقتاًمتعین ہونے والے امریکی سفیر اور سفارت کار بھی بعض اوقات ایک مشہور کتاب "
The Ugly American" کے چلتے پھرتے کردار نظر آتے تھے‘‘ صفحہ ۹۵۹ ، ۹۶۰
’’ صدر ایوب کے اقتدار کے آخری چند برسوں میں یہاں پر امریکہ کے جو سفیر متعین تھے ان کا اسم گرامی مسٹر بی ایچ اوہلرٹ
Mr B H Oelhert Jr تھا ۔یہ صاحب نسلاًیہودی تھے اور کسباً کوکاکولا بنانے والی کمپنی غالباًوائس پریزیڈینٹ تھے ۔۔۔۔ایک روز راولپنڈی کے انٹر کانٹی نینٹل ہوٹلمیں کوئی استقبالیہ تھا ۔وہاں سے فارغ ہو کر ہم لوگ برآمدے میں کھڑے اپنی اپنی گاڑیوں کا انتظار کر رہے تھے ۔مسٹر اوہلرٹ کی گاڑی پہلے آگئیانہوں نے اصرار کر کے اسلام آباد جانے کے لیے مجھے اپنی کار میں بٹھا لیا جتنا عرصہ ہم مری روڈ سے گزرتے رہے ۔وہ پاکستان سڑکوں پر ٹریفک اور پیدل چلنے والوں کے رنگ ڈھنگ پر طرح طرح کی پھبتیاں کستے رہیموٹروں ، بسوں ،رکشاوں اور سکوٹروں کے ہجوم میں بد حواس ہو کر ادھر ادھر بھٹکنے والے راہگیروں کو وہ تمسخر اور تکبر سے Bipeds(دو پایہ مخلوق) کے لقب سے نوازتے تھے۔فیض آباد کے چوک پر پہنچ کر جب ہم شاہراہ اسلام آباد کی طرف مڑنے والے تھے تو مسٹر اوہلرٹ نے اچانک اپنے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ لیے اور اپنا سر گھٹنوں میں دیکر سیٹ پر جھک گئے ۔مجھے یہی خیال آیا کہ ان کی آنکھ میں مچھر یا مکھی گھس گئی اور وہ بیچاے سخت تکلیف میں مبتلا ہیں۔میں نے از راہ ہمدردی ان سے دریافت کیا ’’ آپ خیریت سے تو ہیں ؟‘‘ مسٹر اوہرٹ نے اپنی گاڑی ایک طرف رکوائی اور تیکھے لہجے میں بولے’’ میں بالکل خیریت سے نہیں ۔میں کس طرح خیریت سے ہو سکتا ہوںَوہ دیکھو‘‘انہوں نے باہر کی طرف اشارہ کر کے کہا ’’ وہ دیکھو آنکھوں کا خار۔میں جتنی بار ادھر سے گزرتا ہوں ،میری آنکھوں میں یہ کانٹا بری طرح کھٹکتا ہے ‘‘ میں نے باہر کی طرف نظر دوڑائی تو چوراہے میں ایک بڑا سا اشتہاری بورڈآویزاں تھا جس پر پی آئی اے کا رنگین اشتہار دعوت نظارہ دے رہا تھا اس اشتہار میں درج تھا کہ پی آئی اے سے پرواز کیجیے اور چین دیکھئیے۔۔۔۔۔۔۔۔چند روز بعد میں نے دیکھا کہ فیض آباد چوک سے چین والا بورڈ اٹھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔چین کے حوالے سے مجھے اوہلرٹ کی نازک مزاجی کا ایک اور تجربہ بھی ہوا۔ایک بار راولپنڈی کے گورنمنٹ گرلز کالج میں کوئی امریکی پروفیسر تقریر کرنے آیاہوا تھا ۔۔۔انہوں نے الزام لگایاکہ ترقی پذیر ممالک امریکی امداد ہاتھ پھیلا پھیلا کر مانگتے تو ضرور ہیں لیکن اسے حاصل کرنے کے بعد بھی وہ بدستور اپنی فرسودہ اقدار و ثقافت کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں یہ سرا سر نا شکری کی علامت ہے ۔۔۔۔۔۔۔جو طلباؤطائف پر امریکن یونیورسٹیوں میں جا کر پڑھتے ہیں اور صرف ڈگریاں اور ڈپلومے لے کر واپس آ جاتے ہیں۔وہ ہمارا وقت اور پیسہ ضائع کرتے ہیں ۔ہمیں صرف ایسے طلبا و طالبات کو وظیفوں کا مستحق سمجھنا چاہیے جو ڈگریوں کے علاوہ امریکن اقدار و ثقافت ،امریکن اخلاق و عادات ،امریکن بودو باشکے نقوش بھی اپنے ہمراہ واپس لائیں۔۔۔۔ان لغویات کے جواب میں میں نے پروفیسر صاحب کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ اگر امریکی امداد کو امریکی اقدار و کلچر اپنانے کے ساتھ مشروط کر دیا گیاتو کئی غریب اور خوددار ملک ایسی امداد کو بے نیازی سے ٹھکرادیں گے۔جن شرائط پر پروفیسر صاحب ہمارے طلبا و طالبات کو تعلیمی وظائف دینا چاہتے ہیں وہ ہمیں قابل قبول نہیں اور ہم ایسے وظائف کو بھی دور سے سلام کرتے ہیں ایسی صورتحال میں ہمیں علوم حاصل کرنے کے لیے دوسرے ممالک کی طرف رخ موڑنا ہوگا۔یو بھی ہمارے رسول مقبولﷺکا فرمان ہے کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔
میری تقریر کے کچھ حصے ہمارے کئی اخبارات نے بڑے نمایاں طور پر شائع کیے۔چین والا فرمان رسولﷺپڑھ کر امریکی سفیرمسٹر اوہلرٹ سیخ پا ہو گیا۔ان کا پیغام آیا کہ وہ فوری طور پر میرے دفتر آکر مجھ سے ملنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔بے چینی کے علام میں انہوں نے لمبے لمبے گھونٹ بھر کر کافی کی پیالی ختم کی اور پھر بیس بچیس منٹ تک وہ نہائت تلخ انداز میں میری تقریر کے بخیے ادھیڑتے رہے انہوں نے دھمکی آمیز انداز میں کہا کہ اگر آپ امریکی امدا دسے منہ موڑ کر چین کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں تو آپ ہمیں لکھ کر بھیج دیجئے پاکستان کو امداد دیے بغیر امریکہ بحر اوقیانوس میں غرق نہیں ہو جائے گا ۔
در حقیقت امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتیں امریکہ کی وار انڈسٹریز کمپلیکس کے ہاتھوں یر غمال بنی ہوی ہیں ۔امریکہ تنہا کسی ملک پر حملہ آور نہیں ہوتا وہ اتحادی بناتا اور اس طرح اپنا اسلحہ اور دیگر جنگی سامان فروخت کرتا ہے ۔جس طرح قدرت اللہ شہاب نے ذکر کیا تھا کہ پاکستان میں امریک سفیر نسلاً یہودی اور کسباًکوکا کولا کمپنی کا وائس پریزیڈنٹ تھا ایسا ہی ایک مضمون اردو ڈائجسٹ میں ۱۹۷۰ یا ۱۹۷۱ کے کسی شمارے میں شائع ہوا تھا کہ ہر امریکی صدر کوکاکولا یا پیپسی کولا کا ایجنٹ ہوتا ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ یہودی امریکہ میں گر چہ کم ہیں مگر امریکی معیشیت میں ان کا حصہ بہت زیادہ ہیں ۔یہودیوں کے بارے میں مغربی دانشوروں کے کیا خیالات ہیں جاننے کے لیے http://www.brainyquote.com/quotes/keywords/jews_8.html جیسی کئی ویب سایٹ ہیں جن کا دیکھنا ضروری ہے۔
اب جبکہ خود امریکہ میں حکومت کی دہشتگردانہ پالیسیوں کی مخالفت ہو رہی ہے۔شکاگو میں پچاس فوجیوں نے اپنے میڈل واپس کر دیے ہمارے پاکستانی بھائیوں کو بھی سوچنا چاہئیے کہ استعماری قوتوں نے اپنے ان مہروں کے ساتھ جنہوں نے ان بدیشی آقاوں کی خوشنودی حاسل کرنے کے لیے اپنی قوم اور ملت کے ساتھ غداری کی ، کیا سلوک کیا۔ قرض تو دنیا کے کئے ممالک لیتے ہیں لیکن اپنی غیرت اور حمیت کے بدلے نہیں لیتے ہمارے رہبر ہی ہمارے رہزن تھے جنہوں نے یو ایس ایڈ کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا ۔ورنہ ہم نے جتنا تحفظ ، جتنی سہولیات و مراعات امریکہ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو دی ہیں اگر ہم ان کا معوضہ لیتے تو وہ شائد اس ایڈ سے کہیں زیادہ ہوتا مگر اس معاوضہ کی کاغذی کاروئی ہوتی اور اس کا حساب کتاب دینا پڑتا جو ہمارے رہنماوں کے مفاد میں نہ تھا
مضمون خاصا طویل ہوگیا ۔آخر میں صرف یہی کہوں گا کہ جب تک امریکی سفارتکاروں،ٹھیکیداروں ،کمپنیوں کو مروجہ سفارتی آداب سے بڑھ کر سفارتی اور غیر سفارت مراعات ختم نہیں کریں گے ،ہماری عبادت گاہوں اور اسکولوں میں اسی طرح دہشت گردی ہوتی رہے گی ۔امریکی سفارتکاروں کی غیر قانونی سرگرمیوں پر پابندی لگانا ہو گی ۔امریکہ سے مراعات یافتہ طبقہ ہمیں خوفزدہ کرنے کے لیے کہتا ہے کہ ہم اس طرح امریکی عتاب کو دعوت دے رہے ہیں تو ان کے لیے عرض ہے کہ ایک نہ ایک دن تو ہمیں امریک سے آزادی کی جنگ لڑنی پڑے گی آج نہیں شائد سو سال بعد اس جنگ کے بغیر ہی امریکہ نے دوستی کے روپ میں اپنے زر خرید ،لالچی ،حریص گماشتوں کی مدد سے ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا ؟
 

