یھودی اور مسلمان اکٹھے اور سلامتی سے کيوں نہیں رہتے ؟

x boy

محفلین
الحمد للہ
اس سوال کا جواب درج ذیل نقاط میں دینا ممکن ہے :
- اس میں کسی قسم کا کوئ شک شبہ نہیں کہ اللہ تعالی کے نبی ابراھیم علیہ السلام موحد اور ملت حنیفی پرتھے اور وہ کافروں اور مشرکوں میں سے نہیں تو یھودی اگرچہ ابراھیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں لیکن انہوں نے ملت ابراھیمی کی مخالفت کرتے ہوئے اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا شروع کردیا ، اور یہ گمان کر بیٹھے کہ (نعوذ باللہ ) عزیر علیہ السلام اللہ تعالی کے بیٹے ہیں ۔

اور یہ کہنے لگے کہ اللہ تعالی بخیل اور اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ، اور یہ بھی کہا کہ اللہ تعالی کافقیر اور ہم غنی ہیں ، اور یہ بھی کہا کہ اللہ تعالی نے جب آسمان وزمین کو چھ دنوں میں بنایا تو تھک گیا اور ہفتہ کے دن اس نےآرام کیا – اللہ تبارک وتعالی ان کے ان اقوال سے منزہ اور پاک و بلند ہے – اور انہوں نے اللہ تعالی کی صفات میں تشبیہ اختیار کی اور انبیاءکوقتل کیا ۔۔۔ الخ اور اسی طرح ان کی اوربھی خرافات اور انحراف ہیں ۔

- توجب یہ افتراق اور اختلاف ثابت ہوچکا ہے تو مومن و موحد اور کافر مشرک کے درمیان کو‎ئ اخوت اور بھائ چارہ نہیں ہوسکتا جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی نے اپنے خلیل ابراھیم علیہ السلام کی سے کہا :

{ ( مسلمانوں ) تمہارے لئے ابراھیم علیہ السلام میں اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں میں بہترین نمونہ ہے ، جبکہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا یہ کہہ دیا کہ تم تو تم سے اور اللہ تعالی کے علاوہ تم جن جن کی عبادت کرتےہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں ، تم تمہارے (عقائدکے ) منکر ہیں جب تک کہ تم اللہ تعالی کی وحدانیت پر ایما ن نہ لے آؤ ۔

ہمارے اور تمہارے درمیان بغض و عداوت و دشمنی ظاہر ہوگئ ، لیکن ابراھیم علیہ السلام کی اپنے باپ سے اتنی بات تو ہوئ تھی کہ میں تمہارے لئے ضرور استغفار کروں گا اور تمہارے لئے مجھے اللہ تعالی کے سامنے کسی چیز کا کچھ بھی اختیار نہيں ہے ، اے ہمارے رب ہم تجھ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں اور تیری طرف ہی رجوع کرتے ہیں اور تیری ہی لوٹنا ہے ۔

اے ہمارے رب تو ہمیں کافروں کی آزمائش میں نہ ڈال ، اور اے ہمارے رب ہماری خطاؤں اور غلطیوں کو معاف کر دے ، بیشک تو ہی غالب و حکمت والا ہے ، یقینا تمہارے لئے ان میں اچھا نمونہ ( اور عمدہ پیروی ہے خاص کر ) ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالی اور قیامت کے دن کی ملاقات کی امید رکھتا ہو ، اور اگر کوئ روگردانی کرے تو اللہ تعالی بالکل بے نیاز ہے اور تعریفات کے لائق ہے } الممتحنۃ ( 4 - 6 )

تو جب یہ دشمنی اور انفصال ثابت ہوچکا ہے ، اور پھر عداوت ودشمنی اور برات کا اظہار اور جو کچھ ا س لوازمات ہیں مثلا اللہ تعالی کے دشمنوں سے جھاد وقتال کرنا ایک ایسا امراور معاملہ ہے جس سے کوئ مفر نہیں اور نہ ہی اسے ترک کیا جاسکتا اور اس سے علیحد ہ نہیں ہو ا جاسکتا ۔

توجب اللہ تعالی کی یہ سنت اور طریقہ اور اس کی حکمت کا تقاضہ ہے کہ کچھ مومن اور کچھ کافر ہوں تو اس بغض و عداوت اور دشمنی کا وجود ضروری ہے ، اور پھر بات یہ ہے کہ آپ اللہ تعالی کی سنت و طریقے کو بدلہ ہو ا نہیں دیکھيں گے ۔

