یہاں جذبات بکتے ہیں یہاں ارمان بکتے ہیں

الف عین
عظیم
شکیل احمد خان23
الف نظامی
مقبول
سید عاطف علی
-----------
یہاں جذبات بکتے ہیں یہاں ارمان بکتے ہیں
ملے قیمت اگر اچھی ،یہاں ایمان بکتے ہیں
--------
خریداروں کی جنّت ہے ہمارا دیس دنیا میں
یہاں محکوم بکتے ہیں ، یہاں سلطان بکتے ہیں
----------
کمائیں گے تو کھائیں گے ہمیں جینا جو پڑتا ہے
جہاں گیہوں نہ بک پائے وہاں دہقان بکتے ہیں
-------------
ہمارا دیس کہنے کو ہے اسلامی ممالک میں
جہاں پر عیش و عشرت کے سبھی سامان بکتے ہیں
-----------
خدا کو بیچ کھاتے ہیں علمبردار مذہب کے
یہاں پر دین و مذہب کے سبھی فرمان بکتے ہیں
----------
کیا ہے دور منزل سے ہمارے رہنماؤں نے
ہمارا دیس ایسا ہے جہاں ایوان بکتے ہیں
---------
ضمیروں کی خریداری یہاں پر عام ہوتی ہے
نہیں ہے پاس وعدوں کا یہاں پیمان بکتے ہیں
----------
کسی کی شاعری ارشد کسی کے نام چھپتی ہے
جہاں شاعر نہ بکتا ہو وہاں دیوان بکتے ہیں
-----------
 
شعرکا منصب اور اہلِ سخن کی ذمہ داری(حصّہ ٔ اوّل)
ایک بڑے پردے پر دیکھیں تو دنیا میں ایک ہی فلم چل رہی ہے جس کاعنوان ہے ’’یہاں سب ممکن ہے‘‘۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں انسان نے فطرت کی برتری کو تسلیم کرکےکبھی اِس کے آگے اپنا سرجھکا دیا ہے اور کبھی بڑی بے اعتنائی سے اِسے ٹھکرابھی دیا ہے ۔ دونوں صورتوں میں بہرحال اِنسان نے اپنا آپ منواکرہی دم لیا ہے اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔
آپ کے اِس غزل نماگیت میں اُردُو کی باغیانہ شاعری کی بُوباس ملتی ہے ،جسے اُردُو کی غصیلی شاعری کہیں تو بیجا نہ ہوگا۔ مگر اِس نوع کی شاعری میں بھی ہمارے شعرا نے شعر کے اصل منصب اور اہلِ سخن کی اُس ذمہ داری کوبہرکیف سامنے رکھا ہے جس سے عالمگیرمحبت کو فروغ ملے۔چناں چہ میں آپ سے بھی یہی کہوں گا کہ چیزوں کو ایک بڑے تناظر میں دیکھتے ہوئے ایک بڑے کینوس پر پیش کرنے کی سعی کریں وگرنہ آپ کا کہا آپ ہی تک محدود ہوکر رہ جائیگا یامنچلوں کی خوش وقتی کے لیے ، اِس کی حیثیت ایک لطیفے سے زیادہ نہ رہیگی۔
اب آئیے اِس تازہ نظم کے ایک دو شعر لیتے ہیں۔یہاں جذبات بکتے ہیں ، یہاں ارمان بکتے ہیں کو کہیں جذبات بکتے ہیں ، کہیں ارمان بکتے ہیں کیا جا سکتا ہے اوراِسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بجائے ملے قیمت اگر اچھی یہاں ایمان بکتے ہیں کے،یہ انسانوں کی منڈی ہے یہاں انسان بکتے ہیں کہاجاسکتا ہےتاکہ دونوں مصرعوں کا باہم ربط مضبوط اور اُستوار ہوجائے۔ اوریوں ایک بڑی بات کہنے یعنی انسان کے مختلف روپ دکھانے کے لیے ایک واجبی سی تمہید سامنے آجائے ، تاکہ اپنی بات شروع اور نقطہ ٔ نظر پیش کیا جاسکے۔
خریداروں کی جنت ہے ہمارا دیس دنیا میں ۔۔۔خود کو محدود مت کیجیے ۔اِس وقت عالم تمام ایک چھوٹا سا گاؤں بن کررہ گیا ہے اور ہم آپ اِسی ولیج نُمابستی کے باسی ہیں حتی ٰ کہ ہماری سانسیں دنیا میں گونج رہی ہیں اور دنیا کی باتیں ہمارے کانوں میں بج رہی ہیں ۔لہٰذا آپ خریداروں کی جنت اِس دنیا کو بتائیں جس میں خوشحالی کے فروغ کی بنیاد ہی یہ نعرہ ہوگیا ہے کہ ’’ بیچ دے‘‘ ۔۔۔۔(OLX)
میں نے یہ چند لفظ آپ کی تازہ نگارش کی شان میں(اِس کے ایک دو شعر لیکر ) کہے ہیں کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں اِس میں’’
۔آدمی نامہ‘‘ جیسی شہرۂ آفاق نظم کی یہ خوبی موجود ہے کہ دنیا میں طرح طرح کے انسانوں سے جو چہل پہل ہے اُسے نت نئے انداز سے دیکھااور دکھایا جاسکتا ہے ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ آپ کی اکثر غزلوں میں مسلسل غزل یا مستقل نظم کاوصف تو بہرحال موجود ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شکیل احمدخان ، کراچی ، پاکستان۔
 