حسینی

محفلین
جی زبیر بھائی۔ میں آپ سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔
یو ایس ایڈ کی مثال یوں ہے جیسے اقبا ل نے کہا تھا:
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
ظاہرا بڑے اچھے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ مثلا سکالر شپ دینا، نہریں بنانا، پل بنانا وغیرہ۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ امریکہ بہادر کیا ہمارے اتنے ہم درد ہوگئے ہیں کہ اتنے پیسے مفت میں ہمیں دیں۔ ان منصوبوں کے پیچھے کیا مقاصد مطلوب ہیں ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
میں خود جب اپنے شہر سکردو گیا تو معلوم ہوا کہ وہاں تو ہر دوسری سڑک پر یو ایس ایڈ کا بورڈ لگا ہوا ہے اور عوام مختلف طریقوں سے یو ایس ایڈ کے پیسے بٹور رہے ہیں۔ ایک دفعہ توحد ہوگئی کہ اک این جی او کوئی پروگرام کر رہا تھا، اور اسٹیج کے پیچھے دیوار پر بجائے پاکستانی پرچم کے امریکی پرچم لگایا ہوا تھا۔ اس سے زیادہ افسوس کی بات کیا ہوگی؟؟
سب سوچیں!​
 
السلام علیکم میرے بہت عمدہ اور معلومات مضمون ہے میں ایک اخبار کیلئے ایک رپورٹ بنانا چاہتاہوں جس کیلئے آپ کے مضمون نے بہت ہی معلومات دی اگر آپ یا اور مجھے قدرت اللہ شہاب کے بارے معلومات فراہم کردے تو مہربانی ہوگی
کہ شہاب صاحب کون تھے اور کن کن موضوعات پر انہوں لکھنے کی کوشش کی ہے؟
 