- پھر یہ کہ یھودی جو کہ ظالم اور غاصب - انہوں نے ظلم وستم زیادتی کی اور انکی خیانت اورزمانہ قدیم سے اور آج بھی ان کا دھوکہ وفریب اور شرو فساد معروف ہے - ہیں ان کے ساتھ مسلمان اور موحد لوگوں کا مل جل کررہنا ممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے ، جن کے آدمیوں کو یھودیوں نے قتل کیا اور ان کے بیٹوں کو قید وبند کی صعوبتوں میں رکھا اور ان کے گھروں کو منھدم کر کے ان کی زمین پر غصبانہ قبضہ کر رکھا ہے ، اور ان کی معیشت ورزق میں ان سے لڑ رہے ہیں ، اور پھر ان غاصبوں نے ان مظلوم قیدیوں پر کمیائ اور اشعائ تجربات کیئے اور ان کے جسم میں سے بعض کو نکال کر یھودی مریضوں کو لگا ديئے ، اس کے علاوہ وہ ظلم وستم جو کہ بیان نہیں کیا جاسکتا تو ان کے ساتھ کیسا رہا جا سکتا ہے ؟

- اس پر مستزاد یہ یھودی غدرو فریب اور خیانت میں ید طولی رکھتے ہیں ، ان پرمطلقا کسی بھی طرح بھروسہ کیا ہی نہیں جاسکتا ۔

اور اس وقت ان کا جو سلوک ہے وہ مشاھدات اور دلائل سے واضح ہے تو کیا کوئ ایسا معاہدہ یا اتفاق ہے جوہوا ہو اور ان یھودیوں نے اس کی پاسداری کی اور اس پر عمل کیا ہو ؟

تو یہ سب کچھ اس مسلمان کے لئے جو کہ اللہ تعالی کے ان فرامین کو جانتا ہو جو ان کےمتعلق کتاب عزیز مین کہيں گئے ہیں کو ئ نئ بات نہیں کہ ابھی ظاہر ہوئ ہو ۔

اللہ تبارک وتعالی نے یھودیوں کے متعلق فرمایا ہے جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

{ یہ لوگ جب بھی کوئ عہد کرتے ہیں تو ان کی ایک نہ ایک جماعت اسے توڑ دیتی ہے بلکہ ان میں سے اکثر ایمان سے ہی خالی ہیں } البقرۃ ( 100 )

- پھر اگر مسلمان اس بات پر راضی بھی ہوجائيں کہ وہ یھودیوں کے ساتھ سلامتی سے رہیں گے تو حکم اور سلطہ اور طاقت کس کی ہوگی ؟ کیونکہ اسلام کا یہ قاعدہ ہے کہ اسلام اوپر ہے اس کے اوپر کوئ نہیں آسکتا ، اور پھر مسلمانوں کے ملک میں اہل کتاب کے رہنے کی شرط یہ ہے کہ یھودی یا عیسائ اہل ذمہ کی شروط پر رہیں گہ اور وہ ذمی بن کر رہیں جس پر مسلمان ان کی حفاظت اور بچاؤ کریں گے ، اور ان شرائط میں سے اہم شرط یہ ہے کہ کتابی اپنے کفر وشرک کو مسلمانوں کے ملک میں نہ تو عملی اور نہ ہی قولی طور پر اس کی تشہیر اور ظاہرا کریں گے ۔

- اور اس لحاظ سے کہ مسلمان اور یھودی تو ایسی قومیں ہیں جوکہ ایک دوسرے سے دینی اور عقیدتا ایک دوسرے سے نفرت اور عداوت دشمنی رکھتے ہیں تو ان کا اکٹھے ہونا ناممکن بلکہ محال ہے ، الا یہ کہ ایک دوسرے کو قوت کے بل بوتے پر ختم کر کے رکھ دے ۔

