یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے

انتہا

محفلین
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
محمد صدیق بخاری

جب ملکوں، قوموں، شہروں اور بستیوں میں بت گری، بت فروشی اور بت پرستی حد سے بڑھ جائے تو ابراہیم کی ضرورت ہوا کرتی ہے جو بتوں پر ایک ضرب کاری لگا کر یہ واضح کردے کہ بتوں سے کچھ نہیں ہوا کرتا۔ جو اپنی ناک سے مکھی تک اڑانے کی صلاحیت نہیں رکھتے ، وہ دوسروں کا بھلاکیا کریں گے ۔ کافر اور غیر مسلم قریوں اور بستیوں کا تو کیا کہنا، آج مسلمان بستیوں اور معاشروں میں بھی بت پرستی عام ہو گئی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں پتھر کے بت بھی ملا کرتے ہيں جبکہ ہمارے ہاں یہ بت تو عنقا ہیں البتہ شہرت، اقتدار ،دولت ، ہوس اور جاہ کے بت جابجا موجود ہیں اور اتنی تعداد میں موجود ہیں کہ ان کے بت ہونے کا احساس بھی ختم ہو گیا ہے۔
خدا ،نہ ان بستیوں میں اترتا ہے اور نہ ان دلوں میں جن میں بتوں کا راج ہوا کرتا ہے ۔جس طرح ہر مسلم معاشرے کے ذمے ہے کہ اپنے بت تلاش کرکے ان کاقلع قمع کرے، اسی طرح ہر مسلم کے ذمہ ہے کہ وہ اپنے بت تلاش کر کے انہیں پاش پاش کرے ورنہ توحید کا تخم ، تخم ہی رہے گا شجر ثمر دار نہ بن سکے گا۔ جس چیز کی محبت بھی آدمی کے دل پر اتنی غالب آ جائے کہ وہ اسے خدا کی محبت پر قربان نہ کر سکتا ہو، بس وہی اس کا بت ہے۔
ہماری ساری عمر بتوں کو سینوں سے لگائے گزر جاتی ہے اور ہم سمجھتے رہتے ہیں کہ ہم توحید کے علمبردار ہیں۔ اگر کسی دل میں شہرت ، اقتدار یا مال و جاہ کی ہوس کے بت نہ بھی ہوں تو کچھ دیگر خواہشا ت کے بت ضرور ہو ں گے ۔ انہیں کسی اورنے نہیں ہم نے خود ہی ڈھونڈ نا ہے اور ان سے جان چھڑانا ہے ۔ البتہ معاشروں کی پاکیزگی کے لیے واقعتا ایک ابراہیم کی ضرورت ہو ا کرتی ہے ۔ اب وہ ابراہیم آسمان سے نہیں آئے گا اسے بھی ہم نے ہی تلاش کرنا ہے اور اگر کسی بھی درجے میں مل جائے تو اس کا ساتھی بننا ، اس کے ساتھ چلنا اور اس کے سائے میں رہنا ہی کامیابی کا ضامن ہے ۔
اللہ کریم نے واضح کر دیا ہے کہ تمہارے لیے ابراہیم کی زندگی میں ایک بہتر نمونہ ہے ۔ (قد کانت لکم اسوۃ حسنۃ فی ابراہیم) بت شکنی کے علاوہ ابراہیم کی زندگی کا ایک اور بڑا رخ قربانی ہے ۔ اپنی ہر خواہش کو ، اپنی ہر چاہت کو ، ہر محبت کو اورہر جذبے کو اللہ کی محبت اور حکم پر قربان کرناہی ابراہیمیت اور حنفیت ہے ۔ ایک مسلمان اگر اس بات میں یکسو نہیں ہے تو اس کی مسلمانی خام ہے اسے پختہ کرنے کی فکرکرنا اس پر لازم ہے ۔
ہر برس جانوروں کی قربانی تو ایک علامت ہے ۔ اگر اس قربانی سے ہمارے اندر اپنے جذبات ، خواہشات اور مرغوبات کو قربان کرنے کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا تو امکا ن ہے کہ کہیں یہ قربانی بھی بارگاہ الہی سے رد نہ ہوجائے۔ہر سال قربانی کرنے والوں میں سے کتنے ایسے ہیں کہ جو اللہ کا حکم سامنے آنے پر اپنی خواہش کو قربان کرنے پر فورا ًآمادہ ہو جاتے ہیں اور کتنے ایسے ہیں جو خدا ئی قربان گاہ پر اپنے جذبے قربان کرنے کے تیار رہتے ہیں۔ یہ تعداد شاید اکائیوں میں تو ہو دہائیوں میں ہر گز نہیں۔ کیونکہ اگر یہ تعداد دہائیوں میں ہوتی تو رحمت ایزدی سے امید تھی کہ وہ ہماری مدد کے لیے اتر آتی ۔ چونکہ مسلم معاشروں سے مدد الٰہی روٹھ گئی ہے اس لیے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ یہاںنہ تو اب بت شکن اتنے رہے ہیں اور نہ قربانی کرنے والے اتنے کہ جن کے صدقے اللہ اپنی مدد نازل کرے۔ کام تو اللہ کی مدد ہی سے بنا کرتا ہے لیکن وہ مدد اتارنے کا ایک ضابطہ ہے اور وہ ضابطہ دلوں سے بتوں کا نکالنا اور قربانی کا جذبہ بیدار کرنا اور اس کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا ہے ۔
اگر آج کا ابراہیم ارد گرد نہ ملے تو پھر ہمیں اپنے اندر تلاش کر کے اسے اس کا مقام دینا چاہیے کیونکہ،' اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی '، بھی زندگی گزارنے کا ایک طریقہ ہے ۔
 
السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ:
جزاک اللہ خیراً، آپ کے اس مضمون میں دینِ السلام کی گزشتہ اہتشام کی جھلک نظر آئی ہے۔ لیکن آج کل کے اس نفسیٰ نفسی کی دور میں کتنے ہیں جو کے حضرتِ اقبال علیہ رحمۃ کے اقوال کو پڑھ کر اپنے ماضی میں جھانکنے کی استعاعت رکھتے ہیں۔ کیا جن لوگوں کے دل الحاد سے خوگر ہوں جن کا دن رات اس کوشش میں گزرتا ہو کہ میں دنیا میں آگے کیسے بڑھ سکتا ہوں وہ کیسے براہیمی فکرو اِسْتِدْلال کے حامی ہو سکتے ہیں۔ جیسے کے آپ نے اِنگلش میں سنا ہو گا: "بائی ہُک اور بائی کُرک" امریکہ میں ایک مشہورکہاوت ہے کہ" کچھ لوگ جینے کے لیے کھاتے ہیں اور کچھ کھانے کے لیے جیتے ہیں" اگر ہم بہ حثیتِ مسلمان اس حقیقت کو تسلم کر لیں اور ہماری توجہ اگر دین کی جانب مبذول ہو تو ان شاء اللہ بہتری آ سکتی ہے۔ " زمانہباتو نسازد توبازمانہ بساز" کہ اگر زمانہ تمہارے ساتھ سازگار نہیں تو تم زمانہ کے ساتھ سازگاری کرلو۔ جو لوگ اپنے نفس کی خواہشات کے تابع ہوں انہیں سنتِ ابراہیمی کی کیا سمجھ۔ جیسا کے قرآنِ مجید میں سورہ القمان میں اللہ رب العزت بہ زبانِ حضرتِ لقمان فرماتا ہے کہ "اے میرے بچے شرک مت کیجیو، شرک ایک بہت عظیم ظلم ہے" آپ جب بھی جہاں بھی سنتِ ابراہیمی کا تذکرہ چھیڑیں گے لوگ آپ کو دقیانوسی ، مایوس اور پتہ نہیں کیا کیا کہ دیں۔ شرک کی اقسام میں اپنے نفس کے کہے پر عمل بھی شرک ہی ہے۔ آپ نے اکثر لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہوگا ارے حضرت کیا کہتے ہیں اللہ تو غفور اور رحم کرنے والا ہے وہ سب کچھ معاف کر دیتا ہے۔ یہ بھی شیطان کی طرف سے ایک دھوکا ہے۔ جو کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوتے ہیلہ اور بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ اللہ کے نبی کا فرمان ہے کی جسے میری سنت پسند نہیں اس کا مجھ سے کوئ تعلق نہیں۔ ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل ہوگر ہیں، امتی باعثِ رسوائیِ پیغمبر ہیں۔ جیسا کے آپ نے کہا کے "ہماری ساری عمر بتوں کو سینے لگائے گزر جاتی ہے" ان عہدِ عتیق کے بُتوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو لازِماً سنتِ ابی ابراہیم علیہ السلام پر عمل ایک ناگزیر بات ہے۔ اور بہت سہی بات کہی آپ نے کے بجائے جانوروں کو بلی چڑہانے ہمیں اپنی خوہشات کو اللہ اور اُس کے رُسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر قربان کر دینا چاہیے۔

بُت شِکن اُٹھ گئے باقی جو رہے بُت گر ہیں
تھا براہیم پدر اور پسر آذر ہیں
---------------------------------------------
بیاں میں نکتئہ توحید تو آ سکتا ہے
ترے دماغ میں بُت خانہ ہو تو کیا کہیے۔
 
Top