آپ یا اور مجھے قدرت اللہ شہاب کے بارے معلومات فراہم کردے تو مہربانی ہوگی
کہ شہاب صاحب کون تھے اور کن کن موضوعات پر انہوں لکھنے کی کوشش کی ہے؟
قدرت اللہ شہاب عشقِ رسول میں سرشارایک نیک صالح انسان تھے جنہیں پاکستان اور امتِ مسلمہ کی خدمت کیلئے منتخب کرلیا گیا تھا۔ ایک بہت خوبصورت شخصیت، روحانیت کی بلندیوں پر فائز ایک قابل بیوروکریٹ تھے اور پاکستان کے مختلف اعلیٰ عہدوں پر انہیں کام کرنے کا موقع ملا۔ ادب سے بھی بہت لگاؤ تھا اور افسانہ نگاری بھی کی۔ لیکن انکو زیادہ شہرت انکی خودنوشت سوانح عمری کی وجہ سے بھی حاصل ہوئی جو انکی وفات کے بعد مارکیٹ میں آیا اور اسی کا نام ہے شہاب نامہ۔ پاکستان کی بیسٹ سیلر بکس میں سے ایک بلکہ شائد سرِ فہرست ہے۔۔۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميں يہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کالم نويس افواہوں اور تاثرات پر مبنی اپنی ذاتی رائے دے رہے ہيں يا اپنی سوچ کی وضاحت کے ليے کچھ شواہد بھی ان کے پاس ہيں۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ اپنی مخصوص رائے کو پرزور انداز ميں پيش کرنے کے ليے کالم ميں مفروضوں، جذباتيت اور سنی سنائ کہانيوں اور حکايات کی کوئ کمی نہيں ہے۔ يہ بالکل واضح ہے کہ لکھاری يو ايس ايڈ کے اغراض و مقاصد اور اس کے دائرہ کار اور حدود سے زيادہ واقفيت نہيں رکھتے۔

امريکی امداد کا مقصد ذرائع اور وسائل کا اشتراک اور ترسيل ہے جس کی بدولت ممالک کے مابين مضبوط تعلقات استوار کيے جا سکيں۔ عالمی سطح پر دو ممالک کے درميان تعلقات کی نوعيت اس بات کی غماز ہوتی ہے کہ باہمی مفاد کے ايسے پروگرام اور مقاصد پر اتفاق رائے کیا جائے جس سے دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ پہنچے۔ اسی تناظر ميں وہی روابط برقرار رہ سکتے ہيں جس ميں دونوں ممالک کا مفاد شامل ہو۔ دنيا ميں آپ کے جتنے دوست ہوں گے، عوام کے معيار زندگی کو بہتر کرنے کے اتنے ہی زيادہ مواقع آپ کے پاس ہوں گے۔ اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے امداد کے عالمی پروگرامز دو ممالک کے عوام کے مفاد اور بہتر زندگی کے مواقع فراہم کرنے کے ليے ايک دوسرے کی مشاورت سے تشکيل ديے جاتے ہيں۔

يہ کيسی منطق ہے کہ مقامی آبادی کے لیے شروع کيےجانے والے ترقياتی منصوبے جس ميں ان کی اپنی ذمہ داری بھی شامل ہو وہ پاکستان کی رياست کو کمزور کرنے کا سبب بن سکتے ہيں؟

دلچسپ بات يہ ہے کہ کالم نويس کے مطابق يو ايس ايڈ کے منصوبوں کا محور پاکستان کے وہ علاقے ہيں جہاں دہشت گردی پروان چڑھ رہی ہے۔ يہ بات بالکل غلط اور بے بنياد ہے۔ يو ايس ايڈ کے منصوبے ميزبان ملک کے عوام، متعلقہ عہديداروں اور مقامی حکومتوں کی جانب سے موصول ہونے والی درخواستوں، باہمی تعاون اور ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکيل ديے جاتے ہيں۔ مقامی سياسی صورت حال اور محل وقوع فيصلہ سازی کے عمل پر اثرانداز تو ضرور ہو سکتے ہيں ليکن محض انھی عوامل کو بنياد بنا کر فيصلے نہيں کيے جاتے۔

اپنی بات کی وضاحت کے ليے ملک کے مختلف حصوں ميں يو ايس ايڈ کے تعاون سے صرف توانائ کے شعبے ميں جاری مختلف منصوبوں کے حوالے سے ايک نقشے کا لنک پيش ہے۔ آپ واضح طور پر ديکھ سکتے ہيں کہ ملک کے کسی ايک مخصوص حصے کو توجہ کا مرکز نہيں بنايا گيا ہے۔ اسی طرح تعليم، صحت اور تعمير و ترقی سے متعلق بے شمار منصوبے يو ايس ايڈ کے تعاون سے ملک کے طول و عرض ميں جاری ہيں۔ ان جاری منصوبوں کے مثبت اثرات سے پاکستان کے عام افراد کو فوائد حاصل ہوں گے جس سے يہ غلط تاثر بھی ذائل ہو جاتا ہے کہ يو ايس ايڈ سے صرف پاکستان کے مخصوص طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد ہی مستفيد ہو سکتے ہيں۔

http://www.keepandshare.com/doc/2083235/07-19-2010-u-s-government-signature-energy-program-for-pakistan-phases-i-ii-pdf-july-20-20?da=y&dnad=y