آخری تدوین:
بہت بہت شکریہ شکیل بھائی ، آپ کے مشورے بہت رہنمائی دیتے ہیں، آیئدہ آپ کی ہدایات کا خیال رکھوں گا بحرحال رہنمائی اور تصحیح کے لئے آپ تو ہیں ہی ،اللہ آپ کو صحت تندرستی اور لمبی عمر عطا فرمائے، رہنمائی فرماتے رہیئے۔
 

الف عین

لائبریرین
کل ہی دیکھی تھی میں نے یہ مسلسل غزل، لیکن اس پر اس وقت کچھ لکھ نہیں سکا۔ یہی صفحہ ابھی بھی کھلا ہوا تھا تو دیکھ رہا ہوں کہ شکیل میاں نے بھیوہی باتیں لکھی ہیں۔ یہی کہ یہ مسلسل قسم کی غزل ہے اور اچھے مصرعے ہیں، مگر مسلسل غزل کی شکل میں ہے، تو ضروری ہے کہ ہر شعر، یعنی دو مصرعوں میں ربط مبہم نہ ہو۔ اور اتفاق ہی ہے کہ جب میں نے سوچا تھا کہ کوئی اب تک نہیں آیا ہے تو میں ہی اصلاح کر دوں، تو مطلع کی بعینہ یہی اصلاح ذہن میں آئی تھی یعنی
کہیں جذبات.....
باقی اشعار
خریداروں کی جنّت ہے ہمارا دیس دنیا میں
یہاں محکوم بکتے ہیں ، یہاں سلطان بکتے ہیں
----------
جیسا کہ بھائی شکیل نے کہا ہے کہ یہ حالت تو پوری دنیا کی ہو گئی ہے، ہر جگہ صارفانہ تہذیب پھیل چکی ہے، کہیں زیادہ کہیں کم! لیکن یہاں بھی دونوں مصرعوں میں ربط کی کمی ہے۔
کمائیں گے تو کھائیں گے ہمیں جینا جو پڑتا ہے
جہاں گیہوں نہ بک پائے وہاں دہقان بکتے ہیں
-------------
پہلے مصرع سے لگتا ہے کہ ہم ہی اپنی داستان سنا رہے ہیں، لیکن دوسرے میں پھر تھرڈ پرسن میں دہقان کا ذکر ہے۔
جب دہقان خود ہی بک رہا ہے تو اس کی قیمت کون کھا رہا ہے؟ دہقان خود ہی تو نہیں کھا سکتا کہ وہ اب کھانے بلکہ کچھ بھی کرنے کے لئے آزاد نہیں
پھر "ہمیں /انہیں جینا جو پڑتا ہے" کا فقرہ غیر متعلق لگتا ہے، پہلے مصرع کے ہی "کمائیں گے..."( بغیر کسی فاعل کے اس سے مراد فاعل "ہم" ہی سمجھا جائے گا، ورنہ دہقانوں کی بات ہے تو یہ لفظ بطور فاعل لانا ضروری ہے)
ہمارا دیس کہنے کو ہے اسلامی ممالک میں
جہاں پر عیش و عشرت کے سبھی سامان بکتے ہیں
-----------
کیا دوسرے کسی اسلامی ملک میں عیش و عشرت کا سامان نہیں بکتا؟ کیا اسلام منع کرتا ہے عیش و عشرت کی زندگی سے؟ نہیں، اسلام تو پسند کرتا ہے کہ اگر آپ دولت مند ہیں تو اپنی دولت کا اظہار کریں، گھمنڈ کے بغیر، اللہ کے شکرانے کے طور پر۔
خدا کو بیچ کھاتے ہیں علمبردار مذہب کے
یہاں پر دین و مذہب کے سبھی فرمان بکتے ہیں
----------
درست
کیا ہے دور منزل سے ہمارے رہنماؤں نے
ہمارا دیس ایسا ہے جہاں ایوان بکتے ہیں
---------
ربط غائب، دو لختی
ضمیروں کی خریداری یہاں پر عام ہوتی ہے
نہیں ہے پاس وعدوں کا یہاں پیمان بکتے ہیں
----------

