راحیل فاروق
محفلین
اختلاف زندگی کا حسن ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسے ہمیشہ ننگا ہی رہنا چاہیے۔ ہم نے یہ سبق بھلے نو سو چوہے کھا کر سیکھا ہو مگر حاجیوں کی ایک بڑی تعداد کے منہ کو ابھی تک خون لگا ہوا ہے۔ لہٰذا سب سے پہلے تو یہ گھنٹی باندھنی ضروری ہے کہ مضمون ہٰذا محض ازراہِ ترنم لکھا گیا ہے۔ اگر کسی کو تکلیف پہنچے تو اللہ جانتا ہے ہمیں خود بڑی تکلیف ہے۔ دہریوں اور مسلمانوں کی بحثوں میں ریلو کٹے کی طرح دونوں جانب سے شریک رہنے سے زیادہ بڑے اعزاز اور ذلت دونوں کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔
نیکی کے کاموں سے ہمیں طبعاً مناسبت نہیں رہی۔ لہٰذا اگر کوئی ہمیں مسلمانوں کا نمائندہ خیال کرے تو یہ اس کی سادہ لوحی پر دلیل ہے۔ اسی طرح دہریوں کا طرفدار سمجھنے والا بھی سخت بےوقوف ہے کیونکہ ہم دہریے ہیں ہی نہیں۔ آفتاب آمد دلیلِ آفتاب۔ ہاں ہمدردی ہمیں دونوں گروہوں سے ہے۔ مسلمانوں سے اس لیے کہ ان پر غلطی سے زوال آ گیا ہے۔ اس بات میں شبہ ہے کہ غلطی مسلمانوں کی تھی یا زوال کی۔ دہریوں سے اس لیے پیار ہے کہ کلیسا آگے ہو نہ ہو، ایک آدھ قبلہ و کعبہ ضرور ہمہ وقت بیچاروں کے پیچھے ہوتا ہے۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں۔
ایک کٹر مسلمان اور کٹر دہریے میں اس لحاظ سے غیرمعمولی اشتراکِ عمل پایا جاتا ہے کہ دونوں ہر وقت ہاتھ دھو کے اسلام کے پیچھے ہی پڑے رہتے ہیں۔ مسلمان بھائی کو سمجھانے کی کوشش کیجیے۔ وہ آپ کو حدیثیں سنائے گا۔ دہریے دوست کی منت کیجیے۔ وہ اور زیادہ حدیثیں سنائے گا۔ رفتہ رفتہ آپ کو اندازہ ہو گا کہ علومِ اسلامیہ میں جتنی وسعت کا دعویٰ کیا جائے کم ہے۔ اس سے شاید آپ کے ایمان میں اضافہ ہو۔ یا شاید آپ بھی دہریے ہو جائیں۔ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
حالانکہ ہر دو گروہ ایک دوسرے کو نہایت سچے دل سے پرلے درجے کا احمق اور گاؤدی جانتے ہیں لیکن باہر سے دیکھنے والوں کو نہ جانے کیوں ہمیشہ یہی گمان گزرتا ہے کہ خدا نے شاید انھیں فالتو عقل کی نعمت سے بھی سرفراز فرمایا ہے۔ ہم نے ہمیشہ دہریوں کی معروضات پر نہایت ہمدردی سے غور کیا ہے اور مسلمانوں کے ارشادات پر بھی کچھ کم دماغ سوزی نہیں کی۔ مگر نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس دردمندی کا نتیجہ ہماری توقعات کے بالکل برعکس نکلا ہے۔ یعنی اب دونوں گروہ متفقہ طور پر ہمیں احمق سمجھتے ہیں۔
ہم نے اس معاملے پر جس قدر غور کیا ہے اسی قدر دماغ کا دہی بنتا گیا ہے۔ یعنی ہم نے خود زندگی میں بہت بار سگریٹ الٹی طرف سے سلگا کر کش لگانے کی کوشش کی ہے اور اس قسم کے معاملات کو عین مقتضائے بشریت خیال کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص ہر بار یہی سعیِ نامشکور کرتا نظر آئے تو اسے سگریٹ نوش کی بجائے چرسی سمجھنا افضل ہے۔ مذہبی بحثوں میں دیے جانے والے اکثر دلائل کی نسبت ہم اس سے زیادہ کہنے سے معذور ہیں۔
تعجب ہے کہ جس طرح ہمارے ہاں بہت سے ڈھلتی عمر کے مرد ڈاڑھی رکھ کر بھی لڑکیوں پر ٹھرک جھاڑنے سے باز نہیں آتے بالکل اسی طرح بظاہر دین کو دھتا بتا دینے کے باوجود بھی دہریوں کی نیت یا بدنیتی اسلام سے سیر نہیں ہوتی۔ دوسری جانب مومنین کا رویہ اس ضمن میں کچھ زیادہ ہی زنانہ سا دیکھنے میں آیا ہے۔ یعنی اکثر بحث میں کودتے بھی نہایت جوش و خروش سے ہیں اور غوطے کھا کر چیخیں بھی نہایت دردناک مارتے ہیں۔
مسلمانوں کا بس نہیں چلتا کہ کسی طرح خود کو طارق بن زیاد سے لے کر ابنِ سینا تک سب مشاہیرِ سلف کا بلاواسطہ خلف ثابت کر کے سلطانئِ پدر کے وارث قرار پا جائیں۔ ادھر دہریے ہیں کہ بعض اوقات اپنی حقیقی ولدیت پر بھی لیپا پوتی کی کوششوں میں مصروف دیکھے گئے ہیں۔ پھر دونوں ظالم اصرار بھی کرتے ہیں کہ تاریخ پڑھو۔حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح بھی عالی نسب وہی قرار پاتے ہیں جو تاریخ نہیں پڑھتے۔ اکو الف ترے درکار!
خوف ناک بات یہ ہے کہ وجودِ باری تعالیٰ کے محض عقلی اور نقلی ثبوت ہی رائج نہیں بلکہ دہریوں کو تجلیات کے براہِ راست مشاہدے کے لیے سوئے عدم روانہ کرنے کا چلن بھی عام ہے۔ ہماری سمجھ میں آج تک یہ نہیں آیا کہ اس طریقے میں کیا مصلحت کارفرما ہے۔ یعنی اگر یہ انتقام ہے تو کچھ ایسا ہے جیسے کوئی ٹھیکےدار مزدوروں کو دیکھتے ہی کام سمجھانے کی بجائے ہر بار زبردستی گھر چھوڑ آیا کرے!
عورت اور اس کے حقوق کے معاملے میں مومنین و ملحدین متفق ہیں کہ بہت ظلم ہو رہا ہے۔ اس امر میں البتہ حسبِ دستور شدید اختلاف پایا جاتا ہے کہ یہ اندھیر مچا کون کمبخت رہا ہے۔ ایمان والے دہریوں کو اس کا اصل ذمہ دار قرار دیتے ہیں اور دہریے تو ویسے ہی مسلمانوں کو جنت تک کھدیڑنے کے شائق ہیں۔ مگر جہاں تک ہم نے دیکھا ہے یہ شاید واحد معاملہ ہے جس میں کسی کے الزامات میں بھی رتی بھر صداقت نظر نہیں آتی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے مشاہدے کے مطابق تو دونوں طرف صورتِ حال وہی ہے جس کا ذکر سوداؔ اپنے مشہورِ زمانہ قصیدہ تضحیکِ روزگار میں ایک مظلومِ زمانہ گھوڑے کی نسبت کر گئے ہیں:
نیکی کے کاموں سے ہمیں طبعاً مناسبت نہیں رہی۔ لہٰذا اگر کوئی ہمیں مسلمانوں کا نمائندہ خیال کرے تو یہ اس کی سادہ لوحی پر دلیل ہے۔ اسی طرح دہریوں کا طرفدار سمجھنے والا بھی سخت بےوقوف ہے کیونکہ ہم دہریے ہیں ہی نہیں۔ آفتاب آمد دلیلِ آفتاب۔ ہاں ہمدردی ہمیں دونوں گروہوں سے ہے۔ مسلمانوں سے اس لیے کہ ان پر غلطی سے زوال آ گیا ہے۔ اس بات میں شبہ ہے کہ غلطی مسلمانوں کی تھی یا زوال کی۔ دہریوں سے اس لیے پیار ہے کہ کلیسا آگے ہو نہ ہو، ایک آدھ قبلہ و کعبہ ضرور ہمہ وقت بیچاروں کے پیچھے ہوتا ہے۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں۔
ایک کٹر مسلمان اور کٹر دہریے میں اس لحاظ سے غیرمعمولی اشتراکِ عمل پایا جاتا ہے کہ دونوں ہر وقت ہاتھ دھو کے اسلام کے پیچھے ہی پڑے رہتے ہیں۔ مسلمان بھائی کو سمجھانے کی کوشش کیجیے۔ وہ آپ کو حدیثیں سنائے گا۔ دہریے دوست کی منت کیجیے۔ وہ اور زیادہ حدیثیں سنائے گا۔ رفتہ رفتہ آپ کو اندازہ ہو گا کہ علومِ اسلامیہ میں جتنی وسعت کا دعویٰ کیا جائے کم ہے۔ اس سے شاید آپ کے ایمان میں اضافہ ہو۔ یا شاید آپ بھی دہریے ہو جائیں۔ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
حالانکہ ہر دو گروہ ایک دوسرے کو نہایت سچے دل سے پرلے درجے کا احمق اور گاؤدی جانتے ہیں لیکن باہر سے دیکھنے والوں کو نہ جانے کیوں ہمیشہ یہی گمان گزرتا ہے کہ خدا نے شاید انھیں فالتو عقل کی نعمت سے بھی سرفراز فرمایا ہے۔ ہم نے ہمیشہ دہریوں کی معروضات پر نہایت ہمدردی سے غور کیا ہے اور مسلمانوں کے ارشادات پر بھی کچھ کم دماغ سوزی نہیں کی۔ مگر نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس دردمندی کا نتیجہ ہماری توقعات کے بالکل برعکس نکلا ہے۔ یعنی اب دونوں گروہ متفقہ طور پر ہمیں احمق سمجھتے ہیں۔
ہم نے اس معاملے پر جس قدر غور کیا ہے اسی قدر دماغ کا دہی بنتا گیا ہے۔ یعنی ہم نے خود زندگی میں بہت بار سگریٹ الٹی طرف سے سلگا کر کش لگانے کی کوشش کی ہے اور اس قسم کے معاملات کو عین مقتضائے بشریت خیال کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص ہر بار یہی سعیِ نامشکور کرتا نظر آئے تو اسے سگریٹ نوش کی بجائے چرسی سمجھنا افضل ہے۔ مذہبی بحثوں میں دیے جانے والے اکثر دلائل کی نسبت ہم اس سے زیادہ کہنے سے معذور ہیں۔
تعجب ہے کہ جس طرح ہمارے ہاں بہت سے ڈھلتی عمر کے مرد ڈاڑھی رکھ کر بھی لڑکیوں پر ٹھرک جھاڑنے سے باز نہیں آتے بالکل اسی طرح بظاہر دین کو دھتا بتا دینے کے باوجود بھی دہریوں کی نیت یا بدنیتی اسلام سے سیر نہیں ہوتی۔ دوسری جانب مومنین کا رویہ اس ضمن میں کچھ زیادہ ہی زنانہ سا دیکھنے میں آیا ہے۔ یعنی اکثر بحث میں کودتے بھی نہایت جوش و خروش سے ہیں اور غوطے کھا کر چیخیں بھی نہایت دردناک مارتے ہیں۔
مسلمانوں کا بس نہیں چلتا کہ کسی طرح خود کو طارق بن زیاد سے لے کر ابنِ سینا تک سب مشاہیرِ سلف کا بلاواسطہ خلف ثابت کر کے سلطانئِ پدر کے وارث قرار پا جائیں۔ ادھر دہریے ہیں کہ بعض اوقات اپنی حقیقی ولدیت پر بھی لیپا پوتی کی کوششوں میں مصروف دیکھے گئے ہیں۔ پھر دونوں ظالم اصرار بھی کرتے ہیں کہ تاریخ پڑھو۔حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح بھی عالی نسب وہی قرار پاتے ہیں جو تاریخ نہیں پڑھتے۔ اکو الف ترے درکار!
خوف ناک بات یہ ہے کہ وجودِ باری تعالیٰ کے محض عقلی اور نقلی ثبوت ہی رائج نہیں بلکہ دہریوں کو تجلیات کے براہِ راست مشاہدے کے لیے سوئے عدم روانہ کرنے کا چلن بھی عام ہے۔ ہماری سمجھ میں آج تک یہ نہیں آیا کہ اس طریقے میں کیا مصلحت کارفرما ہے۔ یعنی اگر یہ انتقام ہے تو کچھ ایسا ہے جیسے کوئی ٹھیکےدار مزدوروں کو دیکھتے ہی کام سمجھانے کی بجائے ہر بار زبردستی گھر چھوڑ آیا کرے!
عورت اور اس کے حقوق کے معاملے میں مومنین و ملحدین متفق ہیں کہ بہت ظلم ہو رہا ہے۔ اس امر میں البتہ حسبِ دستور شدید اختلاف پایا جاتا ہے کہ یہ اندھیر مچا کون کمبخت رہا ہے۔ ایمان والے دہریوں کو اس کا اصل ذمہ دار قرار دیتے ہیں اور دہریے تو ویسے ہی مسلمانوں کو جنت تک کھدیڑنے کے شائق ہیں۔ مگر جہاں تک ہم نے دیکھا ہے یہ شاید واحد معاملہ ہے جس میں کسی کے الزامات میں بھی رتی بھر صداقت نظر نہیں آتی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے مشاہدے کے مطابق تو دونوں طرف صورتِ حال وہی ہے جس کا ذکر سوداؔ اپنے مشہورِ زمانہ قصیدہ تضحیکِ روزگار میں ایک مظلومِ زمانہ گھوڑے کی نسبت کر گئے ہیں:
گھوڑی کو دیکھ لے ہے تو پادے ہے بار بار
ہمارا خیال ہے کہ اس درجے کی شیفتگی ملاحظہ کر چکنے کے بعد کم از کم حقوقِ نسواں سے متعلق تمام بہتان تراشی کو محض برائے بیت یا زیادہ سے زیادہ برائے قصیدہ ہی سمجھنا چاہیے۔