x boy
محفلین
الحمد للہ
اس سوال کا جواب درج ذیل نقاط میں دینا ممکن ہے :
- اس میں کسی قسم کا کوئ شک شبہ نہیں کہ اللہ تعالی کے نبی ابراھیم علیہ السلام موحد اور ملت حنیفی پرتھے اور وہ کافروں اور مشرکوں میں سے نہیں تو یھودی اگرچہ ابراھیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں لیکن انہوں نے ملت ابراھیمی کی مخالفت کرتے ہوئے اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا شروع کردیا ، اور یہ گمان کر بیٹھے کہ (نعوذ باللہ ) عزیر علیہ السلام اللہ تعالی کے بیٹے ہیں ۔
اور یہ کہنے لگے کہ اللہ تعالی بخیل اور اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ، اور یہ بھی کہا کہ اللہ تعالی کافقیر اور ہم غنی ہیں ، اور یہ بھی کہا کہ اللہ تعالی نے جب آسمان وزمین کو چھ دنوں میں بنایا تو تھک گیا اور ہفتہ کے دن اس نےآرام کیا – اللہ تبارک وتعالی ان کے ان اقوال سے منزہ اور پاک و بلند ہے – اور انہوں نے اللہ تعالی کی صفات میں تشبیہ اختیار کی اور انبیاءکوقتل کیا ۔۔۔ الخ اور اسی طرح ان کی اوربھی خرافات اور انحراف ہیں ۔
- توجب یہ افتراق اور اختلاف ثابت ہوچکا ہے تو مومن و موحد اور کافر مشرک کے درمیان کوئ اخوت اور بھائ چارہ نہیں ہوسکتا جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی نے اپنے خلیل ابراھیم علیہ السلام کی سے کہا :
{ ( مسلمانوں ) تمہارے لئے ابراھیم علیہ السلام میں اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں میں بہترین نمونہ ہے ، جبکہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا یہ کہہ دیا کہ تم تو تم سے اور اللہ تعالی کے علاوہ تم جن جن کی عبادت کرتےہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں ، تم تمہارے (عقائدکے ) منکر ہیں جب تک کہ تم اللہ تعالی کی وحدانیت پر ایما ن نہ لے آؤ ۔
ہمارے اور تمہارے درمیان بغض و عداوت و دشمنی ظاہر ہوگئ ، لیکن ابراھیم علیہ السلام کی اپنے باپ سے اتنی بات تو ہوئ تھی کہ میں تمہارے لئے ضرور استغفار کروں گا اور تمہارے لئے مجھے اللہ تعالی کے سامنے کسی چیز کا کچھ بھی اختیار نہيں ہے ، اے ہمارے رب ہم تجھ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں اور تیری طرف ہی رجوع کرتے ہیں اور تیری ہی لوٹنا ہے ۔
اے ہمارے رب تو ہمیں کافروں کی آزمائش میں نہ ڈال ، اور اے ہمارے رب ہماری خطاؤں اور غلطیوں کو معاف کر دے ، بیشک تو ہی غالب و حکمت والا ہے ، یقینا تمہارے لئے ان میں اچھا نمونہ ( اور عمدہ پیروی ہے خاص کر ) ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالی اور قیامت کے دن کی ملاقات کی امید رکھتا ہو ، اور اگر کوئ روگردانی کرے تو اللہ تعالی بالکل بے نیاز ہے اور تعریفات کے لائق ہے } الممتحنۃ ( 4 - 6 )
تو جب یہ دشمنی اور انفصال ثابت ہوچکا ہے ، اور پھر عداوت ودشمنی اور برات کا اظہار اور جو کچھ ا س لوازمات ہیں مثلا اللہ تعالی کے دشمنوں سے جھاد وقتال کرنا ایک ایسا امراور معاملہ ہے جس سے کوئ مفر نہیں اور نہ ہی اسے ترک کیا جاسکتا اور اس سے علیحد ہ نہیں ہو ا جاسکتا ۔
توجب اللہ تعالی کی یہ سنت اور طریقہ اور اس کی حکمت کا تقاضہ ہے کہ کچھ مومن اور کچھ کافر ہوں تو اس بغض و عداوت اور دشمنی کا وجود ضروری ہے ، اور پھر بات یہ ہے کہ آپ اللہ تعالی کی سنت و طریقے کو بدلہ ہو ا نہیں دیکھيں گے ۔
