یہی چاہتے ہو نا مجھ سے

سید رافع

محفلین
یہی چاہتے ہو نا مجھ سے !

بچوں کی خواہش پوری کرنا، بیوی کو مطمئن رکھنا، بچوں کو بہلانا، آفس کے لوگوں کو مطمئن کرنا، بچوں کو گھمانا، دوست احباب کے نظریات کا خیال رکھنا، بیوی کی چال کو سمجھنا، بچوں کے حال کو سمجھنا، ماں کے منہ پھیرنے کو جاننا، بہن کی بے رخی کو پہچاننا، ملا کے مکر کو پہچاننا، کتابوں کے دجل کو جاننا، نوکرانی کے فریب کو بھاپنا، پڑوسن کے وار کو جاننا، فقیر کی صدا کو پہچاننا، بچوں کے کھلونے لانا، برتھ ڈے کی تاریخ موبائل پر لگانا، امریکہ کے کزنزز کی رسمی گفتگو سے کترانا، باس کا نفرت سے سارا کام ڈالنا، کلائنٹ کا آگے بڑھنے پر مضطرب ہو جانا،غیر ملک جانے سے وحشت ہو جانا، انٹرنیٹ پر غزہ کے دردناک قصے میں لگ جانا، نماز سے خشوع کا جانا، ذکر میں دل لگ جانا، کتاب سے تسکین پانا، محفل سے گل و گلاب پانا، جمعے کا ایک خوبصورت خطاب سن کر آنا، دل میں خوبصورت خواب پالنا، منہ موند کے سو جانا، اور پھر سے زندگی کے چکر میں لگ جانا۔

کیا؟ تم کہہ رہے ہو کہ ترجیحات کو پہچانوں!

بچوں کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، بیوی کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، ماں کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، باس کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، بہن کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، بھائی کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، بیٹے کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، بیٹی کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، جس کو ترجیح دی وہ خوش اور جس کو کم ترجیح دی وہ اس سے کم خوش اور پھر جس کو اس سے بھی کم ترجیح دی تو شکوے، اس سے آگے جہاں خیر پہنچا نا شر وہ انجانے، اس سے آگے نفرت، اس سے آگے دشمن۔ لیکن نرمی نے دامن پکڑ کر اوپر اٹھا دیا، اچھی بات کے صدقے نے آگے پہنچا دیا، نیک اعمال کے حصار نے بچا لیا، پھر ترجیح نرمی بن گئی، ترجیح محبت باٹنا بن گئی، پھر ترجیح انکساری بن گئی، پھر اندازہ ہوا کہ کسقدر لوگ خیر مانگ رہے ہیں اور کس قدر کو میں انکو محروم کر رہا ہوں۔ پھر اندازہ ہوا کہ خاکساری میں قوت ہے ناکہ دے ہی دینے میں۔

تم کہہ رہے ہو کہ وقت تقسیم کروں!

کچھ وقت منانے میں صرف ہو گیا، کچھ غم منانے میں نکل گیا، کچھ دھوکے سے بچنے میں کھو گیا، کچھ فکروں میں کھو گیا، کچھ فیصلہ کرنے میں تمام ہو گیا، کچھ رشتوں کو سمجھنے میں ختم ہو گیا، کچھ آفس کے ماحول نے نچوڑ لیا، کچھ باپ کی راہ پر چلنے میں فنا ہو گیا، کچھ ملا اور فلسفی کی خوش کن صداوں میں گم ہو گیا، کچھ ملکوں ملکوں پھرنے میں ضائع ہو گیا، کچھ کتابیں سمجھنے میں تمام ہو گیا، کچھ رسومات برتنے میں استعمال ہو گیا، کچھ بچا ہی نہیں سب کچھ صرف ہو گیا۔

تم کہہ رہے ہو کہ ضروری اور غیر ضروری لوگوں کی توقعات میں فرق کروں!

صحیح کہہ رہے ہو! اب میں لوگوں سے انکے ایمان کے مطابق ملتا ہوں۔ ہاں میرے اخلاق کی حدت سورج کی مانند ہرسبز ہ و کیچڑ تک پہنچتی ہے لیکن میرا دل صرف ایمان داروں کی توقعات پوری کرنے میں لگا رہتا ہے۔
 
