یہی چاہتے ہو نا مجھ سے

سید رافع

محفلین
یہی چاہتے ہو نا مجھ سے !

بچوں کی خواہش پوری کرنا، بیوی کو مطمئن رکھنا، بچوں کو بہلانا، آفس کے لوگوں کو مطمئن کرنا، بچوں کو گھمانا، دوست احباب کے نظریات کا خیال رکھنا، بیوی کی چال کو سمجھنا، بچوں کے حال کو سمجھنا، ماں کے منہ پھیرنے کو جاننا، بہن کی بے رخی کو پہچاننا، ملا کے مکر کو پہچاننا، کتابوں کے دجل کو جاننا، نوکرانی کے فریب کو بھاپنا، پڑوسن کے وار کو جاننا، فقیر کی صدا کو پہچاننا، بچوں کے کھلونے لانا، برتھ ڈے کی تاریخ موبائل پر لگانا، امریکہ کے کزنزز کی رسمی گفتگو سے کترانا، باس کا نفرت سے سارا کام ڈالنا، کلائنٹ کا آگے بڑھنے پر مضطرب ہو جانا،غیر ملک جانے سے وحشت ہو جانا، انٹرنیٹ پر غزہ کے دردناک قصے میں لگ جانا، نماز سے خشوع کا جانا، ذکر میں دل لگ جانا، کتاب سے تسکین پانا، محفل سے گل و گلاب پانا، جمعے کا ایک خوبصورت خطاب سن کر آنا، دل میں خوبصورت خواب پالنا، منہ موند کے سو جانا، اور پھر سے زندگی کے چکر میں لگ جانا۔

کیا؟ تم کہہ رہے ہو کہ ترجیحات کو پہچانوں!

بچوں کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، بیوی کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، ماں کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، باس کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، بہن کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، بھائی کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، بیٹے کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، بیٹی کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، جس کو ترجیح دی وہ خوش اور جس کو کم ترجیح دی وہ اس سے کم خوش اور پھر جس کو اس سے بھی کم ترجیح دی تو شکوے، اس سے آگے جہاں خیر پہنچا نا شر وہ انجانے، اس سے آگے نفرت، اس سے آگے دشمن۔ لیکن نرمی نے دامن پکڑ کر اوپر اٹھا دیا، اچھی بات کے صدقے نے آگے پہنچا دیا، نیک اعمال کے حصار نے بچا لیا، پھر ترجیح نرمی بن گئی، ترجیح محبت باٹنا بن گئی، پھر ترجیح انکساری بن گئی، پھر اندازہ ہوا کہ کسقدر لوگ خیر مانگ رہے ہیں اور کس قدر کو آپ محروم کر رہے ہیں۔ پھر اندازہ ہوا کہ خاکساری میں قوت ہے ناکہ دی ہی دینے میں۔

تم کہہ رہے ہو کہ وقت تقسیم کروں!

کچھ وقت منانے میں صرف ہو گیا، کچھ غم منانے میں نکل گیا، کچھ دھوکے سے بچنے میں کھو گیا، کچھ فکروں میں کھو گیا، کچھ فیصلہ کرنے میں تمام ہو گیا، کچھ رشتوں کو سمجھنے میں ختم ہو گیا، کچھ آفس کے ماحول نے نچوڑ لیا، کچھ باپ کی راہ پر چلنے میں فنا ہو گیا، کچھ ملا اور فلسفی کی خوش کن صداوں میں گم ہو گیا، کچھ ملکوں ملکوں پھرنے میں ضائع ہو گیا، کچھ کتابیں سمجھنے میں تمام ہو گیا، کچھ رسومات برتنے میں استعمال ہو گیا، کچھ بچا ہی نہیں سب کچھ صرف ہو گیا۔

تم کہہ رہے ہو کہ ضروری اور غیر ضروری لوگوں کی توقعات میں فرق کروں!