کسی کی شاعری ارشد کسی کے نام چھپتی ہے
جہاں شاعر نہ بکتا ہو وہاں دیوان بکتے ہیں
شاعروں کو تو یہی رونا ہے کہ دیوان کون خریدے گا؟
شعر دو لخت ہے یہ بھی
 
الف عین
شکیل احمد خان23
------------
اصلاح کے بعد دوبارہ
---------------
کہیں جذبات بکتے ہیں کہیں ارمان بکتے ہیں
اگر قیمت مناسب ہو تو پھر ایمان بکتے ہیں
--------
یہ دنیا بن گئی کیسی یہ کیسا وقت آیا ہے
کہیں محکوم بکتے ہیں کہیں سلطان بکتے ہیں
----------
اگر دہقان کو اجرت ملے اچھی نہ گیہوں کی
تو پھر کھیتی نہیں اگتی وہاں میدان بکتے ہیں
-----------
وہاں پر جرم بڑھتا ہے جہاں انصاف بکتا ہو
یہاں دیکھے ہیں قاضی بھی بہت آسان بکتے ہیں
----------
خدا کو بیچ کھاتے ہیں علمبردار مذہب کے
یہاں پر دین و مذہب کے سبھی فرمان بکتے ہیں
---------
کیا ہے دور منزل سے ہمارے رہنماؤں نے
یہاں ایوان میں بیٹھے ہوئے ارکان بکتے ہیں
---------
بدل جاتی ہیں سوچیں بھی مناسب ہو اگر قیمت
یہاں افکار بکتے ہیں یہاں اذہان بکتے ہیں
--------
دلوں میں حرص و لالچ نے کیا نقصان لوگوں کا
عقلمندوں کی دنیا میں فقط نادان بکتے ہیں
-------
ضمیروں کی خریداری یہاں پر عام ہوتی ہے
نہیں ہے پاس وعدوں کا یہاں پیمان بکتے ہیں
-----------
دواخانے بھی نقلی ہیں عطائی ہیں جہاں بیٹھے
وہاں ہر درد کے درمان بکتے ہیں
-------
سلامت ہو اگر ایماں تو پھر بکتا نہیں انساں
جہاں میں پار پیسوں پر تو بے ایمان بکتے ہیں
-----------
جو کہنا ہو تمہیں ارشد ، کہو آسان لفظوں میں
اگر ہو شاعری اچھی تو پھر دیوان بکتے ہیں
-----------
اقتباس جوابرپورٹ
 
1
یہاں جذبات بکتے ہیں یہاں ارمان بکتے ہیں
کہیں حسرت کہیں جذبے کہیں ارمان بکتے ہیں
یہ دنیا ہے یہاں ہر دم یہی سامان بکتے ہیں

ملے قیمت اگر اچھی ،یہاں ایمان بکتے ہیں
--------
خریداروں کی جنّت ہے ہمارا دیس دنیا میں
خریداروں کی جنت ہے زمیں ساری جہاں سارا
یہاں محکوم بکتے ہیں ، یہاں سلطان بکتے ہیں
بڑی بولی پہ منٹوں میں یہاں سلطان بکتے ہیں
----------
کمائیں گے تو کھائیں گے ہمیں جینا جو پڑتا ہے
کمائیں گے تو کھائیں گے کہ جینا بھی تو ہے اِن کو
چلو دیکھیں کہ اب کس دام یہ دہقان بکتے ہیں

جہاں گیہوں نہ بک پائے وہاں دہقان بکتے ہیں
-------------
ہمارا دیس کہنے کو ہے اسلامی ممالک میں
کہ سب انساں برابر ہیں تو پھر یہ عیش و عشرت کے
جہاں پر عیش و عشرت کے سبھی سامان بکتے ہیں
کہاں جاتے ہیں کس کے ہاتھ یہ سامان بکتے ہیں
-----------
خدا کو بیچ کھاتے ہیں علمبردار مذہب کے
خدا کو بیچ میں لاکر غریبوں کا یہ حق کھائیں

یہاں پر دین و مذہب کے سبھی فرمان بکتے ہیں
بتا تو دو کہاں ناحق کے یہ فرمان بکتے ہیں

----------
کیا ہے دور منزل سے ہمارے رہنماؤں نے
کیا ہے دُور منزل سےسیاست کے خداؤں نے

ہمارا دیس ایسا ہے جہاں ایوان بکتے ہیں
جنھیں کثرت دکھانے کو یہاں انسان بکتے ہیں


---------
ضمیروں کی خریداری یہاں پر عام ہوتی ہے
ضمیروں کی خریداری جہاں میں عام ہے اِس وقت