آخری تدوین:
یہی چاہتے ہو نا مجھ سے !
بچوں کی خواہش پوری کرنا، بیوی کو مطمئن رکھنا، بچوں کو بہلانا، آفس کے لوگوں کو مطمئن کرنا، بچوں کو گھمانا، دوست احباب کے نظریات کا خیال رکھنا، بیوی کی چال کو سمجھنا، بچوں کے حال کو سمجھنا، ماں کے منہ پھیرنے کو جاننا، بہن کی بے رخی کو پہچاننا، ملا کے مکر کو پہچاننا، کتابوں کے دجل کو جاننا، نوکرانی کے فریب کو بھاپنا، پڑوسن کے وار کو جاننا، فقیر کی صدا کو پہچاننا، بچوں کے کھلونے لانا، برتھ ڈے کی تاریخ موبائل پر لگانا، امریکہ کے کزنزز کی رسمی گفتگو سے کترانا، باس کا نفرت سے سارا کام ڈالنا، کلائنٹ کا آگے بڑھنے پر مضطرب ہو جانا،غیر ملک جانے سے وحشت ہو جانا، انٹرنیٹ پر غزہ کے دردناک قصے میں لگ جانا، نماز سے خشوع کا جانا، ذکر میں دل لگ جانا، کتاب سے تسکین پانا، محفل سے گل و گلاب پانا، جمعے کا ایک خوبصورت خطاب سن کر آنا، دل میں خوبصورت خواب پالنا، منہ موند کے سو جانا، اور پھر سے زندگی کے چکر میں لگ جانا۔
کیاتم کہہ رہے ہو کہ ترجیحات کو پہچانوں؟
بچوں کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، بیوی کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، ماں کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، باس کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، بہن کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، بھائی کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، بیٹے کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، بیٹی کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، جس کو ترجیح دی وہ خوش اور جس کو کم ترجیح دی وہ اس سے کم خوش اور پھر جس کو اس سے بھی کم ترجیح دی تو شکوے، اس سے آگے جہاں خیر پہنچا نا شر وہ انجانے، اس سے آگے نفرت، اس سے آگے دشمن۔ لیکن نرمی نے دامن پکڑ کر اوپر اٹھا دیا، اچھی بات کے صدقے نے آگے پہنچا دیا، نیک اعمال کے حصار نے بچا لیا، پھر ترجیح نرمی بن گئی، ترجیح محبت باٹنا بن گئی، پھر ترجیح انکساری بن گئی، پھر اندازہ ہوا کہ کسقدر لوگ خیر مانگ رہے ہیں اور کس قدر کو آپ محروم کر رہے ہیں۔ پھر اندازہ ہوا کہ خاکساری میں قوت ہے ناکہ دی ہی دینے میں۔
تم کہہ رہے ہو کہ وقت تقسیم کروں!
کچھ وقت منانے میں صرف ہو گیا، کچھ غم منانے میں نکل گیا، کچھ دھوکے سے بچنے میں کھو گیا، کچھ فکروں میں کھو گیا، کچھ فیصلہ کرنے میں تمام ہو گیا، کچھ رشتوں کو سمجھنے میں ختم ہو گیا، کچھ آفس کے ماحول نے نچوڑ لیا، کچھ باپ کی راہ پر چلنے میں فنا ہو گیا، کچھ ملا اور فلسفی کی خوش کن صداوں میں گم ہو گیا، کچھ ملکوں ملکوں پھرنے میں ضائع ہو گیا، کچھ کتابیں سمجھنے میں تمام ہو گیا، کچھ رسومات برتنے میں استعمال ہو گیا، کچھ بچا ہی نہیں سب کچھ صرف ہو گیا۔
تم کہہ رہے ہو کہ ضروری اور غیر ضروری لوگوں کی توقعات میں فرق کروں!
صحیح کہہ رہے ہو۔ اب میں لوگوں سے انکے ایمان کے مطابق ملتا ہوں۔ میرے اخلاق کی حدت سورج کی مانند ہرخس و خاشاک تک پہنچتی ہے لیکن میرا دل صرف ایمان داروں کی توقعات پوری کرنے میں لگا رہتا ہے۔​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واہ!
آپ کی تحریرکی خوبی یہ ہے کہ یہ خالصتاً آپ کی اپنی ہے ۔ کاپی پیسٹ کا ثمر ہ نہیں ہے۔آپ نے سماجی روابط کی موجودہ ہوش رُبائیوں کو خوبصورتی سے نثر کا پیرایہ پہنایاہے۔موجودہ زندگی کے تقریباً سارے ہی خلفشار اِس چھوٹی سی تحریر میں درآئے ہیں ۔اِس وقت چاہیے بھی یہی کہ کم سے کم لفظوں میں دل کا خلجان بیان کردیا جائے ،کوئی سنے نہ سنے بھڑاس تو نکلے ۔دراصل ہر آدمی ایک ہی طرح کی صورتِ حالات سے دوچار ہے اور نتیجے میں مزاجوں پر ایک ہی جیسا ردِ عمل اور عکس وانعکاس مترتب ہے ، چنانچہ اظہارکے لیے جس قدر ممکن ہو اختصار سے کام لیا جائے تو بہتر ہے ۔اپنے لکھے ہوئے چھوٹے چھوٹے شذروں میں ہی زبان و بیان کی خوبیاں ، انشاپردازی کا ہنر اور ترسیل و ابلاغ کا وصف جمع کردیا جائے تو اِسے کامیاب تحریراور بامراد اظہاریہ کہا جائیگا۔۔۔۔۔۔
 