صحیح کہہ رہے ہو۔ اب میں لوگوں سے انکے ایمان کے مطابق ملتا ہوں۔ میرے اخلاق کی حدت سورج کی مانند ہرسبز و خاشاک تک پہنچتی ہے لیکن میرا دل صرف ایمان داروں کی توقعات پوری کرنے میں لگا رہتا ہے۔
 
یہی چاہتے ہو نا مجھ سے !
بچوں کی خواہش پوری کرنا، بیوی کو مطمئن رکھنا، بچوں کو بہلانا، آفس کے لوگوں کو مطمئن کرنا، بچوں کو گھمانا، دوست احباب کے نظریات کا خیال رکھنا، بیوی کی چال کو سمجھنا، بچوں کے حال کو سمجھنا، ماں کے منہ پھیرنے کو جاننا، بہن کی بے رخی کو پہچاننا، ملا کے مکر کو پہچاننا، کتابوں کے دجل کو جاننا، نوکرانی کے فریب کو بھاپنا، پڑوسن کے وار کو جاننا، فقیر کی صدا کو پہچاننا، بچوں کے کھلونے لانا، برتھ ڈے کی تاریخ موبائل پر لگانا، امریکہ کے کزنزز کی رسمی گفتگو سے کترانا، باس کا نفرت سے سارا کام ڈالنا، کلائنٹ کا آگے بڑھنے پر مضطرب ہو جانا،غیر ملک جانے سے وحشت ہو جانا، انٹرنیٹ پر غزہ کے دردناک قصے میں لگ جانا، نماز سے خشوع کا جانا، ذکر میں دل لگ جانا، کتاب سے تسکین پانا، محفل سے گل و گلاب پانا، جمعے کا ایک خوبصورت خطاب سن کر آنا، دل میں خوبصورت خواب پالنا، منہ موند کے سو جانا، اور پھر سے زندگی کے چکر میں لگ جانا۔
کیاتم کہہ رہے ہو کہ ترجیحات کو پہچانوں؟
بچوں کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، بیوی کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، ماں کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، باس کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، بہن کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، بھائی کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، بیٹے کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، بیٹی کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، جس کو ترجیح دی وہ خوش اور جس کو کم ترجیح دی وہ اس سے کم خوش اور پھر جس کو اس سے بھی کم ترجیح دی تو شکوے، اس سے آگے جہاں خیر پہنچا نا شر وہ انجانے، اس سے آگے نفرت، اس سے آگے دشمن۔ لیکن نرمی نے دامن پکڑ کر اوپر اٹھا دیا، اچھی بات کے صدقے نے آگے پہنچا دیا، نیک اعمال کے حصار نے بچا لیا، پھر ترجیح نرمی بن گئی، ترجیح محبت باٹنا بن گئی، پھر ترجیح انکساری بن گئی، پھر اندازہ ہوا کہ کسقدر لوگ خیر مانگ رہے ہیں اور کس قدر کو آپ محروم کر رہے ہیں۔ پھر اندازہ ہوا کہ خاکساری میں قوت ہے ناکہ دی ہی دینے میں۔
تم کہہ رہے ہو کہ وقت تقسیم کروں!
کچھ وقت منانے میں صرف ہو گیا، کچھ غم منانے میں نکل گیا، کچھ دھوکے سے بچنے میں کھو گیا، کچھ فکروں میں کھو گیا، کچھ فیصلہ کرنے میں تمام ہو گیا، کچھ رشتوں کو سمجھنے میں ختم ہو گیا، کچھ آفس کے ماحول نے نچوڑ لیا، کچھ باپ کی راہ پر چلنے میں فنا ہو گیا، کچھ ملا اور فلسفی کی خوش کن صداوں میں گم ہو گیا، کچھ ملکوں ملکوں پھرنے میں ضائع ہو گیا، کچھ کتابیں سمجھنے میں تمام ہو گیا، کچھ رسومات برتنے میں استعمال ہو گیا، کچھ بچا ہی نہیں سب کچھ صرف ہو گیا۔
تم کہہ رہے ہو کہ ضروری اور غیر ضروری لوگوں کی توقعات میں فرق کروں!
صحیح کہہ رہے ہو۔ اب میں لوگوں سے انکے ایمان کے مطابق ملتا ہوں۔ میرے اخلاق کی حدت سورج کی مانند ہرخس و خاشاک تک پہنچتی ہے لیکن میرا دل صرف ایمان داروں کی توقعات پوری کرنے میں لگا رہتا ہے۔​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واہ!
آپ کی تحریرکی خوبی یہ ہے کہ یہ خالصتاً آپ کی اپنی ہے ۔ کاپی پیسٹ کا ثمر ہ نہیں ہے۔آپ نے سماجی روابط کی موجودہ ہوش رُبائیوں کو خوبصورتی سے نثر کا پیرایہ پہنایاہے۔موجودہ زندگی کے تقریباً سارے ہی خلفشار اِس چھوٹی سی تحریر میں درآئے ہیں ۔اِس وقت چاہیے بھی یہی کہ کم سے کم لفظوں میں دل کا خلجان بیان کردیا جائے ،کوئی سنے نہ سنے بھڑاس تو نکلے ۔دراصل ہر آدمی ایک ہی طرح کی صورتِ حالات سے دوچار ہے اور نتیجے میں مزاجوں پر ایک ہی جیسا ردِ عمل اور عکس وانعکاس مترتب ہے ، چنانچہ اظہارکے لیے جس قدر ممکن ہو اختصار سے کام لیا جائے تو بہتر ہے ۔اپنے لکھے ہوئے چھوٹے چھوٹے شذروں میں ہی زبان و بیان کی خوبیاں ، انشاپردازی کا ہنر اور ترسیل و ابلاغ کا وصف جمع کردیا جائے تو اِسے کامیاب تحریراور بامراد اظہاریہ کہا جائیگا۔۔۔۔۔۔
 