بلکہ اس وقت یھودی تو اس بات پر بھی راضی نہيں کہ مسلمان کو‏ئ گڑبڑ کئے بغیر امن کے ساتھ وہاں رہیں ،تواسی لئے وہ قوت کے زور پر مسلمانو ں کی زمین چھین کر اس پر یھودی بستیاں قائم کر رہے ہیں ، اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو کسی بھی طریقہ کے ساتھ فلسطین سے نکال باہر کیا جائے ، لہذا بہت سے فلسطینی ملک سے بھاگ کر پڑوسی ممالک میں پناہ گزین کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں ۔

- اور آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر آج مسلمان کمزور اور ذلیل ہو رہے ہيں – یہ کمزوری اور ذلت ان کا دین سے دور ہونے کی وجہ سے ہے – اور یہ کہ اس وقت وہ یھودیوں سے قتال نہیں کرسکتے اور فلسطین آزاد نہیں کروا کر فلسطین میں شریعت اسلامیہ کے احکام نافذ نہیں کرسکتے تو اس کا یہ معنی اور مطلب نہیں کہ یہ سب کچھ ایسے ہی رہتی دنیا تک رہے گا ۔

ضرور بضرور ایک دن ایسا آئے گا اور یہ حالات پلٹا کھائيں گے اس کی دلیل یہ ہے کہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ اپنے رب کی طرف سے وحی کے ساتھ بولتے ہیں اور اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کہتے انہوں نے مستقبل کے متعلق خبر دیتے ہوئے فرمایا ہے :

( تم سے یھودی لڑیں گے تو تم ان پر غالب ہوجاؤ گے حتی کہ پتھر یہ کہے گا کہ اے مسلمان یہ میرے پیچھے یھودی چھپا ہوا ہے آ‎ؤ اور اسے قتل کرو ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2926 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2921 )۔

اور ایک روایت میں ہے کہ ابو ھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک کہ مسلمان یھودیوں سے لڑ کر انہیں قتل نہیں کر لیتے ، حتی کہ یھودی درخت اور پتھر کے پیچھے چھپے گا تو پتھر یا درخت کہے گا اے مسلمان اے اللہ تعالی کے بندے یہ میرے پیچھے یھودی چھپا ہوا ہے آکر اسے قتل کر ، صرف غرقد کا درخت نہیں کہے گا کیونکہ وہ یھودیوں کے درختوں میں سے ہے ) صحیح مسلم ( 2922 )



تو ہم آپ کواللہ تعالی کے رب ہونے اور اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پرایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں ، اور اللہ تعالی ہی ہے جوکہ آپ کو نجات دے گا اور آپ کی دنیااورموت کے بعد قبر میں ، اور آخرت میں جس دن حساب وکتاب ہوگا حفاظت فرمائے گا ۔

اور اللہ تعالی ہمں اور آپ کو ہر خیر وبھلائ کو توفیق دے ، آمین ۔

واللہ تعالی اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد
 
آخری تدوین:

x boy

محفلین
  • سیاسی میدان میں ان یہودیوں کا کردار دیکھئے !!!

    ،انہوں نے کبھی تو براہ راست اور زیادہ تر ''منافق مسلمانوں ''کے بھیس میں ،مسلمانوں کو ہر دور میں زک پہنچانے اور فنا کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کی ہے ۔بطور ثبوت چند مثالیں پیش خدمت ہیں:

    بغداد کی ساڑھے پانچ سو سالہ عباسی خلافت 656ھ میں آخری خلیفہ معتصم باﷲکے منافق وزیر اعظم بن علقمی کی غداری اور ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں ختم ہوئی اور چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے دارالخلافہ بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی تین چار دن میں کئی لاکھ مسلمان قتل ہوئے جن کے خون سے دریائے دجلہ کا پانی سرخ ہوگیا خلیفہ معتصم باﷲاپنے تین سو ساتھیوں کے ہمراہ غیر مشروط طور پر بغداد چھوڑنے کے لیے نکلا مگر ہلاکو نے اس کو پکڑ کر قتل کرڈالا اس طرح ان شیعوں کے طفیل عباسی خلافت کا وجود مٹ گیا !
    سسلی جسے 212 ھ میں اسدبن فرات کی سرکردگی میں مسلمانوں نے فتح کیا تھا اور تقریباًٍ دوصدیوں تک بڑے رعب ودبدبہ سے وہاں حکومت کی تھی ۔بالآخر ''قصریانہ ''کے منافق حاکم ابن ِ حمود کی غداری کے نتیجہ میں مسلمانوں کے ہاتھوں سے ہمیشہ کے لئے نکل گیا ۔سسلی کے سقوط کے بعد مصر کے فاطمی خلیفہ نے نصرانیوں کے فاتح جرنیل ''روجر''کے پاس مبارک بادی کا مکتوب بھیجا تھا ،جس میں روجر کے اس اقدام کی تعریف کرتے ہوئے جزیرہ سسلی کے مسلمانوں کو شکست کا مستحق قرار دیا تھا !