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

سید زبیر

محفلین
@ٍFawad
برادرم فوا د آپ نے کہا​
"کالم ميں مفروضوں، جذباتيت اور سنی سنائ کہانيوں اور حکايات کی کوئ کمی نہيں ہے۔"
یہ جو کچہ بتایا گیا وہ سب ٹھوس حقائق ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ آپ امریکی عینک سے دیکھ رہے ہیں اور میں پاکستانی عینک سے ۔اگر آپ نے اپنے میڈیا اور سی آئی اے کے حقائق کا پول دیکھنا ہے اور دیکھنا چاہتے ہیں کہ عراق ،ویت نام ،سوڈان میں آپ نے کیا کہا تھا اور حقیقت کیا تھی تو ان لنک پر آپ کو اپنے ہی ہمدردوں کی رائے مل جائے گی۔​
www.globalresearch.ca/an-empire-of-lies-the-cia-and-the.../23432
پھر آپ نے کہا "امريکی امداد کا مقصد ذرائع اور وسائل کا اشتراک اور ترسيل ہے جس کی بدولت ممالک کے مابين مضبوط تعلقات استوار کيے جا سکيں۔ عالمی سطح پر دو ممالک کے درميان تعلقات کی نوعيت اس بات کی غماز ہوتی ہے کہ باہمی مفاد کے ايسے پروگرام اور مقاصد پر اتفاق رائے کیا جائے جس سے دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ پہنچے۔"
میرے بھائی ہم پاکستانیوں کے نقطہ نظر سے امریک امدا دکا مقصد اپنے پٹھووں کی مدد سے دنیا کے ذرائع اور وسائل پر قبضہ کرناہے جس سے ممالک کے عوام کی بجائے پٹھو حکومتوں کا فائدہ ہو​
پھر آپ نے کہا "يہ کيسی منطق ہے کہ مقامی آبادی کے لیے شروع کيےجانے والے ترقياتی منصوبے جس ميں ان کی اپنی ذمہ داری بھی شامل ہو وہ پاکستان کی رياست کو کمزور کرنے کا سبب بن سکتے ہيں؟"
یہ اس طرح کہ امریکی امداد دے کر وہاں کی تہذیب روایات ثقافت اور تاریخ سمیت سب کو متاثر کرتے ہیں​
آپ کا اگلا نکتہ تھا کہ"يو ايس ايڈ کے منصوبے ميزبان ملک کے عوام، متعلقہ عہديداروں اور مقامی حکومتوں کی جانب سے موصول ہونے والی درخواستوں، باہمی تعاون اور ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکيل ديے جاتے ہيں۔"
یہ متعلقہ عہدیدار اور مقامی حکومتیں پٹھو ہوتے ہیں جو صرف امریکی مفاد کی خاطر کام کرتے ہیں۔​
آپ نے یہ بھی کہا کہ "اپنی بات کی وضاحت کے ليے ملک کے مختلف حصوں ميں يو ايس ايڈ کے تعاون سے صرف توانائ کے شعبے ميں جاری مختلف منصوبوں کے حوالے سے ايک نقشے کا لنک پيش ہے۔"
نری بکواس ، یہ تمام منصوبے وسائل پر قبضہ کرنے کے طریقے ہیں۔​
ہم پاکستانی یہ چاہتے ہیں کہ یو ایس ایڈ کے تمام ادارے پاکستان میں بند کردیے جائیں۔ پاکستان میں امریکہ کو جو مراعات حاصل ہیں ان سب کا معاوضہ ملنا چاہئیے ، پاکستان کی داخلہ ،خارجہ ، معاشی ، تجارتی پالیسیاں امریکی نہیں پاکستانی عوم کی خواہشوں کے مطابق ہوں۔ہم آزادانہ طور پر ایران سمیت دیگر ممالک سے تجارت کر سکیں اور اپنی توانائی کے بحران پر قابو پا سکیں۔​
اور یہ سب اسی وقت ممکن ہو سکے جب پاکستانی امریکہ کے پٹھووں سے نجات حاصل کر لے گا ۔یقینا ان کا انجام بہی بہادر شاہ ظفر ، مصر کے انور سادات ،شہنشاہ ایران ، ذوالفقار علی بھٹو ، ضیا الحق ، سے مختلف نہ ہوگا ۔ پاکستان اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک کہ ایک بھی امریکی اس خطہ میں موجود ہے۔ جلد یا بدیر اس کو یہاں سے جانا پڑے گا ۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
يہ نقطہ نظر اور دليل کہ صرف پاکستان کے امراء ہی امريکہ اور پاکستان کے اسٹريجک تعلقات سے فيض ياب ہوتے ہيں، نا صرف يہ کہ بالکل غلط ہے بلکہ دو ممالک کے مابين تعلقات کے طے شدہ عالمی نظام کے بھی برخلاف ہے۔ امريکی حکومت کو کيا ضرورت ہے کہ وہ کئ بلين ڈالرز کے علاوہ افرادی قوت اور ديگر وسائل بھی طويل مدت کے ترقياتی منصوبوں کی مد ميں کھپا دے اگر اس کا مقصد اور ہدف صرف اس چھوٹے سے گروہ پر اثر حاصل کرنا ہو جو اس تھيوری کے ماننے والوں کے مطابق پہلے ہی امريکی غلام اور کٹھپتلياں ہيں۔
ميں اس تھيوری کی منطق سمجھنے سے قاصر ہوں۔

