محسن وقار علی
محفلین
یہ روشنی ہے حقیقت میں ایک چھل، لوگو
کہ جیسے جل میں جھلکتا ہوا محل، لوگو
درخت ہیں تو پرندے نظر نہیں آتے
جو مستحق ہیں وہی حق سے بے دخل، لوگو
وہ گھر میں میز پہ کہنی ٹکائے بیٹھی ہے
تھمی ہوئی ہے وہیں عمر آج کل ،لوگو
کسی بھی قوم کی تاریخ کے اجالے میں
تمہارے دن ہیں کسی رات کی نقل ،لوگو
تمام رات رہا محو خواب دیوانہ
کسی کی نیند میں پڑتا رہا خلل، لوگو
ضرور وہ بھی کسی راستے سے گزرے ہیں
ہر آدمی مجھے لگتا ہے ہم شکل، لوگو
دکھے جو پاؤں کے تازہ نشان صحرا میں
تو یاد آئے ہیں تالاب کے کنول، لوگو
وہ کہہ رہے ہیں غزل گو نہیں رہے شاعر
میں سن رہا ہوں ہر اک سمت سے غزل، لوگو
"سائے میں دھوپ" سے انتخاب
کہ جیسے جل میں جھلکتا ہوا محل، لوگو
درخت ہیں تو پرندے نظر نہیں آتے
جو مستحق ہیں وہی حق سے بے دخل، لوگو
وہ گھر میں میز پہ کہنی ٹکائے بیٹھی ہے
تھمی ہوئی ہے وہیں عمر آج کل ،لوگو
کسی بھی قوم کی تاریخ کے اجالے میں
تمہارے دن ہیں کسی رات کی نقل ،لوگو
تمام رات رہا محو خواب دیوانہ
کسی کی نیند میں پڑتا رہا خلل، لوگو
ضرور وہ بھی کسی راستے سے گزرے ہیں
ہر آدمی مجھے لگتا ہے ہم شکل، لوگو
دکھے جو پاؤں کے تازہ نشان صحرا میں
تو یاد آئے ہیں تالاب کے کنول، لوگو
وہ کہہ رہے ہیں غزل گو نہیں رہے شاعر
میں سن رہا ہوں ہر اک سمت سے غزل، لوگو
"سائے میں دھوپ" سے انتخاب