زبیر مرزا
محفلین
یہی بہت ہے کہ محفل میں ہم نشِیں کوئی ہے
کہ شب ڈھلے تو سحر تک کوئی نہیں کوئی ہے
نہ کوئی چاپ، نہ سایہ کوئی، نہ سرگوشی
مگر یہ دل کہ بضد ہے، “نہیں نہیں کوئی ہے“
یہ ہم کہ راندۂ افلاک تھے، کہاں جاتے؟
یہی بہت ہے کہ پاؤں تلے زمِیں کوئی ہے
ہر اِک زبان پہ اپنے لہُو کے ذائقے ہیں
نہ کوئی زہرِ ہلاہل، نہ انگبِیں کوئی ہے
بھلا لگا ہے ہمیں عاشقوں کا پہناوا
نہ کوئی جیب سلامت، نہ آستِیں کوئی ہے
دیارِ دل کا مسافر کہاں سے آیا ہے؟
خبر نہیں مگر اِک شخص بہترِیں کوئی ہے
یہ ہست و بود، یہ بود و نبود، وہم ہے سب
جہاں جہاں بھی کوئی تھا، وہیں وہیں کوئی ہے
فرازؔ اتنی بھی ویراں نہیں میری دُنیا
خزاں میں بھی گُل خنداں کہیں کہیں کوئی ہے