اس ضمن ميں میری گزارش ہے کہ امريکی حکومت کی مدد سے کچھ جاری منصوبوں اور اقدامات پر تفصيلی نظر ڈاليں اور پھر يہ فيصلہ خود کريں کہ کيا يہ الزام لگانا انصاف پر مبنی ہے کہ امريکی امداد کا فائدہ صرف پاکستان کے امير طبقے تک محدود ہے؟

کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہیں کہ تمام تر سفارتی روابط منقطع کر کے اور تمام جاری ترقياتی منصوبوں کو ختم کر کے دونوں ممالک کے عوام کے لیے ترقی کے مواقعوں اور سہوليات کا خاتمہ ہی وہ بہترين طريقہ کار ہے جس سے دونوں ممالک کے عوام کے مابين خليج کو دور کيا جا سکتا ہے ؟

آپ کے خيال ميں جب پاکستان کی منتخب جمہوری حکومت، متعدد حکومتی ادارے اور عوامی بہبود پر مامور مختلف نجی تنظيميں سيلاب، زلزلے اور ديگر قدرتی آفات سے نبردآزما ہونے کے ليے امريکی حکومت سے مدد کی درخواست کرتی ہيں تو اس کے جواب ميں ہمارا کيا ردعمل ہونا چاہيے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

حسینی

محفلین
بھائی جی۔ سوچنے کی بات تو یہی ہے کہ وہ امریکہ(گیدڑ) کہ جو خود بہت بڑے ا قتصادی بحران کا شکار ہے اس کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آگئے کہ وہ کروڑھا ڈالرز (غریبوں) پر خرچ کریں؟؟
کیا امریکہ میں کوئی غریب نہیں ؟؟ کہ پہلے ان غریبوں کا بھلا ہو جائے۔
یقینا اتنے پیسے خرچ کرنا مفت میں نہیں ہے۔ امریکی مزموم عزائم ان کے پیچھے کار فرما ہیں۔
امریکہ کی خواہش یہی ہے کہ کسی طرح سے پاکستانی عوام اس شیطان بزرگ کو مردہ باد کہنے سے باز آئیں۔ لیکن یہ ان کی بھول ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔
گلگت بلتستان کی مثال لیجیے۔ یہاں جب سے یو ایس ایڈآیا ہے دہشت گردی اور مذہبی منافرت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
 