    فاطمی حکومت جو 298 ھ میں مراکش کے اندر قائم ہوئی تھی اور 362 ھ میں اس کی قیادت منتقل ہوکر مصر آگئی تھی۔اس منافق حکومت کو کھلے طور پر یہود ونصاریٰ پر اعتماد تھا ،انہیں میں سے زیادہ تر وزراء ،ٹیکس اور زکوۃ کے محصلین ،سیاسی ،اقتصادی اور علمی امور کے مشیر ،اطباء اور حکام کے معتمدین ہوتے تھے ۔اور بڑے بڑے کام انہیں کے سپرد کئے جاتے تھے ،ان لوگوں کے ظلم وستم سے لوگ پناہ مانگتے تھے ۔ان کی کہیں بھی داد رسی نہ ہوتی تھی ،عزیز فاطمی نے اپنے وزیر یعقوب بن کلس یہودی کی محبت میں فاطمی مذہب کے لیے دعوت کا کام اس کے حوالہ کردیا تھا ۔یہ وزیر خود بیٹھ کر منافق فقہ کا درس دیتا تھا ،اس طرح اس منافق حکومت کے طفیل یہودیوں کے ہاتھوں مصر کے عوام کو ناقابل تلافی دینی اور دنیاوی نقصانات پہنچتے رہے ،بالآخر 567ھ میں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اﷲ کے ہاتھوں یہ منافق حکومت ختم ہوئی اور مسلمانوں نے اطمینان کا سانس لیا!
    ہندوستا ن میں مغلیہ حکومت جو اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں کابل سے لے کر رنگون تک وسیع ہوگئی تھی ان کی وفات کے بعد منافق عناصر کی ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں زوال پذیر ہوگئی ۔تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں سے ''سادات بارہہ''کے نام سے دومشہور بھائیوں ،عبداﷲاور علی بن حسین کے کردار وحرکات مخفی نہیں ۔یہ دونوں منافقین کے پیروکار اور ''بادشاہ گر''کے نام سے مشہور ہوگئے تھے ان کا عروج مغلوں کے زوال کا سبب بن گیا اور پچاس سال کے مختصر سے عرصے میں صدیوں سے قائم مغل سلطنت انحطاط وخاتمہ کے نزدیک پہنچ گئی ،بالآخر 1857ھ میں انگریزوں نے جو منافقین کے طفیل ہی ہندوستان کی سرزمین میں قدم جمانے میں کامیاب ہوئے تھے ،آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کرکے رنگون میں قید کردیا وہاں ا س کی موت ہوگئی ،اس طرح ہندوستان میں بھی مسلم حکومت کا خاتم ہوگیا تھا!

    پلاسی کی جنگ میں جب سراج الدولہ بنگال میں انگریزوں کے دانت کھٹے کررہا تھا تو عین وقت پر اس کے منافق وزیر ''میر جعفر''کی غداری سے پانسہ پلٹ گیا ،اور سراج الدولہ کو شکست ہوگئی اس طرح ان منافقوں کے طفیل مشرقی ہندوستا ن میں انگریزوں کو پیر جمانے اور سیاسی طور پر مستحکم ہونے کا موقع ملا ۔

    سلطان ٹیپو شہید﷫ جنوبی ہند میں انگریزوں کے لئے بلائے بے درماں بنے ہوئے تھے ۔مگر منافقوں نے ان سے غداری کی حیدرآباد کا حکمراں نظام جو کہ خود منافق تھا انگریزوں کے شانہ بشانہ ٹیپو کے خلاف لڑ رہا تھا اور سرنگا پٹم کے محاصرے کے دوران ٹیپو سلطان کے وزیر میر صادق نے جومنافق تھا عین لڑائی کے دوران غداری کی اور فتح شکست میں تبدیل ہوگئی ۔

