یہ سب قادیانیت کی سازش ہے، ہم سوشل میڈیا کے ہر فورم پر صرف سیاست کو اپنا موضوعِ سخن بنائے ہوئے ہیں لیکن اس فتنے کی طرف توجہ نہیں دے رہے
تحریک انصاف اس مسئلہ میں پڑنا نہیں چاہتی۔ یہ کام محکمہ تعلیم کی ذمہ داری ہے کہ تدریسی کتب سے متنازع مواد صاف کر کے دوبارہ شائع کرے
لیکن اس فتنے کی طرف توجہ نہیں دے رہے
تو وزیر تعلیم بھی تو نئی حکومت سے ہو گا۔تحریک انصاف اس مسئلہ میں پڑنا نہیں چاہتی۔ یہ کام محکمہ تعلیم کی ذمہ داری ہے کہ تدریسی کتب سے متنازع مواد صاف کر کے دوبارہ شائع کرے
میں بھی کرتی ہوں کچھ۔ ایک بار پھرمجھے بھی بتائیں میں بھی یاز پائن والا "کرتا ہوں کچھ" وغیرہ وغیرہ
میرا خیال ہے کتاب پر پابندی کے بعد پبلشر نے یہ کتاب لازما بازار سے اٹھا لی ہو گی۔ یہ یا تو کوئی پرانی خبر ہے جو دوبارہ سے سرکولیٹ کی گئی ہے یا کسی چھوٹے شہر/دوکاندار کی دوکان میں پرانا ایڈیشن تھا۔ پہلے اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ کیا یہ تازہ ترین صورت حال ہے؟ کیوں کہ بعض اوقات سوشل میڈیا پر ایسے نازک مسائل کو دوبارہ اٹھا دیا جاتا ہے جن کے بارے میں قدم اٹھایا جا چکا ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں کافی نقصان بھی ہو جاتا ہے۔بہت ہی افسوس اور غم کی بات ہے۔۔۔۔وہ ہستیاں کہ جن کے لئے ہمارے دلوں میں انتہائی عزت و احترام اور محبت ہے،اُن کے بارے میں اِس طرح کے عنوانات کے تحت واقعات کو شامل کرنا اور اُن سے غلط مطالب و نتائج اخذ کرنے۔
استغفراللہ۔ اگر بچپن میں ایسی کوئی بات ہوئی بھی تو بچپن تو بچپن ہے۔ پھر اللہ اُن سے کیسے ناراض ہوسکتا ہے! اللہ تو ہمارے عام سے بچوں سے بھی ناراض نہیں ہوتا۔ ہمارے بچے ہم سے جب پوچھتے ہیں تو ہم اُنہیں یہی بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بچوں سے بہت پیار کرتے ہیں اور اُنہیں گناہ نہیں دیتے،اُن سے ناراض نہیں ہوتے۔ پھر وہ ہستیاں۔۔۔۔ہمارے پیارے نبیﷺ کے شہزادے۔ ہماری پیاری بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ہمارے پیارے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے راج دُلارے۔ جنت کے سردار۔ جن کے لئے پیارے نبیﷺ اپنے سجدے طویل کر دیتے تھے۔۔۔۔
ہم اِس بات پہ احتجاج کرتے ہیں۔اور میں اکمل زیدی کی اِس بات سے مکمل متفق ہوں کہ نہ صرف اِس کتاب کو مارکیٹ سے اُٹھایا جائے بلکہ اِسے لکھنے اور چھاپنے والوں سے پوچھ گچھ کی جائے۔
اور اب سو سال تک سوشل میڈیا پر اس کتاب اور بورڈ کے خلاف احتجاج جاری رہے گا
بالکل۔ میرا بھی اس کتاب کے بارے میں چیک کرنے کا یہی مقصد تھا کیوں کہ میں ایسے ہی ایک واقعے کے بارے میں جانتی ہوں جو کہ آج سے سات آٹھ پہلے حل بھی ہو چکا ہے لیکن ہر بار جب اس ادارے کا کوئی نیا سربراہ یا عہدیدار آتا ہے، وہی پیغام مکمل سیاق و سباق کے ساتھ ان کو بھیجا جاتا ہے اور نئے سرے سے کاروائیوں کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔اگر غلط معلومات کسی کتاب میں ہوں تو یقیناً ایسا ہی ہونا چاہیئے۔ لیکن میرا اشارہ غلطیوں سے بھرپور سوشل میڈیا فارورڈز کی طرف تھا جو کتابوں کی درستگی کے سالوں بعد بھی اسی طرح جاری رہتی ہیں۔
میرا مقصد بھی یہی تھا یہاں پر شیئر کرنے کامیرا خیال ہے کتاب پر پابندی کے بعد پبلشر نے یہ کتاب لازما بازار سے اٹھا لی ہو گی۔ یہ یا تو کوئی پرانی خبر ہے جو دوبارہ سے سرکولیٹ کی گئی ہے یا کسی چھوٹے شہر/دوکاندار کی دوکان میں پرانا ایڈیشن تھا۔ پہلے اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ کیا یہ تازہ ترین صورت حال ہے؟ کیوں کہ بعض اوقات سوشل میڈیا پر ایسے نازک مسائل کو دوبارہ اٹھا دیا جاتا ہے جن کے بارے میں قدم اٹھایا جا چکا ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں کافی نقصان بھی ہو جاتا ہے۔
اختیارات ملیں گے تو دیکھ لیں گے۔تو وزیر تعلیم بھی تو نئی حکومت سے ہو گا۔
تو وزیر تعلیم بھی تو نئی حکومت سے ہو گا۔
کہیں وزیر تعلیم وہی نہ ہوں جو خیبر پختونخوا میں تھے۔ محترم محمد عاطف خان۔ ایف اےاختیارات ملیں گے تو دیکھ لیں گے۔
وہ تو اس وقت وزارتِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مضبوط امیدوار ہیں۔کہیں وزیر تعلیم وہی نہ ہوں جو خیبر پختونخوا میں تھے۔ محترم محمد عاطف خان۔ ایف اے
اس کا مجھے علم نہیں تھا۔وہ تو اس وقت وزارتِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مضبوط امیدوار ہیں۔
جی میں جانتی ہوں۔دوسرا یہ کہ تعلیم اور صحت کے شعبہ جات صوبائی عملداری میں ہیں۔
کل حامد میر نے ایک پروگرام میں انکشاف کیا ہے کہ قائد عمران خان صاحب نے ابھی تک اعلیٰ وزارتوں کیلئے کوئی نام نہیں دیا۔ کنسلٹیشن چل رہی ہے اور جو لوگ میڈیا کے ذریعہ اپنا نام نمایاں کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک کو خان صاحب نے اپنے پاس بلا کر جھاڑ بھی پلائی ہےوہ تو اس وقت وزارتِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مضبوط امیدوار ہیں۔
میں نے کب کہا کہ فائنل کیا ہے؟