سید زبیر

محفلین
@ٍFawad
آ پ نے اپنے مراسلے میں تین نکات اٹھائے ہیں پہلا نکتہ آپ کا ہے کہ​
"امريکی حکومت کو کيا ضرورت ہے کہ وہ کئ بلين ڈالرز کے علاوہ افرادی قوت اور ديگر وسائل بھی طويل مدت کے ترقياتی منصوبوں کی مد ميں کھپا دے ؟"
امریکی حکومت کے پاس واقعی فالتو پیسے نہیں جو خرچ کرے وہ تو خود معاشی بدحالی کا شکار ہے اور مستقبل میں تو اس کے بڑھنے کا اندیشہ ہے اسی خاطر وہ دیگر ممالک کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے خرچ کررہا ہے کچھ خرچ کرے گا تو ملے گا ۔ مفت کی سرمایہ کاری تو کوئی نہیں کرتا ثواب کمانے کے اور بھی طریقے ہیں​
دوسرا نکتہ :
"کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہیں کہ تمام تر سفارتی روابط منقطع کر کے اور تمام جاری ترقياتی منصوبوں کو ختم کر کے دونوں ممالک کے عوام کے لیے ترقی کے مواقعوں اور سہوليات کا خاتمہ ہی وہ بہترين طريقہ کار ہے جس سے دونوں ممالک کے عوام کے مابين خليج کو دور کيا جا سکتا ہے ؟"
اعتدال کا راستہ بھی ہے ۔انتہا پسندی کیطرف کیوں جاتے ہیں کہ یا دوستی نما غلامی یا دشمنی ۔ سفارتی آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ، اندرونی معاملات اور خارجہ پالیسی میں کسی قسم کی مداخلت کیے بغیر چین ، جاپان ، کی طرح مہذب انداز میں برابری کی سطح پر دوستی قائم رہ سکتی ہے بلکہ ہونی چا ہئیے یہ استعمارانہ ، بربر سوچ کا انداز بدلنا ہوگا۔​
تیسرا نکتہ:
"آپ کے خيال ميں جب پاکستان کی منتخب جمہوری حکومت، متعدد حکومتی ادارے اور عوامی بہبود پر مامور مختلف نجی تنظيميں سيلاب، زلزلے اور ديگر قدرتی آفات سے نبردآزما ہونے کے ليے امريکی حکومت سے مدد کی درخواست کرتی ہيں تو اس کے جواب ميں ہمارا کيا ردعمل ہونا چاہيے؟"
آپ کا رد عمل وہی ہونا چاہئیے جو انسانیت کا رد عمل ہوتا ہے پاکستانی قوم کو امریکی قوم سے ای طرح محبت ہے جس طرح امریکی قوم کو پاکستانیوں سے ۔ گلہ صرف اس بات کا ہے کہ امریکی حکومت یہودیوں کے زیر اثر اور استعمارانہ ، ظالمانہ ، جابرانہ سوچ کی حامل ہے اسی وجہ سے وہ دنیا بھر میں نفر ت کی نگا ہ سے دیکھی جاتی ہے ۔ اگر وہ جیو اور جینے دو ، باہمی احترام کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتی تو دنیا سے اسے محبت ملتی ۔امریکی حکومت کا بویا بالاخر امریکی عوام کو کاٹنا پڑے گا​
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


کچھ رائے دہندگان نے يہ بالکل درست کہا ہے کہ امريکی حکومت اپنے شہريوں کے مفادات کو مقدم سمجھتی ہے اور يہی ان کے نزديک سب سے اہم مقصد ہے۔ دنيا ميں کسی بھی ملک کی طرح امريکی حکومتی عہديداروں کو بھی بحثيت مجموعی اس بات کا مينڈيٹ ديا جاتا ہے کہ وہ اپنے شہريوں کے مفادات کا تحفظ کريں، ان کی زندگيوں کو محفوظ بنائيں اور عالمی سطح پر ترقی کے مواقع فراہم کريں۔ يہ نا تو کوئ خفيہ ايجنڈا ہے اور نا ہی کو پيچيدہ سازش۔ يہ عالمی سطح پر ايک تسليم شدہ حقيقت ہے کہ منتخب حکومتيں اپنے لوگوں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں۔

ليکن اس ضمن ميں ميرا ايک سوال ہے۔ امريکی عوام کے مفادات کے ليے بہتر کيا ہے؟ زيادہ سے سے زيادہ دوست بنانا جو مختلف سطحوں پر رائج خليج کو پار کر کے ايسے مواقع پيدا کريں جس سے باہم مفادات کے معاملات کو حل کيا جا سکے يا دانستہ امريکہ سے نفرت کو پروان چڑھا کر زيادہ سے زيادہ دشمن تيار کرنا بہتر لائحہ عمل ہے؟