نہیں ہے پاس وعدوں کا یہاں پیمان بکتے ہیں
----------
کسی کی شاعری ارشد کسی کے نام چھپتی ہے
جہاں شاعر نہ بکتا ہو وہاں دیوان بکتے ہیں
یہاں ردّی کے بھاؤ تول کر دیوان بکتے ہی











2
کہیں جذبات بکتے ہیں کہیں ارمان بکتے ہیں
اگر قیمت مناسب ہو تو پھر ایمان بکتے ہیں نمبر ایک کا مصرع ثانی
--------اِس سے بہتر تھا
یہ دنیا بن گئی کیسی یہ کیسا وقت آیا ہے
یہ دنیا ہوگئی کیا انقلابِ وقت کے ہاتھوں
کہیں محکوم بکتے ہیں کہیں سلطان بکتے ہیں
کبھی بکتی رعایا تھی سواب سلطان بکتے ہیں

----------
اگر دہقان کو اجرت ملے اچھی نہ گیہوں کی
جہاں دہقان کو اُجرت ملے کم اُس کی محنت سے

تو پھر کھیتی نہیں اگتی وہاں میدان بکتے ہیں
وہاں فصلیں نہیں پھر کھیت اور کھلیان بکتے ہیں

-----------
وہاں پر جرم بڑھتا ہے جہاں انصاف بکتا ہو
پنپتے ہیں جرائم جب نہ ہو انصاف کی صورت

یہاں دیکھے ہیں قاضی بھی بہت آسان بکتے ہیں
تو پھر ایسی فضا میں کب گل و گلدان بکتے ہیں

----------
خدا کو بیچ کھاتے ہیں علمبردار مذہب کے
یہاں پر دین و مذہب کے سبھی فرمان بکتے ہیں

---------
کیا ہے دور منزل سے ہمارے رہنماؤں نے
یہاں ایوان میں بیٹھے ہوئے ارکان بکتے ہیں

---------
بدل جاتی ہیں سوچیں بھی مناسب ہو اگر قیمت
بدل جاتی ہیں سوچیں تک اگر قیمت لگے اچھی

یہاں افکار بکتے ہیں یہاں اذہان بکتے ہیں
یہاں افکار تو افکار ہیں اذہان بکتے ہیں

--------
دلوں میں حرص و لالچ نے کیا نقصان لوگوں کا
ہوا و حرص میں یہ حال ہے اب زمانے کا
عقلمندوں کی دنیا میں فقط نادان بکتے ہیں
ہے کال اب عقل و دانش کا فقط نادان بکتے ہیں

-------
ضمیروں کی خریداری یہاں پر عام ہوتی ہے
نہیں ہے پاس وعدوں کا یہاں پیمان بکتے ہیں

-----------
دواخانے بھی نقلی ہیں عطائی ہیں جہاں بیٹھے
وہاں ہر درد کے درمان بکتے ہیں

-------
سلامت ہو اگر ایماں تو پھر بکتا نہیں انساں
جہاں میں پار پیسوں پر تو بے ایمان بکتے ہیں

-----------
جو کہنا ہو تمہیں ارشد ، کہو آسان لفظوں میں
اگر ہو شاعری اچھی تو پھر دیوان بکتے ہیں

-----------​






غزل
کہیں آنسو کہیں آہیں کہیں ارمان بکتے ہیں
یہی سامانِ دنیا ہیں کہ جو ہرآن بکتے ہیں
خریداروں کی جنت ہے یہ جگ سارا مرے پیارے
لگے بولی تو منٹوں میں یہاں سلطان بکتے ہیں
کمائیں گے تو کھائیں گے کہ جینا بھی تو ہے اِن کو
چلو دیکھیں کہ اب کس دام پر دہقان بکتے ہیں
ہیں سب انساں برابر جب تو پھر یہ عیش و عشرت کے
کہاں جاتے ہیں کس کے ہاتھ یہ سامان بکتے ہیں
خدا کو بیچ میں لاکر غریبوں کا جو حق کھائیں
بتائیں وہ کہاں ناحق کے یہ فرمان بکتے ہیں
کیا ہے دُور منزل سے سیاست کے خداؤں نے
جنھیں کثرت دکھانے کے لیے انسان بکتے ہیں
ضمیروں کی خریداری جہاں میں عام ہے اِس وقت
کسے ہے پاس وعدوں کا یہاں پیمان بکتے ہیں
کسی کی شاعری ارشؔد کسی کے نام چھپتی ہے
تبھی ردّی کے بھاؤ تُل کے یہ دیوان بکتے ہیں

































 
آخری تدوین:
Top