سید رافع

محفلین
یہی چاہتے ہو نا مجھ سے !
بچوں کی خواہش پوری کرنا، بیوی کو مطمئن رکھنا، بچوں کو بہلانا، آفس کے لوگوں کو مطمئن کرنا، بچوں کو گھمانا، دوست احباب کے نظریات کا خیال رکھنا، بیوی کی چال کو سمجھنا، بچوں کے حال کو سمجھنا، ماں کے منہ پھیرنے کو جاننا، بہن کی بے رخی کو پہچاننا، ملا کے مکر کو پہچاننا، کتابوں کے دجل کو جاننا، نوکرانی کے فریب کو بھاپنا، پڑوسن کے وار کو جاننا، فقیر کی صدا کو پہچاننا، بچوں کے کھلونے لانا، برتھ ڈے کی تاریخ موبائل پر لگانا، امریکہ کے کزنزز کی رسمی گفتگو سے کترانا، باس کا نفرت سے سارا کام ڈالنا، کلائنٹ کا آگے بڑھنے پر مضطرب ہو جانا،غیر ملک جانے سے وحشت ہو جانا، انٹرنیٹ پر غزہ کے دردناک قصے میں لگ جانا، نماز سے خشوع کا جانا، ذکر میں دل لگ جانا، کتاب سے تسکین پانا، محفل سے گل و گلاب پانا، جمعے کا ایک خوبصورت خطاب سن کر آنا، دل میں خوبصورت خواب پالنا، منہ موند کے سو جانا، اور پھر سے زندگی کے چکر میں لگ جانا۔
کیاتم کہہ رہے ہو کہ ترجیحات کو پہچانوں؟
بچوں کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، بیوی کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، ماں کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، باس کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، بہن کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، بھائی کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، بیٹے کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، بیٹی کو سب پر ترجیح تو وہ خوش، جس کو ترجیح دی وہ خوش اور جس کو کم ترجیح دی وہ اس سے کم خوش اور پھر جس کو اس سے بھی کم ترجیح دی تو شکوے، اس سے آگے جہاں خیر پہنچا نا شر وہ انجانے، اس سے آگے نفرت، اس سے آگے دشمن۔ لیکن نرمی نے دامن پکڑ کر اوپر اٹھا دیا، اچھی بات کے صدقے نے آگے پہنچا دیا، نیک اعمال کے حصار نے بچا لیا، پھر ترجیح نرمی بن گئی، ترجیح محبت باٹنا بن گئی، پھر ترجیح انکساری بن گئی، پھر اندازہ ہوا کہ کسقدر لوگ خیر مانگ رہے ہیں اور کس قدر کو آپ محروم کر رہے ہیں۔ پھر اندازہ ہوا کہ خاکساری میں قوت ہے ناکہ دی ہی دینے میں۔
تم کہہ رہے ہو کہ وقت تقسیم کروں!
کچھ وقت منانے میں صرف ہو گیا، کچھ غم منانے میں نکل گیا، کچھ دھوکے سے بچنے میں کھو گیا، کچھ فکروں میں کھو گیا، کچھ فیصلہ کرنے میں تمام ہو گیا، کچھ رشتوں کو سمجھنے میں ختم ہو گیا، کچھ آفس کے ماحول نے نچوڑ لیا، کچھ باپ کی راہ پر چلنے میں فنا ہو گیا، کچھ ملا اور فلسفی کی خوش کن صداوں میں گم ہو گیا، کچھ ملکوں ملکوں پھرنے میں ضائع ہو گیا، کچھ کتابیں سمجھنے میں تمام ہو گیا، کچھ رسومات برتنے میں استعمال ہو گیا، کچھ بچا ہی نہیں سب کچھ صرف ہو گیا۔
تم کہہ رہے ہو کہ ضروری اور غیر ضروری لوگوں کی توقعات میں فرق کروں!
صحیح کہہ رہے ہو۔ اب میں لوگوں سے انکے ایمان کے مطابق ملتا ہوں۔ میرے اخلاق کی حدت سورج کی مانند ہرخس و خاشاک تک پہنچتی ہے لیکن میرا دل صرف ایمان داروں کی توقعات پوری کرنے میں لگا رہتا ہے۔​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واہ!
آپ کی تحریرکی خوبی یہ ہے کہ یہ خالصتاً آپ کی اپنی ہے ۔ کاپی پیسٹ کا ثمر ہ نہیں ہے۔آپ نے سماجی روابط کی موجودہ ہوش رُبائیوں کو خوبصورتی سے نثر کا پیرایہ پہنایاہے۔موجودہ زندگی کے تقریباً سارے ہی خلفشار اِس چھوٹی سی تحریر میں درآئے ہیں ۔اِس وقت چاہیے بھی یہی کہ کم سے کم لفظوں میں دل کا خلجان بیان کردیا جائے ،کوئی سنے نہ سنے بھڑاس تو نکلے ۔دراصل ہر آدمی ایک ہی طرح کی صورتِ حالات سے دوچار ہے اور نتیجے میں مزاجوں پر ایک ہی جیسا ردِ عمل اور عکس وانعکاس مترتب ہے ، چنانچہ اظہارکے لیے جس قدر ممکن ہو اختصار سے کام لیا جائے تو بہتر ہے ۔اپنے لکھے ہوئے چھوٹے چھوٹے شذروں میں ہی زبان و بیان کی خوبیاں ، انشاپردازی کا ہنر اور ترسیل و ابلاغ کا وصف جمع کردیا جائے تو اِسے کامیاب تحریراور بامراد اظہاریہ کہا جائیگا۔۔۔۔۔۔
پسند کرنے پر بہت بہت شکریہ۔ آپ کی سلامتی کے لیے بے حد دعائیں۔
 

سید رافع

محفلین
سیدی رافع پیارے ،خس اور خاشاک دولفظ ہیں ۔ دونوں سے ملکر ایک ترکیب بنی خس و خاشاک ، جس کا مطلب ہے تنکے اور کچرا یا کوڑا کرکٹ مجازاً ردّی ، معمولی اور ناکارہ چیز کے لیے بولتے ہیں ۔ہم اپنی مرضی سے تو مترادفات اور مرادفات طے نہیں کرسکتے مماثلت، مناسبت،مطابقت اور مشابہت کے اُصولوں کو بہرحال پیشِ نظر اور ملحوظِ خاطررکھنا اور زیرِ غور لانا ہی پڑتا ہے مثلاًملکہ لفظ کولیں ۔ایک ملکہ تو بادشاہ کی اہلیہ ہے اور ایک ملکہ کا مطلب پکّی مشق، مکمل مہارت،،پختہ کارہونا،طاق ہونا، مشاق ہونا ہے۔بادشاہ والی ملکہ میں ل کے نیچے زیراور اِس کے مترادفات رانی ،مہارانی ، کوئین،سلطانہ ہیں جبکہ مہارت کے معنوں میں ل پر جزم ہے مل +کا۔۔۔
سبز وخاشاک کو مجازاً نیک وبد نہیں تسلیم کیا جاسکتا کہ اِس مرکب میں سبز اگر شادابی اور شادابی تازگی اور تازگی ہرے بھرے کے لیے ہے تو اِس سے خوشی و مسرت کامفہوم تو لے سکتے ہیں یا جوانِ رعنا سے تو جوڑا جاسکتا ہے یا صحت مند اور تندرست جیسا مطلب تو اخذکرسکتے ہیں نیکی کا مطلب اگر لیں گے تو وہ اِس طرح تو ممکن ہے کہ اکثر نیک لوگوں کا لباس سبز ہوتا ہے،حضرت ِ خضر ، گنبدِ خضرا،خضرراہ،خضرِ حیات(ہمیشگی)مگر جناب اُردُو میں ایک محاورہ سبز قدم ہونا بھی ہے جس کا مطلب اچھائی میں تو نہیں ہے ۔خاشاک کا مطلب بتا چکا ہوں کہ کچرے ، کوڑے کرکٹ کو کہتے ہیں اور مراد معمولی ، ناکارہ اور ردی قسم کی شے لی جاتی ہے۔۔۔اب اگر برے اور بدکار کے لیے خاشاک کا لفظ استعمال کرنا چاہیں ان معنوں میں کہ بدکار آدمی ناکارہ ،حقیراور ذلیل ہوتا ہے تو ممکن ہے چل جائے مگران معنوں میں استعمال کی مثالیں شاذ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔واللہ اعلم۔
(دیگر اصحاب بھی اِس سلسلے میں کچھ اِرشاد فرمائیں جبکہ میں کہتا ہوں خس و خاشاک سے بھی ہر کس و ناکس کا مطلب اخذ کیا جاسکتا ہے، اِس طرح رافع صاحب کا جملہ یوں ہوجائے گا:’’میرے اَخلاق کی حدّت سُورج کی مانند ہر کس وناکس تک پہنچتی ہے۔۔۔۔‘‘واللہ اعلم)​
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
صحیح کہہ رہے ہو۔ اب میں لوگوں سے انکے ایمان کے مطابق ملتا ہوں۔ میرے اخلاق کی حدت سورج کی مانند ہرسبز و خاشاک تک پہنچتی ہے لیکن میرا دل صرف ایمان داروں کی توقعات پوری کرنے میں لگا رہتا ہے۔
لوگوں کا ایمان اُنکے ساتھ ہم نہ ہی کسی کے ایمان کوُپرکھ سکنے کی استعداد رکھتے ہیں
نہ دعویٰ کرسکتے ہیں
تو پھر کیونکر دعویٰ کریں کے اُنکے ایمان کے مطابق ملتے ہیں
؀
علم کی آپ اپنی استعداد
کہیں مرشد کہیں پہ چیلا ہے
اور ایمان والے بہت اعلیٰ و ارفعٰ
ہے اور اس کاتعلق باطن سے ہے تو رافع میاں !!!!!آپ کیسے اور کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ آپ لوگوں کا باطن جان سکتے ہیں
بس یہیں تھوڑا اختلاف ہے تو بات کرلی !!!!!!!!!! یعنی اسلام ہمیں منع کرتا ہے
جسے اللہ پاک نے اپنی ستاری سے چھپایا ہے ۔( باطن سے متعلق بات !!! دوسروں کے بارے نہ کریں ۔۔۔۔
 

علی وقار

محفلین
لوگوں کا ایمان اُنکے ساتھ ہم نہ ہی کسی کے ایمان کوُپرکھ سکنے کی استعداد رکھتے ہیں
نہ دعویٰ کرسکتے ہیں
تو پھر کیونکر دعویٰ کریں کے اُنکے ایمان کے مطابق ملتے ہیں
؀
میرا نہیں خیال، سید رافع برا مانیں گے۔ آپ کی بات میں وزن ہے۔ میرے خیال میں، یہاں رافع صاحب عقیدے کی بات کرنا چاہ رہے ہوں گے، جلدی میں ایمان لکھ گئے۔ میں بھی پڑھنا چاہوں گا کہ آخر اُن کے دماغ میں کیا بات تھی۔ اس معاملے کی حد تک آپ سے متفق ہوں۔
 

سید رافع

محفلین
سیدی رافع پیارے ،خس اور خاشاک دولفظ ہیں ۔ دونوں سے ملکر ایک ترکیب بنی خس و خاشاک ، جس کا مطلب ہے تنکے اور کچرا یا کوڑا کرکٹ مجازاً ردّی ، معمولی اور ناکارہ چیز کے لیے بولتے ہیں ۔ہم اپنی مرضی سے تو مترادفات اور مرادفات طے نہیں کرسکتے مماثلت، مناسبت،مطابقت اور مشابہت کے اُصولوں کو بہرحال پیشِ نظر اور ملحوظِ خاطررکھنا اور زیرِ غور لانا ہی پڑتا ہے مثلاًملکہ لفظ کولیں ۔ایک ملکہ تو بادشاہ کی اہلیہ ہے اور ایک ملکہ کا مطلب پکّی مشق، مکمل مہارت،،پختہ کارہونا،طاق ہونا، مشاق ہونا ہے۔بادشاہ والی ملکہ میں ل کے نیچے زیراور اِس کے مترادفات رانی ،مہارانی ، کوئین،سلطانہ ہیں جبکہ مہارت کے معنوں میں ل پر جزم ہے مل +کا۔۔۔
سبز وخاشاک کو مجازاً نیک وبد نہیں تسلیم کیا جاسکتا کہ اِس مرکب میں سبز اگر شادابی اور شادابی تازگی اور تازگی ہرے بھرے کے لیے ہے تو اِس سے خوشی و مسرت کامفہوم تو لے سکتے ہیں یا جوانِ رعنا سے تو جوڑا جاسکتا ہے یا صحت مند اور تندرست جیسا مطلب تو اخذکرسکتے ہیں نیکی کا مطلب اگر لیں گے تو وہ اِس طرح تو ممکن ہے کہ اکثر نیک لوگوں کا لباس سبز ہوتا ہے،حضرت ِ خضر ، گنبدِ خضرا،خضرراہ،خضرِ حیات(ہمیشگی)مگر جناب اُردُو میں ایک محاورہ سبز قدم ہونا بھی ہے جس کا مطلب اچھائی میں تو نہیں ہے ۔خاشاک کا مطلب بتا چکا ہوں کہ کچرے ، کوڑے کرکٹ کو کہتے ہیں اور مراد معمولی ، ناکارہ اور ردی قسم کی شے لی جاتی ہے۔۔۔اب اگر برے اور بدکار کے لیے خاشاک کا لفظ استعمال کرنا چاہیں ان معنوں میں کہ بدکار آدمی ناکارہ ،حقیراور ذلیل ہوتا ہے تو ممکن ہے چل جائے مگران معنوں میں استعمال کی مثالیں شاذ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔واللہ اعلم۔
(دیگر اصحاب بھی اِس سلسلے میں کچھ اِرشاد فرمائیں جبکہ میں کہتا ہوں خس و خاشاک سے بھی ہر کس و ناکس کا مطلب اخذ کیا جاسکتا ہے، اِس طرح رافع صاحب کا جملہ یوں ہوجائے گا:’’میرے اَخلاق کی حدّت سُورج کی مانند ہر کس وناکس تک پہنچتی ہے۔۔۔۔‘‘واللہ اعلم)​
جی آپ کی بات دل لگتی ہے۔ خس و خاشاک کی ترکیب کا مجھے علم تھا اور یہ بھی معلوم تھا کہ میں نے آج تک خس و خاشاک ہی سنا ہے۔ کہیں خاشاک علحیدہ سننے یا پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔

کس و ناکس پر سورج کا چمکنا اور حدت پہچانا ظاہر کی حدت کو باطن کے اوصاف کے ساتھ ملا دینا ہوتا۔ ساتھ ہی سورج کی روشنی جیسے بکھری ہوئی ہوتی ہے، ویسے ہی سبزہ اوربے کار تنکے بھی ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔

حالانکہ کیچڑ، کچرہ اور کوڑا درخشاں سورج جیسے لطیف نہیں لیکن میں نے سبزہ و کیچڑ کی ترکیب استعمال کر لی تاکہ بات اردو محفل سے باہر بھی قابل فہم رہے جہاں عام اردو بول چال کا دور دورہ ہے۔ حالانکہ کیچڑ میں وہ لطافت نہیں جو خاشاک کہنے میں ہے۔ لیکن میں آپ کی بات سے متفق ہوں کہ خاشاک کہنے کا یہ محل ہے نا طریقہ۔
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
لوگوں کا ایمان اُنکے ساتھ ہم نہ ہی کسی کے ایمان کوُپرکھ سکنے کی استعداد رکھتے ہیں
نہ دعویٰ کرسکتے ہیں
تو پھر کیونکر دعویٰ کریں کے اُنکے ایمان کے مطابق ملتے ہیں
؀
علم کی آپ اپنی استعداد
کہیں مرشد کہیں پہ چیلا ہے
اور ایمان والے بہت اعلیٰ و ارفعٰ
ہے اور اس کاتعلق باطن سے ہے تو رافع میاں !!!!!آپ کیسے اور کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ آپ لوگوں کا باطن جان سکتے ہیں
بس یہیں تھوڑا اختلاف ہے تو بات کرلی !!!!!!!!!! یعنی اسلام ہمیں منع کرتا ہے
جسے اللہ پاک نے اپنی ستاری سے چھپایا ہے ۔( باطن سے متعلق بات !!! دوسروں کے بارے نہ کریں ۔۔۔۔
سیما آپی آپ نے بجا فرمایا۔ ایمان قلب میں مخفی ایک شئے ہے جس کو سر کی آنکھ سے دیکھا نہیں جا سکتا، سو فرد کے اہم اور غیر اہم ہونے کے فیصلے کیونکر اس مخفی ظن و تخمینے پر کیے جائیں؟ بالکل صحیح فرمایا آپ نے کہ ایسا ظن کرنا بھی گناہ ہے ناکہ اخلاق۔ ایسا ظن ایک انسان کو دوسرے کی بے عزتی پر ابھارتا ہے یہاں تک کہ ایسے افراد پیدا ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کا قتل کرتے ہیں۔

آپ کسی کا دل چیر کر نہیں دیکھ سکتے۔

چنانچہ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک سریہ میں بھیجا۔ پھر میں نے ایک شخص کو پایا، اس نے لا الٰہ الا اللہ کہا میں نے برچھی سے اس کو مار دیا۔ اس کے بعد میرے دل میں وہم ہوا ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا اس نے لا الٰہ الا اللہ کہا تھا اور تو نے اس کو مار ڈالا؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس نے ہتھیار سے ڈر کرکہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا تاکہ تجھے معلوم ہوتا کہ اس کے دل نے یہ کلمہ کہا تھا یا نہیں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باربار یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ میں نے آرزو کی کہ کاش میں اسی دن مسلمان ہوا ہوتا ۔ صحیح مسلم

میں اصل میں حفظ مراتب کا تذکرہ کررہا تھا۔

میں اسی حفظ مراتب کا تذکرہ کر رہا تھا کہ جس کے بارے میں نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''لوگوں کے ساتھ ان کے مقام مرتبہ کے حساب سے برتائو کرو‘‘ (ابودائود: 4842)۔

ایمان دراصل ایک مخفی شئے ہے لیکن اصل میں ایمان کی ستر سے زائد شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ہی شاخ ہے۔ میں انہی شاخوں کے ظہور کے لحاظ سے حفظ مراتب کے خیال رکھنے کا تذکرہ کر رہا تھا۔

ایمان کی ستر شاخیں درج ذیل ہیں۔ ان میں سے بعض اہم ترین اور بعض کم ترین ہیں۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایمان کی ستّر سے زیادہ شاخیں ہیں یا فرمایا کہ ایمان کی ساٹھ سے زیادہ شاخیں ہیں جن میں سے سب سے افضل لا الہ الا اللہ کہنا ہے اور سب سے کم راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے“۔ سو سوال یہ ہے کہ ایک ایسا انسان جو خدمت خلق کے جذبے سے جابجا شہروں سے تکلیف دہ چیزیں ہٹاتا ہے کیا وہ اس شخص سے اہم ہے جو اللہ کو ایک مانتا ہو؟ جواب یہ ہے کہ دونوں اہم ہیں۔ دونوں ہی سے ایمان کا ظہور ہو رہا ہے۔ دونوں ہی آپ کے اخلاق کے مستحق ہیں۔