- پھر یہ کہ یھودی جو کہ ظالم اور غاصب - انہوں نے ظلم وستم زیادتی کی اور انکی خیانت اورزمانہ قدیم سے اور آج بھی ان کا دھوکہ وفریب اور شرو فساد معروف ہے - ہیں ان کے ساتھ مسلمان اور موحد لوگوں کا مل جل کررہنا ممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے ، جن کے آدمیوں کو یھودیوں نے قتل کیا اور ان کے بیٹوں کو قید وبند کی صعوبتوں میں رکھا اور ان کے گھروں کو منھدم کر کے ان کی زمین پر غصبانہ قبضہ کر رکھا ہے ، اور ان کی معیشت ورزق میں ان سے لڑ رہے ہیں ، اور پھر ان غاصبوں نے ان مظلوم قیدیوں پر کمیائ اور اشعائ تجربات کیئے اور ان کے جسم میں سے بعض کو نکال کر یھودی مریضوں کو لگا ديئے ، اس کے علاوہ وہ ظلم وستم جو کہ بیان نہیں کیا جاسکتا تو ان کے ساتھ کیسا رہا جا سکتا ہے ؟
- اس پر مستزاد یہ یھودی غدرو فریب اور خیانت میں ید طولی رکھتے ہیں ، ان پرمطلقا کسی بھی طرح بھروسہ کیا ہی نہیں جاسکتا ۔
اور اس وقت ان کا جو سلوک ہے وہ مشاھدات اور دلائل سے واضح ہے تو کیا کوئ ایسا معاہدہ یا اتفاق ہے جوہوا ہو اور ان یھودیوں نے اس کی پاسداری کی اور اس پر عمل کیا ہو ؟
تو یہ سب کچھ اس مسلمان کے لئے جو کہ اللہ تعالی کے ان فرامین کو جانتا ہو جو ان کےمتعلق کتاب عزیز مین کہيں گئے ہیں کو ئ نئ بات نہیں کہ ابھی ظاہر ہوئ ہو ۔
اللہ تبارک وتعالی نے یھودیوں کے متعلق فرمایا ہے جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :
{ یہ لوگ جب بھی کوئ عہد کرتے ہیں تو ان کی ایک نہ ایک جماعت اسے توڑ دیتی ہے بلکہ ان میں سے اکثر ایمان سے ہی خالی ہیں } البقرۃ ( 100 )
- پھر اگر مسلمان اس بات پر راضی بھی ہوجائيں کہ وہ یھودیوں کے ساتھ سلامتی سے رہیں گے تو حکم اور سلطہ اور طاقت کس کی ہوگی ؟ کیونکہ اسلام کا یہ قاعدہ ہے کہ اسلام اوپر ہے اس کے اوپر کوئ نہیں آسکتا ، اور پھر مسلمانوں کے ملک میں اہل کتاب کے رہنے کی شرط یہ ہے کہ یھودی یا عیسائ اہل ذمہ کی شروط پر رہیں گہ اور وہ ذمی بن کر رہیں جس پر مسلمان ان کی حفاظت اور بچاؤ کریں گے ، اور ان شرائط میں سے اہم شرط یہ ہے کہ کتابی اپنے کفر وشرک کو مسلمانوں کے ملک میں نہ تو عملی اور نہ ہی قولی طور پر اس کی تشہیر اور ظاہرا کریں گے ۔
- اور اس لحاظ سے کہ مسلمان اور یھودی تو ایسی قومیں ہیں جوکہ ایک دوسرے سے دینی اور عقیدتا ایک دوسرے سے نفرت اور عداوت دشمنی رکھتے ہیں تو ان کا اکٹھے ہونا ناممکن بلکہ محال ہے ، الا یہ کہ ایک دوسرے کو قوت کے بل بوتے پر ختم کر کے رکھ دے ۔
بلکہ اس وقت یھودی تو اس بات پر بھی راضی نہيں کہ مسلمان کوئ گڑبڑ کئے بغیر امن کے ساتھ وہاں رہیں ،تواسی لئے وہ قوت کے زور پر مسلمانو ں کی زمین چھین کر اس پر یھودی بستیاں قائم کر رہے ہیں ، اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو کسی بھی طریقہ کے ساتھ فلسطین سے نکال باہر کیا جائے ، لہذا بہت سے فلسطینی ملک سے بھاگ کر پڑوسی ممالک میں پناہ گزین کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں ۔
- اور آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر آج مسلمان کمزور اور ذلیل ہو رہے ہيں – یہ کمزوری اور ذلت ان کا دین سے دور ہونے کی وجہ سے ہے – اور یہ کہ اس وقت وہ یھودیوں سے قتال نہیں کرسکتے اور فلسطین آزاد نہیں کروا کر فلسطین میں شریعت اسلامیہ کے احکام نافذ نہیں کرسکتے تو اس کا یہ معنی اور مطلب نہیں کہ یہ سب کچھ ایسے ہی رہتی دنیا تک رہے گا ۔
