یونانی فلسفہ عر ب میں کسطرح آیا
یہ مضمون میں نے اردو محفل کے لئے سرچ کیا ہے پورا نہیں پڑھا
جسکو پورا پڑھنا ہو
وہ کلک کرے
منصورہ کے عہد میں سب سے پہلے، ہیئت کی ایک کتاب سدہانت کا ترجمہ سنسکرت سے عربی میں کیا گیا۔ ان علوم کا ذکر اوپر ہو چکا ہے جو فارسی زبان میں موجود تھے اور جن کا ترجمہ عبداللہ بن مقفع وغیرہ نے عربی میں کیا تھا۔ طب کی کتابیں اس کے علاوہ تھیں۔ منصورہ کے عہدے میں ارسطو کی منطق کی کتابوں کے عربی ترجمے کا ذکر بھی ملتا ہے جنہیں عبداللہ ہی نے کہا تھا۔ عبداللہ بن مقفع کا شاندار کارنامہ علم الا خلاق کی معروف کتاب کلیلہ و دمنہ کا فارسی سے عربی میں ترجمہ ہے۔ کلیہ و دمنہ کو نوشیرواں کے دور میں ہندوستان سے لا کر سنسکرت سے فارسی میں منتقل کیا گیا۔
منصور کے بیٹے مہدی کے دور میں تراجم کا کام نہیں ہوا۔ دراصل مہدی نے محسوس کیا کہ کتب کی اشاعت نے مسلمان میں الحاج کی ایک لہر کو جنم دیا ہے لہٰذا اس نے ملحدوں اور زندیقوں کے استیصال کیلئے ایک محکمہ بنایا جو ملحدوں کو سزائیں دیتا تھا۔ مگر وہ بھی ایک علمی کام کر گیا اور وہ یوں کہ اس نے اس فتنہ کا مذہبی اور علمی طور پر خاتمہ کرنے کی خواہش میں علماءکو حکم دیا کہ وہ ملحدوںکی تردید میں کتابیں لکھیں۔ چنانچہ مہدی کے دور میں علم الکلام کی بنیاد پڑی۔
ہارون الرشید کے دور میں کتابوں کا اتنا بڑا ذخیرہ جمع ہو گیا تھا کہ سنبھلنے میں نہ آتا تھا۔ یوحنابن ماسویہ کی نگرانی میں کاتبوں کی ایک جماعت نے دل جمعی کے ساتھ بیٹھ کر تراجم کرنے شروع کیے۔ ایک اور مشہور جم فضل بن نو بخت کا ذکر بھی ملتا ہے جو فارسی زبان سے فلسفہ و حکمت کی کتابوں کا ترجمہ کرتا تھا۔ دوسری طرف برامکہ کی بدولت بہت سے ہندوستانی حکماءہارون الرشید کے دربار میں آئے اور سنسکرت کی کتابوں کا عربی میںترجمہ کیا۔ کہنا چاہیے کہ اسی دور میں فلسفے نے علم الکلام پر سایہ کیا۔
مامون کے دور میں تراجم کا کام اپنے عروج پر پہنچ گیا مگر اب ایک نمایاں فرق تھا۔ مامون نے پہلی بار یونانی علوم و فونون پر اپنے پیشروﺅں سے کہیں زیادہ توجہ دی۔ کتب کا ذخیرہ تو ہارون کے زمانے ہی میں جمع ہو گیا تھا۔ اسے منظم کر کے باقاعدہ کتب خانے کی شکل دی گئی اور اسے بیت الحکمت کا نام دیا گیا۔ اس کے علاوہ مامون نے خود قیصر روم کو خط لکھ کر یونانی علوم و فنون کی قدیم کتب منگوائیں اور ان کا عربی میں ترجمہ کروایا۔ مامون کے تذکرہ نگار اس کے ایک خواب کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ جس میں اس نے ایک وجیہہ بڈھے کو جواپنا نام ارسطو بتاتا تھا، منبر پر بیٹھ کر خطبہ دیتے دیکھا۔ مامون کے اسی خواب کو اس کی یونانی فلسفے کی طرف توجہ کی وجہ بتایا جاتا ہے۔ ممکن ہے یہ بات ایک افسانہ ہو مگر یہ بات دوسری طرح بھی درست ہو سکتی ہے کہ مامون یونانی حکماءاور علوم میں اس قدر دلچسپی لینے لگا تھا کہ خواب میں بھی اس کو ارسطو نظر آیا۔