ایمان کی ستر شاخوں کے مختلف اقوال ہیں ۔ چند درج ذیل ہیں۔
  1. ایمان باللہ - اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا۔
  2. ایمان بالملائکہ - فرشتوں پر ایمان لانا۔
  3. ایمان بالکتب - اللہ کی کتابوں پر ایمان لانا۔
  4. ایمان بالرسل - اللہ کے رسولوں پر ایمان لانا۔
  5. ایمان بالآخرت - قیامت کے دن پر ایمان لانا۔
  6. ایمان بالقضاء والقدر - تقدیر پر ایمان لانا۔
  7. نماز - نماز قائم کرنا۔
  8. زکوة - زکوة دینا۔
  9. روزہ - رمضان کے روزے رکھنا۔
  10. حج - استطاعت کی صورت میں حج کرنا۔
  11. صداقت - سچ بولنا۔
  12. امانت - امانت ادا کرنا۔
  13. اخلاص - نیت کا خالص ہونا۔
  14. توبہ - گناہوں سے توبہ کرنا۔
  15. شکر - اللہ کا شکر ادا کرنا۔
  16. صبر - صبر کرنا۔
  17. قناعت - قناعت اختیار کرنا۔
  18. عفو - معاف کرنا۔
  19. وفا - وعدہ وفا کرنا۔
  20. محبت - اللہ اور اس کے رسول کی محبت۔
  21. اخوت - آپس میں بھائی چارہ قائم کرنا۔
  22. نیکی - نیک اعمال کرنا۔
  23. بخشش - دوسروں کو معاف کرنا۔
  24. مروت - حسن سلوک سے پیش آنا۔
  25. رضا - اللہ کی رضا پر راضی رہنا۔
  26. عزت - اللہ کی عزت کی حفاظت کرنا۔
  27. خوف - اللہ سے خوف رکھنا۔
  28. امید - اللہ کی رحمت کی امید رکھنا۔
  29. دعوت - دوسروں کو دین کی دعوت دینا۔
  30. تسلیم - اللہ کی مشیت کے آگے سر تسلیم خم کرنا۔
  31. احسان - احسان کرنے کی کوشش کرنا۔
  32. صلاة - فرض نمازوں کی پابندی کرنا۔
  33. سلام - ایک دوسرے کو سلام کرنا۔
  34. اللہ کی عبادت - عبادت کے مختلف طریقے اپنانا۔
  35. سکوت - بے جا بولنے سے پرہیز کرنا۔
  36. نرمی - نرم دلی سے پیش آنا۔
  37. استغفار - اللہ سے معافی مانگنا۔
  38. تلاوت - قرآن کی تلاوت کرنا۔
  39. علم - علم کا حصول۔
  40. فکر - فکر آخرت کرنا۔
  41. عورتوں کا احترام - عورتوں کی عزت کرنا۔
  42. کمزوروں کی مدد - کمزوروں کی مدد کرنا۔
  43. مال کی حلالی - حلال مال کمانا۔
  44. سچائی - سچائی کی پیروی کرنا۔
  45. دوستی - دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔
  46. خوشی - دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہونا۔
  47. دعاؤں کا اہتمام - دعاؤں کا اہتمام کرنا۔
  48. نیکی کی ترغیب - لوگوں کو نیکی کی ترغیب دینا۔
  49. برائی سے روکنا - برائی سے روکنے کی کوشش کرنا۔
  50. بھائی چارہ - بھائی چارے کو فروغ دینا۔
  51. سکون - دل میں سکون رکھنا۔
  52. علیحدگی - برے لوگوں سے علیحدگی اختیار کرنا۔
  53. اللہ کی نعمتوں کا شکر - اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا۔
  54. صالحین کی صحبت - نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنا۔
  55. دین کی خدمت - دین کی خدمت کرنا۔
  56. مشکلات میں صبر - مشکلات میں صبر کرنا۔
  57. محبت میں وفاداری - محبت میں وفادار رہنا۔
  58. والدین کی خدمت - والدین کی خدمت کرنا۔
  59. بزرگوں کا احترام - بزرگوں کا احترام کرنا۔
  60. خود احتسابی - اپنی اصلاح کرنا۔
  61. اللہ کے راستے میں جہاد - اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔
  62. مخلصی - مخلص رہنا۔
  63. معاف کرنا - دوسروں کو معاف کرنا۔
  64. مومنین کے ساتھ محبت - مومنین کے ساتھ محبت رکھنا۔
  65. ایمان کی حفاظت - ایمان کی حفاظت کرنا۔
  66. شرک سے بچنا - شرک سے بچنے کی کوشش کرنا۔
  67. نیکی میں ایک دوسرے کی مدد - نیکی میں ایک دوسرے کی مدد کرنا۔
  68. آخرت کی تیاری - آخرت کی تیاری کرنا۔
  69. مصیبتوں میں صبر - مصیبتوں میں صبر کرنا۔
  70. دعاؤں کی قبولیت کا یقین - دعاؤں کی قبولیت کا یقین رکھنا۔
  71. اللہ کی محبت - اللہ کی محبت میں مستغرق ہونا۔
 

سید رافع

محفلین
میرا نہیں خیال، سید رافع برا مانیں گے۔
علی بھائی میں تو علم سیکھنے کے لیے گھنٹوں، دنوں اور بعض دفعہ سالوں لوگوں کے در پر بیٹھا رہا ہوں۔ مجھے پوچھنے سیکھنے سے برا نہیں لگتا صرف فحش کلامی اور استہزا برا لگتا ہے۔ :) :) :)
 

علی وقار

محفلین
ایمان کے لیے عقیدے ،عقیدے کے لیے عقل اور عقل کے لیے قلب سلیم ضروری ہے۔ آپ شاید موجودہ اسلامی دنیا میں عقیدے کی بنیاد پر لوگوں کی تقسیم کی بات کر رہے ہیں۔
شاید ایسا ہی ہو۔

سوچ کے حوالے سے،
میں زیادہ گہرائی میں نہیں جا سکتا۔ :)
 