ضرور بضرور ایک دن ایسا آئے گا اور یہ حالات پلٹا کھائيں گے اس کی دلیل یہ ہے کہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ اپنے رب کی طرف سے وحی کے ساتھ بولتے ہیں اور اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کہتے انہوں نے مستقبل کے متعلق خبر دیتے ہوئے فرمایا ہے :
( تم سے یھودی لڑیں گے تو تم ان پر غالب ہوجاؤ گے حتی کہ پتھر یہ کہے گا کہ اے مسلمان یہ میرے پیچھے یھودی چھپا ہوا ہے آؤ اور اسے قتل کرو ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2926 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2921 )۔
اور ایک روایت میں ہے کہ ابو ھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک کہ مسلمان یھودیوں سے لڑ کر انہیں قتل نہیں کر لیتے ، حتی کہ یھودی درخت اور پتھر کے پیچھے چھپے گا تو پتھر یا درخت کہے گا اے مسلمان اے اللہ تعالی کے بندے یہ میرے پیچھے یھودی چھپا ہوا ہے آکر اسے قتل کر ، صرف غرقد کا درخت نہیں کہے گا کیونکہ وہ یھودیوں کے درختوں میں سے ہے ) صحیح مسلم ( 2922 )
تو ہم آپ کواللہ تعالی کے رب ہونے اور اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پرایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں ، اور اللہ تعالی ہی ہے جوکہ آپ کو نجات دے گا اور آپ کی دنیااورموت کے بعد قبر میں ، اور آخرت میں جس دن حساب وکتاب ہوگا حفاظت فرمائے گا ۔
اور اللہ تعالی ہمں اور آپ کو ہر خیر وبھلائ کو توفیق دے ، آمین ۔
واللہ تعالی اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد
اس سوال کا جواب درج ذیل نقاط میں دینا ممکن ہے :
- اس میں کسی قسم کا کوئ شک شبہ نہیں کہ اللہ تعالی کے نبی ابراھیم علیہ السلام موحد اور ملت حنیفی پرتھے اور وہ کافروں اور مشرکوں میں سے نہیں تو یھودی اگرچہ ابراھیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں لیکن انہوں نے ملت ابراھیمی کی مخالفت کرتے ہوئے اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا شروع کردیا ، اور یہ گمان کر بیٹھے کہ (نعوذ باللہ ) عزیر علیہ السلام اللہ تعالی کے بیٹے ہیں ۔
اور یہ کہنے لگے کہ اللہ تعالی بخیل اور اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ، اور یہ بھی کہا کہ اللہ تعالی کافقیر اور ہم غنی ہیں ، اور یہ بھی کہا کہ اللہ تعالی نے جب آسمان وزمین کو چھ دنوں میں بنایا تو تھک گیا اور ہفتہ کے دن اس نےآرام کیا – اللہ تبارک وتعالی ان کے ان اقوال سے منزہ اور پاک و بلند ہے – اور انہوں نے اللہ تعالی کی صفات میں تشبیہ اختیار کی اور انبیاءکوقتل کیا ۔۔۔ الخ اور اسی طرح ان کی اوربھی خرافات اور انحراف ہیں ۔
- توجب یہ افتراق اور اختلاف ثابت ہوچکا ہے تو مومن و موحد اور کافر مشرک کے درمیان کوئ اخوت اور بھائ چارہ نہیں ہوسکتا جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی نے اپنے خلیل ابراھیم علیہ السلام کی سے کہا :
{ ( مسلمانوں ) تمہارے لئے ابراھیم علیہ السلام میں اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں میں بہترین نمونہ ہے ، جبکہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا یہ کہہ دیا کہ تم تو تم سے اور اللہ تعالی کے علاوہ تم جن جن کی عبادت کرتےہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں ، تم تمہارے (عقائدکے ) منکر ہیں جب تک کہ تم اللہ تعالی کی وحدانیت پر ایما ن نہ لے آؤ ۔
