عبید انصاری
محفلین
دیوانہ چاہیے نہ ہی فرزانہ چاہیے
نے جام چاہیے نہ ہی پیمانہ چاہیے
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
اس سادگی پہ سب کو ہی مرجانا چاہیے
جاناں نے جب اٹھا لیا جوتا تو بول اٹھے
اب سے نہ ہم کو لعنتِ جانانہ چاہیے
اتنا تو ہم نے بھی ہے سنا ہائے توبہ کی
تفصیل میں ہم ایسوں کو جانا نہ چاہیے
اک حالِ زار رِند کہے جا رہا تھا کل
گر تم کو ہم سے زیست کا پروانہ چاہیے
معجون، کشتے، شربتِ فولاد لے کے سب
سُٹ دیجیے، جو قوتِ مردانہ چاہیے
بزمِ سخن میں دیکھ کے کہتے ہیں وہ عبید
ہو مبتدی تمہیں یہاں آنا نہ چاہیے
نے جام چاہیے نہ ہی پیمانہ چاہیے
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
اس سادگی پہ سب کو ہی مرجانا چاہیے
جاناں نے جب اٹھا لیا جوتا تو بول اٹھے
اب سے نہ ہم کو لعنتِ جانانہ چاہیے
اتنا تو ہم نے بھی ہے سنا ہائے توبہ کی
تفصیل میں ہم ایسوں کو جانا نہ چاہیے
اک حالِ زار رِند کہے جا رہا تھا کل
گر تم کو ہم سے زیست کا پروانہ چاہیے
معجون، کشتے، شربتِ فولاد لے کے سب
سُٹ دیجیے، جو قوتِ مردانہ چاہیے
بزمِ سخن میں دیکھ کے کہتے ہیں وہ عبید
ہو مبتدی تمہیں یہاں آنا نہ چاہیے