یُونہی تو شاخ سے پتے گِرا نہیں کرتے ۔ محسن بھوپالی

شیزان

لائبریرین
یُونہی تو شاخ سے پتے گِرا نہیں کرتے
بچھڑ کے لوگ زیادہ جیا نہیں کرتے
جو آنے والے ہیں موسم، اُنہیں شمار میں رکھ
جو دن گزر گئے، اُن کو گنا نہیں کرتے
نہ دیکھا جان کے اُس نے ، کوئی سبَب ہوگا
اِسی خیال سے ہم دل بُرا نہیں کرتے
وہ مل گیا ہے تو کیا قصۂ فِراق کہیں
خُوشی کے لمحوں کو یُوں بے مزا نہیں کرتے
نِشاطِ قُرب، غم ہجر کے عوض مت مانگ
دُعا کے نام پہ یُوں بددُعا نہیں کرتے
مُنافقت پہ جنہیں اِختیار حاصل ہے
وہ عرض کرتے ہیں ، تجھ سے گِلہ نہیں کرتے
ہمارے قتل پہ محسن یہ پیش و پس کیسی
ہم ایسے لوگ طلب خُون بہا نہیں کرتے

محسن بھوپالی



"گردِ مُسافت" سے انتخاب
 

فاتح

لائبریرین
واہ واہ کیا خوب غزل ہے محسن بھوپالی کی۔ شکریہ شیزان صاحب۔
مطلع کے مصرع ثانی میں "بچھڑ کر" کی بجائے "بچھڑ کے" ہو گا۔
 
Top