ہمارے اور تمہارے درمیان بغض و عداوت و دشمنی ظاہر ہوگئ ، لیکن ابراھیم علیہ السلام کی اپنے باپ سے اتنی بات تو ہوئ تھی کہ میں تمہارے لئے ضرور استغفار کروں گا اور تمہارے لئے مجھے اللہ تعالی کے سامنے کسی چیز کا کچھ بھی اختیار نہيں ہے ، اے ہمارے رب ہم تجھ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں اور تیری طرف ہی رجوع کرتے ہیں اور تیری ہی لوٹنا ہے ۔
اے ہمارے رب تو ہمیں کافروں کی آزمائش میں نہ ڈال ، اور اے ہمارے رب ہماری خطاؤں اور غلطیوں کو معاف کر دے ، بیشک تو ہی غالب و حکمت والا ہے ، یقینا تمہارے لئے ان میں اچھا نمونہ ( اور عمدہ پیروی ہے خاص کر ) ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالی اور قیامت کے دن کی ملاقات کی امید رکھتا ہو ، اور اگر کوئ روگردانی کرے تو اللہ تعالی بالکل بے نیاز ہے اور تعریفات کے لائق ہے } الممتحنۃ ( 4 - 6 )
تو جب یہ دشمنی اور انفصال ثابت ہوچکا ہے ، اور پھر عداوت ودشمنی اور برات کا اظہار اور جو کچھ ا س لوازمات ہیں مثلا اللہ تعالی کے دشمنوں سے جھاد وقتال کرنا ایک ایسا امراور معاملہ ہے جس سے کوئ مفر نہیں اور نہ ہی اسے ترک کیا جاسکتا اور اس سے علیحد ہ نہیں ہو ا جاسکتا ۔
توجب اللہ تعالی کی یہ سنت اور طریقہ اور اس کی حکمت کا تقاضہ ہے کہ کچھ مومن اور کچھ کافر ہوں تو اس بغض و عداوت اور دشمنی کا وجود ضروری ہے ، اور پھر بات یہ ہے کہ آپ اللہ تعالی کی سنت و طریقے کو بدلہ ہو ا نہیں دیکھيں گے ۔
- پھر یہ کہ یھودی جو کہ ظالم اور غاصب - انہوں نے ظلم وستم زیادتی کی اور انکی خیانت اورزمانہ قدیم سے اور آج بھی ان کا دھوکہ وفریب اور شرو فساد معروف ہے - ہیں ان کے ساتھ مسلمان اور موحد لوگوں کا مل جل کررہنا ممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے ، جن کے آدمیوں کو یھودیوں نے قتل کیا اور ان کے بیٹوں کو قید وبند کی صعوبتوں میں رکھا اور ان کے گھروں کو منھدم کر کے ان کی زمین پر غصبانہ قبضہ کر رکھا ہے ، اور ان کی معیشت ورزق میں ان سے لڑ رہے ہیں ، اور پھر ان غاصبوں نے ان مظلوم قیدیوں پر کمیائ اور اشعائ تجربات کیئے اور ان کے جسم میں سے بعض کو نکال کر یھودی مریضوں کو لگا ديئے ، اس کے علاوہ وہ ظلم وستم جو کہ بیان نہیں کیا جاسکتا تو ان کے ساتھ کیسا رہا جا سکتا ہے ؟
- اس پر مستزاد یہ یھودی غدرو فریب اور خیانت میں ید طولی رکھتے ہیں ، ان پرمطلقا کسی بھی طرح بھروسہ کیا ہی نہیں جاسکتا ۔
اور اس وقت ان کا جو سلوک ہے وہ مشاھدات اور دلائل سے واضح ہے تو کیا کوئ ایسا معاہدہ یا اتفاق ہے جوہوا ہو اور ان یھودیوں نے اس کی پاسداری کی اور اس پر عمل کیا ہو ؟
تو یہ سب کچھ اس مسلمان کے لئے جو کہ اللہ تعالی کے ان فرامین کو جانتا ہو جو ان کےمتعلق کتاب عزیز مین کہيں گئے ہیں کو ئ نئ بات نہیں کہ ابھی ظاہر ہوئ ہو ۔
اللہ تبارک وتعالی نے یھودیوں کے متعلق فرمایا ہے جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :
{ یہ لوگ جب بھی کوئ عہد کرتے ہیں تو ان کی ایک نہ ایک جماعت اسے توڑ دیتی ہے بلکہ ان میں سے اکثر ایمان سے ہی خالی ہیں } البقرۃ ( 100 )