سید رافع

محفلین
ناراض نہیں ہیں !پر ہم لوگوں کا باطن کسطرح
judge
کرسکتے ہیں ۔۔
ظاہر بھی نہیں کر سکتے۔ ریا کار ی ظاہر کا دھوکہ ہے۔

سیما آپی لوگوں کا ظاہر اور باطن آپ پر ٹھیک ٹھیک واضح ہو جائے گا اگر آپکا قلب ٹھیک ہے۔ اگر آپکا قلب مخلص نہیں ہے تو کچھ بھی واضح نہیں ہو گا۔

سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک ابن آدم (کے جسم) میں ایک ایسا ٹکڑا ہے، اگر وہ صحیح ہو تو سارے جسم کی اصلاح ہو جاتی ہے اور اگر وہ بگڑ جائے تو سارا جسم فاسد ہو جاتا ہے، خبردار وہ (ٹکڑا) دل ہے۔ سلسلہ احادیث صحیحہ 2313

قلب کو قلب اس لیے کہتے ہیں کہ آنکھ جھپکنے سے کم وقت میں اس میں انگنت انقلاب آ کر جا چکے ہوتے ہیں۔ غیر مخلص انسان ان انقلابات کا معائنہ نہیں کر پاتے۔ قلب کا ہر ہر انقلاب آنکھ، جذبات یا الفاظ سے ظاہر نہیں ہوتا۔ البتہ آپ کے اپنے قلب کی روشنی گھٹتی بڑھتی محسوس ہو جاتی ہے۔ صرف قلب کی آنکھ دوسرے قلوب کے انقلابات کا لائیو مشاہدہ کر سکتی ہے۔ اندھے قلوب یہ سب نہیں دیکھ سکتے۔

میں آپکے مطالعے کے لیے یہاں قرآن مجید کی کچھ آیات درج کر رہا ہوں جن میں دل کی بصیرت اور اندھے پن کا ذکر ہے:

  1. سورۃ الحج (22:46):
    "کیا انہوں نے زمین میں سفر نہیں کیا تاکہ وہ اپنے دل سے سمجھ سکیں یا کانوں سے سن سکیں؟ بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔"
  2. سورۃ البقرہ (2:7):
    "اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے، اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے، اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔"
  3. سورۃ الاعراف (7:179):
    "اور ہم نے جہنم کے لیے بہت سے جن اور انسان پیدا کیے ہیں، ان کے دل ہیں مگر سمجھتے نہیں، ان کی آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں، اور ان کے کان ہیں مگر سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ یہی لوگ غافل ہیں۔"
  4. سورۃ محمد (47:24):
    "کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں؟"
  5. سورۃ المومنون (23:63):
    "بلکہ ان کے دل اس بارے میں اندھیرے میں پڑے ہیں، اور ان کے سوا کچھ اور اعمال ہیں جو وہ کرتے رہتے ہیں۔"
  6. سورۃ الفرقان (25:44):
    "کیا تمہارا گمان ہے کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں؟ وہ تو محض جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔"
 

سیما علی

لائبریرین
سیما آپی آپ نے بجا فرمایا۔ ایمان قلب میں مخفی ایک شئے ہے جس کو سر کی آنکھ سے دیکھا نہیں جا سکتا، سو فرد کے اہم اور غیر اہم ہونے کے فیصلے کیونکر اس مخفی ظن و تخمینے پر کیے جائیں؟ بالکل صحیح فرمایا آپ نے کہ ایسا ظن کرنا بھی گناہ ہے ناکہ اخلاق۔ ایسا ظن ایک انسان کو دوسرے کی بے عزتی پر ابھارتا ہے یہاں تک کہ ایسے افراد پیدا ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کا قتل کرتے ہیں۔
دل خوش ہوا کہ رافع میاں آپ نے ہماری بات سے اتفاق کیاُ۔۔
حضرت
اِمام محمدغزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْوَالِی فرماتے ہیں : ’’(مسلمان سے) بدگُمانی بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح زبان سے برائی کرنا حرام ہے ۔ لیکن بدگُمانی سے مُراد یہ ہے کہ دِل میں کسی کے بارے میں برا یقین کرلیا جائے،رہے دِل میں پیدا ہونے والے خدشات و وَسْوَسے تو وہ معاف ہیں بلکہ شک بھی معاف ہے ۔‘‘
حضرت سیِّدُنا امام ابوحامد محمدبن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْوَالِی فرماتے ہیں :’’بدگُمانی کے حرام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ دِل کے بھیدوں کوصِرْف اللہ تعالٰی جانتا ہے، لہٰذا تمہارے لئے کسی کے بارے میں بُرا گُمان رکھنا اُس وَقْت تک جائز نہیں جب تک تم اُس کی بُرائی اِس طرح ظاہِر نہ دیکھو کہ اس میں تاویل (یعنی بچاؤ کی دلیل) کی گنجائش نہ رہے، پس اُس وَقْت تمہیں لامُحالہ (یعنی ناچار) اُسی چیز کا یقین رکھناپڑے گا جسے تم نے جانا اور دیکھا ہے اور اگر تم نے اُس کی برائی کو نہ اپنی آنکھوں سے دیکھا اورنہ ہی کانوں سے سنا مگر پھر بھی تمہارے دِل میں اس کے بارے میں بُرا گُمان پیدا ہو تو سمجھ جاؤ کہ یہ بات تمہارے دِل میں شیطان نے ڈالی ہے،اس وَقْت تمہیں چاہئے کہ دِل میں آنے والے اُس گُمان کو جُھٹلا دو کیونکہ یہ (بدگمانی) سب سے بڑا فِسْق ہے۔‘‘
 

سید رافع

محفلین
دل خوش ہوا کہ رافع میاں آپ نے ہماری بات سے اتفاق کیاُ۔۔
حضرت
اِمام محمدغزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْوَالِی فرماتے ہیں : ’’(مسلمان سے) بدگُمانی بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح زبان سے برائی کرنا حرام ہے ۔ لیکن بدگُمانی سے مُراد یہ ہے کہ دِل میں کسی کے بارے میں برا یقین کرلیا جائے،رہے دِل میں پیدا ہونے والے خدشات و وَسْوَسے تو وہ معاف ہیں بلکہ شک بھی معاف ہے ۔‘‘
حضرت سیِّدُنا امام ابوحامد محمدبن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْوَالِی فرماتے ہیں :’’بدگُمانی کے حرام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ دِل کے بھیدوں کوصِرْف اللہ تعالٰی جانتا ہے، لہٰذا تمہارے لئے کسی کے بارے میں بُرا گُمان رکھنا اُس وَقْت تک جائز نہیں جب تک تم اُس کی بُرائی اِس طرح ظاہِر نہ دیکھو کہ اس میں تاویل (یعنی بچاؤ کی دلیل) کی گنجائش نہ رہے، پس اُس وَقْت تمہیں لامُحالہ (یعنی ناچار) اُسی چیز کا یقین رکھناپڑے گا جسے تم نے جانا اور دیکھا ہے اور اگر تم نے اُس کی برائی کو نہ اپنی آنکھوں سے دیکھا اورنہ ہی کانوں سے سنا مگر پھر بھی تمہارے دِل میں اس کے بارے میں بُرا گُمان پیدا ہو تو سمجھ جاؤ کہ یہ بات تمہارے دِل میں شیطان نے ڈالی ہے،اس وَقْت تمہیں چاہئے کہ دِل میں آنے والے اُس گُمان کو جُھٹلا دو کیونکہ یہ (بدگمانی) سب سے بڑا فِسْق ہے۔‘‘

سیما آپی میں آپ کی اس بات سے بھی اتفاق کرتا ہوں۔

بدگمانی حرام ہے۔

کیا آپ کے علم میں ہے کہ امام غزالی رح صوفی بلکہ فلسفی تھے؟ کیا آپ کے علم میں ہے کہ انکے پیش نظر اس دور کے فتنوں کا رد تھا؟ احیاء علوم الدین جس سے آپ نے یہ عبارت اقتباس لی ہے اس لیے لکھی گئی تھی کہ اس دور میں یونانی فلسفہ ایک طرف آگ لگا رہا تھا تو دوسری طرف تصوف میں انتہاپسندی۔ اسی طرح اس کتاب اور "فضائح الباطنیہ" کے ذریعے وہ باطنیہ کے فتنے کا قلع قمع کرنا چاہتے تھے۔ ان تمام کوششوں کا مقصد مسلمانوں کو ایک وحدت میں پرونا تھا تا کہ حکمران طبقے میں اقتدار کی کشمکش اور سازشوں کا خاتمہ ہو اور صلیبی جنگوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ شاید آپکے علم میں ہو کہ نظامیہ مدارس کے فارغ التحصیل طلباء نے اسلامی تعلیمات اور امام غزالی کی فکر سے متاثر ہو کر صلیبی جنگوں میں حصہ لیا۔

اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ انکے پیش نظر حقیقت سے زیادہ وحدت اہم تھی تاکہ فرقوں میں فساد کم ہو۔ چنانچہ بدگمانی سے متعلق انکی یہ تحریر فساد کرتے عوام کے لیے تھی۔

البتہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ ستار ہے۔ اس لیے ستار نہیں کہ اسے قلوب کے بھیدوں کا علم نہیں بلکہ اس لیے کہ اسے علم ہے اور اس نے اس پر ستاری کی چادر تانی ہوئی ہے۔

قلوب کے بھید جاننا ستاری میں مانع نہیں بلکہ ستاری بھید جانے بغیر ممکن ہی نہیں۔

جس کو قلوب کے بھید کا علم نہیں وہ لاعلم ہے، جاہل ہے ستار نہیں۔

بھید جان کر صرف نظر کر جانا ہی ستاری ہے۔

مرد و عورت اس دنیا میں اللہ کے خلیفہ کے طور پر ہیں۔

ان سے بھی ستاری کا ظہور ہونا چاہیے جہالت کا نہیں۔

انکو بھی قلوب کا حال معلوم ہونا چاہیے تاکہ وہ اس دنیا میں انسانوں میں محبت اور عدل قائم کر سکیں۔

اگر امام غزالی رح سے پوچھیں کہ کیا قلب سے اللہ کے بھید یا غیب کا مشاہدہ ہو سکتا ہے؟ تو وہ کہیں گے ہاں!

اب اگر میں آپ سے پوچھوں کہ اللہ کی ذات بڑا بھید ہے یا کسی مرد، عورت یا چونٹی کے قلب کا بھید تو آپ کا کیا جواب ہو گا؟

ظاہر اللہ کا بھید عظیم غیب ہے جو ہر آن تبدیل ہو رہا ہے۔ جب صفائے قلب سے اس بھید کا نظارہ ممکن ہے تو دیگر بھید چه معنی دارد؟

جو انسان قلوب در قلوب کجی کا معائینہ کر رہا ہوتا ہے، اس میں فطری طور پر ہی ستاری ایسے پیدا ہو جاتی ہے جیسے راہ چلتے انسان ہر خس و خاشاک کی طرف توجہ نہیں دیتا۔

بدگمانی کم علمی کے باعث ہوتی ہے۔

وسوسہ بھی کم علمی کے باعث ہوتا ہے۔

باعلم شخص تو ہر لمحہ اپنے رب کے بھید جاننے کے لیے نت نئی عبادتوں اور مناجات میں مصروف رہتا ہے۔

دوسروں کے عیب کے درپے خبیث لوگ رہتے ہیں۔ ایسے کمین لوگوں کو اللہ کے بھید اور دوسروں کے بھید کی طرف تو کیا راہ ہو گی، خود اپنے قلب کے انقلابات کے معائینے سے محروم ہوتے ہیں۔ اللہ ایسے برے حال سے محفوظ رکھے۔
 
آخری تدوین:
Top