جاسم محمد
محفلین
یہ توہم کا کارخانہ ہے
14/01/2020 وسعت اللہ خان
کوئی بھی عقیدہ ہو اس کا اپنا الوہی و مادی نظامِ حقائق و دلائل ہوتا ہے اور یہ نظام غیر مشروط قبولیت کا مطالبہ کرتا ہے۔ جب کہ سائنس کا علم خالصتاً مادی بنیاد پر حقائق کی جستجو کا نام ہے۔ اسی لیے اپنی جگہ پر قائم عقائد کے برعکس سائنس ہمیشہ رد و قبول کی گردشی کسوٹی پر چڑھی رہتی ہے۔
عقیدے میں سوال کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے جب کہ سائنس کی تو غذا ہی ہر آن سوال اٹھانا ہے۔ لہٰذا جب کوئی الوہی عقیدے کو مادی سائنس سے خلط ملط کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں جنم لینے والے کنفیوژن کا حتمی نقصان بالاخر عقیدے اور سائنس کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔
اس تناظر میں مجھ جیسے ناسمجھوں کے لیے یہ بات سمجھنا خاصا مشکل ہے کہ انسان تو ہندو، یہودی، عیسائی اور مسلمان ہوسکتا ہے۔ سائنس ہندو، یہودی، عیسائی اور مسلمان کیسے ہوسکتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سائنسدان کے لیے لا مذہب ہونا ضروری ہے۔ جابر بن حیان ، عمرِ خیام ، ابن الحیثم ، البیرونی ، ادریسی ، نظام الملک طوسی اور ابنِ سینا جدید سائنس کے عظیم ستون بھی تھے اور نماز روزے اور دیگر عبادات کا بھی اہتمام کرتے تھے۔
آریا بھٹ ، لگادھا ، بھاسکر ، بدھیانہ ، اچاریہ چنداسترا وغیرہ پراچین ہندوستان میں علمِ فلکیات ، ریاضی ، لسانیات ، علم الابدان ، طب اور دھات سازی کی تحقیق میں جھنڈے بھی گاڑ رہے تھے اور مندر میں دیوتاؤں کے چرن بھی چھوتے تھے۔ نیوٹن کششِ ثقل پر بھی کام کررہا تھا مگر چرچ جانا بھی نہیں بھولتا تھا۔ آئن اسٹائن نے کبھی نہیں کہا کہ اس کا نظریہِ اضافت تورات کی عظمت کا ثبوت ہے۔ ان سب عظیم سائنسدانوں نے عقیدے اور لیبارٹری کو دل میں ساتھ ساتھ اور دماغ میں الگ الگ رکھا۔
مگر جو کام کل تک نہیں ہوا وہ آج ہورہا ہے۔ مثلاً بھارت نے چاند پر تیسرا چندریان مشن بھیجنے کا بھی اعلان کیا ہے اور بھارت میں اس سوال پر بھی تحقیق جاری ہے کہ کیا واقعی گائے موتر پینے سے کینسر کے خلیے ختم ہو سکتے ہیں۔ مودی جی کی آبائی ریاست گجرات میں ماہرِ تعلیم جگدیش بترا جی کی جو کتابیں اسکولوں میں پڑھائی جا رہی ہیں، ان میں بتایا جا رہا ہے کہ مہا بھارت کے زمانے میں موٹر کار کیسے ایجاد ہوئی۔
چونکہ مودی کی بنیادی تنظیم آر ایس ایس اور آر ایس کی طفیلی تنظیمیں ہر شے ہندوئیت کے آئینے میں دیکھنے کی عادی ہیں لہٰذا وہ ہر شعبے کو اپنے نظریے سے جوڑ کے دکھانے کے جنون میں مبتلا ہیں۔ جہاں عقلی مباحثہ اس سطح پر آجائے کہ اتر پردیش کے وزیرِ اعلی یوگی ادتیا ناتھ انکشاف کریں کہ اس دنیا میں پیدا ہونے والا ہر بچہ ہندو ہوتا ہے بعد میں اس کا دھرم زبردستی بدلوا دیا جاتا ہے اور اس کے جواب میں مجلسِ اتحاد المسلمین کے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی یہ دعویٰ کریں کہ دراصل ہر بچہ مسلمان پیدا ہوتا ہے۔ ایک اور رکنِ پارلیمان یہ انکشاف کریں کہ راون دراصل دلی کے نزدیک غازی آباد میں پیدا ہوا اور ایک صاحب اٹھ کے کہیں کہ تاج محل ایک مندر کی بنیادوں پر کھڑا ہے اور انڈین ہسٹری کمیشن کے موجودہ چیئرمین یہ فرمائیں کہ جو بھی ویدوں میں ہے وہ کوئی علامتی قصے نہیں بلکہ جیسا لکھا ہے ویسا ہی حقیقت میں ہوا بھی ہے۔ لہٰذا رامائن کے ہوتے ہمیں کسی اور کھوج اور تحقیق میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔
پاکستان میں سائنس کانفرنسیں انیس سو اڑتالیس سے ہو رہی ہیں۔ لیکن جس طرح کی تحقیق ضیاء دور میں ہوئی نہ پہلے ہوئی نہ بعد میں۔ اس دورِ تحقیق کو ماہرِ فزکس پرویزہود بھائی سمیت بہت سے اصحابِ سائنس نے سمیٹنے کی کوشش کی۔ مثلاً پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سینئر سائنٹسٹ ڈاکٹر بشیر الدین محمود نے انیس سو اسی میں یہ نظریہ پیش کیا کہ چونکہ جنات آگ سے بنے ہیں لہٰذا انھیں قابو میں لا کر ان سے توانائی پیدا کی جاسکتی ہے۔
جنرل آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ان دی اسلامک ورلڈ میں ڈاکٹر صفدر جنگ راجپوت نے اپنے تحقیقی مقالے میں بتایا کہ جنات دراصل میتھین گیس سے بنتے ہیں۔ میتھین نہ صرف بے ذائقہ و بے بو ہے بلکہ اس کے جلنے کے عمل میں دھواں بھی نہیں اٹھتا۔ یہی وجہ ہے کہ جنات وجود رکھتے ہوئے بھی عام لوگوں کو دکھائی نہیں دیتے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ جنات سفید فام ہوتے ہیں ( اگرچہ دکھائی نہیں دیتے)۔
پاکستان ایسوسی ایشن آف سائنس اینڈ سائنٹفک پروفیشنلز نے جون انیس سو چھیاسی میں قرآن اور سائنس کے موضوع پر جو بین الاقوامی سیمینار کرایا اس میں پاکستان کونسل فار سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ ( پی سی ایس آئی آر ) کے ایک سرکردہ ماہر ڈاکٹر ارشد علی بیگ نے اپنے تحقیقی مقالے میں معاشرے میں منافقت کی مقدار ناپنے کا فارمولا پیش کیا۔ آپ نے بتایا کہ ان کے تیار کردہ اسکیل کے مطابق مغربی معاشروں میں منافقت بائیس کے اسکیل پر ہے اور اگر انفرادی مطالعہ کیا جائے تو اسپین اور پرتگال وغیرہ میں سماجی منافقت چودہ اسکیل پر ہے۔ ڈاکٹر صاحب شائد وقت کی کمی کے سبب پاکستانی سماج کا منافقت اسکیل نہ بتا پائے۔
خلائی ریسرچ کے ادارے اسپارکو کے چیئرمین ڈاکٹر سلیم محمود کے مقالے کا موضوع تھا۔ آئین اسٹائن کا نظریہِ اضافت اور واقعہِ معراج۔
اکتوبر انیس سو ستاسی میں جو اسلامک سائنس کانفرنس منعقد ہوئی، اس میں ستر کے لگ بھگ مقالے پڑھے گئے۔ چھیاسٹھ لاکھ روپے کا صرفہ حکومتِ سعودی عرب نے برداشت کیا۔ اس کانفرنس میں جرمنی سے تشریف لائے ایک ماہرِ ریاضی نے فرشتوں کی ٹھیک ٹھیک تعداد معلوم کرنے کا فارمولا پیش کیا۔ جب کہ قائدِ اعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ایم ایم قریشی نے وہ طریقہ بتایا جس کے ذریعے ایک نماز کا ثواب کیسے کیلکولیٹ کیا جاسکتا ہے۔ خود ہمارے وزیرِ اعظم فرما چکے ہیں کہ درخت دن میں کاربن ڈائی اکسائیڈ اور رات میں آکسیجن چھوڑتے ہیں۔
دنیا کی سب سے زیادہ ایجادات پیٹنٹ کرانے والے ملک امریکا میں جب سے ٹرمپ دور آیا ہے تب سے وہاں ایک اصطلاح خوب پھلی پھولی۔ متبادل سچائی ( آلٹرنیٹو ٹرتھ )۔ اس کا مطلب ہے کہ بینگن اگر آپ کو جامنی دکھائی دے رہا ہے تو یہ آپ کی سچائی ہے لیکن اگر مجھے نیلا دکھائی دے رہا ہے تو یہ میری سچائی ہے۔ آپ سیب کو سیب کہیں، یہ آپ کی مرضی، میں سیب کو سنگترہ کہوں یہ میری مرضی۔ یہاں اندازے کی غلطی یا آنکھ میں موتیا اتر آنے کے سبب کچھ کا کچھ دکھائی دینے کے امکان کی گنجائش ہی باقی نہیں بچی۔ ایسے میں کیا سائنس اور کون سی سائنسی سوچ۔
یہ توہم کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا
14/01/2020 وسعت اللہ خان
کوئی بھی عقیدہ ہو اس کا اپنا الوہی و مادی نظامِ حقائق و دلائل ہوتا ہے اور یہ نظام غیر مشروط قبولیت کا مطالبہ کرتا ہے۔ جب کہ سائنس کا علم خالصتاً مادی بنیاد پر حقائق کی جستجو کا نام ہے۔ اسی لیے اپنی جگہ پر قائم عقائد کے برعکس سائنس ہمیشہ رد و قبول کی گردشی کسوٹی پر چڑھی رہتی ہے۔
عقیدے میں سوال کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے جب کہ سائنس کی تو غذا ہی ہر آن سوال اٹھانا ہے۔ لہٰذا جب کوئی الوہی عقیدے کو مادی سائنس سے خلط ملط کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں جنم لینے والے کنفیوژن کا حتمی نقصان بالاخر عقیدے اور سائنس کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔
اس تناظر میں مجھ جیسے ناسمجھوں کے لیے یہ بات سمجھنا خاصا مشکل ہے کہ انسان تو ہندو، یہودی، عیسائی اور مسلمان ہوسکتا ہے۔ سائنس ہندو، یہودی، عیسائی اور مسلمان کیسے ہوسکتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سائنسدان کے لیے لا مذہب ہونا ضروری ہے۔ جابر بن حیان ، عمرِ خیام ، ابن الحیثم ، البیرونی ، ادریسی ، نظام الملک طوسی اور ابنِ سینا جدید سائنس کے عظیم ستون بھی تھے اور نماز روزے اور دیگر عبادات کا بھی اہتمام کرتے تھے۔
آریا بھٹ ، لگادھا ، بھاسکر ، بدھیانہ ، اچاریہ چنداسترا وغیرہ پراچین ہندوستان میں علمِ فلکیات ، ریاضی ، لسانیات ، علم الابدان ، طب اور دھات سازی کی تحقیق میں جھنڈے بھی گاڑ رہے تھے اور مندر میں دیوتاؤں کے چرن بھی چھوتے تھے۔ نیوٹن کششِ ثقل پر بھی کام کررہا تھا مگر چرچ جانا بھی نہیں بھولتا تھا۔ آئن اسٹائن نے کبھی نہیں کہا کہ اس کا نظریہِ اضافت تورات کی عظمت کا ثبوت ہے۔ ان سب عظیم سائنسدانوں نے عقیدے اور لیبارٹری کو دل میں ساتھ ساتھ اور دماغ میں الگ الگ رکھا۔
مگر جو کام کل تک نہیں ہوا وہ آج ہورہا ہے۔ مثلاً بھارت نے چاند پر تیسرا چندریان مشن بھیجنے کا بھی اعلان کیا ہے اور بھارت میں اس سوال پر بھی تحقیق جاری ہے کہ کیا واقعی گائے موتر پینے سے کینسر کے خلیے ختم ہو سکتے ہیں۔ مودی جی کی آبائی ریاست گجرات میں ماہرِ تعلیم جگدیش بترا جی کی جو کتابیں اسکولوں میں پڑھائی جا رہی ہیں، ان میں بتایا جا رہا ہے کہ مہا بھارت کے زمانے میں موٹر کار کیسے ایجاد ہوئی۔
چونکہ مودی کی بنیادی تنظیم آر ایس ایس اور آر ایس کی طفیلی تنظیمیں ہر شے ہندوئیت کے آئینے میں دیکھنے کی عادی ہیں لہٰذا وہ ہر شعبے کو اپنے نظریے سے جوڑ کے دکھانے کے جنون میں مبتلا ہیں۔ جہاں عقلی مباحثہ اس سطح پر آجائے کہ اتر پردیش کے وزیرِ اعلی یوگی ادتیا ناتھ انکشاف کریں کہ اس دنیا میں پیدا ہونے والا ہر بچہ ہندو ہوتا ہے بعد میں اس کا دھرم زبردستی بدلوا دیا جاتا ہے اور اس کے جواب میں مجلسِ اتحاد المسلمین کے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی یہ دعویٰ کریں کہ دراصل ہر بچہ مسلمان پیدا ہوتا ہے۔ ایک اور رکنِ پارلیمان یہ انکشاف کریں کہ راون دراصل دلی کے نزدیک غازی آباد میں پیدا ہوا اور ایک صاحب اٹھ کے کہیں کہ تاج محل ایک مندر کی بنیادوں پر کھڑا ہے اور انڈین ہسٹری کمیشن کے موجودہ چیئرمین یہ فرمائیں کہ جو بھی ویدوں میں ہے وہ کوئی علامتی قصے نہیں بلکہ جیسا لکھا ہے ویسا ہی حقیقت میں ہوا بھی ہے۔ لہٰذا رامائن کے ہوتے ہمیں کسی اور کھوج اور تحقیق میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔
پاکستان میں سائنس کانفرنسیں انیس سو اڑتالیس سے ہو رہی ہیں۔ لیکن جس طرح کی تحقیق ضیاء دور میں ہوئی نہ پہلے ہوئی نہ بعد میں۔ اس دورِ تحقیق کو ماہرِ فزکس پرویزہود بھائی سمیت بہت سے اصحابِ سائنس نے سمیٹنے کی کوشش کی۔ مثلاً پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سینئر سائنٹسٹ ڈاکٹر بشیر الدین محمود نے انیس سو اسی میں یہ نظریہ پیش کیا کہ چونکہ جنات آگ سے بنے ہیں لہٰذا انھیں قابو میں لا کر ان سے توانائی پیدا کی جاسکتی ہے۔
جنرل آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ان دی اسلامک ورلڈ میں ڈاکٹر صفدر جنگ راجپوت نے اپنے تحقیقی مقالے میں بتایا کہ جنات دراصل میتھین گیس سے بنتے ہیں۔ میتھین نہ صرف بے ذائقہ و بے بو ہے بلکہ اس کے جلنے کے عمل میں دھواں بھی نہیں اٹھتا۔ یہی وجہ ہے کہ جنات وجود رکھتے ہوئے بھی عام لوگوں کو دکھائی نہیں دیتے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ جنات سفید فام ہوتے ہیں ( اگرچہ دکھائی نہیں دیتے)۔
پاکستان ایسوسی ایشن آف سائنس اینڈ سائنٹفک پروفیشنلز نے جون انیس سو چھیاسی میں قرآن اور سائنس کے موضوع پر جو بین الاقوامی سیمینار کرایا اس میں پاکستان کونسل فار سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ ( پی سی ایس آئی آر ) کے ایک سرکردہ ماہر ڈاکٹر ارشد علی بیگ نے اپنے تحقیقی مقالے میں معاشرے میں منافقت کی مقدار ناپنے کا فارمولا پیش کیا۔ آپ نے بتایا کہ ان کے تیار کردہ اسکیل کے مطابق مغربی معاشروں میں منافقت بائیس کے اسکیل پر ہے اور اگر انفرادی مطالعہ کیا جائے تو اسپین اور پرتگال وغیرہ میں سماجی منافقت چودہ اسکیل پر ہے۔ ڈاکٹر صاحب شائد وقت کی کمی کے سبب پاکستانی سماج کا منافقت اسکیل نہ بتا پائے۔
خلائی ریسرچ کے ادارے اسپارکو کے چیئرمین ڈاکٹر سلیم محمود کے مقالے کا موضوع تھا۔ آئین اسٹائن کا نظریہِ اضافت اور واقعہِ معراج۔
اکتوبر انیس سو ستاسی میں جو اسلامک سائنس کانفرنس منعقد ہوئی، اس میں ستر کے لگ بھگ مقالے پڑھے گئے۔ چھیاسٹھ لاکھ روپے کا صرفہ حکومتِ سعودی عرب نے برداشت کیا۔ اس کانفرنس میں جرمنی سے تشریف لائے ایک ماہرِ ریاضی نے فرشتوں کی ٹھیک ٹھیک تعداد معلوم کرنے کا فارمولا پیش کیا۔ جب کہ قائدِ اعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ایم ایم قریشی نے وہ طریقہ بتایا جس کے ذریعے ایک نماز کا ثواب کیسے کیلکولیٹ کیا جاسکتا ہے۔ خود ہمارے وزیرِ اعظم فرما چکے ہیں کہ درخت دن میں کاربن ڈائی اکسائیڈ اور رات میں آکسیجن چھوڑتے ہیں۔
دنیا کی سب سے زیادہ ایجادات پیٹنٹ کرانے والے ملک امریکا میں جب سے ٹرمپ دور آیا ہے تب سے وہاں ایک اصطلاح خوب پھلی پھولی۔ متبادل سچائی ( آلٹرنیٹو ٹرتھ )۔ اس کا مطلب ہے کہ بینگن اگر آپ کو جامنی دکھائی دے رہا ہے تو یہ آپ کی سچائی ہے لیکن اگر مجھے نیلا دکھائی دے رہا ہے تو یہ میری سچائی ہے۔ آپ سیب کو سیب کہیں، یہ آپ کی مرضی، میں سیب کو سنگترہ کہوں یہ میری مرضی۔ یہاں اندازے کی غلطی یا آنکھ میں موتیا اتر آنے کے سبب کچھ کا کچھ دکھائی دینے کے امکان کی گنجائش ہی باقی نہیں بچی۔ ایسے میں کیا سائنس اور کون سی سائنسی سوچ۔
یہ توہم کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا