نیرنگ خیال
لائبریرین
شہرِ اقتدار سے شہر زندہ دلان بسلسلہ روزگار منتقلی نے مجھے شب کا مسافر بنا دیا تھا۔ اور اس شاہراہ پر میرے ساتھ بہت کم ہی مسافر تھے۔ یوں سمجھیے ، راقم القصورہی ان اولیں لوگوں میں سے تھا جنہوں نے ادارہ مذکورہ میں شب بیداری کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ اور سفرِ شب کے رموز و فوائد آشکار کیے۔ طلب سچی اور راہ سیدھی ہو تو کارواں بنتے دیر کب لگتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے نوجوان شب بیداری کے اس سفر میں ہمسفر بننے لگے۔ رات کو دن کا سماں رہنے لگا۔ انہی دنوں میری ملاقات خواجہ صاحب سے ہوگئی۔" خواجہ" لفظ سے میری عقیدت کوئی ڈھکی چھپی نہیں۔بزرگان دین کے ناموں کے ساتھ لگے اس لفظ نے ذہن پر ایک ان دیکھی سی چادر تان رکھی تھی۔ پردہ تصور اس لفظ سے ہمیشہ سادگی و انکساری کا پیکر ابھرتا۔ چشم تصور میں اس لفظ کے ساتھ ہی نیکی، انسانیت اور محبت کے ایک ایسے وجود کی تصویر ابھرتی، جسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ لیکن بھلا ہو یکے بعد دیگرے ملنے والے خواجوں کا۔ جنہوں نے اس تصور کو سبوتاژ کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ پہلے پہل تو ایک آدھے "خواجہ" کو اپنے خیالی تصور سے یکسر مخالف سمت میں پایا تو یہ کہہ کر دل کو تسلی دی "پسر نوح بابداں بہ نشست خاندان نبوتش گم شد" ۔ لیکن بات جب ایک دو سے بڑھ چلی تو محسوس ہوا ، جانے انجانے یہ عقیدت اس لفظ سے کم سے ہو چلی ہے۔
چھوٹے قد، چھوٹے بالوں میں، چھوٹا چہرہ لیے،چھوٹے سے خواجہ صاحب کو جب راقم نےپہلی بار دیکھا تو دل میں یہ خیال آیا کہ وہ "خواجہ" جن کا وجود آج کے گمراہ دور میں خیال ٹھہرا ہے؛ مجسم ہو کر ہمارے سامنے آگیا ہے۔پرانے چند ناخوشگوار واقعات کے سبب عقیدت نے ہماری آنکھوں پر پٹی نہیں باندھی لیکن دل نے ایک تھپکی ضرور دی۔ مورکھ! دیکھ کیا رہا ہے۔ پائے لاگو کر لے۔ دل کو کسی طور سمجھا لیا۔ کہ چند دن، چند دن ۔ خواجہ صاحب سے کچھ دل کی باتیں کریں۔ مرشد کامل ہوا تو ہم نے پلہ کیوں چھوڑنا۔ ارادت مندوں میں تو زبردستی شامل ہوجائیں گے۔ ہائے۔۔۔۔ یہ گناہ گار ذہن اور معاشرے کا چلن۔ کیسے نیک نیک لوگوں کے بارے میں کیسے کیسے گمان ذہن میں آجاتے ہیں۔
خواجہ صاحب تشریف لاتے۔ ایک چادر میز کے کونے پر ٹکاتے۔ ایک ٹوپی بھی تھی شاید۔ جو کسی نے خواجہ صاحب کو بھلے وقتوں میں پہنا دی تھی اور خواجہ صاحب اس یاد کو سر پر سجائے رکھتے تھے۔ سیٹ پر تشریف رکھتے۔ ایک ادائے بےنیازانہ سے اپنے کام کا آغاز کرتے۔ ہم جیسے راندہ درگاہ قسم کے لوگوں کی باتوں سے بچنے کے لیے ہیڈ فون لگا لیتے۔ کچھ منقبت وغیرہ سنتے ہوں گے۔ اللہ لوگوں کے بھید کون کھول پایا ہے۔ رات کا پہلا پہر ڈھلنے کے بعد تشریف لاتے۔ اور دوسرا پہر ڈھلنے سے قبل غائب ہوجاتے۔ چادر بھی غائب ہوجاتی۔ کیا منظر ہوتا تھا۔ اللہ اللہ ۔ مدتوں اسی کافرانہ گمان کا شکار رہے کہ کسی خالی کمرے میں جا کر چادر اوڑھ کر سوجاتے ہوں گے۔ یہ خیال ایسا کوئی ذاتی بھی نہ تھا۔ لوگ کہتے ہیں تو کیا بے سبب کہتے ہوں گے مصداق ہم نے اس پر کچھ کچھ یقین بھی کر لیا مگر بغیر تحقیق کیے ایسے کافرانہ خیالات رکھنا یقینی طور پر ایک قابل گرفت عمل ہے۔ اور راقم الحروف تو بزرگی کے منصب پر بھی فائز نہیں تھا کہ یہی کہہ کر جان چھڑا لے خطائے بزرگاں گرفتن خطا است۔
یوں تو خواجہ صاحب سے آتے جاتے ہم چونچیں لڑایا ہی کرتے تھے مگر جب وہ مصروف ہوں تو اس وقت ان کو چھیڑنے کا ایک الگ سے لطف ہوتا تھا۔ ایک دن جب خواجہ صاحب کام میں گھٹنوں گھٹنوں مصروف تھے راقم نے ہمت کر کےگفتگو کا آغاز کیا ا ور خواجہ صاحب سے ان کی دنیااور اس کے بعد پھر اس ادارے میں آمد کے متعلق سوال پوچھا۔ جواب میں خواجہ صاحب نے پنجابی ایک فصیح و بلیغ گالی سے نوازا۔ایسا نہیں کہ زندگی میں مجھے کسی نے گالی نہیں دی مگر مسئلہ یہ تھا کہ یہ کام بہت بےتکلف دوست ہی کیا کرتے تھے۔ ٹھنڈے دل سے جملے میں جب الفاظ و گالیوں کے تناسب پر غور کیا تو محسوس ہوا کہ یہ گالیاں جملے میں اثر انگیزی کے لیے ٹانکی گئی ہیں۔ تاہم کچھ اس قدر زیادہ تعداد میں ٹانک دی گئی تھیں کہ اصل جملہ قریب غائب ہو چکا تھا اور صرف اثر انگیزی رہ گئی تھی۔ مجھے احمد اقبال صاحب کا جملہ بےاختیار یاد آگیا۔ کہ "اگر بھورے ماموں کی دھوتی کے سوراخوں کا رقبہ جمع کیا جائے تو دھوتی غائب ہوجاتی ہے۔" مختصر گفتگو فرماتے۔ مختصر سے مراد یہ ہے کہ جملہ تو کافی طویل ہوتا۔ تاہم اس میں اصل عبارت بےحد مختصر ہوا کرتی تھی۔ ہر قسم کے قومی نظریے کے مخالف تھے اور خود کو قوم پرست بھی سمجھتے تھے۔ یہ ایک عجیب تضاد تھا جس کا راز آج تک راقم پر نہیں کھلا۔ خود ہی نیشنلزم، کیپٹلزم اور سوشلزم پر درس دیتے۔ خود ہی سوال کر کے جواب دیا کرتے تھے۔ اور پھر خود ہی ان نظریات کو رد کر کے کہہ دیا کرتے تھے کہ خطیب کیسا بیوقوف آدمی ہے۔ اور ہمارے پاس سوائے ہاں میں ہاں ملانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا تھا۔رفتہ رفتہ میں خواجہ صاحب کو اور خواجہ صاحب مجھے سمجھنے لگے۔