    آخری اسلامی خلافت یعنی ترکوں کی حکومت کے زوال کے اسباب اگرچہ اور بھی تھے جیسے بعض ترکی سلاطین کی کمزوری وعیش کوشی ،سیاسی امور میں حاشیہ نشینوں کی مداخلت ،حکومتی شعبوں کا بگاڑ اور رشوت کی گرم بازاری ،سیاسی اعتقادی اور فکر زندگی کے بگاڑ کے دوسرے بہت سے محرکات ،مگر صلیبی اور صہیونی طاقتوںکی ریشہ دوانیاں اور دشمنانِ اسلام یہود کی سازشیں ، عثمانی خلافت کے خاتمہ کے لئے سرفہرست اور بنیادی اہمیت رکھتی ہیں !

    1897ء میں جب سلطان عبدالحمید برسراقتدار تھے ،سوئزر لینڈ کے شہر پال میں ہرتزل یہودی کی سربراہی میں صہیونی کانفرنس منعقد ہوئی ،جو پال کانفرس کے نام سے مشہور ہے۔اسی کانفرنس میں فلسطین کے اندر یہودی حکومت قائم کرنے کا منصوبہ تیار ہوا

    ،صہیونیوں نے عرب قوم پرستوں کے دشمن سلطان عبدالحمید کو اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کی کہ یہودیوں کو فلسطین ہجرت کرنے کی اجازت دی جائے ،سلطان نے اس تجویز کو قطعیت کے ساتھ صرف رد ہی نہیں کیا بلکہ فوراً یہ قانون نافذ کردیا کہ یہودی ہجرت سختی سے روک دی جائے اور فلسطین میں یہودی نو آبادی کسی قیمت پر قائم نہ ہونے دی جائیں !

    فلسطین میں یہودی وطن کے قیام کی مخالفت سلطان عبدالحمید کی طرف سے یہودیوں کے منہ پر ایک طمانچہ تھا ،جس کا انہوں نے بھرپور بدلہ لیا ،سلطان کو اس کا تصور بھی نہ تھا ۔یہودیوں نے ایک طرف حکومت دشمن تحریکوں کو ابھارا اور اسلام کے جھنڈے تلے جمع ہونے کے بجائے نسل وقوم کے نظریوں کو فروغ دینے کی کوشش کی ،دوسری طرف ان یہودیوں نے عثمانی حکومت پر اندر سے حملے شروع کردئیے ،نسل ،تہذیب ،آزادی،بھائی چارہ اور مساوات کا زبردست پروپیگنڈہ کرکے ترکوں کو اسلام سے منحرف کرنے میں مصروف ہوگئے تاکہ ان فریب خوردہ افراد کو مسخر کرکے امت مسلمہ کے شیرازے کو منتشر کردیں ۔

    اس مقصد کے لئے سب سے زیادہ کام انہوں نے دوپارٹیوں سے لیا ،ایک جماعت ''ترکیا الفتاہ''اور دوسری اتحاد وترقی''ترکی کی ادیبہ خالدہ خانم نے ادبی وفکری سطح پر ''تورانی قومیت ''کے نظریہ کو دوسروں کے ساتھ مل کر رواج دیا ''ترکیا الفتاۃ''کے لیڈروں نے انقلاب کے لیے راہ ہموار کی اور ترکی کو اسلام کے تشخص اور اس کے پیغام سے بے نیاز کردیا ،ان لوگوں نے ترکی کو پہلی جنگ عظیم میں بلا کسی معقول عذر کے ڈھکیل دیا ،پھر جب ترکی کے حلیف جرمن قوم کو شکست ہوگئی تو ترکی نے بھی اپنی شکست تسلیم کرلیا اور 1918ھ کے معاہدہ روڈس (RHODESPACT)میں سرکاری طورپر عثمانی حکومت اور اسلامی عزت ووقار کا آفتاب غروب ہوگیاتھا!

