یہ جو ماتم کدہ جہاں کا ہے ۔ رفیق اظہر

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

یہ جو ماتم کدہ جہاں کا ہے
ایک منصوبہ آسماں کا ہے

دھوپ آنکھوں سے ہو گئی اوجھل
ذکر کیا عمرِ رائیگاں کا ہے

ہم اچانک نہیں یہ مل بیٹھے
یہ کراں سے سفر کراں کا ہے

کون اَرجُن کماں پہ ہے بیٹھا
سب پتا تیر کو نشاں کا ہے

روز چلتی ہے موت کی آندھی
جا بجا شور نوحہ خواں کا ہے

کئی ارواح آتی جاتی ہیں
یہ جو رستہ سا کہکشاں کا ہے

گِر نہ جائے خلا میں یہ دھرتی
ڈر مجھے تیرے خاکداں کا ہے

رُوح قیدی ہو جسم کی کیسے
یہ پرندہ تو لامکاں کا ہے

(رفیق اظہر)
 
Top