ایک دن جوش خطابت میں مسلم حملہ آوروں کو برا بھلاکہہ رہے تھے۔ دورانِ خطاب فرمانے لگے یار دیکھو ہمارے اسلاف کی معصومیت۔ اچھے بھلے اونچی ذات کے برہمن تھے۔ مسلم ہو کر شودر ہوگئے۔ ہم نے عرض کی حضور، آپ کے اسلاف کو بھی چاہیے تھا کہ بحث کرتے۔ کہتے ادھر سے مندر چھوڑیں گے تو ادھر پیری کی مسند پر بیٹھیں گے۔ سر جھٹک کر فرمانے لگے۔ اس وقت یہ راز کب کھولے تھے انہوں نے۔ یہ رمزیں تو کہیں بعد جا کر پتا چلیں۔ دھوکے سے لٹ گئے۔اس سے احباب اگر یہ اندازہ لگائیں کہ خواجہ صاحب پرانے مذہب کے لیے کوئی نرم جذبات رکھتے تھے تو آپ سراسر غلطی پر ہوں گے۔ مذہب و غیر مذہب الغرض تمام حلقوں کے لیے ان کا رویہ ایک ہی تھا۔ ایک دن عالم وجد میں راقم سے فرمانے لگے۔ بھلے مانس! زندگی میں کبھی کسی مولوی کی بات پر اعتبار نہ کرنا۔ عرض کی۔ سیدی! آپ کے بارے میں کیا حکم ہے۔ تو ایک عارفانہ ہنسی کے ساتھ بولے۔ خدا گواہ ہے کہ تم میری کسی بات کا یقین نہیں کرتے۔ راقم نے عقیدت میں اس بات سے بھی انکار نہ کیا۔لیکن مدعا عرض کیا کہ روحِ سوال یہ تھی "خودرافصیحت، دیگران رانصیحت"۔ تو ہنستے ہوئے کہنے لگے "ہرکس سلیقہ ای دارد" ۔ ہم کج فہم بھی ہنس پڑے۔ بھید نہ پا سکے۔
خواجہ صاحب ہر اس بات کے خلاف تھے جو ایک عامی کےمعیارِ عقل و شعور پر پوری اترتی تھی۔ پہلے پہل راقم کو خیال گزرا کہ شاید یہ مخالفت بہت زیادہ علم و عملیات کے سبب ہے۔ تاہم خواجہ صاحب نے اس خوش فہمی میں بھی زیادہ عرصہ نہ رہنے دیا۔ ایک دن گفتگو کے دوران ایک معروف کتاب پر بحث چھڑ گئی۔ لائبریری میں وہ الماری، جس میں کتاب دھری تھی، اس کے سامنے سے راقم کا بارہا گزر ہوا تھا۔ ادھر خواجہ صاحب کے ایک دوست نے وہ کتاب باقاعدہ پڑھ رکھی تھی۔ الغرض دونوں ان مسائل پر بہت دیر تک بات کرتے رہے جن کا اس مصنف کو کما حقہ ادراک نہ تھا۔ ایک دن فرمانے لگے۔ مجھے دو قسم کے لوگ بہت برے لگتے ہیں۔ ایک وہ جو سرِورق دیکھ کر کتاب کے بارے میں ثقیل و طویل تبصرے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دوسرے وہ سوشل میڈیائی جو قول کا ذائقہ چکھ کر کتاب کے بارے میں بےلاگ تبصرہ فرماتے ہیں۔ راقم نے ڈرتے ڈرتے عرض کی کہ درحقیقت آپ ایک ہی قسم کے لوگوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ تو کہنے لگے۔ نہیں میاں! دو مختلف باتیں ہیں۔ تم کو غور و فکر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ہم نے کافی غور کیا مگر کوئی خاص فرق معلوم کرنے سے قاصر رہے۔ تادم است غم است۔
مالِ دنیا کے مآل سے واقف تھے سو ظاہری ہیئت کی چنداں پرواہ نہ کیا کرتے۔ ایک جینز اور ٹی شرٹ جو میلی ہوتی تو الٹی کر کے پہن لیتے۔ فرماتے میاں ! مالِ دنیا چرک دست است۔ راقم نے عرض کی تو ساری میل ہاتھ پر ہی جمع رکھیں گے۔ کچھ اتار بھی پھینکیے۔ اس پر غصہ میں آگئے۔ بڑی دیر غصہ رہے۔ لیکن اگلے دن بھی اسی حلیے میں دیکھ کر عرض کی کل کے غصے کا کیا ہوا۔ فرمانے لگے کہ تمہارا غصہ ان بےجان چیزوں پر کیوں اتاروں۔ ان کو خود سے دور کیونکر کروں۔ شاعر آدمی تھے اور پیٹر تخلص کرتے تھے ۔ مخطوطات بھی زبانِ فرنگ ہی میں تھے۔ جن میں اکثریت بنیادی اخلاقیات کے لیے زہر قاتل تھے۔ خود فرماتے تھے کہ میری گزارشات ناپختہ ذہن کے لیے موت ہیں اور پختہ کے لیے مخطور۔ واللہ کیا کیا راز کھولا کرتے تھے۔ ایک دن راقم نے پوچھ ہی لیا کہ "پیٹر" ہی کیوں۔ کہنے لگے ایک تو اس سے "انٹیلکچوئل پُنے" کا گمان ہوتا ہے دوسرا اس لیے کہ دیار فرنگ کے بےشمار ناموں سے ہمارے ہاں یہی معروف ہے۔ توجیہ اچھی تھی راقم نے بھی اعتراض نہ کیا۔ خود اپنی جان سے ہاتھ دھونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو ان کا کوئی مخطوطہ "فی سبیل اللہ فساد" کے لیے ضرور شریک کرتے۔ بلکہ تحریر کیا۔ ان کا تو ایک آدھا قول ہی ہمیں وجود سے عدم کی طرف منتقل کرنے کو کافی ہے۔
خواجہ صاحب کی ذات باکمال کے متعلق بالا گفتگو تو مشے نمونے از خروارے ہے۔ زندگی رہی تو خواجہ صاحب کی رمز بھری زندگی سے کچھ سنہرے واقعات عوام کی ہدایت اورعبرت کے لیے کبھی پیش کیے جائیں گے۔
نوٹ: اس خاکے کے تمام کردار تخیلاتی ہیں۔ کسی بھی قسم کی سو فیصد مشابہت محض اتفاقیہ ہوگی۔
دوسرا نوٹ: محفلی دوست واقف ہیں کہ میں نے بہت عرصہ دراز بعد کچھ لکھنے کی کوشش کی ہے۔ سو اچھا برا بھلا جیسا بھی ہے کی بنیاد پر آپ کے سامنے حاضر ہے۔ کسی بھی قسم کی ذہنی کوفت کے لیے پیشگی معذرت
چھوٹے قد، چھوٹے بالوں میں، چھوٹا چہرہ لیے،چھوٹے سے خواجہ صاحب کو جب راقم نےپہلی بار دیکھا تو دل میں یہ خیال آیا کہ وہ "خواجہ" جن کا وجود آج کے گمراہ دور میں خیال ٹھہرا ہے؛ مجسم ہو کر ہمارے سامنے آگیا ہے۔پرانے چند ناخوشگوار واقعات کے سبب عقیدت نے ہماری آنکھوں پر پٹی نہیں باندھی لیکن دل نے ایک تھپکی ضرور دی۔ مورکھ! دیکھ کیا رہا ہے۔ پائے لاگو کر لے۔ دل کو کسی طور سمجھا لیا۔ کہ چند دن، چند دن ۔ خواجہ صاحب سے کچھ دل کی باتیں کریں۔ مرشد کامل ہوا تو ہم نے پلہ کیوں چھوڑنا۔ ارادت مندوں میں تو زبردستی شامل ہوجائیں گے۔ ہائے۔۔۔۔ یہ گناہ گار ذہن اور معاشرے کا چلن۔ کیسے نیک نیک لوگوں کے بارے میں کیسے کیسے گمان ذہن میں آجاتے ہیں۔
خواجہ صاحب تشریف لاتے۔ ایک چادر میز کے کونے پر ٹکاتے۔ ایک ٹوپی بھی تھی شاید۔ جو کسی نے خواجہ صاحب کو بھلے وقتوں میں پہنا دی تھی اور خواجہ صاحب اس یاد کو سر پر سجائے رکھتے تھے۔ سیٹ پر تشریف رکھتے۔ ایک ادائے بےنیازانہ سے اپنے کام کا آغاز کرتے۔ ہم جیسے راندہ درگاہ قسم کے لوگوں کی باتوں سے بچنے کے لیے ہیڈ فون لگا لیتے۔ کچھ منقبت وغیرہ سنتے ہوں گے۔ اللہ لوگوں کے بھید کون کھول پایا ہے۔ رات کا پہلا پہر ڈھلنے کے بعد تشریف لاتے۔ اور دوسرا پہر ڈھلنے سے قبل غائب ہوجاتے۔ چادر بھی غائب ہوجاتی۔ کیا منظر ہوتا تھا۔ اللہ اللہ ۔ مدتوں اسی کافرانہ گمان کا شکار رہے کہ کسی خالی کمرے میں جا کر چادر اوڑھ کر سوجاتے ہوں گے۔ یہ خیال ایسا کوئی ذاتی بھی نہ تھا۔ لوگ کہتے ہیں تو کیا بے سبب کہتے ہوں گے مصداق ہم نے اس پر کچھ کچھ یقین بھی کر لیا مگر بغیر تحقیق کیے ایسے کافرانہ خیالات رکھنا یقینی طور پر ایک قابل گرفت عمل ہے۔ اور راقم الحروف تو بزرگی کے منصب پر بھی فائز نہیں تھا کہ یہی کہہ کر جان چھڑا لے خطائے بزرگاں گرفتن خطا است۔
یوں تو خواجہ صاحب سے آتے جاتے ہم چونچیں لڑایا ہی کرتے تھے مگر جب وہ مصروف ہوں تو اس وقت ان کو چھیڑنے کا ایک الگ سے لطف ہوتا تھا۔ ایک دن جب خواجہ صاحب کام میں گھٹنوں گھٹنوں مصروف تھے راقم نے ہمت کر کےگفتگو کا آغاز کیا ا ور خواجہ صاحب سے ان کی دنیااور اس کے بعد پھر اس ادارے میں آمد کے متعلق سوال پوچھا۔ جواب میں خواجہ صاحب نے پنجابی ایک فصیح و بلیغ گالی سے نوازا۔ایسا نہیں کہ زندگی میں مجھے کسی نے گالی نہیں دی مگر مسئلہ یہ تھا کہ یہ کام بہت بےتکلف دوست ہی کیا کرتے تھے۔ ٹھنڈے دل سے جملے میں جب الفاظ و گالیوں کے تناسب پر غور کیا تو محسوس ہوا کہ یہ گالیاں جملے میں اثر انگیزی کے لیے ٹانکی گئی ہیں۔ تاہم کچھ اس قدر زیادہ تعداد میں ٹانک دی گئی تھیں کہ اصل جملہ قریب غائب ہو چکا تھا اور صرف اثر انگیزی رہ گئی تھی۔ مجھے احمد اقبال صاحب کا جملہ بےاختیار یاد آگیا۔ کہ "اگر بھورے ماموں کی دھوتی کے سوراخوں کا رقبہ جمع کیا جائے تو دھوتی غائب ہوجاتی ہے۔" مختصر گفتگو فرماتے۔ مختصر سے مراد یہ ہے کہ جملہ تو کافی طویل ہوتا۔ تاہم اس میں اصل عبارت بےحد مختصر ہوا کرتی تھی۔ ہر قسم کے قومی نظریے کے مخالف تھے اور خود کو قوم پرست بھی سمجھتے تھے۔ یہ ایک عجیب تضاد تھا جس کا راز آج تک راقم پر نہیں کھلا۔ خود ہی نیشنلزم، کیپٹلزم اور سوشلزم پر درس دیتے۔ خود ہی سوال کر کے جواب دیا کرتے تھے۔ اور پھر خود ہی ان نظریات کو رد کر کے کہہ دیا کرتے تھے کہ خطیب کیسا بیوقوف آدمی ہے۔ اور ہمارے پاس سوائے ہاں میں ہاں ملانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا تھا۔رفتہ رفتہ میں خواجہ صاحب کو اور خواجہ صاحب مجھے سمجھنے لگے۔
ایک دن جوش خطابت میں مسلم حملہ آوروں کو برا بھلاکہہ رہے تھے۔ دورانِ خطاب فرمانے لگے یار دیکھو ہمارے اسلاف کی معصومیت۔ اچھے بھلے اونچی ذات کے برہمن تھے۔ مسلم ہو کر شودر ہوگئے۔ ہم نے عرض کی حضور، آپ کے اسلاف کو بھی چاہیے تھا کہ بحث کرتے۔ کہتے ادھر سے مندر چھوڑیں گے تو ادھر پیری کی مسند پر بیٹھیں گے۔ سر جھٹک کر فرمانے لگے۔ اس وقت یہ راز کب کھولے تھے انہوں نے۔ یہ رمزیں تو کہیں بعد جا کر پتا چلیں۔ دھوکے سے لٹ گئے۔اس سے احباب اگر یہ اندازہ لگائیں کہ خواجہ صاحب پرانے مذہب کے لیے کوئی نرم جذبات رکھتے تھے تو آپ سراسر غلطی پر ہوں گے۔ مذہب و غیر مذہب الغرض تمام حلقوں کے لیے ان کا رویہ ایک ہی تھا۔ ایک دن عالم وجد میں راقم سے فرمانے لگے۔ بھلے مانس! زندگی میں کبھی کسی مولوی کی بات پر اعتبار نہ کرنا۔ عرض کی۔ سیدی! آپ کے بارے میں کیا حکم ہے۔ تو ایک عارفانہ ہنسی کے ساتھ بولے۔ خدا گواہ ہے کہ تم میری کسی بات کا یقین نہیں کرتے۔ راقم نے عقیدت میں اس بات سے بھی انکار نہ کیا۔لیکن مدعا عرض کیا کہ روحِ سوال یہ تھی "خودرافصیحت، دیگران رانصیحت"۔ تو ہنستے ہوئے کہنے لگے "ہرکس سلیقہ ای دارد" ۔ ہم کج فہم بھی ہنس پڑے۔ بھید نہ پا سکے۔
خواجہ صاحب ہر اس بات کے خلاف تھے جو ایک عامی کےمعیارِ عقل و شعور پر پوری اترتی تھی۔ پہلے پہل راقم کو خیال گزرا کہ شاید یہ مخالفت بہت زیادہ علم و عملیات کے سبب ہے۔ تاہم خواجہ صاحب نے اس خوش فہمی میں بھی زیادہ عرصہ نہ رہنے دیا۔ ایک دن گفتگو کے دوران ایک معروف کتاب پر بحث چھڑ گئی۔ لائبریری میں وہ الماری، جس میں کتاب دھری تھی، اس کے سامنے سے راقم کا بارہا گزر ہوا تھا۔ ادھر خواجہ صاحب کے ایک دوست نے وہ کتاب باقاعدہ پڑھ رکھی تھی۔ الغرض دونوں ان مسائل پر بہت دیر تک بات کرتے رہے جن کا اس مصنف کو کما حقہ ادراک نہ تھا۔ ایک دن فرمانے لگے۔ مجھے دو قسم کے لوگ بہت برے لگتے ہیں۔ ایک وہ جو سرِورق دیکھ کر کتاب کے بارے میں ثقیل و طویل تبصرے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دوسرے وہ سوشل میڈیائی جو قول کا ذائقہ چکھ کر کتاب کے بارے میں بےلاگ تبصرہ فرماتے ہیں۔ راقم نے ڈرتے ڈرتے عرض کی کہ درحقیقت آپ ایک ہی قسم کے لوگوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ تو کہنے لگے۔ نہیں میاں! دو مختلف باتیں ہیں۔ تم کو غور و فکر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ہم نے کافی غور کیا مگر کوئی خاص فرق معلوم کرنے سے قاصر رہے۔ تادم است غم است۔
مالِ دنیا کے مآل سے واقف تھے سو ظاہری ہیئت کی چنداں پرواہ نہ کیا کرتے۔ ایک جینز اور ٹی شرٹ جو میلی ہوتی تو الٹی کر کے پہن لیتے۔ فرماتے میاں ! مالِ دنیا چرک دست است۔ راقم نے عرض کی تو ساری میل ہاتھ پر ہی جمع رکھیں گے۔ کچھ اتار بھی پھینکیے۔ اس پر غصہ میں آگئے۔ بڑی دیر غصہ رہے۔ لیکن اگلے دن بھی اسی حلیے میں دیکھ کر عرض کی کل کے غصے کا کیا ہوا۔ فرمانے لگے کہ تمہارا غصہ ان بےجان چیزوں پر کیوں اتاروں۔ ان کو خود سے دور کیونکر کروں۔ شاعر آدمی تھے اور پیٹر تخلص کرتے تھے ۔ مخطوطات بھی زبانِ فرنگ ہی میں تھے۔ جن میں اکثریت بنیادی اخلاقیات کے لیے زہر قاتل تھے۔ خود فرماتے تھے کہ میری گزارشات ناپختہ ذہن کے لیے موت ہیں اور پختہ کے لیے مخطور۔ واللہ کیا کیا راز کھولا کرتے تھے۔ ایک دن راقم نے پوچھ ہی لیا کہ "پیٹر" ہی کیوں۔ کہنے لگے ایک تو اس سے "انٹیلکچوئل پُنے" کا گمان ہوتا ہے دوسرا اس لیے کہ دیار فرنگ کے بےشمار ناموں سے ہمارے ہاں یہی معروف ہے۔ توجیہ اچھی تھی راقم نے بھی اعتراض نہ کیا۔ خود اپنی جان سے ہاتھ دھونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو ان کا کوئی مخطوطہ "فی سبیل اللہ فساد" کے لیے ضرور شریک کرتے۔ بلکہ تحریر کیا۔ ان کا تو ایک آدھا قول ہی ہمیں وجود سے عدم کی طرف منتقل کرنے کو کافی ہے۔
خواجہ صاحب کی ذات باکمال کے متعلق بالا گفتگو تو مشے نمونے از خروارے ہے۔ زندگی رہی تو خواجہ صاحب کی رمز بھری زندگی سے کچھ سنہرے واقعات عوام کی ہدایت اورعبرت کے لیے کبھی پیش کیے جائیں گے۔
نوٹ: اس خاکے کے تمام کردار تخیلاتی ہیں۔ کسی بھی قسم کی سو فیصد مشابہت محض اتفاقیہ ہوگی۔
دوسرا نوٹ: محفلی دوست واقف ہیں کہ میں نے بہت عرصہ دراز بعد کچھ لکھنے کی کوشش کی ہے۔ سو اچھا برا بھلا جیسا بھی ہے کی بنیاد پر آپ کے سامنے حاضر ہے۔ کسی بھی قسم کی ذہنی کوفت کے لیے پیشگی معذرت