    پہلی جنگ عظیم میں ترکی کی شکست تسلیم کرلینے کے بعد یورپی ممالک نے اس ''مرد بیمار''کی املاک کو آپس میں تقسیم کرلیا ۔اس کے بعد انہوں نے ''جدید ترکی''کی تعمیر کرنے کے لیے ایک ایسے شخص کو منتخب کیاجو یہودی تھا اور قوم پرستی کے جذبات کے سہارے اس یہودی شخص نے جس کا نام مصطفی کمال تھا ،آخری عثمانی خلیفہ عبدالمجید بن عبدالعزیز کو،جو انہی انقلابیوں کے ہاتھوں ہی تخت نشین ہوا تھا ،ملک میں جمہوری حکومت کے قیام کا اعلان کرنے پر مجبور کردیا ۔اس کے بعد نام نہاد ''قومی جمعیۃ ''کی طرف سے مصطفی کمال پاشا یہودی کو سربراہ مملکت منتخب کرلیا گیا اور اسے اتاترک کا خطاب دے دیا گیا جس کا معنی ہوتے ہیں ''قوم ترک کا باپ''اقتدار حاصل کرنے کے صرف چھ ماہ بعد مصطفی کمال یہودی نے اسلامی حکومت کے خاتمہ کا اعلان کردیا تھا اور پھر3/ مارچ 1924ء کو مسلمانوں کے آخری خلیفہ کو ملک سے باہر نکال دیا گیا ۔
    عثمانی خلافت کے خاتمہ کا مطلب یہ تھا کہ خلافت کا رمزی اور شکلی وجو د بھی اس شخص کے صہیونی منصوبوں کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ یا خطرہ بن سکتا تھا ۔اس کے علاوہ مشہور مشتشرق ''کارل بروکلمن ''کے الفاظ کے مطابق ''خلافت کے خاتمہ کے بعد ''غازی''اتاترک کو وہ تمام اقدامات کرنے آسان ہوگئے جن کے ذریعہ ترکی قدامت پرستی کے غار سے نکل کر ''جدید تہذیب وتمدن ''کا علم بردار بن گیا ''۔
    مصطفی کمال اتاترک یہودی نے ترکی کو جدید بنانے کے لئے جو اقدامات کئے ان کی تفصیل یہ ہے کہ اقتدار پر بلا شرکت غیرے قابض ہوتے ہی اس نے سب سے پہلے عربی زبان اور اس کے رسم الخط پر پابندی لگادی اس طرح قرآن مجید بھی اپنے پاس رکھنا وہاں جرم ہوگیا تھا ،اوقاف کو ختم کیا،مساجد میں تالے ڈالے ،پورے ملک میں اسلامی قوانین کو معطل کردیا ،ایا صوفیہ کی مشہور مسجد کو میوزیم اور سلطان محمد فاتح کی مسجد کو ''مخزن''بنادیا ترکی ٹوپی کی جگہ ہیٹ کو رواج دیا ،زبردستی انگریزی لباس جاری کیا نصاب تعلیم سے عربی وفارسی زبانوں کو بالکل نکال دیا ،عربی کی کتابوں اور مخطوطات کو معمولی قیمت پر فروخت کردیا۔یورپ کی ''سیکولر تعلیم ''کو پورے ترکی میں رائج کیا اور یہ تعلیم ٹیکنالوجی کے میدان میں اختیار نہیں جس سے مسلمان سائنسی میدان میں ترقی کرسکتے ،بلکہ محض لسانی ،ادبی اور دینی میدان میں یورپ کی تعلیم کو فروغ دیا ۔

    اسی طرح یہود کی کوشش او رریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں ترکی کو زوال ہوا اور پھر اس کے بعد سے ترکی آج تک نہ سنبھل سکا ،ترکی کے بعد پورا عالم اسلام یکے بعد دیگرے زوال کا شکار ہوتا چلا گیا ،اتحاد اور وحدت اسلامی کے رشتے کمزور پڑتے گئے اس زوال اور ادبار سے عرب بھی محفوظ نہ رہ سکے۔

