ایک دن ابا جان دفتر سے آتے ہوئے مرفی کا ریڈیو گھر لے آئے۔ وہ ہماری ریڈیو پاکستان سے محبت کا پہلا دن تھا۔ اتوار کی صبح دس بجے بچوں کا پروگرام آتا تو ہم تینوں بچے اس کے گرد مکھیوں کی طرح جمع ہوجاتے۔ صبح ساڑھے آٹھ بجے حامد میاں کے ہاں سے اتوار کا آغاز ہوچکا ہوتا۔ ظفر صدیقی حامد میاں اور افضل صدیقی ان کے سالے بنتے ۔ عرشِ منیر بھی ہوتیں۔
بچوں کے پروگرام میں ظفر صدیقی بھائی جان اور منی باجی بطور منی باجی شریک ہوتیں۔ پروگرام کے آخری حصے میں بچوں کا تعارف کروایا جاتا۔ ہم نے بھی صدر ایوب کی تعریف میں ایک نظم لکھی اور پڑھنے کے لیے پہنچ گئے۔ تعارف میں ہمیں بلایا گیا اور ہم نے یہی نظم پڑھ کر سنائی اور داد سمیٹی۔
ساڑھے دس بجے سے کمرشل سروس شروع ہوجاتی۔ پھر شام تک جاری رہتی میں پاکستانی فلموں کے گانے سنوائے جاتے اور درمیان میں مختلف اشیاء کے اشتہار ایک سماں باندھ دیتے۔
ہفتے کی رات "اسٹوڈیو نمبر نو" ہم سب کا پسندیدہ پروگرام ہوتا، جس میں نشر کیے کئی ڈرامے اب بھی یاد آتے ہیں۔ ریڈیو کے گرد ایک دائرے میں لیٹ جاتے اور ڈراما سنتے ۔ یوں لگتا جیسے یه سب کچھ ہماری نظروں کے سامنے ہورہا ہو۔ یه ریڈیو ہماری زندگی کا خوبصورت ترین ریڈیو تھا اور یه زمانہ خوبصورت ترین زمانہ۔
شکیل انور اور انور بہزاد کے خبریں پڑھنے کے انداز پر تو ہم آج بھی فدا ہیں۔
ایک بار زیڈ اے بخآری صاحب کی آواز میں پطرس کا مضمون "مرحوم کی یاد میں" سنا تو ان کے گرویدہ ہوگئے۔ بعد میں یہی مضمون پطرس کے مضامین نامی کتاب میں پڑھا اور چھوٹے بخآری صاحب کے انداز کو یاد کرکے خوب لطف اٹھایا۔
مہدی حسن، رشدی، مالا، نسیم بیگم اسی وقت سے ہمارے پسندیدہ ترین گلوکار بن چکے تھے۔
کیا کیا یادیں وابستہ ہیں ریڈیو پاکستان کے ساتھ۔