جاسم محمد
محفلین
دفاع صرف اس چیز کا کیا جا تا ہے جس کا دفاع کرنا بنتا ہے۔ ہم انصافین جیالے یا پٹواری نہیں جو خان صاحب کے غلط کاموں کا بھی دفاع کرتے پھریں۔اب ذرا ان صحافیوں کے خلاف حکومتی دباؤ پر کی گئی انتقامی کارروائی جسٹیفائی کر کے بتائیں۔
دفاع صرف اس چیز کا کیا جا تا ہے جس کا دفاع کرنا بنتا ہے۔ ہم انصافین جیالے یا پٹواری نہیں جو خان صاحب کے غلط کاموں کا بھی دفاع کرتے پھریں۔اب ذرا ان صحافیوں کے خلاف حکومتی دباؤ پر کی گئی انتقامی کارروائی جسٹیفائی کر کے بتائیں۔
پھر وزیر اعظم عمران خان صاحب کب ان صحافیوں سے معذرت کریں گے اور ان کی حق تلفی کا مداوا کرنا چاہیں گے؟دفاع صرف اس چیز کا کیا جا تا ہے جس کا دفاع کرنا بنتا ہے۔ ہم انصافین جیالے یا پٹواری نہیں جو خان صاحب کے غلط کاموں کا بھی دفاع کرتے پھریں۔
خان صاحب کو لگتا ہے کہ صحافی ان پر بے جا تنقید کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ وہی عمران خان ہیں جنہوں نے وزیر اعظم بننے کے چند ماہ بعد رؤف کلاسرا کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ سخت مصروفیت کے باوجود ان کا پروگرام باقاعدگی سے دیکھتا ہوں ۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ خان صاحب اوران صحافیوں میں تلخیاں بڑھتی چلی گئیں؟ اس کا جواب آپ کو ان دو دھاگوں اور ایک پریس بریفنگ میں مل جائے گا جو کورونا وائرس کے اوائل میں ملک کے سینئر صحافیوں کے ساتھ رکھی گئی تھی۔پھر وزیر اعظم عمران خان صاحب کب ان صحافیوں سے معذرت کریں گے اور ان کی حق تلفی کا مداوا کرنا چاہیں گے؟
ثابت ہوا کہ حکمران کوئی بھی ہو اپنی مرضی کی بولی بولنے والے میڈیا کو ہی پسند کرتا ہے۔جن کے باپ کا پیسہ تھا اور جنھوں نے اپنے دوستوں اور اے ٹی ایم مشینوں کو آدھی رقم بخش دی تھی انہوں نے ہی میڈیا کو تڑیاں لگاکر اس بات سے باز رکھا تھا۔
انہی کا قول ہے کہ آج پاکستان میں میڈیا اتنا آزاد ہے جتنا شاید برطانیہ میں بھی نہیں۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ اپوزیشن میں اپنی کہی ہوئی باتیں حکومت میں آنے کے بعد بھول جاتی ہیں؟نیازی صاحب نے کبھی کہا تھا، "بے شرم آدمی! یہ تمہارے باپ کا پیسہ ہے؟"
ان کے ہر ہر جملے کی طرح یہ جملہ بھی خود ان پر پلٹ کر آیا۔ آج سارا پاکستان یہ کہہ رہا ہے، " بے شرم آدمی! یہ تمہارے باپ کا پیسہ ہے؟"
ثابت ہوا کہ حکمران کوئی بھی ہو اپنی مرضی کی بولی بولنے والے میڈیا کو ہی پسند کرتا ہے۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ اپوزیشن میں اپنی کہی ہوئی باتیں حکومت میں آنے کے بعد بھول جاتی ہیں؟
جائز تنقید سے کوئی نہیں روک رہا۔ گیس کمپنیوں کو ۲۰۰ ارب روپے معاف کرنے والا فیصلہ غلط تھا۔ میڈیا نے اسے اجاگر کیا۔ اپوزیشن اور عوام نے ساتھ دیا۔ نتیجتا حکومت نے آرڈیننس واپس لے لیا۔ اور یوں سپریم کورٹ کے فیصلہ تک انتظار کرکے قوم کو بڑے نقصان سے بچا لیا۔
اگر کسی صحافی کو ناحق نکالا گیا ہے تو وہ استدعا لے کر عدالت جائے اور اپنے آپ کو بحال کر وا لے۔ یہ حکومت تو اتنی کمزور ہے کہ حال ہی میں جب سب سے زیادہ جعلی خبریں چلانے والے چینل ۲۴ نیوز کا لائسنس معطل کیا گیا۔ تو لاہور ہائی کورٹ نے فورا سے پہلے کاروائی کرتے ہوئے چینل کا لائسنس بحال کر دیا۔حکومت جمہوری طرز عمل اپنائے اور یہ آمرانہ ذہنیت ختم کرے کہ تنقید پر تکلیف ہوئی تو صحافیوں کو میڈیا ہاؤسز سے نکلوا دیا۔ یہ پاکستان ہے آمرستان نہیں۔
وزیراعظم کو معافی مانگنی چاہیے اور معذرت کے ساتھ ساتھ صحافیوں کو بحال کرنا چاہیے۔
جب کوئی چینل لائسنس معطلی پر بند ہوتا ہے تو اس میں کام کرنے والے صحافی، اینکر اور دیگر عملہ کدھر جاتا ہے؟میرا خیال تھا آپ کو چینل اور صحافی کے فرق کا علم ہوگا
سوال گندم جواب ربوہجب کوئی چینل لائسنس معطلی پر بند ہوتا ہے تو اس میں کام کرنے والے صحافی، اینکر اور دیگر عملہ کدھر جاتا ہے؟
ظاہر ہے کام سے فارغ ہوجاتا ہے
اچھا پوری تفصیل سن لیں۔ رؤف کلاسرا اور عامر متین کو چینل سے نکالے جانے کا معاملہ میرے سامنے کا ہے۔ GIDC سکینڈل کے بعد بھی یہ دونوں اپنا پروگرام کرتے رہے ہیں۔ لیکن پھر ایک روز عامر متین کی وفاقی وزیر عمر ایوب سے ٹویٹر پر سخت لڑائی ہو گئی۔ جس کے بعد ان کو کام سے نکال دیا گیا۔ عمر ایوب کون ہے اور کس کا بندہ ہے یہ مجھ سے بہتر آپ خود جانتے ہیںسوال گندم جواب ربوہ