    انقلاب فرانس ،جس کے اصولوں کے پس پردہ یہودی ذہن کا رفرما تھا ،اس کے پروردہ نپولین بونا پارٹ نے 1789ء میں مصر پر چڑھائی کی ،ازہر یونیورسٹی کو گھوڑوں کا اصطبل بنادیا ،قاہرہ سے اسکندریہ تک راستہ میں جو بستیاں اور شہر تھے ،انہیں تباہ کردیا ،فرانسیسی استعمار نے اپنے قدم مصر کی سرزمین پر جمالینے کے بعد وہاں شراب ،جوا ،فحاشی اور اخلاقی بے راہ روی کو رواج دینے کے لیے اپنے تمام وسائل جھونک دئیے تھے ۔مصر وشام میں عرب وغیر عرب مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے لیے انہوں نے ''مائیکل افلق ''اور'' لارنس ''جیسے یہودیوں کی خدمات حاصل کیں اور انہوں نے عربی عوام میں عربی تفاخر اور ''عرب قومیت''کے نظریہ کو رواج دیا اور ان کی کوششوں سے عربوں کے قومی جذبات وعصبیت ابھر کر رفتہ رفتہ اس سطح پر پہنچ گئی کہ وہ ''ابوجہل''اور''ابولہب ''جیسے دشمنان اسلام کو اپنا ''قومی ہیرو''تصور کرنے لگے اور مصر میں ان کے نام سے کلب قائم کیے جانے گلے ۔یہ صورت حال مصر اور پورے عالم عرب کے لئے قومی عصبیت اور مغربی تہذیب وتمدن کی طرف پیش قدمی کرنے اور انقلاب فرانس کے ''اصول ثلاثہ''پر آنکھ بند کرکے ایمان لانے میں بڑی معاون ثابت ہوئی ۔

    عربوں کو خلافت عثمانی ترکی سے برگشتہ کرنے کے لیے یہودی النسل لارنس نے ان کے اندر عرب قومیت کا جنون پیدا کرکے انہیں ''ملت اسلامیہ''سے ذہنی طور پر علیحدہ کرنے اور مغربی افکار ونظریات کادلدادہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔اس کے پیرو کار ساطع حضرمی جیسے شخص نے جس کی عجمیت کا حال یہ تھا کہ وہ فصیح عربی بولنے پر بھی قادر نہ تھا اور صہیونی تربیت کے نتیجہ میں اسلام سے سخت عداوت رکھتا تھا اس نے ''عرب قومیت ''کے نظریہ کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا اور یہودی عناصر کی امداد وتعاون کے سہارے اسے اس مہم میں بڑی حدتک کامیابی حاصل ہوئی ۔
    ''عرب قومیت''کا نظریہ جس کا سیکولر مفہوم اسلام دشمنی تھا ،یہودی ذہن کی پیدا وار تھا ،اور یہ نظریہ ان صہیونیوں نے ایک سازش کے تحت سیدھے سادے عربوں کو عثمانی خلافت سے برگزشتہ کرنے اور ملت اسلامیہ سے انہیں ذہنی طور پر علیحدہ کرنے کے لیے تراشا تھا ۔اس کا مقصد عربوں کو اس جامع عقیدہ ﴿انما المؤمنون اخوۃ﴾سے دور کرنا تھا جس کی بناپر عرب متفقہ طور پر صہیونیت کا مقابلہ کرسکتے تھے اور تمام دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ یہود اور دشمنان اسلام کے دانت کھٹے کرسکتے تھے ۔
    عرب قومیت کا نظریہ عربوں کے دائمی انتشار کی ضمانت تھا ،کیونکہ یہ ایسے قوم پرست اور انقلاب پسند نوجوانوں سے عبارت تھا جس کے پاس نہ تو کوئی عقیدہ تھا اور نہ اصلیت اور تاریخی بیدار مغزی اس طرح انہیں بڑی آسانی سے چند نعرے سمجھائے جاسکتے تھے جنہیں وہ برابر دہراتے رہیں اور اپنی اپنی قوم کی عقلوں کو اسی میں الجھائے رہیں ۔عرب قومیت نے عربوں کو ذہنی طور پر انتہائی نیچی سطح پر پہنچا دیا ہے اور وہ عالم اسلام کی ذہنی قیادت کے منصب عظمیٰ کو چھوڑ کر محدود گروہی سیاست اور قومی وعلاقائی عصبیتوں کے دام وفریب میں اسیر ہوکر رہ گئے ہیں۔

    "اپنے سب اختلافات اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹا دو"
 

x boy

محفلین
لگتا ہے اب وہ وقت آگیا جس کے بارہ میں پیارے رسول صلی اللہ علیہ فرماگئے۔
یہودیوں ، نصرانیوں ، مجوسیوں،بدھ پوجا اور ناماننے والوں کے ہمدرد بہت مل رہے ہیں
واہ اس زمانے میں ہم میں وہ انسان بھی ہے جو قرآن اور حدیث سے متفق نہیں۔
کیری آن۔
 
آخری تدوین:
Top