کونسا طريقہ کار دانش کے اصولوں سے ميل کھاتا ہے اور امريکی مفادات کے تحفظ کے ہمارے تسليم شدہ مقصد کے قريب تر لے کے جا سکتا ہے؟

اس ميں کوئ شک نہيں کہ افغانستان ميں اپنے مقاصد کے حصول کے ليے امريکہ ايک فعال، مستحکم اور مضبوط پاکستان کی ضرورت کو اچھی طرح سے سمجھتا ہے۔ يہ بھی واضح رہے کہ ان مقاصد کا حصول پاکستان کے بھی بہترين مفاد ميں ہے۔ اس کے علاوہ امريکی حکومت اس خطے اور دنيا ميں پاکستان کی ايک قد آور اور اہم مسلم ملک کی حيثيت کو بھی تسليم کرتی ہے۔ پاکستان کا استحکام اور اس کا دفاع نا صرف پاکستان بلکہ خطے اور دنيا کے بہترين مفاد ميں ہے۔ امريکہ اور عالمی برادری يہ توقع رکھتی ہے کہ حکومت پاکستان اپنی سرحدوں کو محفوظ بنا کر پورے ملک پر اپنی رٹ قائم کرے۔

امريکہ پاکستان ميں ايک منتخب جمہوری حکومت کو کامياب ديکھنے کا خواہ ہے جو نہ صرف ضروريات زندگی کی بنيادی سہولتيں فراہم کرے بلکہ اپنی رٹ بھی قائم کرے۔ اس ضمن میں امريکہ نے ترقياتی منصوبوں کے ضمن ميں کئ سالوں سے مسلسل امداد دی ہے۔ انتہا پسندی کی وہ سوچ اور عفريت جس نے دنيا کے بڑے حصے کو متاثر کيا ہے اس کے خاتمے کے لیے يہ امر انتہائ اہم ہے۔

ميں پھر اپنے سوال کی جانب واپس آؤں گا کہ اس حقيقت کو سامنے رکھتے ہوئے کہ امريکہ اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے اور دنيا بھر ميں امريکيوں کی جانوں کو تحفظ دينے کے ليے طويل المدت بنيادوں پر مضبوط اسٹريجک اتحاد تشکيل دينے کا خواہاں ہے اور اسی ضمن ميں کئ دہائيوں سے پاکستان کو امداد بھی فراہم کر رہا ہے تو کيا اس تناظر ميں آپ امريکہ کو دوست گردانتے ہيں يا دشمن؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

arifkarim

معطل
خود ہمسے کامیاب ملک چلایا نہیں جاتا اور جو اکا دکا یہودی یہاں آگئے ہیں، اپنی ناکامیوں کا سارا الزام انپر لگا دیا جاتا ہے!
 

متلاشی

محفلین
قدرت اللہ شہاب عشقِ رسول میں سرشارایک نیک صالح انسان تھے جنہیں پاکستان اور امتِ مسلمہ کی خدمت کیلئے منتخب کرلیا گیا تھا۔ ایک بہت خوبصورت شخصیت، روحانیت کی بلندیوں پر فائز ایک قابل بیوروکریٹ تھے اور پاکستان کے مختلف اعلیٰ عہدوں پر انہیں کام کرنے کا موقع ملا۔ ادب سے بھی بہت لگاؤ تھا اور افسانہ نگاری بھی کی۔ لیکن انکو زیادہ شہرت انکی خودنوشت سوانح عمری کی وجہ سے بھی حاصل ہوئی جو انکی وفات کے بعد مارکیٹ میں آیا اور اسی کا نام ہے شہاب نامہ۔ پاکستان کی بیسٹ سیلر بکس میں سے ایک بلکہ شائد سرِ فہرست ہے۔۔۔
بالکل درست فرمایا محمود صاحب۔۔۔۔!
میں دو تین دفعہ شہاب نامہ پڑھ چکا ہوں ۔۔۔۔!
خاص طور پر ان کا افسانہ ’’ماں جی ‘‘ بہت خوب ہے ۔۔۔۔!
 
Top