سید رافع

محفلین
یہی چاہتے ہو نا مجھ سے !
بچوں کی خواہش پوری کرنا، بیوی کو مطمئن رکھنا، بچوں کو بہلانا، آفس کے لوگوں کو مطمئن کرنا، بچوں کو گھمانا، دوست احباب کے نظریات کا خیال رکھنا، بیوی کی چال کو سمجھنا، بچوں کے حال کو سمجھنا، ماں کے منہ پھیرنے کو جاننا، بہن کی بے رخی کو پہچاننا، ملا کے مکر کو پہچاننا، کتابوں کے دجل کو جاننا، نوکرانی کے فریب کو بھاپنا، پڑوسن کے وار کو جاننا، فقیر کی صدا کو پہچاننا، بچوں کے کھلونے لانا، برتھ ڈے کی تاریخ موبائل پر لگانا، امریکہ کے کزنزز کی رسمی گفتگو سے کترانا، باس کا نفرت سے سارا کام ڈالنا، کلائنٹ کا آگے بڑھنے پر مضطرب ہو جانا،غیر ملک جانے سے وحشت ہو جانا، انٹرنیٹ پر غزہ کے دردناک قصے میں لگ جانا، نماز سے خشوع کا جانا، ذکر میں دل لگ جانا، کتاب سے تسکین پانا، محفل سے گل و گلاب پانا، جمعے کا ایک خوبصورت خطاب سن کر آنا، دل میں خوبصورت خواب پالنا، منہ موند کے سو جانا، اور پھر سے زندگی کے چکر میں لگ جانا۔
کیاتم کہہ رہے ہو کہ ترجیحات کو پہچانوں؟
بچوں کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، بیوی کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، ماں کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، باس کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، بہن کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، بھائی کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، بیٹے کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، بیٹی کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، جس کو ترجیح دی وہ خوش اور جس کو کم ترجیح دی وہ اس سے کم خوش اور پھر جس کو اس سے بھی کم ترجیح دی تو شکوے، اس سے آگے جہاں خیر پہنچا نا شر وہ انجانے، اس سے آگے نفرت، اس سے آگے دشمن۔ لیکن نرمی نے دامن پکڑ کر اوپر اٹھا دیا، اچھی بات کے صدقے نے آگے پہنچا دیا، نیک اعمال کے حصار نے بچا لیا، پھر ترجیح نرمی بن گئی، ترجیح محبت باٹنا بن گئی، پھر ترجیح انکساری بن گئی، پھر اندازہ ہوا کہ کسقدر لوگ خیر مانگ رہے ہیں اور کس قدر کو آپ محروم کر رہے ہیں۔ پھر اندازہ ہوا کہ خاکساری میں قوت ہے ناکہ دی ہی دینے میں۔
تم کہہ رہے ہو کہ وقت تقسیم کروں!
کچھ وقت منانے میں صرف ہو گیا، کچھ غم منانے میں نکل گیا، کچھ دھوکے سے بچنے میں کھو گیا، کچھ فکروں میں کھو گیا، کچھ فیصلہ کرنے میں تمام ہو گیا، کچھ رشتوں کو سمجھنے میں ختم ہو گیا، کچھ آفس کے ماحول نے نچوڑ لیا، کچھ باپ کی راہ پر چلنے میں فنا ہو گیا، کچھ ملا اور فلسفی کی خوش کن صداوں میں گم ہو گیا، کچھ ملکوں ملکوں پھرنے میں ضائع ہو گیا، کچھ کتابیں سمجھنے میں تمام ہو گیا، کچھ رسومات برتنے میں استعمال ہو گیا، کچھ بچا ہی نہیں سب کچھ صرف ہو گیا۔
تم کہہ رہے ہو کہ ضروری اور غیر ضروری لوگوں کی توقعات میں فرق کروں!
صحیح کہہ رہے ہو۔ اب میں لوگوں سے انکے ایمان کے مطابق ملتا ہوں۔ میرے اخلاق کی حدت سورج کی مانند ہرخس و خاشاک تک پہنچتی ہے لیکن میرا دل صرف ایمان داروں کی توقعات پوری کرنے میں لگا رہتا ہے۔​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واہ!
آپ کی تحریرکی خوبی یہ ہے کہ یہ خالصتاً آپ کی اپنی ہے ۔ کاپی پیسٹ کا ثمر ہ نہیں ہے۔آپ نے سماجی روابط کی موجودہ ہوش رُبائیوں کو خوبصورتی سے نثر کا پیرایہ پہنایاہے۔موجودہ زندگی کے تقریباً سارے ہی خلفشار اِس چھوٹی سی تحریر میں درآئے ہیں ۔اِس وقت چاہیے بھی یہی کہ کم سے کم لفظوں میں دل کا خلجان بیان کردیا جائے ،کوئی سنے نہ سنے بھڑاس تو نکلے ۔دراصل ہر آدمی ایک ہی طرح کی صورتِ حالات سے دوچار ہے اور نتیجے میں مزاجوں پر ایک ہی جیسا ردِ عمل اور عکس وانعکاس مترتب ہے ، چنانچہ اظہارکے لیے جس قدر ممکن ہو اختصار سے کام لیا جائے تو بہتر ہے ۔اپنے لکھے ہوئے چھوٹے چھوٹے شذروں میں ہی زبان و بیان کی خوبیاں ، انشاپردازی کا ہنر اور ترسیل و ابلاغ کا وصف جمع کردیا جائے تو اِسے کامیاب تحریراور بامراد اظہاریہ کہا جائیگا۔۔۔۔۔۔
پسند کرنے پر بہت بہت شکریہ۔ آپ کی سلامتی کے لیے بے حد دعائیں۔
 

سید رافع

محفلین
Top