طالوت
محفلین
یہ تو خلافت واپس چاہتے ہیں
اوریا مقبول جان
اوریا مقبول جان
ایک جانب دنیا اس بات سے آشکا ہو رہی تھی کہ مسلمانوں کی آخری خلافت سلطنت عثمانیہ کے عرب علاقے تیل کی ایسی دولت سے مالامال ہیں کہ اگر یہ مسلم امہ کے اجتماعی قبضے میں آ گئی تو دنیا کے نقشے پر مسلمانوں کی خلافت سے زیادہ طاقتور ، وسائل سے بھرپور اور ایک امت کے تصور میں متحد قوم کی موجودگی میں کسی اور طاقت کا چراغ نہیں جل سکے گا۔اس وقت موجود دنیا میں عالمی سامراجی طاقتیں فرانس اور برطانیہ اس امت کی مرکزیت یعنی خلافت کو بزور طاقت اور بزریعہ سازش ختم کرنے کی کوششوں میں لگی تھیں ۔۔1916 میں کرنل ٹی ایس لارنس جسے دنیا لارنس آف عریبیہ کے نام سے جانتی ہے جزیرہ نمائے عرب کے مسلمانوں کو قومیت کا درس دے کر ترکوں کے خلاف بڑھکا رہا تھا اور اسی کی کوششوں سے شریف مکہ نے بغاوت کا علم بلند کیا ہوا تھا۔ میک موہن جن دنوں شریف مکہ سے مزاکرات کر رہا تھا انھی دنوں فرانسیسی اور انگریز ایک خفیہ معاہدے پر کام کر رہے تھے کہ کیسے مسلمانوں کے مفتوح علاقوں کا انتظام آپس میں بانٹنا ہے ۔ لیکن دوسری جانب پورا مغرب ایک اور سازش کا بیج مسلم امہ میں بونے کی تیاری کر رہا تھا ۔ 2 نومبر 1917 کو یروشلم کی فتح سے ایک ماہ قبل برطانیہ کے وزیر اعظم جارج لائیڈ نے اپنے وزیر خارجہ آرتحر بالفور کو ایک خط لکھا کہ مندرجہ ذیل ایک اہم اعلان کیا جائے " شہنشاہ معظم کی حکومت ، فلسطین میں یہودی لوگوں کے لیے ایک خود مختار ریاست بنانے پر آمداگی کا اظہار کرتی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے تمام تر حمایت اور کوششیں بروئے کار لائے گی" ۔۔یہ وہ زمانہ تھا جب عرب فلسطین کی مجموعی آبادی کا 90 فیصد تھے ۔ جبکہ یروشلم کے مقدس شہر میں مسلمان 50 فیصد تھے جبکہ باقی 50 فیصد میں یہودی اور عیسائی شامل تھے ۔ مسلمانوں کی مرکزیت کو پارہ پارہ کرنے کے بعد اور انھوں قومیت کے جھگڑے میں الجھانے اور ایک دوسرے سے برسر پیکار کرنے کے بعد جس طرح یورپ سے یہودیوں کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک نہ ختم ہونے والی نفرت کے سیلاب کا شکار کیا گیا اور پھر انھیں دھکیل دھکیل کر اس فلسطین کی سرزمین پر آباد کروایا گیا بقول قائد اعظم مغرب کے ھرامی بچے "اسرائیل" نے جنم لینا تھا ۔
1933 میں یہاں یہودی 18 فیصد ہوگئے اور محض 3 سال بعد 1936 میں ان کی آبادی 30 فیصد تک جا پہنچی۔ یہی وہ زمانہ تھا جب مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی نے ہٹلر سے ملاقات کی اور کہا کہ یورپ میں یہودیوں کی سازشانہ حرکتوں سے پیدا ہونے والی نفرت کا نتیجہ ہم کیوں بھگتیں ۔یہ لوگ تو بخت نصر کے زمانے سے جس زمین پر آباد ہوئے انھوں نے اپنے ہی مادر وطن یا پناہ دینے والے خطے سے غداری کی اور پھر لوگوں نے انھیں نفرت سے دھتکار تے ہوئے اپنے علاقوں سے نکال دیا۔۔1421 میں انھیں اورلینز اور ویانا سے نکالا گیا ۔ 1424 میں کولون سے ، 1439میں آک سبرگ سے ، 1442 میں باویریا سے ، 1454 میں موراویا سے ، 1485 میں پیروگیا سے ، 1486 میں ویلینزیا سے ، 1488 میں پارما سے ، 1489 میں میلان سے اور 1492 میں ٹسکنی سے انھیں جلا وطن کیا گیا ۔ یہ صرف ایک صدی کی تاریخ ہے جبکہ ہر صدی کی تاریخ ان کی اپنے وطن سے غداری اور جلا وطنی سے بھری ہوئی ہے ۔ لیکن جنگ عظیم اول کے بعد مسلمانوں کی مرکزیت تھی اور نہ امت مسلمہ کا تصور۔ یہ سب تو قومیت کے سیلاب میں بہہ چکا تھا ۔۔ اب صرف یہودیوں کی یلغار تھی اور تیل کی دولت پر قبیلہ در قبیلہ تقسیم کی گئی عرب اقوام ۔ اور یوں دنیا کے نقشے پر "مغرب کا حرامی بچہ" اپنے وجود میں آیا۔ اس کے وجود میں آنے کے بعد 1967 میں عرب اسرائیل جنگ ہوئی اور وہ مسلم امہ جس نے اس سرزمین پر صلاح الدین ایوبی (رح) کی لازوال داستان رقم کی تھی اس نے ایسی شکست کھائی کہ تاریخ میں اس مثال نہیں ملتی ۔۔ درئایے اردن کا مغربی کنارہ ، صحرائے سینا ، غزہ ، گولان کی پہاڑیاں سب اسرائیل کے قبضے میں تھیں اور جوتیوں سے ٹھوکریں مارتے ہوئے اسرائیلی جرنیل اس مسجد اقصٰی کے دلانوں میں گھوم رہے تھے جہاں میرے پیارے رسول (علیۃ الصلوۃ وسلام) نے تمام انبیاء کی امامت کی اور اپنے معراج کے سفر کا آغاز کیا ۔۔
(جاری ہے)