صادق آبادی
محفلین
یہ بات بات میں کیا نازُکی نکلتی ہے
دبی دبی تیرے لب سے ہنسی نکلتی ہے
خوشی میں ہم نے یہ شَوخی کبھی نہیں دیکھی
دمِ عتاب جو رنگت تیری نکلتی ہے
ہزار بار جو مانگا کرو تو کیا ہے حاصل
دعا وہی ہے جو دل سے کبھی نکلتی ہے
سمجھ تَو لیجئے کہنے تَو دیجئے مطلب
بیاں سے پہلےہی مجھ پر چُھری نکلتی ہے
کہا جو میں نے کہ مر جاؤں گا تو کہتے ہیں
ہمارے زائچے میں زندگی نکلتی ہے
سمجھنے والے سمجھتے ہیں پیچ کی تقریر
کہ کچھ نہ کچھ تیری باتوں میں فِی نکلتی ہے
صَنم کدے میں بھی ہے حُسن اِک خُدائی کا
کہ جو نکلتی ہے صُورت پَری نکلتی ہے
مرے نکالے نہ نکلے گی آرزو میری
جو تم نکالنا چاہو تو ابھی نکلتی ہے
غمِ فراق میں ہو داؔغ اس قدر بیتاب
ذرا سے رنج میں جاں آپ کی نکلتی ہے
دبی دبی تیرے لب سے ہنسی نکلتی ہے
خوشی میں ہم نے یہ شَوخی کبھی نہیں دیکھی
دمِ عتاب جو رنگت تیری نکلتی ہے
ہزار بار جو مانگا کرو تو کیا ہے حاصل
دعا وہی ہے جو دل سے کبھی نکلتی ہے
سمجھ تَو لیجئے کہنے تَو دیجئے مطلب
بیاں سے پہلےہی مجھ پر چُھری نکلتی ہے
کہا جو میں نے کہ مر جاؤں گا تو کہتے ہیں
ہمارے زائچے میں زندگی نکلتی ہے
سمجھنے والے سمجھتے ہیں پیچ کی تقریر
کہ کچھ نہ کچھ تیری باتوں میں فِی نکلتی ہے
صَنم کدے میں بھی ہے حُسن اِک خُدائی کا
کہ جو نکلتی ہے صُورت پَری نکلتی ہے
مرے نکالے نہ نکلے گی آرزو میری
جو تم نکالنا چاہو تو ابھی نکلتی ہے
غمِ فراق میں ہو داؔغ اس قدر بیتاب
ذرا سے رنج میں جاں آپ کی نکلتی ہے
آخری تدوین: