عبدالحسیب
محفلین
کمر بھائی 'قمر' پر ہاتھ رکھے دیر تک 'کمر' دیکھتے رہےمجھے کیا قبر تھی کہ یہاں خبریں ہی خبریں ہیں۔
کمر بھائی 'قمر' پر ہاتھ رکھے دیر تک 'کمر' دیکھتے رہےمجھے کیا قبر تھی کہ یہاں خبریں ہی خبریں ہیں۔
بصد احترام عرض ہے کہفارقٖلیط صاحب ۔ خلیل صاحب کی طرح آپ بھی میرے بزرگ ہیں اور محترم بھی۔
اعتراض اور تنقید کو میں احترام سے متعارض اور متصادم نہیں سمجھتا سو میں نے بھی بر سبیل تذکرہ خلیل صاحب کی ترجمانی کے طور پہ لکھ دیا تھا اس میں گراں گزرنے کا کوئی سوال ہی نہیں ۔
اور ہاں ۔ میرے خیال میں دکنی اردو کوئی اردو کی قسم نہیں بلکہ یہ تو ایک انتہائی پر لطف لہجہ ہے جو حیدرآباد وغیرہ میں رائج ہے۔
حیدربادی تو نہیں پتہ البتہ خاکسار کا دانہ پانی فی الوقت اسی شہر میں ہےارے یارو اس میں حیدربادی کون ہے؟
تقریبا٘ تین سال سے یہاں مقیم ہیں۔ ویسے ہمارا تعلق دکن ہی سے ہے لیکن ہندوستانی حکومت کی 'ریاستوں کی لسانی تقسیم' کے سبب ہمارا آبائی وطن مہارشٹرا میں شمار ہوتا ہے۔کب سے ہیں اور کہاں سے ہیں آپ؟ِ ہم نے بھی 7سال حیدرآبادی دال وبریانی کھائی ہے
جی۔ نظام آباد سے تقریبا 200 کلومیٹر دور شہر پربھنی سے تعلق ہے ۔کیا آپ نظام آباد کے قرب وجوار سے ہیں؟
انشاء اللہذاتی لڑی میں بات ہوگی آپ سے
فلمی اردو یا 'بمبیا اردو' بھی شامل کرلیںزبان اُردو کے کئی رنگ ہیں، کئی روپ ہیں، کئی دبستان ہیں۔
دبستانِ لاہور،دبستانِ دہلی، دبستانِ لکھنؤ، دبستانِ گجرات، دبستانِ دکن۔
۔
جی نہیں! فلمی اردو، بمبیا اردو یا کسی اور شہر اور علاقے کی اردو کو زبان و ادب کی تاریخ لکھنے والے مؤرخین نے قابل اعتنا نہیں سمجھا، لہٰذا انہیں اس زمرے میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔فلمی اردو یا 'بمبیا اردو' بھی شامل کرلیں
آپ کا کہنا بجا رنگ روپ دبستان یہ سب اردو زبان کے مشہور و معروف پہلو ہیں اور میں نے بی اے اور ایم اے اردو کے سلیبس کی کتب اردو کے طلبہ کی طرح پڑھی ہیں اس کی عمومی مثالیں فسانہء عجائب اور باغ و بہار اور آرائش محفل کے لہجوں سے دی جاتی ہے ۔میرا نقطہء نظر میں یہ سب اردو زبان کے مروجہ لہجات ہیں انہیں لکھنوی اردو ۔ دہلوی اردو دکنی اردو کی بجائے تغیر پذیر لہجات کہنا مناسب ہو گا ۔ اردو کی ایک معیاری شکل موجود ہے جو متروک اور مروجہ تمام لہجات سے مبرا کہی جاسکتی ہے ۔ ہمارے ساتھ کام کرنے والے بعض حیدرآبادی انجینیر کے لہجے سے معلوم تک نہیں ہوتا کہ وہ "دکنی اردو" والے ہیں تا وقتیکہ غصے میں نہ آجا یئں یا کوئی اور خاص بات ہو ۔ اس ضمن میں مناسب ہے کہ عربی زبان کی مروجہ صورتوں کا ذکر کیا جائے ۔ مغربی افریقہ مراکش سے لے کر مشرق وسطی عراق تک جو عربی اسالیب رائج ہیں ان سب کو عربی لہجات ہی کہا جاتا ہے جو اس حد تک متفاوت ہیں کہ بسا اوقات سمجھنا تقریبا" محال ہو تا ہے جبکہ عربی لغت کی فصیح اور معیاری شکل ایک ہی ہے ۔ یہی حال فارسی کاہے ۔۔۔۔۔ یہ محض میرا نقطہء نظر ہے ۔جس سے اختلاف کرنا محترم احبائے لغت کا مسلمہ حق ہے۔بصد احترام عرض ہے کہ
زبان اُردو کے کئی رنگ ہیں، کئی روپ ہیں، کئی دبستان ہیں۔
دبستانِ لاہور،دبستانِ دہلی، دبستانِ لکھنؤ، دبستانِ گجرات، دبستانِ دکن۔
اردو سے بی۔اے۔ اورایم۔اے۔ کرنے والے طلبہ کو یہ ساری چیزیں پڑھائی جاتی ہیں۔بلکہ دکنی اردو اور گجری اردو کے تو کئی کئی لغات بھی تک شائع ہو چکے ہیں۔
لہٰذا یہ کہنا کہ دکنی اردو کوئی اردو کی قسم نہیں کچھ زیادتی ہے یا یوں کہیے کہ مناسب نہیں ۔
لوگاں کیا سمجھ کو رکھ لیے کی حیدرآبدیوں کو اچھا مذاق بنا لیے "خ" اور "ق" کا۔ اللہ اللہ ۔اہل دکن 'ق' کا تلفظ 'ق' ہی کرتے ہیں 'ک' نہیں کرتے
دکنی ترجمہ
محمد خلیل الرحمٰن