محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
پہلے مصرعے میں ’’کربِ درُوں‘‘ (اندر کا کرب) کا تقاضا ہے۔ساغر صدیقی جیسا شاعر ’’کرب و دروں‘‘ کہے، دل نہیں مانتا۔
کتابت میں فروگزاشت ہو گئی، غالباً۔
واللہ اعلم بالصواب
غدیر زھرا
محمد خلیل الرحمٰن
تدوین کردی ہے جناب۔
پہلے مصرعے میں ’’کربِ درُوں‘‘ (اندر کا کرب) کا تقاضا ہے۔ساغر صدیقی جیسا شاعر ’’کرب و دروں‘‘ کہے، دل نہیں مانتا۔
کتابت میں فروگزاشت ہو گئی، غالباً۔
واللہ اعلم بالصواب
غدیر زھرا
محمد خلیل الرحمٰن
اپنے ہونے کی خبر کس کو سناؤں ساغرکوئی زندہ ہو تو میں اس سے کہوں زندہ ہوں
(ساغر صدیقی )
یہ غزل ساغر صدیقی صاحب سے منسوب ہو گئی ہے، یعنی کسی اور ساغر صاحب کی ہے شاید۔ ہو سکتا ہے ساغر نظامی صاحب کی ہو، جو سیماب اکبر آبادی صاحب کے شاگرد عزیز تھے ۔
بہرحال غزل نے بہت لطف دیا، شیئر کرنے پر تشکّر
شکریہ سر جزاک اللہ اگر عنوان کی بھی تدوین کر دی جائے تو نوازش ہو گیتدوین کردی ہے جناب۔
یہ غزل ساغر کے کسی کلیات میں نہیںیہ جو سینے میں لیے کربِ درُوں ز ندہ ہوںکوئی امید سی باقی ہے کہ یوں زندہ ہوںشہر کا شہر تماشائی بنا بیٹھا ہےاور میں بن کے تماشائے جنوں زندہ ہوںمیری دھڑکن کی گواہی تو میرے حق میں نہیںایک احساس سا رہتا ہے کہ ہوں زندہ ہوںکیا بتاؤں تجھے اسباب جیئے جانے کےمجھ کو خود بھی نہیں معلوم کہ کیوں زندہ ہوںاپنے ہونے کی خبر کس کو سناؤں ساغرکوئی زندہ ہو تو میں اس سے کہوں زندہ ہوں(ساغر صدیقی )
بہت شکریہ درستی کےلیےیہ غزل جناب سلیم ساگر صاحب کی ہے
مقطع میں بھی ساغر کو ساگر کر لیجیے۔بہت شکریہ درستی کےلیے
ہائے کیا بات ہے جییہ جو سینے میں لیے کربِ درُوں ز ندہ ہوں
کوئی امید سی باقی ہے کہ یوں زندہ ہوں
شہر کا شہر تماشائی بنا بیٹھا ہے
اور میں بن کے تماشائے جنوں زندہ ہوں
میری دھڑکن کی گواہی تو میرے حق میں نہیں
ایک احساس سا رہتا ہے کہ ہوں زندہ ہوں
کیا بتاؤں تجھے اسباب جیئے جانے کے
مجھ کو خود بھی نہیں معلوم کہ کیوں زندہ ہوں
اپنے ہونے کی خبر کس کو سناؤں ساگر
کوئی زندہ ہو تو میں اس سے کہوں زندہ ہوں
( سلیم ساگر )