کاشفی
محفلین
غزل
یہ بات بات میں کیا ناز کی نکلتی ہے
دبی دبی ترے لب سے ہنسی نکلتی ہے
ٹھہر ٹھہر کے جلا دل کو ایک بات نہ پھونک
کہ اس میں بوئے محبت ابھی نکلتی ہے
بجائے شکوہ بھی دیتا ہوں میں دعا اس کو
مری زباں سے کروں کیا وہی نکلتی ہے
ہزار بار جو مانگا کرو تو کیا حاصل
دعا وہی ہے جو دل سے کبھی نکلتی ہے
اولاد اسے تری کھنچ رہی ہیں تلواریں
نگہ نگہ سے چھری پر چھری نکلتی ہے
سمجھ تو لیجئے کہنے تو دیجئے مطلب
بیاں سے پہلے ہی مجھ پر چھری نکلتی ہے
یہ دل کی آگ ہے یا دل کے نور کا ہے ظہور
نفس نفس میں مرے روشنی نکلتی ہے
صنم کدہ میں بھی ہے حسن اک فدائی کا
کہ جو نکلتی ہے صورت پری نکلتی ہے
غم فراق میں ہو داغ اس قدر بیتاب
ذرا سے رنج میں جان آپ کی نکلتی ہے