- پھر اگر مسلمان اس بات پر راضی بھی ہوجائيں کہ وہ یھودیوں کے ساتھ سلامتی سے رہیں گے تو حکم اور سلطہ اور طاقت کس کی ہوگی ؟ کیونکہ اسلام کا یہ قاعدہ ہے کہ اسلام اوپر ہے اس کے اوپر کوئ نہیں آسکتا ، اور پھر مسلمانوں کے ملک میں اہل کتاب کے رہنے کی شرط یہ ہے کہ یھودی یا عیسائ اہل ذمہ کی شروط پر رہیں گہ اور وہ ذمی بن کر رہیں جس پر مسلمان ان کی حفاظت اور بچاؤ کریں گے ، اور ان شرائط میں سے اہم شرط یہ ہے کہ کتابی اپنے کفر وشرک کو مسلمانوں کے ملک میں نہ تو عملی اور نہ ہی قولی طور پر اس کی تشہیر اور ظاہرا کریں گے ۔
- اور اس لحاظ سے کہ مسلمان اور یھودی تو ایسی قومیں ہیں جوکہ ایک دوسرے سے دینی اور عقیدتا ایک دوسرے سے نفرت اور عداوت دشمنی رکھتے ہیں تو ان کا اکٹھے ہونا ناممکن بلکہ محال ہے ، الا یہ کہ ایک دوسرے کو قوت کے بل بوتے پر ختم کر کے رکھ دے ۔
بلکہ اس وقت یھودی تو اس بات پر بھی راضی نہيں کہ مسلمان کوئ گڑبڑ کئے بغیر امن کے ساتھ وہاں رہیں ،تواسی لئے وہ قوت کے زور پر مسلمانو ں کی زمین چھین کر اس پر یھودی بستیاں قائم کر رہے ہیں ، اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو کسی بھی طریقہ کے ساتھ فلسطین سے نکال باہر کیا جائے ، لہذا بہت سے فلسطینی ملک سے بھاگ کر پڑوسی ممالک میں پناہ گزین کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں ۔
- اور آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر آج مسلمان کمزور اور ذلیل ہو رہے ہيں – یہ کمزوری اور ذلت ان کا دین سے دور ہونے کی وجہ سے ہے – اور یہ کہ اس وقت وہ یھودیوں سے قتال نہیں کرسکتے اور فلسطین آزاد نہیں کروا کر فلسطین میں شریعت اسلامیہ کے احکام نافذ نہیں کرسکتے تو اس کا یہ معنی اور مطلب نہیں کہ یہ سب کچھ ایسے ہی رہتی دنیا تک رہے گا ۔
ضرور بضرور ایک دن ایسا آئے گا اور یہ حالات پلٹا کھائيں گے اس کی دلیل یہ ہے کہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ اپنے رب کی طرف سے وحی کے ساتھ بولتے ہیں اور اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کہتے انہوں نے مستقبل کے متعلق خبر دیتے ہوئے فرمایا ہے :
( تم سے یھودی لڑیں گے تو تم ان پر غالب ہوجاؤ گے حتی کہ پتھر یہ کہے گا کہ اے مسلمان یہ میرے پیچھے یھودی چھپا ہوا ہے آؤ اور اسے قتل کرو ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2926 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2921 )۔
اور ایک روایت میں ہے کہ ابو ھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک کہ مسلمان یھودیوں سے لڑ کر انہیں قتل نہیں کر لیتے ، حتی کہ یھودی درخت اور پتھر کے پیچھے چھپے گا تو پتھر یا درخت کہے گا اے مسلمان اے اللہ تعالی کے بندے یہ میرے پیچھے یھودی چھپا ہوا ہے آکر اسے قتل کر ، صرف غرقد کا درخت نہیں کہے گا کیونکہ وہ یھودیوں کے درختوں میں سے ہے ) صحیح مسلم ( 2922 )
تو ہم آپ کواللہ تعالی کے رب ہونے اور اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پرایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں ، اور اللہ تعالی ہی ہے جوکہ آپ کو نجات دے گا اور آپ کی دنیااورموت کے بعد قبر میں ، اور آخرت میں جس دن حساب وکتاب ہوگا حفاظت فرمائے گا ۔
اور اللہ تعالی ہمں اور آپ کو ہر خیر وبھلائ کو توفیق دے ، آمین ۔
واللہ تعالی اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد
آخری تدوین: