یہ آواز قیام پاکستان کے ابتدائی دور کے لوگوں کی یادوں کی چلمن میں آج بھی گوشہ نشین ہے۔
اس کرۂ ارض پر انسان اپنے ارتقائی لحاظ سے زندگی کے اس موڑ پر پہنچ گیا ہے، جہاں اس نے بہت سے نامعلوم کو معلوم میں بدل دیا اور رفتہ رفتہ غیب کی اس کھوج میں اس نے ستاروں پر کمندیں ڈالنی شروع کردیں، چاند دیومالائی کہانیوں کا کردار تھا، حقیقت بن گیا اور حضرتِ انسان نے وہاں قدم جمالیے۔ یہی تسخیرِ کائنات ہے۔ پچھلی دو صدیوں میں سائنس نے جو ترقی کی ہے، ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ تحقیق و اختراع کے اس لامتناہی سلسلے میں ریڈیو کی ایجاد کو موجودہ دور میں ایک حد تک بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ پہیّہ کی ایجاد کے بعد ریڈیو دوسری بڑی سائنسی ایجاد ہے۔ آج ہر خاص و عام ریڈیو کی وسیع پیمانے پر افادیت سے واقف ہوچکا ہے۔
شہروں شہروں، قریہ قریہ، گاؤں گاؤں ریڈیو نے تنہائی کے احساس کو بالکل ختم کردیا ہے۔ اب کوئی گوشہ نشیں ہو یا کسان کھیتوں میں ہل چلا رہا ہو، احساسِ تنہائی سے پریشان نہیں ہوتا۔ ریڈیو کی ایجادکے لیے کئی سائنس دانوں کے نام لیے جاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ابھی تک اطالوی سائنس داں مارکونی کو ہی ریڈیو کا موجد گردانا جاتا ہے۔ جس نے 1901ء میں بحر اوقیانوس کے پار اپنے بنائے ہوئے ریڈیائی سسٹم کا پہلا سگنل وصول کیا، جو ایک بڑی کامیابی تھی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ ایجاد طول و عرض تک پھیلتی چلی گئی۔
پاکستان کے قیام کے بعد ابتدائی دور میں جب ہر فرد مستعد نظر آتا تھا اور ملک کی خدمت کے لیے برسرپیکار تھا۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی تھی کہ بانی پاکستان اور اہم رہنمائوں کی ہدایات اور رہبری قوم کے ہر فرد تک پہنچائی جائے۔ کراچی جو اس وقت پاکستان کا پہلا دارالحکومت تھا۔ ریڈیو نشریات جیسی سہولتوں سے محروم تھا۔ ہر چند کہ ڈھاکہ، لاہور اور پشاور میں پاکستان بننے سے پہلے ہی ریڈیو اسٹیشنز موجود تھے، لیکن پھر بھی پورے پاکستان کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ناکافی تھے۔ جس کے پیشِ نظر کراچی میں ریڈیو اسٹیشن کے لیے جگہ تلاش کی گئی۔ کراچی شہر بڑا ضرور تھا، لیکن آج کی طرح پھیلا ہوا نہیں تھا۔ یہ وہ کٹھن وقت تھا، جب ہر چیز نایاب تھی۔ ابتدائی دور تھا، جگہ تلاش کرنا اور پھر ریڈیائی آلات اور پُرزہ جات کا حصول جوئے شِیر لانے سے کچھ کم نہ تھا۔ آل انڈیا ریڈیو کے زمانے میں انجینئرز میں چوں کہ بیش تر عملہ ہندوئوں کا تھا، جو ہندوستان میں ہی رہ گیا تھا، اور گِنے چُنے انجینئرز پاکستان آئے تھے۔ انٹیلی جنس اسکول کی ایک بوسیدہ بیرک میں کباڑیئے سے خریدے ہوئے سوواٹ کا میڈیم ویو اور دو سو پچاس واٹس کا شارٹ ویو ٹرانسمیٹرز نصب کرکے اور کے ایم سی کی گٹر لائن کا ایک بڑا پائپ کھمبے کی جگہ کھڑا کرکے یہ کام انجام دیا گیا۔ انٹیلی جنس اسکول جو متعدد بیرکوں پر مشتمل تھا، ان سرکاری ملازمین کے لیے مختص تھا، جو حال ہی میں اپنا وطن چھوڑ کر آئے تھے۔ زیڈ اے بخاری (مرحوم) جو اس وقت کنٹرولر آف براڈ کاسٹنگ تھے، ان کی کوشش سے ان بیرکوں میں چند بیرک مزید حاصل ہوگئے تھے۔ یہ جگہ شہر سے دورکوئینز روڈ پر واقع تھی، جو اب مولوی تمیز الدین خاں روڈ کہلاتی ہے۔ ان بیرکوں میں ریڈیو اسٹیشن قائم کردیا گیا۔ 14؍ اگست 1948ء سے باقاعدہ اس کی نشریات شروع ہوگئی تھیں۔ افتتاحی تقریب کا آغاز تلاوت پاک سے ہوا اور مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب نے دعائیہ انداز میں امتِ مسلمہ کے لیے دعائے خیر کی۔ اسی دن رات کو کل پاکستان مشاعرہ منعقد ہوا۔ یہ ریڈیو پاکستان کے انجینئرز کا پہلا کارنامہ تھا، جس میں انہوں نے ابتدا ہی میں اپنی اہمیت کا لوہا منوالیا۔ انٹیلی جنس اسکول کی عمارت جس کی چار بیرکوں میں ریڈیو پاکستان قائم تھا، بوسیدہ اور خستگی کا شکار ہوچکی تھی اور ریڈیو کی کارکردگی بھی متاثر ہورہی تھی۔ ہاشم رضا صاحب (مرحوم) اُس وقت کراچی کے پہلے ایڈمسنٹریٹر تھے۔ اُن کی کوشش سے بندر روڈ پر کراچی لوکل بورڈ (ڈسٹرکٹ کونسل) کی عمارت میں براڈ کاسٹنگ ہائوس منتقل کردیا گیا۔ مزید برآں اس عمارت سے متصل جو جانوروں کے اسپتال کی خالی زمین تھی، وہ بھی اس میں شامل کردی گئی۔ عمارت کے اوپر عارضی طور پر اسٹوڈیوز بنائے گئے۔ اور بی بی سی کے طرز پر سائونڈ پروفنگ کی گئی۔ اس طرح ان ماڈرن اسٹوڈیوز سے نشریات کا آغاز بین الاقوامی معیار پر شروع ہوگیا۔
16؍جولائی 1951ء میں اس وقت کے وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خاں نے اس کا افتتاح کیا۔ قیام پاکستان کے بعد نشریات کا دائرہ بہت محدود تھا اور آواز پاکستان کے ساڑھے چار فی صد علاقے اور تقریباً سات فی صد آبادی تک پہنچ سکتی تھی۔ ان نامساعد حالات میں ریڈیو کی کارکردگی قابلِ ستائش تھی، جس کا مظاہرہ اس وقت ہوا جب مہاجرین کے قافلے جوق درجوق پاکستان میں داخل ہورہے تھے۔ اعزاء و اقربا بچھڑ گئے تھے۔ ایک عجیب افراتفری کا عالم تھا۔ ریڈیو پاکستان نے لاکھوں مہاجرین کو بسانے میں حکومت کی مدد کی۔ بچھڑے ہوئے لوگوں کو ملوانے کا کام بھی سر انجام دیا۔ ریڈیو سے ان بچھڑے ہوئے لوگوں کے پیغامات نشرکیے جاتے تھے۔ پیغامات کا یہ سلسلہ ’’پاکستان ہمارا ہے‘‘ کے نام سے شروع ہوا اور بہت کامیاب رہا۔ کئی بچھڑے لوگ اپنے عزیزواقارب سے مل گئے۔ ریڈیو پاکستان کراچی سے ایسے جیّد ادیب اور عالم وابستہ تھے کہ جن کی موجودگی اور ہمہ وقت کوششوں سے ریڈیو پاکستان ابتدا ہی سے ایک عہد ساز وسیلۂ ابلاغ بن کر ابھرا۔ چوٹی کے فن کار، موسیقار، ڈراما نگار، گلوکار اور تھیٹر سے متعلق لوگ پہلی صفوں میں موجود تھے۔ اس طرح ریڈیو ثقافتی، ادبی، جمالیاتی اور تفریحی نشریات کا سرچشمہ بن گیا۔ جہاں ہر فرد خواہ وہ ادیب ہو، فن کار ہو، یا پروڈیوسر، سب کے سب اعلیٰ و ارفع مقام رکھتے تھے۔ مشاعروں، مباحثوں، مذاکروں اور ترقیاتی شعبوں میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ ہوتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ چھوٹا سا کباڑیے سے خریدا ہوا ٹرانسمیٹر بڑے ہائی پاور ٹرانسمیٹرز میں تبدیل ہوتا گیا۔ ذکر ریڈیو پاکستان کراچی کا ہو تو براڈ کاسٹنگ ہاؤس کی کینٹین اور صحن میں لگے قدیمی بڑے درختوں کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ یہ ان کا تاریخی یادوں میں سے ایک ہے ۔
ابتدائی دور کے لوگوں کی یادوں کی چلمن میں آج بھی گوشہ نشین ہے، جو ریڈیو سے وابستہ تھے۔ کراچی کی ہر قابلِ ذکر شخصیت نے اس کینٹین میں بیٹھ کر چائے پی، شامی کباب کھائے اور دال چپاتی کا لنچ کیا ہے۔ یہاں فن کاروں، ادیبوں، شاعروں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا۔ غرض ریڈیو پاکستان کراچی ایک ایسی دنیا تھی، جہاں ہر وقت میلہ لگا رہتا تھا۔ہرچند کہ آج ریڈیو کی اپنی کثیرالمنزلہ عمارت سوک سینٹر گلشن اقبال میں بن چکی ہے اور ریڈیو کے دفاتر وہاں منتقل کردیے گئے ہیں، لیکن ریڈیو کی نشریات اسٹوڈیوز میں آگ لگنے تک یعنی 28؍اکتوبر 2007ء تک ایم اے جناح روڈ (بندر روڈ) پر واقع براڈ کاسٹنگ ہائوس سے جاری و ساری تھیں۔ اب پرانی بلڈنگ میں پروڈکشن یونٹ رسالہ آہنگ نکلتا ہے۔ ایم اے جناح روڈ پر واقع ریڈیو پاکستان کی یہ عمارت لوکل بورڈ کی بلڈنگ تھی، جو شروع میں عارضی طور پر براڈ کاسٹنگ ہائوس قائم کرنے کے لیے دے دی گئی تھی۔ بعد میں یہ طے ہوا کہ اسی جگہ ایک بلند و بالا عمارت تعمیر کی جائے جو نشریات کی ضرورتوں کو پورا کرسکے، لیکن ریڈیو پاکستان کے پاس اس کی میوٹیشن نہ ہونے کی وجہ سے تمام تر کوششوں کے باوجود اس منصوبے پر عمل نہ ہوسکا۔سوک سینٹر گلشن اقبال میں پندرہ منزلہ عمارت بن تو گئی، لیکن نامعلوم وجوہ کی بنا پر اس عظیم الشان عمارت کی دس منزلوں کو اے جی سندھ کو کرایہ پر دے دیا گیا۔ اے جی سندھ بڑا سرکاری دفتر ہے۔ جس میں سیکڑوں ملازمین کام کرتے ہیں، اس کے علاوہ سوک سینٹر اس سے بھی بڑا ادارہ ہے، جس میں روز ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی آمدورفت رہتی ہے۔ نتیجتاً گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور مختلف قسم کی سواریوں کی پارکنگ کا ایک الگ مسئلہ ہے۔
اب ریڈیو پاکستان کراچی میں فن و ثقافت کا شائبہ تک نظر نہیں آتا، جو کبھی اس کا حصہ ہوا کرتا تھا۔
(غلام حسین جعفری کی کتاب بابائے نشریات مارکورنی سے بخاری تک سے انتخاب)